جذباتی نعرے اور سنجیدہ عمل

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔

تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ نعرہ کسی شخص ۔ خاندان ۔ گروہ یا قوم کی شناخت ہوا کرتی تھی ۔ اپنے اس نعرے یا قول کی خاطر فرد ۔ خاندان ۔ گروہ یا قوم اپنی جان تک قربان کر دیتے تھے مگر یہ گوارا نہیں کرتے تھے کہ کوئی اُن کو یہ کہے کہ“نعرہ کچھ ہے اور عمل کچھ اور”۔ نعرے اب بھی ہیں اور پرانے وقتوں کی طرح حِلم سے نہیں بلکہ ببانگِ دُہل لگائے جاتے ہیں مگر اب ان نعروں کا مقصد عام طور پر اپنے گھناؤنے عمل پر پرہ ڈالنا ہوتا ہے ۔ جہاں نظریہ حیات اور آئیڈیالوجی نہ ہو یا نظریہ تو ہو لیکن عملی رفتار اس نظریے کے مطابق نہ ہو تو وہاں جذباتی نعروں سے خلا پُر کیا جاتا ہے۔ نعرے اُس وقت کارآمد ہیں جب ہم اپنے ہاتھوں اور دماغ کو بھی استعمال کررہے ہوں۔

میلاد کی محافل ہوں، عزاداری کی محافل ہوں، زیارت گاہیں ہوں، مساجد ہوں، نمازِ جماعت ہوں، حتیٰ حج و عمرہ ہوں یا دیگر مذہبی محافل ! ہزاروں اور لاکھوں کا جمِ غفیر نظر آتا ہے۔ شاعروں اور نکتہ گوئیوں ، مداح سراؤں کی خیال بافیاں ہم بہت شوق سےسنتے ہیں ، واہ واہ کرتے ہیں، جھومتے ہیں ۔ عشق رسول ﷺ اور عشقِ امام حُسین علیہ السلام میں لاکھوں اربوں قصیدے اور منقبتیں ہم لکھ چکے ہیں اور پڑھ چکے ہیں اور جھوم چکے ہیں مگر اسی رسول دوجہاں ﷺ اور اُن کے شہزادے حسن و حُسین علیہ السلام کی سیرت پر چلنے کیلئے ہمیں خدا معلوم کون سے حالات درکار ہیں؟؟

مگر جہاں زحمت و سختی ہو وہاں عوام الناس کم ہی نظر آتی ہے، جیسے بازار میں دھوکہ بازی سے بچنے میں، لین دین میں کھرا ہونے میں، مصیبت زدہ کی مدد کرنے میں، کسی مسکین کوکھانے کھلانے میں، کسی یتیم مفلس بچے کا تعلیمی خرچ اٹھانے میں، بے لباس کو لباس دلانے میں، حلال تفریح کے مواقع پیدا کرنے میں، تعمیری اور تخلیقی انسانوں سے میل ملاپ کرنے میں، کردار اور اخلاق کی آبیاری کرنے میں، کسی مصیبت زدہ کی مدد کرنے میں، کسی کو روزگار دلانے میں وغیرہ وغیرہ

مسلمان معاشرے کی بنیادی مادّی ضروریات روٹی، کپڑا، مکان، پانی، سواری وغیرہ فراہم کرنے میں ہم کس قدر ملاوٹ اور دھوکہ بازیاں کرتے ہیں۔ کبھی گائے کی گوشت کی جگہ کتے اور گدھے کا گوشت ملتا ہے، پینے کے پانی کی جگہ سیوریج کا پانی ملتا ہے، مصالحوں میں عمارتی رنگ اور لکڑی کے برادے ملتے ہیں، دودھ میں پانی، دواؤں میں ملاوٹ، ڈاکٹر دو نمبر، وکیل دو نمبر، مولوی دو نمبر، مکینک دو نمبر وغیرہ وغیرہ

اداروں میں کرپشن،دو نمبر مال بیچتے ہوئے ریڑھی پر کرپشن، قوانین توڑتے ہوئے سٹرک پر کرپشن، گھر بناتے ہوئے کرپشن، وغیرہ

کیا ہمارے سماج میں چرس، ہیروئن، شراب کے اڈے نہیں ہیں؟ کیا یہاں قحبہ خانے اور جنسی تسکین کے مراکز نہیں ہیں؟اس سماج میں فحش محافل کا انعقاد نہیں ہوتا؟ اگر ہیں تو یہاں کیا ہندو، عیسائی، یہودی، آغاخانی اور احمدی جاتےہیں؟؟

انٹرٹینمنٹ کے نام پرٹی وی چینلز کون سی حلال اور اسلامی تفریح فراہم کررہے ہیں، ان چینلز کو دیکھنے والے کیا سارے ولی اللہ بن گئے ہیں؟ یا کیا پوری قوم سائنسدان اور دانشور بن گئی ہے؟

تحریک پاکستان کا دعویٰ تھا کہ ہم اپنی مذہبی رسومات اور عبادات بجالانے میں ہندوؤں کےساتھ مشکل سے دوچار ہیں، ہندو اور مسلم ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔۔۔۔وغیرہ وغیرہ، سوال یہ ہے کہ وہ مذہبی رسومات کون سی ہیں؟ جن کیلئے الگ سے وطن کا مطالبہ کیا گیا؟ دین کے نام پر فرقہ بازیاں، تکفیری فتوے، جبر و تشدد، دہشت گردی، کرپشن، ملاوٹ، دھوکہ و فریب، معاشی، سیاسی، سماجی استحصال۔۔۔؟؟؟!!!
تعلیم کے نام پر کاروبار ہم چلاتے ہیں، مسلمانوں کو منافع دینے کے نام پر فراڈی کمپنیاں ہم نے بنائی ہوئی ہیں، رکشہ ٹیکسی اور موچی تک کرپشن میں ملوث ہے، سرکاری اداروں اور اہلکاروں کو رہنے دیں، وہ تو بقول شخصے ہیں ہی حرام خور۔ مگر یہ عوام جو خود کو بہت مظلوم اور لاچار بے یار مددگار باور کراتی ہے خود کون سی آسمانی ملائکہ کی ہم صحبت ہے۔ ایک بھنگی تک کرپشن میں مبتلا ہے، اسلام و قرآن کا صرف نا م ہے، بلند و بانگ دعوے اور نعرے ! مگر عمل میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زیرو !!

صرف خالی خولی دعوؤں یا سلبی افکار و اعمال کافی نہیں بلکہ دین و دنیا کا منطقی ربط اور مثبت اعمال ، موقع اور جگہ کی مناسبت سے صالح اور پاکیزہ عمل بارگاہ الہٰی میں قبول ہے۔ دعوؤں اور نعروں کے ساتھ سنجیدہ اعمال ہمارے لئے جنت کی بشارت ہیں۔ لہذا اپنے دعویِٰ ایمانی کو اعمال صالحہ اور دانشورانہ بصیرت کے ساتھ انجام دینے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔

ہم ایک طرف جہاں مغرب و کفّار کی چالبازیوں اور دھوکہ بازیوں کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے وہیں ہم کو اپنی ذات اور اپنی قوم پر تنقید کرنی چاہیے، خود تنقیدی ایک ایسا عمل ہے جس سے گزر کر قومیں اپنی شناخت حاصل کرتی ہیں اور اپنی اصلاح کرتی ہیں۔ خود تنقیدی اُس آئینے کی طرح ہے جو ہمارے چہرے کے میل کچیل کوہمیں دکھا کر یہ توقع رکھتا ہے کہ میں اُسے صاف کروں اور ستھرا بنوں، لیکن اگر میں آئینہ توڑ دوں کہ یہ مجھ سے تعصب کرتا ہے تو میری یہ جہالت میری اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔

خداوند تعالیٰ سے دعا ہے کہ پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کی روحانی و معنوی سرحدوں کی بھی حفاظت فرمائے، ہمیں دینِ اسلام کے منابع (قرآن، حدیث، سیرت) پر غور و فکر ، تدبر و تعقل کرنے اور درست، منطقی معارف و تعلیمات سے آگاہ فرمائے ، ہمارے دینی اور دنیاوی علوم کے خزانوں کے حصول میں میں برکت مرحمت فرمائے نیز ہم کو ان معارف پر چلتے رہنے کی ہمیشہ توفیق عطافرمائے۔

"مسلمان ہونے کے لیے نعرہ لگانے کی ضرورت نہیں عمل سے ثابت کریں۔ "میجر جنرل آصف غفور
تحریر: س۔ج۔ ع
 

سید جہانزیب عابدی
About the Author: سید جہانزیب عابدی Read More Articles by سید جہانزیب عابدی: 68 Articles with 57797 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.