پوپ کہانی-5
ٹی وی پر چلتے قومی نغمے کی صدا نے ٹی وی لاؤنچ میں بیٹھے تمامتر نفوس کو
اپنے سحر میں جکڑ رکھا تھا اور اسکے ایک ایک بول پر ہر کوئی جھوم جھوم کر
اسکے ساتھ اس گیت کو پورے جوش و خروش کے ساتھ زیر ِ لب دھرانے میں مشغول
تھا۔
!!! ہم ہیں پاکستانی ہم تو جیتں گے ہاں جتیں گے
بس ایک ننھا احمر ہی تو تھا کہ جو ٹٌکر ٹٌکر سب گھر والوں کو حیرت و
استعجاب سے دیکھے جارہا تھا اور اسکے ننھے سے دماغ میں ایک ہی سوال بار بار
گونج رہا تھا کے آخر یہ گزشتہ چند دنوں سے اسکے گھر میں ہو کیا رہا ہے؟
کیا یہ وہ وہی سب لوگ ہیں جو محض چند دنوں پہلے تک کوئی اور ہی راگ الاپ
رہے تھے۔
چچا ریاض جو ہر وقت یہ کہہ کہہ کر سارا گھر سر پر اٹھائے رکھتے تھے کہ: "ارے
پاکستان میں بھلا رکھا ہی کیا ہے، مجھے تو بس باہر ہی بھجوا دیں"۔ اور اب "ہم
ہیں پاکستانی" کہتے ہوئے جو سرخی انکے چہرے پر دوڑ رہی تھی وہ احمر نے اس
سے پہلے کبھی نا دیکھی تھی۔
اسکے ابو جسطرح سے دادا جان کے پرانے پاکستانی فلمی گیتوں کو باآواز ِبلند
سننے پر جھنجھلاہٹ کا شکار ہوتے اور بےاختیار کہہ اٹھتے کہ: "بھلا ان گھٹیا
پاکستانی فلموں اور انکے گھسے پٹے گانوں میں رکھا ہی کیا ہے، ارے کچھ سننا
ہی ہے تو بھارتی فلموں کے گانے سنو اور انکی ایک سے ایک بڑھ کر فلمیں دیکھو۔
کچھ بھی ہوں ہماری فلمیں و موسیقی کبھی انکا مقابلہ کرسکیں تھیں اور نہ
کرسکیں گیں"۔
اور یہ کہہ کر وہ دادا جان کی ضد میں اپنے فیوریٹ نغمات کی سی ڈی لگا کر "مٌنی
بدنام ہوئی" اور "شیلا کی جوانی" خوب زور زور بجا کر سننا شروع کردیتے۔
اسکی امی جنھیں "اسٹار پلس" کے ڈراموں کا تو بس جسے ہوکا ہی لگا ہوا تھا،
وہ کھانا کھائے بغیر تو رہ سکتیں تھیں لیکن مجال ہے کہ وہ کبھی کسی ایک بھی
ڈرامے کی کوئی قسط ہی چٌوک جائیں، بھلے ہی اسکے لیے انہیں کوئی تقریب، کوئی
اہم کام اور کوئی ضروری وعدہ ہی کیوں نا توڑنا پڑے ۔ اگر جو غلطی سے بھی
کہیں کوئی انٌہیں پاکستانی ڈرامے دیکھنے کا مشورہ دے ڈالے تو بس اسکی اور
پاکستانی ڈراموں کی تو خیر ہی نہیں اور وہ بھڑک کر چیخ اٹھتیں: "یہ روکھے
پھیکے پاکستانی ڈرامے بھی بھلا کوئی دیکھنے کی چیز ہیں، انمیں نا ہی جدید
تراش خراش کے زنانہ ملبوسات دیکھائے جاتے ہیں اور نا تو سسرالی رشتہ داروں
بطور ِ خاص ساس و نندوں کی سازشوں سے بچاؤ کے ہتھکنڈے سیکھائے جاتے ہیں، جو
تیز و طرار سڑک چھاپ زبان ان میں بولی جاتی ہے اور سب سے بڑھ کر ان کیں
ایمان افروز مذہبی رسومات دکھائی جاتیں ہیں، باخدا میرا تو ایمان تازہ
ہوجاتا ہے"۔
احمر کو سب سے زیادہ حیرت تو ان پاکستانی ٹی وی چینلز ہر ہورہی تھی کہ
بھارتی اداکاروں کو چھینک یا بخار آجانے کی خبر کو بھی بریکنگ نیوز میں
پیش کرتے ہیں، ہر پروگرام میں بھارتی فلموں اور اداکاروں کی جے جے کار اور
واہ واہ کیا کرتے ہیں لیکن اب جب سے پاکستان اور بھارت کی کرکٹ ٹیمیں وڑلڈ
کپ کے سیمی فائنل میں مد ِمقابل ہونے کو ہیں، انکا تو لہجہ ہی بدل گیا اور
اب وہ اسی بھارت جسکی تعریف کرتے وہ نا تھکتے تھے، نیچا دیکھانے کا کوئی
موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دے رہے۔
کبھی کبھی تو احمر یہ سوچنے پر ہی مجبور ہوجاتا کہ اس کے گھر والوں کا جو
والہانہ ذہنی و قلبی لگاؤ بھارتی فلموں، ڈراموں فنکاروں و موسیقی سے ہے اور
جو کراہت انکے چہروں پر پاکستانی فلموں، ڈراموں فنکاروں و موسیقی کے نام پر
امنڈ آتی ہے، تو پھر اچھا ہی تھا کے ہم ان سے الگ ہی نا ہوتے۔
اور اب یک بیک اپنے گھر اور ٹی وی والوں کی کایا پلٹے دیکھ کر وہ شدید حیرت
زدہ تھا اور اٌس وقت اسکے ننھے سے دل میں ایک خواھش ابھری: "اللہ میاں، کچھ
ایسا کریں کے پاکستان اور بھارت کی کرکٹ ٹیموں کا یہ میچ کبھی ختم ہی نا ہو
اور ہمارا سارا پاکستان ہمیشہ اسی طرح سے یک دل و یک جاں ہوکر پاکستان سے
بھرپور محبت کرتا رہے" آمین۔
|