اپنی خودی پہچان او غافل افغان

 افغانستان میں انگریز استعمار سے آزادی کے سوبرس مکمل ہوچکے ہیں ۔ افغانستان میں رہنے والے باشندگان سمیت تمام افغان گروپوں نے’ یوم آزادی‘ کے موقع پر اپنے خصوصی پیغامات دیئے ۔ افغان طالبان نے خصوصی دن کی مناسبت سے ایک پیغام میں کہا کہ’’ 18 اگست 1919ء کو افغان متدین و مجاہد ملت نے انگریز استعمار سے وطن عزیز افغانستان کی خودمختاری حاصل کرلی اور برطانوی سلطنت کو مجبور کردیا کہ افغانستان کی خودمختاری کو تسلیم کریں۔ افغان مجاہد عوام نے علماء کرام اور روحانی پیشواؤں کی قیادت میں 80 سال برطانوی استعمار کے خلاف جہاد اور خودمختاری کے حصول میں جدوجہد کی اور تین مرتبہ غاصب انگریزوں کو شکست دیکر اپنی قابلِ رشک سرزمین سے انہیں مار بھگایا‘‘۔افغانستان میں آزادی کے ایک سو برس مکمل ہونے پر متعدد تقریبات کا سرکاری انعقاد بھی کیا گیا تھا۔کابل کی سڑکوں اور دیگر اہم شہروں کی شاہراؤں کو خصوصی طور پر سجایا گیا تھا۔ تاہم ہفتے کی شب دارالحکومت کابل میں ایک شادی کی تقریب کے دوران ہونے والے ایک داعشی خودکش حملے کے بعد اکثر تقریبات منسوخ کر دی گئیں۔اس حملے میں ساٹھ سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ افغانستان نے پہلی عالمی جنگ کے تھوڑے عرصے بعد 1919 میں آزادی حاصل کی تھی۔افغانستان یوم آزادی کی سو برس مکمل ہونے پر خوشی منا رہا تھا لیکن راقم سمجھنے سے قاصر ہے کہ کیا افغانستان میں یوم آزادی واقعی میں’یوم آزادی‘ ہے ۔ یہ تو ایسا ہوا کہ دور غلامی میں رہتے ہوئے آپ یہ کہیں کہ میں آزاد ہوں ۔ بلا شبہ انگریز استعمارکو بار بار افغان عوام نے شکست دی ، پھر افغانستا ن میں دسمبر1979 میں سوویت یونین نے 1989تک قابض رہا ۔ دس برس کی اس جنگ میں ’آزادی ‘نہیں تھی۔ سوویت یونین کے جانے کے بعد مملکت میں بدترین خانہ جنگی کا سلسلہ شروع ہوا اور جتنا نقصان اس تشدد سے پہنچا ، سوویت یونین نے بھی نہیں پہنچایا تھا ۔1996میں ڈاکٹر نجیب اﷲ سے اقتدار افغان طالبان نے حاصل کرلیا۔ تاہم 2001میں نائن الیون کے واقعے کے بعد امریکا نے افغانستان پر چڑھائی کردی اور 18 برس گذر جانے کے بعد آج بھی افغانستان پر امریکا کا قبضہ ہے اور دارالحکومت کابل میں کٹھ پتلی حکومت اشرف غنی کی سر براہی میں موجود ہے جو اپنا کوئی فیصلہ امریکی حکومت کے بغیر نہیں کرسکتی۔ دو بار صدارتی انتخابات منسوخ ہوچکے ہیں۔ ذرائع کے مطابق ستمبر میں صدارتی انتخابات سے قبل افغان طالبان اور امریکا کے درمیان دوحہ میں امن مذاکرات کے معاہدے پر دستخط کی تقریب کی تیاریاں شروع ہوچکی ہیں۔جس کے بعد انٹرا افغان کانفرنس میں افغانستان کے نئے انتظامی انفرااسٹرکچر پر اپوزیشن جماعتوں اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات منعقد ہوں گے ۔

کابل حکومت کو انتخابات کے لئے امریکی حکومت کی جانب سے ابھی تک فنڈ تقویض نہیں کئے گئے ۔ تاہم اشرف غنی دوحہ امن مذاکرات کے معاہدے سے قبل صدارتی انتخابات کرانے کی بھرپور کوشش کررہے ہیں۔قبل غور بات یہی ہے کہ افغانستان میں آزادی کا سفر شروع ہوتے ہی ختم ہوجاتا ہے۔ 1919کے بعد بھی مملکت میں خانہ جنگیوں نے افغان عوام کو آزادی کی نعمت سے فائدہ اٹھانے کا موقع نہیں دیا ۔ افغانستان میں آزادی کہاں ہے ۔آزاد ی کی نعمت تو خانہ جنگیاں ، اندرونی خلفشار اور اقتدار کی ہوس چھین لیتے ہیں۔ انگریز استعمار سے آزادی کے سو برس پورے ہونے کے بعد ان بدترین حالاتِ غلامی میں آزادی کی خوشی منانا بڑا عجیب لگتا ہے۔ افغانستان میں تو ابھی بھی آزادی برسوں دور ہے۔ امریکا کے ساتھ امن معاہدے ے بعد بھی افغان شہریوں کو حقیقی آزادی سے نجات ملنے کے لئے اپنے اختلافات ختم کرنا ہونگے ۔ نسلی تعصب اور منافرت کو ختم کرکے افغانستان کے اُس تشخص کو زندہ رکھنا ہوگا ۔ جس کی تاریخ پانچ ہزار سے زاید قدیم زمینی حقیقت رکھتی ہے۔اسلام کے اُس چہرے کو از سرنو متعارف کرانا ہوگا جو14سو برس قبل افغانستا ن کی پہچان بنا۔ افغانستان بلاشبہ اس بات پر فخر کرسکتا ہے کہ اس کی سرزمین پر غیر ملکی تسلط تادیر قائم نہیں رہا لیکن اس حقیقت کو بھی نہیں جھٹلایا جاسکتا کہ افغانستان پر جارح غالب بھی رہے ہیں ۔ جس کی بنیاد ی وجوہات میں غداروں کا شرم ناک کردار سیاہ تاریخ ہے۔

افغانستان مسلسل خانہ جنگی و غیر ملکی جارحیت کی بنا پر معاشی طور پر تباہ و برباد ہے ۔ افیون کی کاشت و منشیات کی اسمگلنگ سے کوئی حکومت نہیں چلائی جا سکتی ۔ امور حکومت چلانے کے لئے ریاست کو سرمایہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو معیشت کی بحالی کے بعد ہی ممکن ہوگی۔ اس وقت افغانستان کے قدرتی معدنی وسائل پر غیر ملکی استعمار قابض ہیں۔ اندرونی خلفشار و بے امنی کا فایدہ اٹھا کر افغانستان کے زیر زمین خزانوں پر اندرونی و بیرونی قوتوں کے گٹھ جوڑ نے قبضہ کیا ہوا ہے۔ امریکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ امور مملکت چلانے کے لئے غیر ملکی امداد لینا ضروری ہے۔ افغانستان کے غیور عوام یقیناََ نہیں چاہیں گے کہ عالمی مالیاتی اداروں کے گنجلگ منصوبوں میں پھنس کر اپنی ملکی آزادی پھر گروی رکھ دیں ۔ کچھ عرصے تک دوست ممالک افغانستان کے انفرا اسٹرکچر کی بحالی و امور مملکت چلانے کے لئے امدادی پروگرام ضرور دیں گے لیکن ان کی کڑی شرائط کی وجہ سے آزادی مشروط رہے گی۔

افغانستان کے لئے سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کے چہار اطراف کوئی دشمن ملک نہیں ہے ۔ جس کی وجہ سے افغانستان کو خطے میں ہتھیاروں کی جنگ میں کودنے کی ضرورت پڑے۔جنوب اور مشرق میں پاکستان، مغرب میں ایران، شمال مشرق میں چین، شمال میں ترکمانستان، ازبکستان اور تاجکستان ہیں۔ اردگرد کے تمام ممالک سے افغانستان کے تاریخی، مذہبی اور ثقافتی تعلق بہت گہرے ہیں۔ اس کے بیشتر لوگ مسلمان ہیں۔ اگرافغانستان سازشوں کا حصہ نہیں بنتا تو یقینی طور پر افغانستان کی سرحدیں محفوظ ہیں اور اس کے پڑوسی ممالک افغانستان میں امن و ترقی دیکھنا چاہتے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان نا اتفاقی و غلط فہمیاں پیدا کرنے ایسے ممالک( جن کا ایجنڈا مسلم نسل کشی ہے ) کبھی بھی کسی مسلم ملک کے دوست نہیں بن سکتے ۔ چین ، عالمی معیشت میں اہم عظیم منصوبے پر گامزن ہے ۔ جس کے ثمرات سے افغانستان کی عوام بھی مستفید ہوں گی۔ وسط ایشیائی ممالک کے افغانستان کے ساتھ تاریخی و بردارنہ تعلقات میں بڑی وسعت ہے ۔ کیمونزم کا خطرہ افغانستان میں دفن ہوچکا ہے۔ آزادی کی اصل خوشی و ثمرات سے فایدہ اٹھانے کے دن بہت جلد قریب آرہے ہیں۔ افغان عوام نے چار دہائیوں سے بدترین تکالیف کا دور گذارا ہے۔ لاکھوں افغانی اپنے وطن سے بے گھر پاکستان و ایران و دیگر ممالک میں ہیں ۔ وہ پُرامن افغانستان واپس جاکر اپنی مادر وطن کو ہر قسم کی مشکلات سے آزاد دیکھنا چاہتے ہیں اور ایسا کون ہوگا جو اپنے مادرِ وطن سے دور رہنا پسند کرے۔ آزادی کا دن جب ہوگا تب ساری دنیا مل کر افغانستان میں آزادی کا دن منائے گی۔دہشت گردی ، انتہا پسندی ، نسلی تعصب سے پاک افغانستان کی آزادی کی تمام دنیا منتظر ہے۔یقیناََ آبا و اجداد کی قربانیوں و کامیابیوں کو یاد رکھنے کے لئے خصوصی تقاریب کا اہتمام کا سلسلہ نہیں رکنا چاہیے ،۔ نئی نوجوان نسل کو آگاہ رہنا چاہے کہ اُن کے آبا و اجداد نے آزادی کے حصول کے لئے کتنی گراں قدر قربانیاں دیں ہیں۔ انگریز استعمار ، سوویت یونین سے آزادی اور امریکی استبداد سے نجات کا دن ضرور منانا چاہیے۔لیکن بقول اقبال ؒ ۔۔
رومی بدلے، شام بدلے ، بدلا ہندوستان
تو بھی اے فرزند کہستان ، اپنی خودی پہچان

Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 399 Articles with 263404 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.