انڈیا نے جب سے اپنے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت
والے آئین کے آرٹیکل 370 کو ختم کیا ہے تب سے کشمیر دنیا بھر کی توجہ کا
مرکز بنا ہوا ہے جبکہ دوسری جانب پاکستان اپنی امیدیں مسلم دنیا سے وابستہ
کیے بیٹھا ہے کہ وہ اس مسئلے پر کشمیریوں کے لیے آواز بلند کرے۔
|
|
کشمیر کو انڈیا اور پاکستان کے درمیان کا دو طرفہ مسئلہ تصور کیا جاتا ہے۔
تاہم اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جب اس مسئلے پر بات ہوئی تو دنیا میں
آباد کشمیریوں میں بالخصوص یہ امید جاگی کہ اب ان کی بات کو بین الاقوامی
پلیٹ فارم پر اٹھایا جائے گا۔
انڈیا میں حزبِ اختلاف کے اہم رہنما راہل گاندھی مختلف پارٹیوں کے کئی
دوسرے رہنماؤں کے ساتھ کشمیر گئے لیکن انھیں سرینگر ہوائی اڈے سے ہی واپس
بھیج دیا گیا اور واپسی پر انھوں نے کہا ’کشمیر میں حالات ٹھیک نہیں ہیں۔‘
اسی اثنا میں انڈیا کے وزیرِ اعظم نریندر مودی کا متحدہ عرب امارات میں نہ
صرف پرتپاک استقبال کیا گیا اور انھیں سب سے بڑے شہری اعزاز ’زید میڈل‘ سے
نوازا گیا بلکہ انڈیا کے بابائے قوم مہاتما گاندھی کی پیدائش کی ڈیڑھ سو
سالہ تقریبات کی مناسبت سے ان کے اعزاز میں ڈاک ٹکٹ کا اجرا بھی کیا گیا۔
اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ مشرق وسطی یا عرب دنیا کے لیے کشمیر سے کہیں
زیادہ اہمیت انڈیا کی ہے۔ یہاں تک کہ متحدہ عرب امارات کے ولی عہد محمد بن
زید النہیان نے ابو ظہبی کو نریندر مودی کا ’دوسرا گھر‘ بھی قرار دے دیا۔
|
|
اس بابت جب بی بی سی نے سعودی عرب میں انڈیا کے سابق سفارتکار تلمیذ احمد
سے بات کی تو انھوں نے کہا کہ ’کشمیر کے مسئلے کے بارے میں مغربی ایشیا کے
ممالک کا مجموعی تاثر یہ ہے کہ یہ انڈیا اور پاکستان کا باہمی معاملہ اور
اسے انھیں آپس میں سلجھانا چاہیے۔ یہ بین الاقوامی مسئلہ نہیں ہے اور جو
ابھی آرٹیکل 370 ہٹایا گیا ہے وہ پوری طرح سے انڈیا کا اندرونی اور آئینی
مسئلہ ہے نہ کہ دوطرفہ مسئلہ۔ مغربی ایشیا میں ہر لیڈر اس بات کو گہرائی سے
سمجھتا ہے۔‘
اسی بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے انڈین تھنک ٹینک انٹرنیشنل کونسل فار ورلڈ
افیئرز کے فیلو فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ’بین الاقوامی سیاست پریگمیٹزم
(یعنی عملی معاملات کی خاطر تعلق) کے دور میں داخل ہو چکی ہے۔ اب اصول
پسندی اور اخلاقیات کا دور جا چکا ہے۔ آپ چاہے امریکہ کو دیکھیں یا یورپ کو
ہر جگہ آپ کو علاقائی سیاست اور عملی معاملات کا دور نظر آئے گا۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ انڈیا کے ساتھ مغربی ایشیا (یا مشرق وسطی) کا جو رویہ
ہے وہ گذشتہ آٹھ دس برسوں میں پوری طرح سے بدل چکا ہے۔
جبکہ تلمیذ احمد نے کہا کہ انڈیا اور عرب دنیا کے تعلقات میں بڑی تبدیلی
سنہ 2001 میں اس وقت آئی جب انڈیا کے وزیرِ خارجہ جسونت سنگھ نے سعودی عرب
کا دورہ کیا اور اس وقت وہ وہاں سفیر تھے۔
|
|
انھوں نےکہا کہ ’سنہ 2001 میں عرب دنیا سے ہماری سیاسی گفتگو شروع ہوئی اور
سعود الفیصل کے ساتھ جسونت سنگھ کی دو تین گھنٹے تک گفتگو جاری رہی جس میں
سعود الفیصل نے کشمیر پر اپنے موقف کے متعلق ایک صفحہ پڑھ کے سنایا اس پر
ہمارے وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ ہم آپ کے ایک بھی جملے یا فقرے سے اختلاف
نہیں رکھتے۔‘
ان کے مطابق یہ کشمیر پر سعودی عرب کا خطِ فیصل تھا۔ تلمیذ احمد نے مزید
بتایا کہ اس وقت سے انڈیا اور سعودی عرب کے دو طرفہ باہمی تعلقات کی ابتدا
ہوئی جس میں کسی دوسرے ملک کے ساتھ رشتے کا ان کے مابین رشتے پر کوئی اثرات
نہیں پڑیں گے۔
اس رشتے کی گرمی سنہ 2006 میں مزید دیکھی گئی جب سلطان عبداللہ بن
عبدالعزیز انڈیا کے یوم جمہوریہ کے موقعے پر مہمان خصوصی بنائے گئے اور
رواں سال شہزادہ ولی عہد محمد بن سلمان نے انڈیا کا دورہ کیا۔
تلمیذ احمد نے انڈیا اور عرب دنیا کے رشتے کے بارے میں مزید کہا کہ ’شروع
میں دونوں ممالک کے درمیان توانائی اور معاشی تعاون پر زور تھا لیکن سنہ
2010 کے بعد وہ بدل گیا اور ریاض سے ایک سٹریٹیجک شراکت کا اعلان ہوا۔‘
|
|
ان سے جب پوچھا گیا کہ کیا اس کے بعد پاکستان کے ساتھ عرب ممالک کے رشتے
کمزور ہونے لگے تو انھوں نے کہا کہ ’خارجہ امور میں ایسا نہیں ہوتا کہ ایک
سے اگر رشتہ جوڑا تو دوسرے سے توڑ لیا۔ مغربی ایشیا میں جو ممالک ہیں ان کے
ساتھ پاکستان کا رشتہ ایک عرصے سے ہے لیکن اس کی بنیاد مختلف ہے۔‘
’یہ سرد جنگ میں شراکت دار تھے، افغانستان کے جہاد میں شراکت دار تھے،
طالبان کو بڑھانے میں پارٹنر تھے اور اب جو افغانستان میں امن معاہدہ ہو
رہا ہے اس میں بھی پارٹنر ہیں۔ وہ پاکستان کے ساتھ فوجی تعاون بڑھانا چاہتے
ہیں لیکن اس کا انڈیا سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اور انھوں نے انڈیا کے
ساتھ جو رشتہ قائم کیا ہے اس میں توانائی، اقتصادی تعاون، سٹریٹیجک تعاون
اور دہشت گرد مخالف کارروائیوں میں تعاون شامل ہے۔‘
دوسری جانب فضل الرحمان کا کہنا تھا عرب ممالک اور انڈیا کے تعلقات کے دو
اہم اجزا ہیں 'ایک اقتصادی اور دوسرا دہشت گردی کے خلاف جنگ۔ اور دونوں میں
انڈیا کا گراف بڑھتا ہوا نظر آ رہا ہے۔‘
’گذشتہ دس برسوں میں انڈیا اقتصادی طور پر مستحکم ہوا ہے اور اب دہشت گردی
کے متعلق اس کی آواز بین الاقوامی پلیٹ فارم پر سنی جا رہی ہے۔ جبکہ دوسری
جانب دونوں شعبوں میں پاکستان کا گراف بہت نیچے گیا ہے۔‘
|
|
جب ان سے کہا گیا کہ پاکستان کا اپنا یہ مؤقف ہے کہ وہ خود ہی ’دہشت گردی
کا سب سے بڑا شکار ہے‘ تو انھوں نے کہا ’دنیا کا یہ کہنا ہے کہ آپ اس کا
شکار ہو سکتے ہیں لیکن آپ اس بات سے رو گردانی نہیں کر سکتے کہ آپ اس کے
خلاف جنگ کے متعلق سنجیدہ نہیں ہیں۔'
دوسری بات انھوں نے یہ کہی کہ پاکستان کا اقتصادی گراف اتنا گرا ہے کہ اب
عرب ممالک خاص کر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو پاکستان بوجھ لگنے لگا
ہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کے ساتھ ان کے اختلافات کھل کر سامنے آنے لگے
ہیں۔
'مشرق وسطی کے ممالک میں یہ تاثر ہے کہ جو پاکستان پہلے کھل کر ان کا ساتھ
دیتا تھا لیکن اس نے یمن، شام یا لبنان میں ان کا کھل کر ساتھ نہیں دیا
یہاں تک کہ جب یمن میں فوج مانگی گئی تو انکار کر دیا۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ عالمی سطح پر جو نئی سیاست تشکیل پا رہی اس میں دہشت
گردی کے خلاف محاذ میں امریکہ کے ساتھ انڈیا، اسرائیل اور یورپی ممالک شامل
ہیں جبکہ پاکستان جانے انجانے کہیں نہ کہیں تنہا ہوتا جا رہا ہے۔
|