مولانا ابوالکلام آزاد اپنی کتاب غبارِخاطرمیںسوئے حرم
باب میں لکھتے ہیںکہ اٹھارویں صدی کے اواخر میں جب نپولین نے مصر پر حملہ
کیا تو مراد بک نے جامع ازہر کے علماء کو جمع کرکے ان سے مشورہ کیا تھا کہ
اب کیا کرنا چاہیے۔ علمائے ازہر نے بالاتفاق یہ رائے دی تھی کہ جامع ازہر
میں صحیح بخاری کا ختم شروع کردینا چاہیے کہ نجات کے لیے تیر بہدف ہے۔
چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ لیکن ابھی صحیح بخاری کا ختم، ختم نہیں ہوا تھا کہ
اہرام کی لڑائی نے مصری حکومت کا خاتمہ کردیا۔ شیخ عبدالرحمن الجبرتی نے اس
عہد کے چشم دید حالات قلمبند کیے ہیں اور یہ بڑے ہی عبرت انگیز ہیں۔
انیسویں صدی کے اوائل میں جب روسیوں نے بخارا کا محاصرہ کیا تھا تو امیر
بخارا نے اسے حکم دیا کہ تمام مدرسوں اور مسجدوں میں ختم خواجگان پڑھا
جائے۔ اُدھر روسیوں کی قلعہ شکن توپیں شہر کا حصار منہدم کررہی تھیں، اِدھر
لوگ ختم خواجگان کے حلقوں میں بیٹھے یا مقلب القلوب، یامحول الاحوال کے
نعرے لگا رہے تھے۔ بالآخر وہی نتیجہ نکلا جو ایک ایسے مقابلے کا نکلنا
تھا، جس میں ایک طرف گولہ بارود ہو دوسری طرف ختم خواجگان۔ دعائیں ضرور
فائدہ پہنچاتی ہیں مگر انہی کو پہنچاتی ہیں جو عزم و ہمت رکھتے ہیں۔ بے
ہمتوں کے لیے تو وہ ترک ِعمل اور تعطلِ قویٰ کا حیلہ بن جاتی ہیں۔مولانا
ابوالکلام آزادنے اس حوالے کو اُس وقت لکھا تھاجب مسلمان جنگ آزادی میں
بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے،حالانکہ اس اقتباس کو دیکھا جائے تو یہ جملے اُس
وقت کے مسلمانوں کیلئے نہیں تھے بلکہ انہوںنے دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے
اپنے قلم سے تحریر کردیاتھا۔آج ہمارے یہاں بالکل یہی کچھ ہورہا ہے۔مسلمان
ملک کے موجودہ حالات میں ذلیل و خوار مظلوم ہونے کے باوجود اب بھی مسلمانوں
کا اہل علم و دانشوروں کا طبقہ ایسے مسئلوں اور باتوںمیںالجھا ہو اہے کہ وہ
ہر معاملے پر مناظرے چاہ رہے ہیں۔کچھ سال قبل تک مناظرے میدانوںمیں انجام
دئیے جاتے تھےلیکن ہم مسلمانوںنے مناظروںکیلئے ایک پلاٹ فارم تیار کرلیا ہے
اور یہ پلاٹ فارم سوشیل میڈیا ہے۔اکثر ہم دیکھتے ہیںکہ لوگ موجودہ حالات سے
نمٹنےکیلئے اقدامات اٹھانے کے بجائے سوشیل میڈیا اور آپسی و بحث
ومباحثوںمیں مصروف ہوچکے ہیں او ریہ بحث و مباحثے دین کے معاملات کو لیکر
کئے جارہے ہیں۔آپﷺ نے اپنی حیات میں حجۃ الوداع کے خطبے میںہی اس بات کا
اعلان کردیا تھاکہ آج دین مکمل ہوچکا ہے،مسلمانوں کو اب اس دین پر عمل
کرنے کی ضرورت ہے اور اس دین کو پھیلانے کی ضرورت ہے۔لیکن اسلام کے مکمل
ہوئے1450 سال ہونے کے باوجود آج بھی اسلامک ریسرچ،اسلامک تحقیق، اسلامک
فائونڈیشن کے نام پر اسلام میں تحقیقات کاسلسلہ جاری ہے اور اسی تحیقات کی
بنیاد پر مسلکوںو مکتب فکرکے گروہ بنتے و بڑتے جارہے ہیں۔جس اسلام کو اللہ
کے رسولﷺ نے قرآن وحدیث کے تحت مکمل قرار دے دیا گیا تھا،اُسی قرآن وحدیث
میں جو ہے اُن باتوں کو عوام الناس میں پھیلانے کے بجائے اور تحقیقاتی کام
کیا کررہے ہیںاس کا اندازہ نہیں ہوپارہا ہے۔اللہ نے قرآن پاک میںمختلف
علوم کو ظاہر کردیا ہے اور ان علوم پر تحقیق کرتے ہوئے غیر
،سائنس،ٹیکنالوجی،معاشیات، اقتصادیات، بیالوجی، ذوالوجی، آسٹرونومی،
جغفرافیہ،ایمبریالوجی جیسے علوم پرتحقیق کرتے ہوئے دنیا وانسانیت کیلئے کام
کررہے ہیں،مگر مسلمان اب بھی اس آیت کو پڑھنے سے اتنا ثواب اور اس آیت کو
تعویذ بنا کر پہننے سے فلاں بلا سے دور،رزق میں برکت کے دعوے کرتے ہوئے
گھوم رہے ہیں۔آخر کب تک ہم اور ہمارے اہل علم حضرات بنیادی باتوں کے بیچ
ہی پھنسے رہیںگے۔قرآن میں ہر آیت انسانوں کو ایک ایک پیغام دے رہاہے،جہاں
صبرو استقامت کا پیغام دیاگیا ہے وہیں ظلم کا جواب دینے کی بھی ہدایت دی
گئی ہے،جہاں اپنے امیر کی اطاعت کاحکم دیاگیا ہے وہیں اپنی حکومتیں قائم
کرنے کیلئےبھی احکامات دئیےگئے ہیں۔اسی قرآن میں امن کا پیغام دیاگیا ہے
تو اسی قرآن میں جنگ کا بھی پیغام دیاگیا ہے۔ہم نے قرآن پاک کو اپنی
سہولتوں و ضرورتوں کے مطابق استعمال کرنا شروع کیا ہے جب کہ غیر اس کتاب کو
واحدانیت کے علاوہ تمام علوم کو حاصل کرنے کیلئے استعمال کررہے ہیں۔آخر کب
تک مسلمان قرآن کے حقیقی پیغام نہیں سمجھیں گے؟۔ضرورت اس بات کی ہے کہ
مسلمان موجودہ حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے اپنی طرز زندگی میں ترمیم لائیں
اور ملک ودنیا کے حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے اپنے آپ کواو راپنی نسلوں کو
تیار کریں۔
|