یہ بھی عجب چلن ہے کہ جن معاملات
میں مصروف رہ کر زندگی بسر کی جاتی ہے اُنہی کے بارے میں تحقیق پر تحقیق کی
جاتی ہے! معاشی امور کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ معاشی امور سے متعلق
کانفرنس ہو رہی تھی۔ دنیا بھر سے ماہرین آئے ہوئے تھے۔ جدید معاشی نظریات
پر بحثیں ہو رہی تھیں۔ ترقی یافتہ دنیا کے سرکردہ ماہرین اپنی اپنی معیشت
کو رول ماڈل کے طور پر پیش کر رہے تھے۔ ان کی بات غلط بھی نہ تھی۔ جس نے
بھرپور کامیابی حاصل کرلی ہو اسے ضرور اپنے آپ کو دنیا کے سامنے مثال کی
حیثیت سے پیش کرنا چاہیے۔ جہاں ماہرین جمع ہوں وہاں ایک ایک نکتے پر گرما
گرم بحث ناگزیر ہوتی ہے۔ جس کانفرنس کا ہم ذکر کر رہے ہیں اس کا بھی کچھ
ایسا ہی حال تھا۔ ماہرین ایک دوسرے کی کھال اتارنے پر تُلے ہوئے تھے اور
حاضرین معاشی امور پر دسترس رکھنے والوں کی لڑائی سے محظوظ اور متاثر ہو
رہے تھے۔
کانفرنس ختم ہوئی تو میڈیا سے ملاقات کا سیشن تھا۔ میڈیا والوں کے تابڑ توڑ
حملوں کا ماہرین نے خاصا تسلی بخش جواب دیا۔ مگر پھر اچانک کچھ ایسا ہوا کہ
تمام ماہرین تیزی سے گاڑیوں میں بیٹھ کر روانہ ہوگئے۔ حاضرین یہ سمجھے کہ
بم کی دھمکی ملی ہے۔ سبھی ایک ایک کر کے وہاں سے کھسکنے لگے۔ میڈیا والے
کہاں پیچھے رہنے والے تھے!
سانورے کی بنسی کو بجنے سے کام
رادھا کا بھی شیام، وہ تو میرا کا بھی شیام
یعنی یہ کہ جہاں خبر وہاں میڈیا۔ اچھے برے یا صحیح غلط کا فیصلہ تو عوام کو
کرنا ہے۔ میڈیا والے خبر کی تلاش میں ماہرین کا تعاقب کرنے لگے۔ جگمگاتی،
چمچماتی گاڑیوں کا قافلہ ایک پس ماندہ بستی کی طرف رواں تھا۔ کچھ ہی دیر
میں تمام گاڑیاں غریب بستی کے ایک عالی شان مکان کے سامنے کھڑی تھیں۔
ماہرین گاڑیوں سے باہر آئے اور صاحب خانہ سے بتیانے لگے۔ آن کی آن میں وہاں
میلہ لگ گیا۔ ڈی ایس این جیز قطار بند ہوگئیں۔
ماہرین اس شاندار مکان کے مالک سے خاصے متاثر اور مرعوب دکھائی دے رہے تھے۔
وہ جاننا چاہتے تھے کہ زندگی کو کامیاب اور آسان کس طور بنایا جاسکتا ہے۔
صاحب خانہ انہیں بہت کچھ بتا رہے تھے مگر جو بتانا چاہیے تھا وہ نہیں بتا
رہے تھے! چہ مگوئیوں کا بازار گرم ہوا۔ ماہرین بے تاب تھے کہ جو کچھ وہ
جاننا چاہتے ہیں وہ جلد از جلد بتایا جائے۔ مگر صاحب خانہ تھے کہ کسی طور
زبان کھولنے پر آمادہ نہ ہوئے۔ ماہرین کے دماغ کس طور چکرائے بغیر رہ سکتے
تھے؟ وہ یہ جاننے کے خواہش مند تھے کہ کوئی معمولی سرکاری ملازم شاندار چار
منزلہ مکان میں پُرتعیش لائف اسٹائل کو کس طور افورڈ کرسکتا ہے! 17 ہزار
ماہانہ کمانے والا کلرک کس طرح گھر میں دو بیویاں، تین کاریں اور چار نوکر
رکھ سکتا ہے! مگر حقیقت تو اپنی جگہ ہے، یعنی یہ کہ وہ افورڈ تو کر رہا ہے!
لاکھ اصرار کرنے پر بھی وہ اللہ کا بندہ ”ٹریڈ سیکریٹ“ بتانے پر آمادہ نہ
ہوا۔ یہ تو بزرگوں کے نُسخے اور ٹوٹکے ہوتے ہیں جو سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے
ہیں!
دنیا ہمیں دیکھ کر حیران ہوتی ہے اور ہم دنیا کو دیکھ کر ہنستے ہیں۔ ترقی
کرنے اور آگے بڑھنے کے ”دقیانوسی“ طریقے دیکھ کر انسان کو ہنسی ہی آسکتی
ہے۔ اہل پاکستان نے ہر شعبے میں آسانیاں پیدا کیں ہیں۔ دنیا چاہے تو اِن
آسانیوں سے بہت کچھ سیکھ سکتی ہے۔ مگر تعصب کی انتہا دیکھیے کہ ہماری غیر
معمولی آسانیوں کو چھوڑ کر دنیا مشکلات کو گلے لگائے ہوئے ہے! اِنسان دنیا
میں آیا ہے تو اُس کا فرض ہے کہ دوسروں سے سیکھے اور سکھائے، مگر کیا کیجیے
کہ کوئی ہم سے کچھ سیکھنے کے موڈ میں نہیں۔
دنیا بھر میں ترقی کی دوڑ جاری ہے۔ لوگ آگے بڑھنے کے لئے زندگی بھر کچھ نہ
کچھ پڑھنے اور سیکھنے میں مصروف رہتے ہیں۔ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی۔ اگر
انسان زندگی بھر محنت ہی کرتا رہے گا تو انجوائے کب کرے گا؟ ہمیں اس دنیا
میں صرف محنت کے لئے نہیں بھیجا گیا۔ اللہ نے بہت کچھ خلق کیا ہے جس پر غور
کرنا اور مستفید ہونا لازم ہے۔ ترقی یافتہ اقوام نے ترقی کے عمل کو خاصا
پیچیدہ بنا دیا ہے۔ فطری علوم اور اُن سے متعلق فنون کے معاملے میں ترقی
یافتہ اقوام نے ایسا کھڑاگ کھڑا کیا ہے کہ دیکھ کر وحشت سی ہوتی ہے! بھلا
یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ بچہ جب ہوش سنبھالے تو اُسے سیکھنے کا پابند کردیا
جائے! علوم اور فنون نے انسان کو فنون لطیفہ کے ذوق سے محروم کر کے لطیفہ
بنا دیا ہے! اب وقت آگیا ہے کہ دنیا بھر میں ترقی کا ”پیراڈائم“ تبدیل کیا
جائے۔ اِس ذیل میں پاکستان بہتر خدمات فراہم کرسکتا ہے۔
ہمارے سرکاری افسران اور ملازمین دنیا کے لئے سکون اور راحت کی ایک روشن
مثال ہیں۔ کوئی ہمارے سرکاری افسران کی طبع کی روانی دیکھے کہ کیسی smooth
زندگی بسر کرتے ہیں! زندگی میں سب کچھ ہے اور محنت کا شائبہ تک نہیں ہوتا!
کچھ کئے بغیر شاندار ترقی! کیا کہنے!
دامن پہ کوئی چھینٹ، نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو!
دنیا اگر دیکھے اور سمجھ بھی پائے تو انگشت بہ دنداں رہ جائے!
امریکہ کے بارے میں طرح طرح کی بے ڈھنگی باتیں معلوم ہوتی رہتی ہیں۔
جمہوریت کے راگ الاپنے والے اِس ملک میں فلاح عامہ کے کاموں کے لئے کانگریس
میں مہینوں بحث ہوتی رہتی ہے۔ اور جب فنڈز مختص ہو پاتے ہیں تب تک وہ لوگ
دنیا سے رخصت ہوچکے ہوتے ہیں جن کے لئے فنڈنگ درکار تھی! یہ جمہوریت نہیں،
لطیفہ ہے! اگر یہی گڈ گورننس ہے تو ہم لنڈورے ہی بھلے! کوئی ہم سے سیکھے کہ
قومی خزانے کو کس طرح استعمال کرنا ہے۔ یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ ایک معمولی
سی سڑک بنانی ہو اور مہینوں بحث ہوتی رہے! تب تک کتنے ہی گھروں کا چولہا
ٹھنڈا پڑا رہے گا! رزق کی تقسیم کو روکنا بے عقلی اور بمنزلہ گناہ ہے! حق
تو یہ ہے کہ ہمارے منتخب نمائندوں اور اعلیٰ سرکاری افسران کے سامنے قومی
خزانہ ہاتھ باندھے کھڑا رہتا ہے! گویا گنگا بہہ رہی ہے، جب جی میں آیا
ڈُبکی لگالی اور نہال ہولئے! کوئی خواہش تشنہ نہیں رہ پاتی۔ پتہ نہیں کیوں
دنیا یہ آسان طریقہ نہیں اپناتی اور مشکلات میں گھری رہتی ہے! شاید دنیا کو
مشکلات کی عادت پڑگئی ہے! یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ زندگی سہولتیں پیدا
کرنے اور اُن سے مستفید ہونے کے لئے ہے، رگڑا کھانے یا رگڑا لگانے کے لئے
نہیں۔ ہماری سرکاری مشینری سے وابستہ افسران اور اہلکار اِس معاملے میں
پوری دنیا کی رہنمائی کرسکتے ہیں!
ہمیں تو یہ دیکھ کر بھی حیرت ہوتی ہے کہ دنیا بھر میں اس امر پر تحقیق ہو
رہی ہے کہ کام کے مقام یعنی دفتر، فیکٹری یا دکان وغیرہ کے ماحول کو کس طور
ہلکا پھلکا اور معاشی سرگرمیوں کو راحت کے حصول میں معاون بنایا جائے۔ جو
کام تحقیق کے بغیر آسانی سے ہوسکتا ہے اس لئے خواہ مخواہ سر اور آنکھیں
پھوڑنے کی کیا ضرورت ہے؟ ہمارے ہاں ورک پلیس کل بھی سُکون اور راحت کا
ذریعہ تھا اور آج بھی ہے!
ہمارے بیشتر سرکاری دفاتر کا یہ حال ہے کہ لوگ ذہن پر کوئی بوجھ لئے بغیر
آتے ہیں، حاضری لگا کر چائے پیتے ہیں اور کچھ دیر بعد گھر کی راہ لیتے ہیں!
اِتنی سی بات ہے جس کے لئے ترقی یافتہ دنیا نے خواہ مخواہ تحقیق کا میلہ
سجا رکھا ہے! دنیا اب جس کے پیچھے بھاگ رہی ہے وہ ”کونسیپٹ“ ہم بہت پہلے دے
چکے ہیں۔ مگر بھئی، ہمیں کون پوچھتا ہے! جس کے پاس مغرب کی ڈگری ہو اور جس
کے علم کے ساتھ تحقیق کا دُم چھلّا لگا ہو بس اُسی کی واہ واہ ہوتی ہے!
مغرب کو صرف اس بات سے غرض ہے کہ اُس کی جامعات پرانے نظریات کو کروڑوں
ڈالر خرچ کرکے تحقیق کا جامہ پہنائیں اور دنیا سے داد پائیں! ہم آئیڈیاز
مفت بانٹ رہے ہیں مگر لوگ لیتے نہیں، یہ تو سراسر ناقدری اور بے اعتنائی
ہے!
دنیا کو اب یہ فکر لاحق ہوئی ہے کہ معاشی سرگرمیوں میں لطافت اور فرحت کا
پہلو تلاش کیا جائے یعنی کسی کو کام کرتے وقت ذہن پر کوئی بوجھ محسوس نہ
ہو۔ دیر ہی سے سہی مگر چلیے، خیال تو آیا۔ مگر ذرا دُنیا کا بھولپن تو
دیکھیے کہ اُسے یہ معلوم ہی نہیں کہ ہم نے یہ تصور 6 دہائی قبل دیا تھا۔
اور اگر تعلّی یا خود پسندی نہ سمجھا جائے تو حقیقت یہ ہے کہ معاشی
سرگرمیوں میں راحت اور انبساط اور انبساط کی کیفیت میں تھوڑی بہت معاشی
جدوجہد کا تصور متعارف ہی ہم نے کرایا ہے!
آج بھی بیشتر پاکستانی کام کو تفریح سمجھتے ہیں۔ اِس پل صراط سے وہ ایسے
آسان گزر جاتے ہیں کہ ایک دنیا دیکھ کر حیران رہ جاتی ہے! اور تفریحی
سرگرمیوں میں ہم پاکستانی ایسے سنجیدہ اور کشیدگی زدہ دکھائی دیتے ہیں جیسے
کچھ کمانے اور چولہا جلانے کا اہتمام کرنے گھر سے نکلے ہیں! دنیا کو اپنی
ترقی کے لئے ہمارا شکر گزار ہونا چاہیے۔ کبھی آپ نے سوچا ہے کہ اگر ہم
تفریحی سرگرمیوں میں کھپانے والا جوش و خروش معاشی سرگرمیوں کی نذر کردیں
تو ترقی یافتہ دنیا بس کھڑی کی کھڑی اپنی قسمت کو کوستی رہ جائے اور ہم
کہیں سے کہیں جا نکلیں! |