میں بناؤں گا انہیں کروڑپتی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !!!۔

پوپ کہانی-4

شیخ مقصود الٰہی نے ’’پوپ کہانی‘‘ کے نام سے ایک نئی صنف متعارف کروائی ہے۔ یہ ایک انتہائی دلچسپ اور لذیذ کہانیوں پر مشتمل تجربہ ہے جسے چھوٹے چھوٹے خیالات و احساس کو دوسروں تک پہنچانے کا موثر زریعہ قرار دیا گیا ہے، (علی سفیان آفاقی)۔

پوپ کہانیوں کا اولین مجموعہ جو کہ ’’پوپ کہانیاں‘‘ کے عنوان سے ابھی حال ہی میں شائع ہوا ہے، اور ہم اِسں سے برادرم ارشد اشرف کی فیس بک پر بپا فروغ ِ علم و ادب کی کاوشوں کے توسط سے متعارف ہوئے اور اس مجموعے میں شامل محترم جناب احمد صفی صاحب کی چار عدد عمدہ و اعلیٰ پوپ کہانیاں پڑھنے کو ملیں اور اٌن کو پڑھ کر ہمارے دل میں بھی اس نئی صنف پر طبع آزمائی کا خیال آیا اور یہ تازہ ترین کوشش تمام احباب سے اپنی گرانقدر رائے فراہم کرنے کی مودبانہ درخواست کے ساتھ پیش ِخدمت ہے۔

اس کہانی کا محرک محترم افزا خالد صاحبہ کا ہماری گزشتہ ’’پوپ کہانی‘‘ ’’اور اسے رہا کرالیا گیا!‘‘ کے کمنٹس میں شامل یہ لطیفہ بنا:

کسی سائیکل سوار نے راستہ چلتے کسی چھوٹے بچے کو ٹکر مار دی. بچہ زاروقطار رونے لگا. سائیکل سوار نے جلدی سے اس بچے کو چپ کرانے کے لیے دس روپے کا نوٹ اس کے ہاتھ میں تھما دیا. بچہ چپ ہوگیا اور جب وہ سائیکل سوار اپنی سائیکل پر پیڈل مار ہی رہا تھا تو پیچھے سے بچے نے چیخ مار کر پوچھا: "انکل پھر کب آئیں گے؟"

ناشتے کی میز پر بیٹھتے ہوئے بیریسڑ جمیل احمد پاشا نے ایک ہاتھ سے بٹر سلائس اور دوسرے ہاتھ سے صبح کا تازہ اخبار اٹھایا لیکن اخبار کے صفحے ِاول پر چھپی ایک خبر کی سرخی اور اسکے ساتھ لگی تصویر دیکھ کر سلائس اسکے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔

یہ اسی نوجوان کی تصویر تھی جو کل صبح اسکے دفتر آکر صرف اسی سے ملنے کی ضد کرتا رہا اور اپنی ضد پر اڑا رہا اور بلا آخر تھک ہار کے اسے چیمبر میں آنے کی اجازت دے دی گئی۔

کمرے میں داخل ہونے والا وہ ستائس اٹھائس سالہ نوجوان اپنے پیراہن، چہرے و چال ڈھال سےکسی نچلے متوسط طبقے مگر شریف خاندان کا فرد دکھائی پڑتا تھا، البتہ اسکی آنکھیں گہری سٌرخ ہو رہیں تھیں اور ان میں شدید بیچینی مترشح تھی۔

اپنی قمیض کی جیب سے ایک تہہ کیا ہوا لفافہ نکال کر اسکی طرف بڑھاتے ہوئے بولا: یہ سر بند لفافہ آپ کل صبح کا اخبار دیکھنے کے بعد کھول کر پڑھ لیجیئے گا۔ آپ کی ایمانداری کی بے پناہ شہرت کے سبب آپ سے یہ امید رکھتا ہوں کہ آپ یہ لفافہ کل صبح کا اخبار پڑھنے سے قبل ہرگز نہ کھولیں گے، بس مجھے اتنا ہی کہنا تھا۔

اس سے پہلے کہ وہ اس سے کچھ کہہ پاتا، نوجوان تیزی کے کمرے کا دروازہ کھول کر نکل گیا۔

اس نے وہ لفافہ میز کی دراز میں ڈالا اور عدالت کے لیے نکل پڑا۔ پھر مصروفیات نے اسکے ذہن سے لفافے کا خیال نکال ہی دیا۔

اخبار کی اٌس خبر میں نہ جانے کیا بات تھی کہ وہ ناشتہ بھول کے اخبار کو ہاتھ میں دبائے ایک دم سے ہی دوڑ پڑا۔ دفتر پہنچ کر میز کی دراز سے وہ لفافہ ڈھونڈا اور اسکے اندر موجود ایک تہہ شدہ کاغذ باہر نکالا اور اسے کھول کر پڑھنے لگا:

جناب بیریسڑ صاحب

آج کے اخبار میں یہ خبر پڑھ ہی چکے ہوں گے کہ میں اب اس دنیا سے جا چکا ہوں۔ لٰہذا اب میں آپ کو بعد از مرگ اپنا وکیل مقرر کرتا ہوں۔ اس خط کے ہمراہ بطور ایڈوانس پچاس پزار روپے کا چیک ہے۔ یہ رقم میں نے اپنی بیوی کے زیورات بیچ کر حاصل کی ہے۔

آپ نے خبر میں پڑھ ہی لیا ہوگا کے میری موت ایک انتہائی تیز رفتار کار سے کچل جانے سے ہوئی۔ آپکو یہ بھی معلوم ہوچکا ہوگا کہ وہ کار ایک بڑے اور امیر ملک کے سفارتخانے کے ایک اہم ترین افسر کی ہے، لٰہذا اب آپکو میرے ورثاء و لواحقین کی جانب سے ہرجانے و خٌون بہا کا دعویٰ دائر کرنا ہے۔

اب یہ آپ کا کام ہے کہ میری موت کا بڑے سے بڑا ہرجانہ و خون بہا وصول کر کے میرے پسماندگان کو دلوائیں اور اسمیں آپکا بھی فائدہ ہے اور حاصل ہونے والی رقم کا پچیس فیصد بطور فیس کے رکھ سکتے ہیں۔

آخر میں صرف اتنا کہوں گا کہ میں یہ صرف اس لیے کر رہا ہوں کہ جو ملکی حالات ہیں اور اپنی دیرینہ بیروزگاری کے سبب میرے لیے اپنے خاندان کو نان ِشبینہ فراہم کرنا بھی ممکن نہیں البتہ میری یہ قربانی میرے خاندان کے مَصائِب دور کر دیگی اور میرا کیا ہے، مر تو میں ہر لحضہ گھٹ گھٹ اور کٌڑھ کٌڑھ کر رہا ہی ہوں اور جیتے جی تو اپنے خاندان والوں کے لیے شاید کبھی بھی کچھ نا کر پاؤں تو کیوں نا یوں مر کے ہی اٌن سب کو کروڑپتی بنا جاؤں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!!!۔
Amin Sadruddin Bhayani
About the Author: Amin Sadruddin Bhayani Read More Articles by Amin Sadruddin Bhayani: 43 Articles with 55107 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.