مسئلہ کشمیر کا افغان ماڈل حل

 بھارتی کے جنگی جرائم اور کشمیریوں کے خلاف کھلی جنگ پر دنیا ابھی تک تشویش سے آگے نہیں بڑھ سکی ہے۔وزیراعظم عمران خان بھارت کے ساتھ بات چیت کے امکانات معدوم ہونے کا اعلان کر رہے ہیں۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام مسلسل 19دن سے اپنے گھروں، بھارتی ٹارچر سیلز میں قید ہیں۔ بھارتی متعصب میڈیا بھی اعتراف کر رہا ہے کہ کشمیری ریاست کی تقسیم اور جغرافیائی وحدت کو منتشر کرنے کی زبردست مزاحمت کر رہے ہیں۔ کسی کشمیری نے ایک ویڈیو شیئر کی ہے جس میں سرینگر ہوائی اڈے کو جانے والی شاہراہ پر جگہ جگہ خون اور پتھر، اینٹیں بکھری ہیں۔ ائر پورٹ کا علاقہ کبھی کافی پر امن ہوا کرتا تھا۔ یہ سول لائن علاقہ سخت سیکورٹی حصار میں رہا ہے۔ یہاں پہلے سے ہی چپہ چپہ پر بھارتی قابض اہلکار پہرہ دے رہے ہیں۔ اس سڑک پر مظلوم کشمیریوں بہنے والا خون اور پتھر دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ بھارتی فورسز نے گزشتہ دو ہفتوں میں کشمیر کے شہروں اور دیہات میں مظالم کا کیسا کھیل کھیلا ہے ، حقائق کا کوئی پتہ نہیں۔ کیوں کہ مسلسل لاک ڈاؤن ہے۔ بھارتی سول سوسائٹی کے ایک وفد نے وادی کا دورہ کرنے کے بعد کئی انکشافات کئے۔ جن میں ایک یہ بھی ہے کہ بھارتی فوجی رات کو بستیوں میں داخل ہو کر نوجوانوں کو گرفتار کر رہے ہیں اور خواتین کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔ ہزاروں کشمیری حراست میں لئے گئے ہیں۔ مگر لوگ مزاحمت کر رہے ہیں۔ کئی علاقوں میں بھارتی فورسز کے لئے نو گو ایریاز بن چکے ہیں۔ سرینگر کے نواح میں واقع علاقے صورہ اور بژ پورہ کے مکینوں نے راستے بند کرکے بھارتی فورسز کا راستہ روک دیا ہے۔ اس اقدام کا مقصد یہ ہے کہ لوگ کشمیر کی خود مختاری ختم کرنے کا بھارتی حکومت کا فیصلہ قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔کرگل شاہراہ پر واقع اس علاقے کے لوگوں نے داخلی راستے پر دھاتی چادروں، درختوں کے تنوں، تیل کی ٹینکیوں اور کنکریٹ کے ستونوں کی مدد سے کمزور سی رکاوٹیں کھڑی کر دی تھیں۔ بھارتی فوجیوں کو دور رکھنے کے لیے خندقیں کھودی گئیں جبکہ روزانہ کے مظاہرے معمول ہیں۔لوگ کہتے ہیں بھارتی اہلکار ہماری لاشوں پر سے گزر کر ہی صورہ میں داخل ہو سکتے ہیں۔ ہم بھارت کو زمین کا ایک انچ بھی نہیں دیں گے۔ جس طرح غزہ اسرائیل کے خلاف مزاحمت کر رہا ہے، ہم پوری طاقت کے ساتھ اپنی مادر وطن کے لیے لڑیں گے۔کشمیر میں بھارتی حکمرانی کے خلاف تین دہائیوں سے مسلح جدوجہد جاری ہے، جس میں تقریباً ایک لاکھ افراد شہید ہو چکے ہیں جن میں سے زیادہ تر عام شہری تھے۔کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے سے پہلے بھارت نے ایک لاکھ 80ہزار اضافی فوجی کشمیر میں بھیجے، جو وہاں پہلے سے موجود 7 لاکھ فوج کا حصہ بن گئے۔ سخت ترین پابندیاں عائد کر دی گئیں لیکن اس کے باجود مظاہرے ہوئے جن کی قیادت صورہ کے شہریوں نے کی۔ ۹ اگست کو ہونے والے پہلے مظاہرے میں 15 ہزار افراد نے حصہ لیا، یہ اب تک کشمیر کا سب سے بڑا مظاہرہ ہے۔بھارتی فورسز نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے فائرنگ کی جبکہ آنسو گیس اور پیلٹ گنیں بھی استعمال کی گئیں۔زخمیوں سے صورہ اور صدر ہسپتال بھر چکے ہیں۔صورہ کے علاقے میں جھیل کے قریب دو ہزار سے زیادہ گھر آباد ہیں۔ اس علاقے فورسز نے تین اطراف سے گھیر رکھا ہے۔ قریبی علاقوں میں مظاہروں کے لیے معروف مسجد جناب صاحب لوگوں کے جمع ہونے کا مرکزی مقام ہے۔ہر رات کو لوگ ٹارچیں اٹھائے تنگ گلیوں میں مارچ کرتے ہیں۔دیواروں پر’کشمیر کی آزادی‘ اور’بھارت واپس جاؤ‘کے نعرے لکھے جاتے ہیں۔ صورہ کے علاقے کی دوسری جانب کے مقامی افراد شاہراہ پر پولیس کی نقل وحرکت کے پیغامات ارسال کر دیتے ہیں۔یہاں سے ایک راستہ درگاہ حضرت بل کی طرف بھی جاتا ہے جو نوشہرہ سے ہو کر گزرتا ہے۔ بھارتی پولیس نے ڈرون طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کی مدد سے کم از کم تین بار صورہ میں داخل ہونے کی کوشش کی لیکن نوجوانوں نے پتھراؤ کرکے انہیں واپس جانے پر مجبور کر دیا۔کچھ لوگوں کے پاس کلہاڑے اور نیزے بھی تھے۔لوگوں کو منتشر کرنے کے لیے پولیس کے حربوں سے باخبر مظاہرین، آنسو گیس اور مرچوں کے سپرے کے بعد چہروں کو نمک ملے پانی سے دھو لیتے ہیں جبکہ پیلٹ گنوں سے بچنے کے لیے سر پر ہیلمٹ اور آنکھوں پر عینکیں پہنی جاتی ہیں۔علاقے سے باہر نکلنے پر کئی نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ذرائع ابلاغ پر مکمل پابندی کے باعث بیرونی دنیا سے رابطے ختم ہونے سے مشکلات کا سامنا کرتے کشمیری کہتے ہیں کہ اب وہ اپنے شہر کو پہچان بھی نہیں سکتے۔ جب سے حکومت نے کشمیر کو اس کی خودمختاری سے محروم کیا ہے پورا شہر ہی خاردار تاروں کی ایک رکاوٹ میں تبدیل ہو چکا ہے۔ تاریخ میں پہلی ایسا بار ہوا ہے کہ بھارت نواز جماعتوں کی تمام قیادت اور سابقہ تین وزرا اعلیٰ بھی اس نظربندی میں شامل ہیں۔یہ سچ ہے کہ بھارتی حکومت کے آزادی پسندوں، بھارت نواز اور پاکستان نواز سیاست دانوں میں تفریق نہ کرنے کے باعث پوری وادی کی عوام کشمیر کی خود مختاری کے لیے متحد ہو چکے ہیں۔

بھارتی حکومت دعویٰ کر رہی ہے کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ ہی علاقے میں جاریجدوجہد آزادی کو ختم کر سکتا ہے اور یہ علاقے میں معاشی استحکام لانے کے ساتھ ساتھ اکثریتی ہندو ملک کے لوگوں کے لیے کشمیر میں جائیداد خریدنے اور نوکریوں کے مواقعے پیدا کرے گا۔مگر ایسا نہیں۔ بھارتی اقدام سے تحریک ختم نہیں ہو سکتی ۔ اس میں مزید شدت آ سکتی ہے۔ لوگوں مییں بھارت کے خلاف شدید نفرت پیدا ہوئی ہے۔ عالمی میڈیا کے گو کہ کشمیر تک آادانہ رسائی نہیں تا ہم ان کے بھارتی نمائیندگان سنسر شپ کے باوجود کچھ حقائق بیان کرنے پر مجبور ہیں۔ امریکی خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق کشمیری بھارتی غلامی قبول کرنے پر کبھی بھی تیار نہیں ہوں گے ۔ یہ انہوں نے کرفیو، پابندیوں اور مظالم کے دوران ثابت کر دیا ہے۔ ہر کشمیری کہتا ہے کہ ہمارے نوجوانوں کو ان بھارتی کوششوں کے خلاف لڑنا ہوگا جو کشمیر کی آبادیاتی تشکیل کو بدلنا چاہتے ہیں۔ ہمیں اپنی زندگی کی حفاظت کرنی ہوگی ہمیں آزادی کے لیے جینا ہوگا۔کشمیریوں نے آزادی کے لئے بھاری قیمت چکائی ہے۔ شاید ابھی آزمائش ختم نہیں ہوئی۔ باہر کی دنیا سے مدد کی امید لگانا بے سود ہے۔ افغانوں نے کبھی بات چیت کی دہائی نہیں دی۔ کبھی مظاہرے نہیں کئے۔ کبھی مذمتی بیانات کا سہارا نہیں لیا۔ کبھی اپنے شہداء کے خون کا سودا نہ کیا۔ کبھی قربانیوں کے بدلے اپنے لئے مفادات، مراعات حاصل نہ کئے۔سیر سپاٹے نہ ہوئے۔ انہوں نے زبردست مقابلہ کیا۔ ان کے عزم اور بہادری نے دنیا کی دو سوپر پاورز کو بدترین شکست دی ۔ ایک سوپر پاور تباہ ہو کر بکھر گئی۔ جس کی باقیات اب تک سوپر پاور ہے۔ انہوں نے دو بدو لڑنے کے بجائے گوریلا جنگ لڑی۔ بارودی سرنگوں سے دشمن کے کیمپ اور تنصیبات تباہ کئے۔ مسلہ کشمیر کا افغان ماڈل حل یہی ہے۔
 

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 484886 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More