ویسے تو کراچی کی سیاست میں ڈرامائی مناظر کوئی نئی بات
نہیں مگر پیر کے دن سکرین پر کافی فلمی مناظر بھی دیکھنے میں آئے۔
|
|
بات شروع ہوئی پیر کی صبح سابق میئر کراچی مصطفیٰ کمال کی پریس کانفرنس سے
جنھوں نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ وہ تین ماہ کے اندر اندر کراچی کا کچرا
صاف کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔
لگتا تو یوں ہے کہ کراچی کے موجودہ میئر وسیم اختر بس اس انتظار میں تھے کہ
مصطفیٰ کمال ایسا کوئی بیان دیں اور انھیں کوئی ذمہ داری سونپ دی جائے۔
چنانچہ پیر کی دوپہر کو میئر کراچی کے دفتر سے ایک نوٹیفیکیشن جاری ہوا کہ
مصطفیٰ کمال کو 'پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا بیانات میں کراچی کو 90 دن میں
صاف کرنے کی خواہش' کے پیشِ نظر فوری طور پر اور تاحکمِ ثانی رضاکارانہ طور
پر پراجیکٹ ڈائریکٹر گاربیج یعنی کچرا اٹھانے کا انچارج بنایا جا رہا ہے۔
اس پر سوشل میڈیا پر کچھ صارفین کی جانب سے خوشی کا اظہار کیا گیا۔ معروف
گلوکار شہزاد رائے نے اپنے میز کی تصویر پر بیٹھی مکھیوں کی تصویر پوسٹ
کرتے ہوئے کہا کہ کراچی میں گندگی کی وجہ سے مکھیاں بہت بڑھ گئی ہیں، اور
انھیں امید ہے کہ مصطفیٰ کمال اب کراچی کو صاف کر دکھائیں گے۔
|
|
جتنی دیر میں مصطفیٰ کمال کی پریس کانفرنس سن کر میئر کراچی نے ان کی
تعیناتی کا فیصلہ کیا، اتنی ہی دیر میں شام کے وقت مصطفیٰ کمال نے اپنی
تعیناتی کو ایک پریس کانفرنس میں قبول کرتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ وہ کراچی
میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) سمیت متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان) کے
زیرِ انتظام کراچی کے چار اضلاع اور 130 یونین کمیٹیوں کا چارج لینے کے لیے
آ رہے ہیں۔
مگر ساتھ ہی ساتھ انھوں نے یہ بھی کہا کہ چونکہ میئر کراچی نے اپنے
اختیارات انھیں منتقل کر دیے ہیں، ’اس لیے اس کا مطلب یہ ہے کہ وسیم اختر
نے اپنی ناکامی قبول کر لی ہے اور انھیں فوراً استعفیٰ دے دینا چاہیے۔‘
انھوں نے پریس کانفرنس کے دوران ہی یہ بھی کہا کہ وہ چارج سنبھالتے ہی شہری
حکومت کے ڈائریکٹر فنانس سے کچرا اٹھانے کے لیے ذمہ دار محکمے کے سٹاف کو
دی جانے والی تنخواہوں، گاڑیوں کی مرمت اور ایندھن سمیت دیگر اخراجات کی
فہرست لے کر اس کا بھی معائنہ کریں گے۔
مصطفیٰ کمال تو اسی بریفنگ میں مصر تھے کہ وہ رات 2 بجے کے ایم سی کے حکام
سے ہنگامی میٹنگ کریں گے اور آج سے ہی کام شروع ہو جائے گا۔
بھلے ہی وہ پریس بریفنگ کے دوران اپنے ساتھیوں سے کے ایم سی حکام کو کال
کرنے کے لیے کہتے رہے، مگر رات کو کوئی میٹنگ تو نہیں ہوئی۔
جو ہوا وہ یہ کہ منگل کو صبح سویرے ہی میئر کراچی نے ایک اور نوٹیفیکیشن
جاری کرتے ہوئے مصطفیٰ کمال کو معطل کر دیا۔
|
|
نوٹیفیکیشن میں لکھا گیا کہ انھوں نے ’اپنی حدود اور اختیارات سے تجاوز کیا
چنانچہ ان کی خدمات فوری طور پر معطل کی جا رہی ہیں۔‘
بعد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے میئر کراچی وسیم اختر کا کہنا تھا کہ
مصطفیٰ کمال کی جانب سے ان کی نیک نیتی کا غلط فائدہ اٹھایا گیا اور اس کو
سیاست میں تبدیل کیا گیا جس سے ’ثابت ہوا کہ وہ کراچی کے مسائل حل کرنے میں
سنجیدہ نہیں تھے۔‘
انھوں نے یہ بھی کہا کہ آرڈر نکلنے کے بعد مصطفیٰ کمال کو چاہیے تھا کہ وہ
میونسپل سروسز کے محکمے کے سامنے بریفنگ دیتے کہ ’ان کے پاس ایسا کون سا
فارمولہ ہے جو 90 دن میں کچرا صاف کیا جا سکتا ہے تاکہ ہم اس پر سنجیدگی سے
آگے بڑھتے۔‘
وسیم اختر نے مصطفیٰ کمال کو تنخواہوں اور دیگر اخراجات کا حساب مانگنے پر
بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔
’آپ پراجیکٹ ڈائریکٹر ہیں، وہ بھی تین مہینوں کے لیے، آپ کوئی نیب کے افسر
نہیں جو اکاؤنٹس منگوا رہے ہیں، آپ کے پاس یہ اختیارات نہیں ہیں۔‘
|
|
انھوں نے مصطفیٰ کمال کی جانب سے چار ضلعوں اور 130 یونین کمیٹیوں کے چارج
سے متعلق بیان پر یہ بھی کہا کہ مصطفیٰ کمال تو ’بلدیہ پر چائنہ کٹنگ کرنے
لگے ہیں۔‘
جب مصطفیٰ کمال معطل ہوئے تو پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق وزیر
بلدیات سعید غنی اور وزیرِ اعلیٰ سندھ کے مشیرِ اطلاعات سینیٹر مرتضیٰ وہاب
بھی بظاہر مصطفیٰ کمال کی حمایت میں بول اٹھے۔
منگل کی دوپہر کو میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مرتضیٰ وہاب کا کہنا تھا کہ
مصطفیٰ کمال کی جانب سے یہ چیلنج قبول کرنے سے یہ ثابت ہوا کہ میئر کراچی
وسیم اختر کے دعوے کے برعکس ’مسئلہ اختیارات کا نہیں بلکہ نیت کا ہے۔‘
اسی طرح سعید غنی نے وفاقی وزیرِ بحری امور علی زیدی کو ان کی صفائی مہم پر
تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’مصطفیٰ کمال کو شہر میں صفائی کا تجربہ
ہے جبکہ علی زیدی کی صفائی مہم میں تو کچرا سڑکوں پر ڈالا جا رہا تھا۔‘
اس معاملے پر سوشل میڈیا پر وسیم اختر اور مصطفیٰ کمال کے حامیوں کی جانب
سے ایک دوسرے کے خلاف 'ٹرینڈ کی جنگ' شروع ہو گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے
WasimAkhtarShouldResign کا ٹرینڈ ٹوئٹر پاکستان پر پہلے نمبر پر آ پہنچا۔
ایک صارف نے اس پورے معاملے کو بالی وڈ اداکار انیل کپور کی مشہور فلم
’نائیک‘ سے تشبیہ دی جس میں انیل کپور کے کردار کو امریش پوری کی جانب سے
ایک دن کا وزیرِ اعلیٰ بنایا جاتا ہے۔
|
|
مصطفیٰ کمال کی جانب سے ٹویٹ کی گئی کہ وہ رات 2 بجے کے ایم سی حکام سے
بریفنگ لینے کے لیے اصغر علی شاہ سٹیڈیم پہنچے تھے مگر وہاں حکام نہیں آئے۔
لیکن ان کا دعویٰ تھا کہ ہزاروں رضاکار ان کا ہاتھ بٹانے کے لیے وہاں موجود
تھے۔
ایک صارف عباد احمد نے اس جانب توجہ دلائی کہ مصطفیٰ کمال اور وسیم اختر کے
درمیان جاری اس 'ڈرامے' میں اہم بات یہ ہے کہ کراچی کی 21 میں سے 14 قومی
نشستیں لینے والی پاکستان تحریکِ انصاف مکمل طور پر منظرنامے سے غائب ہے۔
|
|