حامد نے اُس لڑکی کا پیغام پڑھا اور وہ تجسس جو قائم تھا
آج ٹوٹ چُکا تھا لیکن وہ برقی پیغام حامد کا دل لُوٹ چُکا تھا اور اُس راز
کا مٹکا انجانے میں اُس لڑکی کے گھر پہنچ کر پھوٹ چُکا تھا
موبائل پر میسیج تھا
سلام
خوش آمدید ۔۔۔
کھانا کھا کر جایے گا
اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے
اُف ۔۔ !!!
حامد چونکا
تو یہ ہے وہ گھر اور یہ ہے وہ لڑکی ۔۔
مگر اُس نے کبھی دیکھا نہیں تھا
لیکن آج نظر پڑی تھی جب کھانا دینے کے لیے کچھ نازک ہاتھ ایک اوٹ سے آۓ تھے
اور وہ سانولے نکھرے ہاتھ جو جالی والے لباس میں چُھپنے کی کوشش کے باوجود
صاف نظر آتے تھے کلائیوں سے اوپر ڈوپٹہ اور اور اُس کے بعد تو تصور ہی کیا
جاسکتا تھا اُس اُبھار کا جو ڈوپٹے نے بنا رکھا تھا چہرے کے گرد جس کی ہلکی
سی چمکتی جھلک صرف ایک جھلک صرف ایک لمحہ جو ٹھیر کر رہ گیا تھا حامد کے دل
و دماغ پر اور اُس کے اُبھرے ہونٹوں سے زرا نیچے ہلکے سے داغ پر جو بڑے غور
سے دیکھنے پر لکیر کی صورت نظر آۓ۔اُسے لگا وہ ہاتھ اُسی سے ملنے آۓ ہیں
اور آۓ بھی اُس سے ملنے تھے اور وہ خوشبو جو اُن ہاتھوں سے آرہی تھی اور
اُس سے سونگھنے کی حس سے بڑھ کر کئ اور حسیں جاگ پڑی تھیں اور اُس گلابی
لباس سے گُلاب کی مہک جو ہاتھوں پر لگی مہندی اور جسم کو چُھپاۓ لباس کی
اپنی خوشبو سے مل کر ایک صندل کی مہک سے ملتی جلتی اگر بتی کے دھوئیں سے مل
کر نمکین مہک میں بدل رہی تھی جو حامد کی سوچ بدل رہی تھی اور اس سے پہلے
تو سوچوں میں جنگ و جدل رہی تھی
اُٹھتا ہوا دھواں اور وہ بھی خوشبو کی لپیٹیں لیے جو اُن کے گھر میں اکثر
موجود ہوتا تھا اور اب اُس میں دو دلوں کا شباب شامل ہو کر دہک رہا تھا اور
اُن کی محبت سے مہک رہا تھا اور کچھ نہ کہتے بھی اندر ہی اندر ایک نغمہ تھا
جو لہک رہا تھا
بولے لبِ خاموش کس رفتار سے کیا کیا
کردار کی ہوئ بات گفتار سے کیا کیا
میرے خیال میں وہ میں اس کا تصور
نظر کی ہوی بات رُخسار سے کیا کیا
خیال سے خیال ملے دل سے ملا دل
ہو رہی تھی بات دیوار سے کیا کیا
وہ بھی تھا خاموش ہم بھی تھے چُپ چاپ
دل نے کہی بات دیدار سے کیا کیا
ادھر پت جھڑ ہے نعمان اُدھر کِھلنا پھولوں کا
خزاں کی ہوئ بات بہار سے کیا کیا
(جاری ہے)
|