بے نامی خط میں لکھاتھاکہ آج جوکہانی آپ کی خدمت
میں پیش کررہاہوں وہ میری زندگی کاحقیقی واقعہ ہے،بندہ ایک غریب مزدورہے
جوروزانہ کی بنیادپرمزدوری کے بل بوتے پراپنے معاملات چلاتا ہے،ایک دن اپنی
بیوی اورتین بچوں کے ساتھ موٹرسائیکل رکشے میں سوارکہیں جارہاتھا،ایک
مشہوررہائشی سوسائٹی کے قریب سے گزررہے تھے کہ سڑک کنارے سجی پھلوں کی دکان
دیکھ کربچوں نے کیلے کھانے کی خواہش کااظہارکیا،رکشے والے کوروک کرنیچے
اترا،جیب میں موجودپیسوں کاجائزہ لیااورپھردکاندار سے کیلوں کی قیمت
پوچھی،دکاندارنے ایک درجن کیلے کی قیمت ایک سو پچاس روپے بتائی،جیب میں کل
رقم دوسوتیس روپے تھے جس میں سے دوسورکشے کاکرایہ اداکرناتھا،اپنے بچوں کی
چھوٹی سی خواہش پوری نہ کرسکنے کادکھ،مہنگائی کی تکلیف،غربت کاعذاب سینے
میں دفن کرنے کی کوشش اوراپنی آنکھوں کی نمی چھپاتے بچوں کویہ کہتے ہوئے کہ
آج کیلے اچھے نہیں ہیں پھرکسی دن جب اچھے اورمیٹھے کیلے ملیں گے
کھالینارکشے پرسوارہوگیا،بچوں کاتومعلوم نہیں بیوی ساراماجرہ سمجھ چکی
تھی،گھرپہنچ کربچے اپنے کھیل کودمیں مگن ہوکرشائد بھول گئے ہوں پرمیری
پریشانی میں مسلسل اضافہ ہوتارہا،بسترپردرازسوچتے سوچتے آنکھ لگ گئی،کچھ
دیر بعدبچوں نے آکرزورزورسے شورمچاناشروع کردیا،ابو،ابو جلدی اٹھوباہرکیلے
والاآیاہے وہ آوازلگارہاہے کہ بہت میٹھے کیلئے لے لو،ابویہ کیلے میٹھے ہیں
ہمیں لادیں،ابھی کچھ سوچ نہیں پایاتھاکہ اہلیہ کی آوازآئی لادیں بچوں
کوکیلے بیس روپے درجن کی آوازلگارہاہے کیلے والا،قیمت سن کردل میں خیال
آیاکہ بیس روپے درجن والے بھی کیلے ہی ہونگے؟باہرنکل کردیکھاتوگدھاگاڑی
بردارکیلے فروش کے پاس بہت سارے لوگ جمع تھے اوروہ تیزی کے ساتھ سب کوکیلے
فروخت کررہاتھا،کوئی پانچ درجن،کوئی دس درجن توکوئی پندرہ درجن خرید
رہاتھا،گدھاگاڑی والے کے کیلے سڑک کنارے والی دکان کے سائزکے ہی تھے فرق یہ
تھاکہ گدھاگاڑی والے کے کیلے خوب پکے ہوئے تھے جن میں کچھ زیادہ نرم معلوم
ہورہے تھے،حیرانگی کی بات یہ رہی کہ کیلے فروش خراب کیلے خودالگ
کرتاجاتاتھا،جیب میں ہاتھ ڈالااورتیس روپے نکال کرکیلافروش کو تھماتے ہوئے
کہابھائی صاف صاف کیلے دے دو،اُس نے جلدی سے ڈیڑھ درجن کیلے شاپربیگ کے
اندرڈالے تومیں نے اعتراض کیاکہ دوکیلے خراب ہیں اس نے میری طرف
دیکھااورپھر دوکیلے بدلنے کی بجائے چھ مزیدکیلے ڈال کرتھمادیئے یعنی تیس
روپے میں دودرجن کیلے مل گئے جن میں سے تین کیلے خراب تھے باقی بہترین،خط
لکھنے والے نے مجھ سے یہ سوال کیاکہ اشیاء خوردونوش سمیت دیگرضروریات زندگی
فروخت کرنے والے چھوٹے یابڑے تاجرخریدارکی حیثیت یاعلاقے کی بنیادپرقیمت کم
یازیادہ کردیتے ہیں اس مسئلے کاحل حکومت یاعوام میں سے کس کے پاس ہے؟جواب
سادہ ساہے کہ یہ ذمہ داری حکومت اورعوام دونوں کی بنتی البتہ حکومت کے پاس
اس بات کااختیارہے کہ وہ سزاوجزاکابہترنظام قائم کرکے ایسے مسائل کی روک
تھام بہترطریقے سے کرسکتی ہے پھربھی امیر اور غریب کے درمیان خلیج ختم
کرناتوکسی صورت ممکن نہیں،امیر اور غریب کے درمیان کی خلیج ہمیشہ سے
انسانیت کی تذلیل کاباعث بنتی آئی ہے،امیراپنی دولت کے نشے میں تکبرکاآسان
شکاربن جاتاہے جسے غریب انسان کیڑے مکوڑے دیکھائی دینے لگتے ہیں دوسری طرف
غریب امیرکی شاہ خرچیوں،نمودو نمائش سے متاثرہوکربے صبری اورناشکری کے
راستے پرگامزن ہوجاتاہے،تیزی کے ساتھ دولت کمانے،بیوی،بچوں کوامیرکے
بیوی،بچوں جیسی پرآسائش سہولیات مہیاکرنے کی خواہش غریب کوگمراہ کرکے جرائم
کی دنیاکامکین بنادیتی ہے،آج کے جدیددورمیں امیر اور غریب کے درمیان کی
خلیج ماضی کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوچکی ہے،امیر لوگوں کے گھروں میں دنیا
بھر کی تمام پرآسائش سہولیات میسر ہیں جبکہ غریب بنیادی ضروریات زندگی سے
بھی محروم نظرآتے ہیں،کہاجاتاہے کہ عوام کے کمزورطبقات کو روٹی،کپڑا اور
مکان کی سہولت مہیا کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے،جوریاست بلاامتیازانصاف
فراہم نہیں کرسکتی وہ روٹی،کپڑایامکان کیسے فراہم کرے گی،سابق صدر آصف علی
زرداری جوسابق وزیراعظم ذولفقارعلی بھٹوکے داماداورسابق وزیراعظم محترمہ
بینظیربھٹوکے شوہریعنی خاندانی حکمران ہیں،تین دفعہ کے سابق وزیراعظم میاں
نوازشریف جیسے قدآواراوربااثرسیاستدانوں کے بقول اُن سے احتساب کے نام
پرانتقام لیاجارہاہے یعنی وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ موجودہ سسٹم انصاف فراہم
کرنے کااہل نہیں،ایساسسٹم جوریاست کے امیرترین حکمران طبقے کوانصاف فراہم
کرنے کے قابل نہیں اس سسٹم سے غریب کیلئے روٹی کپڑے یامکان کی
اُمیدلگاناپاگل پن نہیں تواورکیاہے؟امیرکے پاس دنیاکی تمام سہولتیں دستیاب
ہیں جبکہ غریب سادہ ضروریات زندگی سے بھی محروم،حیرت کی بات یہ ہے کہ دونوں
میں سے کوئی بھی خوش نہیں،اس معاشرتی تفریق نے امیراورغریب دونوں کوپریشانی
کے سواکچھ نہیں دیا،امیربغیرمشقت زیادہ کھانے کے باعث بیماریوں میں
مبتلاہیں توغریب حدسے زیادہ مشقت اورفکروں کے سبب تھک جاتے ہیں،غریب بچوں
کی صحت،تعلیم وتربیت کے اخرجات پورے کرنے کی کوشش میں وقت سے پہلے بوڑھے
ہوجاتے ہیں توامیراپنے بچوں کی منشیات کی عادت ،آوارہ
گردی،نافرمانی،بدتمیزی اورمن مانیوں کے ہاتھوں کرب میں مبتلارہتے ہیں،امیر
اور غریب کے درمیان کی خلیج کوئی نئی بات ہے نہ ہی اسے ختم کرناممکن ہے ،یہ
ہمیشہ سے ہے اورہمیشہ کیلئے ہے،حق تویہ ہے کہ یہ زندگی اﷲ سبحان تعالیٰ کی
امانت اورآزمائش ہے ،امیرہویاغریب اسے ایک دن اپنے مالک کی طرف لوٹ
جاناہے،خوش اورخوشحال وہی رہ سکتاہے جوانسانوں کی بجائے اپنے مالک،خالق و
رازق کی پاک ذات کے ساتھ تواقعات وابستہ کرے،صبروشکرسے کام لے،اپنے مالک کی
رضامیں راضی رہنے کی کوشش کے ساتھ اپنی زندگی کوحلال رزق کے ذریعے بہترسے
بہترین بنانے کی کوشش کرتارہے،امیرکوخیال رکھناچاہئے کہ جس مالک نے اسے بے
شمارنوازاہے اُس کی مخلوق کے ساتھ حسن سلوک اختیارکرے ،اﷲ کے عطاکردہ مال
میں سے اسی کے راستے پرخرچ کرے اورمسکینوں پراحسان نہ جتلائے جبکہ حکمران
جوامیروغریب سے ٹیکس وصول کرتے ہیں اُن کی ذمہ داری ہے کہ اپنے محکوموں
کیلئے آسانیاں پیداکریں،عوام کے ٹیکس پرپلنے والے حرام نہ کھائیں،پینے
کیلئے صاف پانی،سستا اورفوری انصاف،روزگار کے بہترمواقع،معیاری اشیاء
خوردونوش کی جائزقیمتوں پردستیابی،معیاری صحت اورتعلیم کی سہولیات فراہم
کرناٹیکس وصول کرنے والے حکمرانوں کافرض اورٹیکس اداکرنے والوں کاحق
ہے،حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ مصنوعی مہنگائی کے ذمہ داروں کیخلاف بروقت
کارروائی کرتی رہے تاکہ امیر اور غریب کے درمیان موجود خلیج میں اضافہ نہ
ہو،امیراپنی دولت کاناجائزفائدہ نہ اٹھانے پائے اورغریب غربت سے تنگ آکرجرم
کی دنیاکاشہری نہ بن جائے، بے نامی خط میں بیان کردہ واقعہ میں صاف معلوم
ہورہاہے کہ اﷲ سبحان تعالیٰ نے اپنے بندے کی دل کی آوازسن کراُس کے بچوں
کیلئے بیس روپے درجن کیلوں کاانتظام کردیاورنہ آج مہنگے ترین دورمیں بیس
روپے درجن کیلے وہ بھی صاف ستھرے ملناناممکن ہوچکاہے
|