محکمہ امورِ منگلہ ڈیم اور 120 ارب روپے

امام جلال الدین رومی ؒ ایک حکایت میں تحریر کرتے ہیں کہ ایک تجارتی قافلہ سازوسامان سے لدا ہوا بڑے بڑے تاجروں کا سامان لے کر جا رہا تھا اس قافلے کا ایک چوکیدار تھا جسے قافلے کے سامان کی حفاظت کیلئے مامور کیا گیا تھا چوکیدار رات کو سو گیا اور قافلے کا سامان چور لے اُڑے ۔چوکیدار اُٹھا تو اس نے سامان نہ پایا اس نے شور مچا دیا کہ قافلے کا سامان چوری ہوگیا قافلے والے اٹھے انہوں نے دریافت کیا کہ چور کہاں ہیں چوکیدار نے کہا کہ وہ تو سامان لے کر چلے گئے ،وہ میرے سامنے نقاب اوڑھ کر اترے اور سارا سامان چوری کر کے چلتے بنے قافلے والوں نے کہا کہ او بزدل جب وہ سامان لے کر جا رہے تھے تو کیا کررہا تھا چوکیدار نے کہا کہ میں اکیلا تھا اور چوروں کا پورا گروہ ہتھیار بند تھا میں ان کے سامنے بے بس تھا لوگوں نے کہا کہ تو نے اس وقت مدد کیلئے پکارا ہوتا،شور مچایا ہوتا تو چوکیدار نے جواب دیا کہ چوروں نے اسے چھری اور تلوار دکھائی کہ اگر شور کیا تو قتل کر دیں گے لہٰذا وہ خاموش رہا ڈر اور موت کے خوف کی وجہ سے چپ سادھ لی ،اب چور جا چکے ہیں اسے آزادی ہے جس قدر آہ وفغاں کرے ۔۔۔

قارئین امام رومی ؒ کی اس حکایت میں جس چوکیدار کے متعلق مثال دی گئی ہے تقریباً ایسی ہی حالت اس وقت ”محکمہ امورِمنگلا ڈیم “کی ہے ،1960ءکی دہائی میں جب حکومت پاکستان نے وسیع تر قومی مفاد میں منگلا ڈیم بنانے کا فیصلہ کیا تو اس وقت اہلیان میرپور نے قربانی کے لیے اپنے آباؤاجداد کی قبریں ،اپنی زمینیں اور ثقافت سمیت ہر چیز وطن عزیز کی خاطر پانی کے نیچے ڈبو دی اور پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی مستقل ہجرت اختیار کی ،ہزاروں خاندان بچھڑ گئے اور اہلیان میرپور نے ثابت کردیا کہ ملک کی خوشحالی اور ترقی کیلئے وہ کوئی بھی قربانی دے سکتے ہیں ۔

قارئین متاثرین منگلا ڈیم جو 1960ءکی دہائی میں اجڑے ان کے حقوق کا محافظ اور ان کا چوکیدار اس وقت خدا جانے کس خوف یا کس لالچ میں آگیا کہ ”معاہدہ منگلا ڈیم 1964ء“جو متاثرین منگلا ڈیم کی طرف سے اس وقت کے صدر آزاد کشمیر جناب کے ایچ خورشید نے واپڈا کے ساتھ کیا اس معاہدے کو آج 47سال گزر چکے ہیں اور نہ تو وفاقی حکومت نے اس معاہدے پر عمل کیا اور نہ ہی واپڈا کو شرم آئی کہ وہ عہد پر پورا اترے اور رہی بات چوکیدار کی تو محکمہ امور منگلا ڈیم اور آزاد کشمیر حکومت کی بہادری اور جرات سے تو دنیا واقف ہے ۔۔

قارئین 2001ءمیں جنرل مشرف کے دور حکومت میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ ملک میں پانی اور بجلی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کے پیش نظر منگلا ڈیم کو توسیع دی جائے اور پانی زخیرہ کرنے کی گنجائش میں اضافہ کیا جائے راتوں رات کئے گئے فیصلوں کے بعد منصوبہ پر کام شروع کر دیا گیا یہ منصوبہ جس کی ابتدائی لاگت کا تخمینہ 50ارب روپے تھا اسے 2007ءمیں مکمل ہونا تھا لیکن آج 2011ءآچکا ہے اور ابھی بھی منصوبہ کا بہت سارا کام باقی ہے اور120ارب روپے سے زائد کی رقم خرچ ہوچکی ہے اور مزید اربوں روپے منصوبہ کی تکمیل کیلئے درکار ہیں ۔

قارئین منگلا ڈیم توسیع منصوبہ کے موقع پر ”محکمہ امور منگلا ڈیم “کے نام سے ایک نیا چوکیدار متاثرین منگلا ڈیم کی اشک شوئی کیلئے اور ان کے حقوق کے دفاع کیلئے مقرر کیا گیا لیکن افسوس کی بات ہے کہ اس چوکیدار نے نہ تو متاثرین کے آنسو پونچھے اور نہ ہی حقوق کا دفاع کیا ۔پرانے معاہدے منگلا ڈیم میں وعدے کیے گئے تھے کہ ہم متاثرین منگلا ڈیم کے آنسوؤں تک کی قیمت ادا کریں گے ،میرپور شہر کو مفت بجلی فراہم کی جائے گی ،پانی ،تعلیم ،صحت سے لے کر تمام سہولیات ارزاں نرخوں پر فراہم کی جائیں گی ،ریلوے کی سہولت دی جائے گی ،انٹرنیشنل ائرپورٹ بنایا جائے گا،انڈسٹری کو ترقی دی جائے گی اور میرپور کو جی ٹی روڈ سے بہترین سڑکوں کے زریعے منسلک کیا جائے گا وغیر ہ وغیر ہ ۔۔

قارئین 1964ءسے لے کر 2011ءتک کا عرصہ گزر چکا ہے اور پرانے منگلا ڈیم معاہدہ کا ایک بھی وعدہ نہ تو واپڈا نے پورا کیا اور نہ ہی وفاقی حکومت نے کسی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا اور اہلیان میرپور دیکھتے رہ گئے ۔

اب دوبارہ وہی حادثہ پیش آچکا ہے 50ارب کے منصوبے پر 120ارب روپے سے زائد کی رقم خرچ ہوچکی ہے اور توسیعی منصوبہ کے متاثرین کھلے آسمان تلے کبھی تو اپنے چوکیدار محکمہ امور منگلا ڈیم کو دیکھتے ہیں اور کبھی چوروں کے گروہ کی طرف دیکھتے ہیں جن کے پاس اختیارات اور طاقت کی تلوار ہے اس سال جولائی میں ڈیم میں مکمل پانی بھرنے کی منصوبہ بندیاں کی جارہی ہیں اور ایک لاکھ سے زائد متاثرین کی آبادکاری کے لیے مجوزہ رہائش گاہیں اور کالونیاں ابھی تک کہیں نظر نہیں آ رہیں اگر خدانخواستہ جولائی میں پانی بھر دیا گیا اور متاثرین کو ایڈجسٹ نہ کیا گیا تو ایک بہت بڑا حادثہ رونما ہوسکتا ہے ۔

قارئین آخرمیں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے ۔

ایک بھکاری نے بس سٹاپ پر کھڑے ایک صاحب سے بھیک مانگی ”صاحب تین روپے دو میں نے کھانا کھانا ہے “
وہ صاحب بولے ”ٹماٹر کھاﺅ “
بھکاری نے پھر تین روپے مانگے تو یہی جواب ملا کہ ٹماٹر کھاﺅ
بھکاری نے ساتھ والے صاحب سے کہا کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں
تو انہوں نے بتایا کہ یہ صاحب توتلے ہیں اور تمہیں کہہ رہے ہیں ”کما کر کھاﺅ“

قارئین محکمہ امور منگلا ڈیم ،واپڈا اور وفاقی حکومت توتلے پن سے باز آئیں اور متاثرین منگلا ڈیم سے کیئے گئے پرانے اور نئے سارے وعدے پورے کریں ۔
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 336867 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More