اسلام: پر امن اور سلامتی والا دین۔ ۲

ہم گزشتہ مضمون میں غیر مسلموں کی طرف سے بے قصور انسانوں کی جان لینے کی اور اسلام کی طرف انسانی جان کی حرمت کی تفصیل بیان کر چکے ہیں۔ اب اس مضمون میں کسی شخص کو بے قصور قتل کرنے والے سے بدلے میں جان لینے کے لیے اسلام میں بیان کیے گئے حکم کی بات کریں گے۔ دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے جہاد فی سبیل اﷲ کی تفصیل بھی بیان کریں گے۔ قتل بلحق اور قتل بغیر حق کا فرق اﷲ تعالیٰ نے قرآن میں واضع کر دیا ہے۔قتل بلحق کی اگر اجازت نہ ہو تو دنیا میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔نہ شر وفساد کی جڑ کٹ سکتی ہے۔نہ یہ نیکوں کو بدوں کی شرارت سے نجات مل سکتی ہے۔نہ حق دار کو حق مل سکتا ہے۔نہ ایمان داروں کو کو ایمان اور ضمیر کی ٓزادی حاصل ہو سکتی ہے۔نہ سرکشوں کو ان کے جائز حدود میں محدود رکھا جا سکتا ہے۔ نہ اﷲ کی مخلوق کومادی و وروحانی چین میسر آ سکتا ہے۔اﷲ نے قرآن میں قصاص کا قانون مقرر کیا ہے۔اگر کسی فرد نے سرکشی کرتے ہوئے کسی انسان کی بے قصور جان لی ہے تو اسے اس کے بدلے میں اس کوقتل کیا جائے گایااس کے وارثوں کی رضا مندی سے دیت پر فیصلہ ہو گا۔یہ قصاص کا قانون جس طرح افراد کے لیے ہے ۔ اسی طرح جماعتوں کے لیے بھی ہے۔افراد کی طرح جماعتیں اور قومیں بھی سرکش ہوجاتی ہیں۔ ان کے خلاف جنگ کی اجازت اس لیے ہے کہ دنیا میں فساد کو مٹایا جا سکے۔ اﷲ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے’’ اگر خدا لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے سے دفع نہ کرتا تو صومعے اور گرجے اورمعبد اور مسجدیں، جن میں اﷲ کا ذکر کثرت سے کیا جاتا ہے، مسمار کر دیے جاتے‘‘(الحج۔۴)اس میں صرف مسلمانوں کی مسجدکا ذکر نہیں بلکہ عیسایوں کے صوامع،مجوسیوں کے معاہد، اور صابیوں کے عبادت خانوں کا بھی ذکر ہے۔ بتاناکا مقصد یہ ہے کہ اگر اﷲ عادل انسانوں کے ذریعہ سے ظالم انسانوں کو دفع نہ کرتا رہتا تو دنیا ظلم سے بھر جاتی۔ایک دوسری جگہ اﷲ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے کہ’’اگر اﷲ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعہ سے دفع نہ کرتا تو زمین فساد سے بھر جاتی، مگر دنیا والوں پر اﷲ کا بڑا فصل ہے(البقرہ۔ ۱۵۱)ایک اور جگہ اﷲ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے کہ’’ یہ لوگ جب کبھی جنگ و خونریزی کی آگ بھڑکاتے ہیں تواﷲ اس کو بجھا دیتا ہے۔ یہ لوگ زمین میں فساد بر پاہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔مگر اﷲ مفسدوں کو پسند نہیں کرتا(المائدہ۔۶۴) ایک اور جگہ اﷲ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے کہ’’ جن لوگوں سے جنگ کی جاری ہے انھیں لڑنے کی اجازت دی جاتی ہے کیونکہ ان پر ظلم ہوا ہے، اور اﷲ ان کی مدد پر یقیناً قدرت رکھتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے بے قصور نکالے گئے ہیں۔ ان کا قصور یہ تھا کہ وہ کہتے تھے ہمارا رب اﷲ ہے‘‘ (الحج۔۳۹۔۴۰) یہ قرآن کی پہلے آیت ہے جو قتال کے بارے میں اُتری۔اﷲ نے ظلم کرنے والوں سے مظلوں کو جنگ کرنے کی اجازت دی ہے۔ ایک اور جگہ قرآن شریف میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ’’ تمھیں کیا ہو گیا ہے کہ اﷲ کی راہ میں ان کمزور مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہیں لڑتے جو کہتے ہیں کہ اے اﷲ ہمیں اس بستی سے نکال جہاں کے لوگ برے ظالم اور جفا کار ہیں، اور ہمارے لیے خاص اپنی طرف ایک محافظ و مددگار مقرر فرما‘‘( النسا۔۷۵) جس جنگ کا اس آیت میں ذکر آیا ہے یہ کمزروں کی طرف سے ظا لموں اور مفسدوں کے خلاف اﷲ کی طرف سے جنگ کہا گیا ہے۔اس جنگ میں ذاتی فاہدے نہیں بلکہ خدا کی خوشنودی کے لیے ہے۔اس جنگ کو اس وقت تک جاری رکھنے کا حکم دیا گیا جب تک بے گناہ بندوں پر ذاتی فاہدے کے لیے ظالوں نے مسلط کی گئی اپنے انجام کو نہ پہنچ جائے۔ جہاد فی سبیل اﷲ کی فضلیت قرآن میں جگہ جگہ بیان کی گئی ہے۔’’ اﷲ اُن لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کی راہ میں اس طرح صف باندھے ہوئے جم کر لڑتے ہیں گویا وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں‘‘( الصف ۔۴)پھر یہ وہ حق پرستی کی جنگ ہے جس میں ایک رات کا جاگناہ ہزار روتیں جاگ کر عبادت کرنے سے بڑھ کر ہے۔جس کے میدان میں جم کر گھڑے ہونا گھر بیٹھ ک ۶۰ برس تک نمازیں پڑھتے رہنے سے افضل گیا ہے۔ جس میں جاگنے والی آنکھ پر دوزخ کی آگ حرام کر دی گئی ہے۔جس میں غبار آلود ہونے والے قدموں کو کبھی بھی دوزخ کی طرف نہیں گھسیٹے جائیں گے۔ جہاد فی سبیل اﷲ کا اعلان ہونے پر گھر بیٹھ جانے والوں کو عذاب کی نوید سنائی گئی ہے۔جہاد فی سبیل اﷲ کرنے سے دشمن کے علاقے، سلطنت، زمین، مال دولت اوردیگر فاہدوں کے لیے نہیں لڑنی جاتی بلکہ اﷲ کا کلمہ بلند کرنے اور اﷲ کی زمین میں اﷲ کے کمزور بندوں کو ظالموں اور فسادیوں سے چھڑانے کے لیے لڑی جاتی ہے۔ اگر اس وقت دوسری قوموں کے چھوڑ کر اپنی پڑوسی ازل دشمن ہنددؤں کے مذہب میں جنگ کے بارے تعلیمات پر اگر بات کی جائے کہ وہ کس طرح ذاتی منعفت کے لیے جنگ کرتے ہیں۔گیتا ۲۔ ۳۷ میں لکھا ہے کہ کرشن جی نے اُرجن سے کہا تھا کہ اگر تو اس جنگ(مہا بھارت) میں کامیاب ہوا تو’’ دنیا کے راج کو بھوگے گا‘‘ جبکہ قرآن میں کہیں بھی نہیں لکھا ہوا کہ قتال فی سبیل اﷲ کرنے سے تمھیں دولت اور حکومت ملے گی۔بلکہ ہر جگہ اﷲ کی خوشنودی، اﷲ کے ہاں درجات اور عذاب سے نجات کا کہا گیا ہے۔ جب کہ جنگ میں جیت کے بعد تو یہ ساری باتیں خودبخود مجائدین کو مل جاتیں ہیں۔

صاحبو!اسلام نے کبھی بھی کسی پر ظلم کرنے یا مال دولت کے حصول کے لیے جنگ کی اجازت نہیں دی۔ رسول ؐ اﷲ پرجنگ بدر، جنگ اُحد، جنگ خندق اور دوسری جنگیں کافروں کی طرف سے مسلط کی گئی۔ فتح مکہ پر بھی اﷲ کے رسولؐ اﷲ نے اپنے جانی دشمنوں کو معاف کر دیا۔ کافروں نے رسولؐ اﷲ کو اپنے گھر مکہ سے نکالا اور ہجرت پر مجبور کیا مگر اﷲ کے رسولؐ نے مکہ میں اقتدار حاصل کرنے کے بعد جانی دشمنوں کو بھی معاف کر دیا۔بلکہ معاف کرنے کے بہانے ڈھونڈے گئے تاکہ خون خرابہ نہ ہو۔ فتح مکہ کے موقعہ پررسولؐ اﷲ کی طرف سے کہا گیا کہ جو خانہ کعبہ میں داخل ہو گیا اُسے معافی، جو اپنے گھروں سے باہر نہ نکلے اُس کو معافی۔ جو ابو سفیان کے گھر میں داخل ہو گیا اُس کو معافی ۔ یہ جہاد فی سبیل اﷲ کی برکات تھیں۔اﷲ مسلمانوں کے جہاد فی سبیل اﷲ پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔اس سے دنیا میں امن و امان قائم ہو گا۔ اسلام دشمن قوتوں کی طرف سے دنیا میں پھیلائی گئی قتل غارت ختم ہو گی۔دنیا کے لوگ سکھ کا سانس لیں گے۔انسانیت عروج پر ہو گی۔ افراد اور قومیں ایک ددسرے کے جائز حقوق کا خیال رکھیں گے اور یہ دنیا بھی جنت کا نظارہ بن جائے گی۔یہ کام دینِ اسلام ہی کر سکتا ہے، کیونکہ اسلام ایک پر امن اور سلامتی والا دین ہے۔

Mir Afsar Aman
About the Author: Mir Afsar Aman Read More Articles by Mir Afsar Aman: 1130 Articles with 1093948 views born in hazro distt attoch punjab pakistan.. View More