ڈاکٹر ندیم شفیق کی کتاب دوستی

ڈاکٹر ندیم شفیق صاحب وفاقی معتمد،حکومت پاکستان ،قومی تاریخ وادبی ورثہ ڈویژن کو مجھے دیکھنے اور سننے کا یہ پہلا اتفاق تھا۔ یہ لاہور کے بک پبلشرز کی ایک میٹنگ تھی جس میں ہم لوگ جمع تھے نیشنل بک فاؤنڈیشن کی میڈم نزہت اکبر میزبان تھیں ۔ یہ سب احباب کتاب دوست اور کتاب نواز تھے کتابوں کی ہی باتیں کرنے کے لئے ڈ اکٹر ندیم شفیق نے ہم سب کو مدعو کیا تھا۔میں ہی نہیں انہیں سن کر سب احباب ہی بہت خوش تھے اور کچھ پریشان بھی۔ خوشی کے اسباب یہ تھے کہ کتاب چھاپنے والے احباب جن جن پریشانیوں میں نصف صدی سے مبتلا تھے انہیں سننے اور حل کرنے کے لئے ڈاکٹر ندیم شفیق صاحب نے اُنہیں خود بلایا تھا۔اور ان کی مشکلات غور سے سن رہے تھے ۔ تجاویز ، آرا، اسباب،تقاضے، سب کچھ ہو رہا تھا۔یہ بہت خوبصورت مجلس تھے لاہور کے سب بڑے پبلشرز اور بک سیلر مل بیٹھے تھے اور ان کے جھرمٹ میں ڈاکٹر ندیم شفیق صاحب سب کی سن رہے تھے اور اپنی سنا رہے تھے۔ کتاب کے حوالے سے وہ سب باتیں ہوئیں جو کتاب سے دوری کا سبب ہیں اور وہ ارادے بھی ظاہر کیے گئے جن سے کتاب دوستی عام ہو سکتی ہے۔

پریشانی کی وجہ یہ تھی کہ سرکاری کاموں کی طرح کہیں یہ کام بھی دو چار میٹنگوں کے بعد ٹھپ نہ ہو جائے۔ دو گھنٹے کی اس میتنگ میں جو جذبہ میں نے ڈاکٹر ندیم شفیق میں محسوس کیا وہ عزم تو یہی ظاہر کرتا ہے کہ یہ بیل ضرور منڈھے چڑھے گی اور ہمارا وہ دیرینہ خواب کہ کتاب کی روشنی سے پاکستان منور ہو یہ پورا ہوگا۔ اور دل سے یہ دعا بھی ضرور اُٹھتی ہے کہ اﷲ کرئے ڈاکٹر صاحب کی کتاب دوستی کو نظر نہ لگے! ڈاکٹر ندیم شفیق صاحب کے ساتھ پبلشرز اور بک سیلرز کی یہ دوسری میٹنگ تھی۔ پہلی مجلس میں چاہتے ہوئے بھی نہ جا سکا مگر جب ندیم شفیق صاحب کی باتیں اور ان کے عزم کے بارے میں یار دوستوں نے آگاہ کیا تو ان سے ملنے ،دیکھنے اور سننے کا اشتیاق ہوا۔ دوسری مینتنگ میں ڈاکٹر صاحب نے جو باتیں کیں اور کرنے کے کام پر آگاہی دی تو ان کے سچے جذبے دل میں گھر کر گئے۔

ڈیوٹی،کام،فرائض اپنی جگہ وہ تو سر انجام دینے ہی ہوتے ہیں۔ چاہتے ہوئے بھی نہ چاہتے ہوئے بھی ۔جان بھی چھڑائی جا سکتی ہے، پس پشت بھی ڈالا جا سکتا ہے الغرض نا کرنے کے سو بہانے ۔ مگر کچھ کام کرنے کے ساتھ ساتھ دل سے کیے جاتے ہیں۔ محبت میں۔ ان کی ادائیگی میں چاہت ہوتی ہے۔۔ندیم صاحب یہ کام ڈیوٹی سمجھ کر کرتے نظر نہیں آتے۔ اس میں چاہت دکھائی دی۔ کتاب سے عشق نظر آیا اور تڑپ موجزن دیکھی کہ کتاب کا وہ زمانہ پھر زندہ ہو کہ جب ہر نوجوان کے ساتھ میں کتاب نظر آتی تھی۔

کہتے ہیں کہ کتاب سے محبت انسان کو زندہ رکھتی ہے۔ تاریخ میں ان گنت لوگ ایسے ہیں جو صرف کتاب کی وجہ سے ہی زندہ ہیں۔ بہت سے لوگ ایسے کہ ان کی کتاب سے دوستی ہی انہیں امر کر گئی انہوں نے کتاب کے سوا زندگی میں اور کچھ سوچا نہ کیا۔ نہ شادی نہ گھر نہ بیوی اور نہ بچے مگر آل اولاد نہ ہونے پر بھی آج ان کا نام بچے بچے کی زبان پر ہے۔ہر تعلیمی ادارے میں ان کی کتاب موجود بھی ہے اور وہ اپنے نام اور کام سے زندہ باد بھی ہیں۔

قرآن مجید کے بعد سب سے معتبر سمجھی جانے والی کتاب " بخاری شریف" ترتیب دینے والے امام اسماعیل ایسے انسان ہیں۔جو صدیاں گزرنے کے باوجود آج تک زندہ ہیں ان کی نسل ختم ہو گئی۔ مگر نام اور کتاب اب بھی باقی ہے۔علامہ ابن خلدون بھی اسی قبیلے کے فرد ہیں۔کہ صرف اور صرف کتاب کی خدمت سے دنیا بھر میں ان کا نام گونج رہا ہے۔امام ابن تیمیہ کا نام اس حوالے سے کبھی فراموش نہیں ہو سکتا ہے۔تاریخ بتاتی ہے کہ اُنہوں نے پانچ سو سے زائد موضوعات پر کتابیں تحریر کیں، زندان میں بند وہ شخص کوئلوں سے دیواروں پر بھی تحریر لکھتا رہااور لکھتے لکھتے قید و بند میں ہی اﷲ کو پیارا ہو گیا۔ اس کی زندگی ختم ہو گئی مگر کتاب کی محبت سے نام آج بھی زندہ ہے۔

غور کریں تو نام بہت مگر جگہ کم کس کس کا نام لیا جائے یا تذکرہ کیا جائے ۔ایک بات تو پتھر پرلکھی تحریر ہے کہ کتاب سے محبت کرنے والے امر ہو جاتے ہیں۔اور تاریخ اُنہیں کبھی فراموش نہیں کرتی۔ اﷲ کرے ڈاکٹر شفیق صاحب کی کاوشیں بھی رنگ لائیں۔ ہم سب پبلشرزکی آرزویں پوری ہوں۔ہمارا ملک کتاب ریڈنگ میں سب سے اُوپر ہو۔ تعلیم تہذیب سے ہمارا معاشرہ بھی سنور جائے۔ کتا ب ہی شعور کی علامت ہے اور امن کی پیامبر، ہمارے جملہ مسائل کا حل ایک کتاب میں ہی ہے۔ اس کی دوستی ہی ہم سب کو موجودہ بھنور سے نکال سکتی ہے۔اور کتاب کے فروغ کی کوشش اور کتب بینی کے فروغ کی سعی ہی پاکستان کی اصل خدمت ہے یہ حکومت اور اس کے نمائندے ، ان کی نظر آنے والی کاوشیں آنے والے اس دور کی جھلک دکھاتی ہیں کہ جب پاکستان میں بھی کتاب اور تعلیم عام ہو گئی۔ امن ہوگا۔ یہ سب کتاب دوستی سے ممکن ہے اور ڈاکٹر ندیم شفیق صاحب یہ سب کرتے نظر آتے ہیں۔

ایسا ہو جائے تو یہ کسی معجزے سے کم نہیں ایسے ملک میں جہاں کتاب کو ختم کرنے کی سرکاری کوشش ہوئیں ۔ کتاب کے فروغ کے بجائے اس کے لئے مختص فنڈ لیپ ٹاپ کی تقسیم پر صرف ہو ئے اور لائبریری کے پیسے برج اور سڑکوں پر ختم ہو ئے ۔وہاں کتاب کی باتیں کتاب کا فروغ، لائبریری کا قیام اور طلباء میں مطالعہ کا شوق یہ سب اجاگر کرنا یقیناً کسی خدمت سے کم نہیں ڈاکٹر ندیم شفیق یہ کر گئے تو تاریخ انہیں کتاب دوست احباب میں زندہ رکھے گی۔ ماحول سازگار ہے ہم سب بھی ساتھ ہیں خدا نے موقع دیا ہے تو اﷲ کرے وہ یہ کام کر جائیں ہماری دعائیں بھی ان کے ساتھ ہیں کہ اﷲ ڈاکٹر ندیم شفیق کو ہمت اور استقامت سے نوازے ٓامین
 

Abdul Waris Sajid
About the Author: Abdul Waris Sajid Read More Articles by Abdul Waris Sajid: 53 Articles with 52360 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.