سب سے پہلی چیز جو آپ کے لیے 'پرے ہٹ لو ' کے بارے جاننا
ضروری ہے۔ اگر آپ کو پہلے سے معلوم نہیں تو یہ 1994 کی مشہور انگریزی فلم 'فور
ویڈِنگز اینڈ اے فیونرل ' سے ماخوذ ہے۔
|
|
اسے بہترین فلم اور بہترین اوریجنل اسکرین پلے کے لیے آسکر نامزدگیاں ملی
تھیں۔ اور جو فلم 30 لاکھ پاؤنڈ سے کم بجٹ میں بنائی گئی تھی، اس نے دنیا
بھر میں تقریباً 250 ملین ڈالر کما لیے تھے۔ یہ بات میں یہاں اس لیے دوہرا
رہا ہوں کیونکہ حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر بظاہر ایک مہم چلتی نظر آرہی
ہے جس کا لُبِ لُباب یہ ہے کہ 'پرے ہٹ لو ' میں کہانی نامی کوئی چیز نہیں۔
اب ظاہر ہے ہر آدمی کا اپنا نقطۂ نظر ہوتا ہے اور یہ عین ممکن ہے کہ جو فلم
مجھے پسند آئے وہ آپ کو نہ پسند آئے یا اس کے برعکس۔ لیکن یہ کہنا کہ 'پرے
ہٹ لو ' میں کہانی سِرے سے ہی نہیں، یہ تنقید میری سمجھ سے بالاتر ہے۔
اتنے سارے مختلف لوگوں کا سوشل میڈیا پر اس ایک جیسی رائے کا اظہار کرنا
میرے ذہن میں اِس شبہے کو جنم دیتا ہے کہ یہ رائے اصل میں کوئی سوچی سمجھی
راۓ ہونے کے برعکس صرف فلم کو نیچا دکھانے کے لیے کوئی سوچی سمجھی مہم ہے۔
اب ایسا کون اور کیونکر کرے گا، یہ میں آپ پر چھوڑ دیتا ہوں۔ فلموں کی
مارکیٹنگ اور مقابلوں کی بھی عجیب کہانیاں ہوتی ہیں۔
|
|
اصل بات یہ ہے کہ 'پرے ہٹ لو ' عکاسی کے حوالے سے (جس کے لیے ترک
سنیماٹوگرافر سرکان عرضن اور پاکستانی سلمان رزاق کو مشترکہ کریڈٹ دیا گیا
ہے) پاکستان کی خوبصورت ترین فلموں میں سے ایک ہے۔
اس کے ہر ایک فریم سے محنت اور گہری سوچ بچار جھلکتے ہیں۔ لیکن اس سے پہلے
کہ آپ یہ سمجھیں کہ میں صرف فلم کی ظاہری چکاچوند سے متاثر ہو گیا ہوں، میں
یہ واضح کردوں کہ ہدایتکار عاصم رضا کی پہلی فلم 'ہو من جہاں ' کے برعکس یہ
محض خوبصورتی کی خاطر خوبصورتی نہیں ہے کیونکہ ساری کہانی چار شادیوں کے
گِرد گھومتی ہے، اس کی دلکش اور تفصیل وار عکاسی اِن سِچویشنز پر بالکل
صحیح بیٹھتی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ پچھلے کچھ سالوں میں منظرِعام پر آنے والی پاکستانی
فلموں میں سے سب سے بہترین موسیقی اور گانے 'پرے ہٹ لو ' کے ہیں۔ ایسے گانے
جو فلم ختم ہونے کے بعد بھی آپ کو یاد رہ جاتے ہیں۔ (اس سے پہلے جامی کی
فلم 'مور ' کی موسیقی اتنی ہی یادگار تھی، لیکن وہ بیک گراؤنڈ موسیقی کے
طور پر استعمال کی گئی تھی۔)
|
|
اس کا سہرا نوجوان موسیقار اذان سمیع خان کو جاتا ہے، اور عاصم رضا کو بھی
جنھوں نے ان گانوں کے بول لکھے ہیں۔ اذان سمیع خان خاص طور پر ایک بہت اچھے
موسیقار کے طور پر اُبھر رہے ہیں۔ (انھوں نے عید کی دوسری بڑی فلم 'سپرسٹار
' کی موسیقی بھی ترتیب دی ہے) اور یقیناً فلموں میں موسیقی ان کے لیے ایک
بڑا نام بننے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
فلم کے پانچ گانے جو اذان نے تخلیق کیے ہیں (ایک قوالی راحت فتح علی خان کی
بھی فلم میں شامل ہے) وہ سارے نہایت ہی سُریلے اور من کو بھا جانے والے
ہیں۔دو گانے، 'اک پل ' اور 'بالما بھگوڑا ' ضرور آنے والی مہندیوں پر بہت
مقبول رہیں گے۔ لیکن مجھے خاص طور پر 'بہکانا ' (علی طارق اور ہرشدیپ کور
کی آوازیں)، 'ہائے دل بیچارا ' (جمی خان کی گلوکاری) اور 'مورے سیّاں ' (زیب
بنگش کی آواز اور ماہرہ خان پر فلمایا ہوا) بہت پسند آئے۔
تیسری بات یہ کہ 'پرے ہٹ لو ' میں اداکاری بھی عموماً اچھے معیار کی ہے۔
فلم کا بیشتر فوکس تو بہرحال شہریار منور پر ہے جو ایک ایسے لڑکے، شہریار،
کا کردار کررہے ہیں جو اداکار بننا چاہتا ہے، جو مزاجاً تھوڑا بچگانہ ہے
اور جو خود کمٹمنٹ (خاص طور پر شادی) سے دور بھاگتا ہے۔
|
|
ایک وقت وہ شروع میں تنگ آ کر یہ بھی پوچھتا ہے کہ پاکستان میں آخر سب
لوگوں کو شادی کا اتنا خبط کیوں ہے لیکن دوسری طرف اُسے ایک لڑکی ثانیہ (مایا
علی) سے پیار بھی ہو جاتا ہے جو اسے پہلی مرتبہ ایک شادی میں ہی ملی ہوتی
ہیں۔
ان دونوں کا ناکام عشق ـــ کبھی شہریار بھاگ جاتا ہے، کبھی ثانیہ اس سے منھ
موڑ لیتی ہے، کبھی ثانیہ کسی اور سے منگنی کر بیٹھتی ہے، کبھی شہریار کسی
اور سے شادی کرنے کو تیار ہو جاتا ہے ـــ ہی اس فلم کا محور ہے اور دونوں
شہریار منور اور مایا علی اپنے کردار خوب نبھاتے ہیں۔
شہریار منوّر 'پراجیکٹ غازی ' جیسی فلاپ کے بعد، جہاں ان کی اداکاری اتنی
ہی سچی لگتی تھی جتنی کے فلم، ایسی پرفارمنس دینے میں کامیاب ہوتے ہیں جس
میں اُن کے لیے اظہار کا خاصا سکوپ ہے۔ اُن کے کردار کے تھوڑا بہت بگڑا ہوا
ہونے کے باوجود اُن میں ایک ضررپذیری ہے جو دل کو اچھی لگتی ہے۔
اور مایا علی کو بھی 'طیفا اِن ٹربل ' کے بعد ایسا کردار ملا جہاں انھیں
جذبات کی رینج دکھانے کا بہتر موقع ملتا ہے۔ فلم کا فوکس شہریار پر رہنے سے
مایا کو اپنے کردار کو انڈرپلے کرنے کی مہلت ملتی ہے جو فلم کے لیے بہتر ہے۔
|
|
سوائے اِکا دُکا کرداروں کے، باقی سب اداکاروں کو بھی اپنے آپ کو منوانے کے
لیے وقت اور جگہ ملتی ہے۔ اِن میں خاص طور پر قابلِ ذکر ندیم بیگ صاحب ہیں
جو ثانیہ کے باپ کا رول ادا کرتے ہیں، فہیم اعظم جو ایک پارسی لڑکے رستم کا
کردار نبھاتے ہیں، اور زارا نور عباس جو شہریار کے دوست ارشد (احمد علی بٹ)
کی بیوی شبو کا رول کرتی ہیں۔ زارا میں بہت اچھی کیریکٹر ایکٹر بننے کے
جراثیم موجود ہیں۔
چوتھی بات یہ ہے کہ فلم کی تدوین، جو عالم عظیمی نے سرانجام دی ہے، بھی
عمدہ ہے۔ فلم میں کہیں پر بھی اس کی رفتار میں جھول محسوس نہیں ہوتے۔ اور
کوئی سین ضرورت سے زیادہ لمبا نہیں لگتا۔ یہ بات پاکستانی فلموں کے حوالے
سے کم کم فلموں میں نظر آتی ہے۔
تو پھر بات رہ جاتی ہے کہانی کی۔ جیسا کہ میں لکھ چُکا ہوں، کہانی کا اصل
خیال تو 'فور ویڈِنگز اینڈ اے فیونرل ' کا ہے۔ لیکن لکھاری عمران اسلم نے
اس انگلستان کی کہانی کو ایسا اڈیپٹ کیا ہے کہ یہ پوری طور پر ایک پاکستانی
کہانی لگتی ہے۔
آخر شادیوں کے دھوم دھڑّکے اور ان کے پسِ پشت چھُپی دل آزاریاں پاکستانیوں
سے بہتر کون جانتا ہے؟ اس میں چھوٹے چھوٹے حصّے ایسے بھی شامل کیے گئے ہیں
جن سے پاکستانی سوسائٹی (یا کم از کم کراچی کے معاشرے) کے مختلف پہلو بھی
سامنے آتے ہیں۔ مثلاً ایک کہانی اور ایک شادی شہریار کے دو پارسی دوستوں کے
بندھن پر مبنی ہے۔ عمران اسلم کی کہانی کو اسکرین پلے کی حد تک اُن کے
بھائی ناصر اسلم اور عاصم رضا کی مدد بھی حاصل رہی ہے، جس سے نظر آتا ہے کہ
سکرپٹ پر کافی توجہ دی گئی ہے۔
|
|
کیا یہ کہانی پاکستان کے سماجی مسائل سامنے لاتی ہے اور اُن کے تدارک کا
راستہ دکھاتی ہے؟ نہیں۔ ( لیکن ایسا ہونا کسی فلم کے لیے ضروری بھی کیونکر
ہو) کیا یہ کوئی بہت گہری معنی رکھنے والی کہانی ہے؟ نہیں۔
کیا اس فلم کی کہانی میں کہیں کہیں چھوٹی موٹی گڑبڑیں ہیں؟ جی ہاں، ایک دو
جگہ مجھے ایسا ضرور لگا کہ کچھ کرداروں کی حرکات کی وجوہ یا تو کمزور تھیں
یا بہتر طریقے سے سمجھائی جانی چاہیے تھیں۔
لیکن آخر کار پرے ہٹ لو کا اولین مقصد فلم بینوں کو محظوظ کرنا ہے، اُن کو
دو گھنٹے تفریح مہیا کرنا ہے اور اس مقصد میں یہ فلم پوری اترتی ہے۔
ہاں، یہ ضرور ہے کہ پاکستان میں دیکھنے والوں کو یہ فلم اس انوکھے خیال سے
یقیناً متعارف کرا دیتی ہے کہ عظمت کی تلاش کی طرح، عشق کے راستے میں بھی
کئی یو ٹرن آتے ہیں!
|