دینی راہنماؤں کی ضرورت کیوں ہے؟َ!!

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔

فرض کریں ایک انسان نے طے کیا کہ اُسے کراچی سے لاہور تک جانا ہے، اُس کا مقصد ، ہدف اور منزل لاہور ہوگئی، اب طے یہ کرنا ہے کہ کیسے جانا ہے؟ ہوائی جہاز سے؟ ٹرین سے؟ کوچ سے؟ یا ذاتی ٹرانسپورٹ سے۔۔۔۔؟ اگر راستے کئی ہیں تو کس راستے سے جانا ہے؟
ہوائی جہاز کی کون سی کمپنی سے؟ یا کون سی سواری سے؟
اب یہ تو کوئی نہیں چاہے گا کہ سفر طویل ہو، آرام دہ نہ ہو، یا راستہ اچھا نہ ہو؟ وغیرہ نیز اگر یہ سب سہولیات میسر نہ بھی ہوں سکتی ہوں تو کم از کم اتنا یقینی ضرور ہو کہ لاہور پہنچ ہی جاؤں۔۔۔۔ کوئی بھی ایسی سواری ہو یا راستہ کتنا ہی طویل اور تکلیف دہ کیوں نہ ہو اور کسی سہولت کی فراہمی ممکن نہ ہو تو یہ یقین ہونا کہ فلاں راستہ، فلاں سواری کسی نہ کسی طرح مجھے لاہور پہنچا تو دے بس۔۔۔!
لاہور کو منزل سمجھنا اور وہاں تک پہنچنے کے راستے اور سواری اور وقت کا تعین کرنا "علم " پر منحصر ہے۔۔۔۔
سواری بنانے والے کا نام مجھے نہ بھی پتا ہو،
سواری چلانے والے کا نام اور تاریخ پیدائش مجھے نہ بھی پتا ہو،
راستہ بنانے والے انجینئر کا نام اور قابلیت مجھے کچھ نہ پتا ہو،
بس یہ پتا ہو کہ،
ڈرائیور کو راستہ پتا ہے، گاڑی صحیح چلا لیتا ہے، سڑک کے قوانین جانتا ہے، راستہ صحیح ہے وغیرہ، تو میں اپنی منزل پر پہنچ جاؤں گا۔

میرے مطلب کی باتیں پتا کرنا کہ یہ کہاں سے معلوم ہوں گی یا کون ان معلومات کی اطلاع دے سکتا ہے، میری عقل و سمجھ دانی پر منحصر ہے۔۔۔ ضروری نہیں میں سواری کے خالق کے پاس ہی جاؤں یا میونسپلٹی کے دفتر جاکر سڑک کے تفصیلات معلوم کروں۔۔۔ بہت سی معلومات عمومی استعمال کے بعد زبان زد عام ہوجاتی ہیں، کس سے، کب، کس وقت کیا بات معلوم ہوسکتی ہے۔۔۔۔ کچھ نہیں پتا۔

اہلِبیت علیہم السلام کی مثال زندگی کے سفر میں ایسے ہی راہنما، امام، رہبر اور ڈرائیور کی سی ہے ۔ جن کی تاریخ پیدائش اور تاریخ شہادت ممکن ہو ہمارے لیے کسی مرحلہ میں فائدہ مند ہو مگر عمومی طور پر ہمارے لیے ان کا کردار ہمارے لئے منزل پر پہنچانے کیلئے مشعل راہ ہے، MILE STONE ہے۔ انہوں
نے کب ، کس ماحول میں ، کس کے ساتھ، کیا ، کیوں کس لئے انجام دیا۔

اِن کی زندگیوں کے مطالعہ کے بعد ان کی زندگیوں میں غور و فکر پہلا مرحلہ اور اُس کے بعد اُس پر عمل کرنا ہی ہم کو منزل تک پہنچا سکے گا۔

منزل کا علم راستے خود تعین کرتی ہے، پہلے منزل کو طے کریں کہ جانا کہاں ہے، راستہ خود بخود مل جائے گا۔ راستہ مل جائے گا تو راہوار و رہبر بھی مل جائے گا۔ بغیر رہبر و گائیڈ کے بھٹک جانا فطری امر ہے۔
 

سید جہانزیب عابدی
About the Author: سید جہانزیب عابدی Read More Articles by سید جہانزیب عابدی: 68 Articles with 58318 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.