سید محمد اصغر کاظمی کی چند اردو تصانیف و تالیفات

سید محمد اصغر کاظمی اردو کے استاد اور مصنف و موَلف بھی ہیں ۔ انہوں نے مولانا حسرت موہانی، پروفیسر ڈاکٹر فرمان فتح پوری، اشتیاق اظہر پر زیادہ لکھا اور کئی کتابیں مرتب کیں ۔ اس کے علاوہ ارددو تنقید اور اردو کے دیگر موضوعات پر ان کی 22 سے زیادہ کتب شاءع ہوچکی ہیں ۔ گزشتہ دنوں ان کا فون آیا، فرمایا کہ آپ سے ملاقات چاہتا ہوں ۔ میں نے کہا کہ آجائیں اتوار کے دن ایک بجے کے بعد ۔ صبح میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں کلاس لینے جاتا ہوں ، گویا ہوئے کہ یونیورسٹی ہی آجاؤں ، میں نے کہا وہاں آجائیں پر گیارہ بجے کے بعدآئے گا ، میری کلاس ختم ہوجاتی ہے ۔ کلاس ختم ہوئی تو کاظمی صاحب ایک عدد بھاری بھرکم پیکٹ کے ساتھ تشریف لے آئے ۔ اِدھر ُادھر کی باتوں کے بعد گویا ہوئے کہ میری چند کتابیں ہیں ، جو میں آپ کے لیے لایا ہوں ان پر پہلے کی طرح اپنی رائے کا اظہار کردیجئے ۔ میں نے کہا ضرور لیکن وقت لگے گا، میرے پاس کچھ کتابیں پہلے سے موجود ہیں ، دیگر موضوعات پر بھی لکھنا ہوتا ہے اس لیے فوری یہ کام نہ ہوسکے گا ۔ فرمایا اپنی سہولت سے کر دیجئے گا ۔ کتاب جیسے بھی آئے، تحفہ میں ملے ، تبصرے کے لیے کوئی دے ، یا خریدی جائے، کتاب بری نہیں لگتی ہے ۔ رہا سوال لکھنے کا تو جب کتاب پڑھنی ٹہری تو پھر اس پر لکھنا کونسا مشکل کام ہے ۔ کاظمی صاحب عمر میں مجھ سے چھوٹے ہیں لیکن ان سے دوستانہ مراسم ہیں ۔ کاظمی صاحب سے تعلق کی کتھا میں ان کی 16کتابوں پر اپنے ایک مضمون میں لکھا چکا ہوں ۔ یہاں وہی کچھ دہرادیتا ہوں تاکہ یاد تازہ ہوجائے’’میَں نے اپنے کالج (گورنمنٹ کالج برائے طلبہ، ناظم آباد ) میں شاید اکتوبر ۷۰۰۲ء میں ایک دھان پان سے انسان کو دیکھا ، شکل صورت سے معصوم سا لگ رہا تھا، سادہ لباس، چشمہ لگا ہوا، گندمی رنگ، سیاہ بال اپنے کام سے کام رکھا کرتا، کلاس لی خاموشی سے اسٹاف روم میں آیا ، کلاس کا وقت ہوا پھر کلا س لینے چلا گیا، ایک دن اس سے قربت حاصل ہوہی گئی معلوم ہوا کہ یہ نوجوان اردو کے استاد ہیں ، تفصیلی تعارف بھی ہوا، اطمینان ہوا کہ یہ صرف ایک استاد ہی نہیں بلکہ لکھنا پڑھنا بھی کیا کرتے ہیں ، شام کے اوقات میں حسرت موہانی میموریل لائبریری ، نارتھ ناظم آباد سے وابستہ بھی ہیں ۔ یہی نہیں بلکہ یہ ایک معروف ادبی جریدے ’’نگارِ پاکستان‘‘ سے بھی بطور مدیر منسلک ہیں ۔ جس کے سرپرست اور مدیر اعلیٰ پروفیسر ڈاکٹر فرمان فتح پوری اور یہ اس کے مدیرہیں ۔ کیونکہ میَں بھی لکھنے کے مرض میں مبتلا ہوں اس حوالے سے اصغرکاظمی سے ملاقاتیں رہنے لگیں ۔ لیکن میں جلد ہی اپنی ملازمت کی مدت پوری ہونے پر ریٹائر ہو گیا ۔ یہی نہیں بلکہ شروع میں جامعہ سرگودھا چلا گیا ایک سال بعد چند ماہ کے لیے سعودی عرب میں قیام رہا ۔ اس طرح اصغر صاحب سے ملاقات میں طویل وقفہ آگیا ۔ واپسی ہوئی اور کالج کبھی کبھار جانا شروع کیا تو اصغرصاحب سے ملاقاتوں کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا ۔ ان ہی کی توسط سے میری کچھ تحریریں نگار پاکستان میں شاءع ہوئیں ۔ ایک دن حسرت موہانی میموریل لائبریری جانا ہوا، باتوں باتوں میں اصغرکاظمی نے خیال ظاہر کیاکہ میَں ان کی کتابوں پر ایک مضمون لکھوں ۔ کتاب ہی تو میرا موضوع ہے میَں نے آمادگی ظاہر کردی، اس بندہ خدا نے موقع غنیمت جانتے ہوئے اسی وقت اپنی ڈھیر ساری کتابیں میری گاڑی میں رکھ
دیں ۔ اب مجھ پر لازم ہوگیا کہ میں ان کی تصانیف و تالیفات کا پوسٹ مارٹم کروں اور ایک تحقیقی مضمون لکھوں ۔ کل 16کتابیں تھیں جن پر میں نے اپنی رائے کا اظہار کیا ،عنوان ہے ’’اردو کے ادیب و نقاد; سید محمد اصغر کاظمی ۔ کی تصانیف و تالیفات کاجائزہ‘‘ ہے جو ہماری ویب پر آن لائن پڑھا جاسکتا ہے ۔ کتابیں درج ذیل تھیں ۔

۱)سب رس اور رانی کیتکی کی کہانی کا تنقیدی جائزہ

۲)خطوط احباب ’’جہان حمد‘‘ اور ارمغانِ حمد میں شاءع شدہ خطوط پر مبنی انتخاب

۳)طاہر باتیں : ماہنامہ ارمغارنِ حمد کے فکری و اصلاحی ادارئے

۴)ڈاکٹر فرمان فتح پوری : ایک ہمہ جہت صاحبِ قلم

۵)ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے تنقیدی زاویئے مختصر مختصر

۶)تنقید نما (دوسروں کی مطبوعات پر ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے دیباچے

۷)تنقید نما : ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے منتخب دیباچے;(جلد دوم)

۸)ڈاکٹر فرمان فتح پوری : تصنیفات و تالیفات کے آئینے میں

۹)اشتیاق اظہر کی صحافتی اور شعری خدمات: مشاھیر کی نظر میں

۰۱)سید اشتیاق اظہر : فن اور شخصیت

۱۱)سید الا حرار رئیس المتغزلین مولانا حسرت موہائی: دانشوروں کی نظر میں

۲۱)مولانا حسرت موہانی کی حمد و نعت اور منقبت گوئی

۳۱)مولانا حسرت موہانی :ایک ہمہ جہت شخصیت

۴۱)مولانا حسرت موہانی کی تذکرہ نگاری

۵۱)مولانا حسرت موہانی کی صحافتی خدمات

۶۱)نشاط النساء بیگم حسرت موہانی : افکار و کردار

یہ بات تھی 2012 ء کی ،اس کے بعدسات سال ان کا قلم چلتا رہا، کتابیں طبع ہوتی رہیں ، اسی دوران انہوں نے مجھ سے ایک کتاب جو حکیم محمد سعید شہید کے خطوط پروفیسر ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے نام تھے ، ان خطوط کو انہوں نے کتابی صورت میں مرتب کیا تھا کا پیش لفظ بھی مجھ سے لکھوایا تھا ۔ ایک اور بھی کتاب تھی اس کا نام معلوم نہیں ، اس کا بھی پیش لفظ انہوں نے لکھوایا تھا ، اب جو کتابیں انہوں نے مجھے دیں ان کی تعداد7ہے ۔ یہ بھی حسرت موہانی، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، علامہ نیاز فتح پوری اوردیگر موضوعات پر ہیں ۔ یہ کتب درج ذیل ہیں ۔

۱)حسرت شناسی کے چند زاویے، ۶۱۰۲ء

۲)حسرت موہانی کی چند نادر و نایاب تحریریں ، ۷۱۰۲ء

۳)حسرت موہانی کی تنقید کی بصیرت، ۸۱۰۲،

۴)فرمان شناسی کے چند گوشے، ۸۱۰۲،

۵)حکیم محمد سعید شہید کے خطوط بنام وفیسر ڈاکٹر فرمان فتح پوری ،۸۱۰۲ء

۶)علامہ نیاز فتح پوری ایک کثیر الجہات شخصیت، ۸۱۰۲،

۷)چند حمد گویانِ اردو، ۸۱۰۲،

ان کتب میں تین مجموعے مولانا حسرت موہانی پر ہیں ’حسرت شناسی کے چندزاویے‘،حسرت موہانی کی چند نادر و نایاب تحریریں اورحسرت موہانی کی تنقید کی بصیرت، اس کے علاوہ دو کتابیں ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے حوالے سے ہیں ایک ’فرمان شناسی کے چند گوشے‘ اور دوسری ’حکیم محمد سعید شہید کے خطوط بنام وفیسر ڈاکٹر فرمان فتح پوری‘، ایک ’علامہ نیاز فتح پوری ایک کثیر الجہات شخصیت‘ اور ایک حمد باری تعالیٰ کے حوالے سے بعنوان ’چند حمد گویانِ اردو‘ ہے ۔ ان کتب سے قبل کاظمی صاحب حسرت موہانی پر پانچ اور ڈاکٹر فرمان فتح پوری پر بھی پانچ کتب مرتب کر چکے ہیں ۔ کہا جاسکتا ہے کہ ان دونوں شخصیات پر اصغر کاظمی کو اتھارٹی حاصل ہے ۔ اس لیے کہ مولولانا حسرت موہانی پر 8کتب اور ڈاکٹر فرمان فتح پوری پر 7کتب تصنیف و تالیف کرنا ان دونوں علمی و ادبی شخصیات سے کاظمی صاحب کی محبت اور عقیدت ظاہر ہوتی ہے ۔ ان کتب کی مختصر تفصیل کچھ اس طرح ہے ۔

’حسرت شناسی کے چند زاویے‘ میں حسرت موہانی کا سوانحی خاکہ کے علاوہ ان کی نعت گوئی، منقبت گوئی، غزل گوئی، گیت نگاری کے علاوہ غزلیں ، سیاسی خدمات ، صحافتی خدمات ، مولانا کی تذکرہ نگاری ، مراسلہ نگاری اور ان کی زندگی کے چند ناقابل فراموش واقعات پر مبنی یہ کتاب مولانا حسرت موہانی پر ایک خوبصورت حوالہ ہے ۔ کتاب کی اشاعت 2016 میں اوقار پبلی کیشنز نے کی ۔

’حسرت موہانی کی چند نادر و نایاب تحریریں ‘، جیسا کہ اس کتاب کے عنوان سے ظاہر ہے یہ تصنیف مولانا حسرت موہانی کی نادر و نایاب تحریروں کا مرقع ہے ۔ کتاب چار حصوں پر مشتمل ہے ادبی حصہ میں اندر سبھا امانت، لکھنوَ کا دبستان شاعری اور تذکیرو ثانیث پر مشتمل ہے ۔ حصہ دوم شاعری پر مختلف احباب کے تنقید ی مضامین ہیں ، تیسرے حصے میں خطباتِ صدارت اور چوتھا حصہ سفرنامے پر مشتمل ہے ان میں سفرنامہ عراق اور سفر نامہ حجازہے ۔ مجموعی طور پر یہ کتاب مولانا حسرت موہانی پر تحقیق کرنے والوں کے لیے مفید اور قیمتی حوالہ ہے ۔

حسرت موہانی کی تنقید کی بصیرت‘ میں حسرت موہانی پر مختلف معروف لکھنے والوں کے مضامین ہیں ان میں عبدالشکور، شمس الرحمٰن فاروقی، جابر علی سید، پروفیسر شفقت رضوی، ڈاکٹر خلق انجم، پروفیسر اشتیاق طالب، محسن اعظم محسن ملیح آبادی، غالب عرفان، پروفیسر محمد سعید اختر اور محمد صابر جمیل شامل ہیں ۔ دس مضامین کا یہ مجموعہ حسرت موہانی کی تحریروں کا تنقیدی جائزہ پیش کرتا ہے ۔

فرمان شناسی کے چند گوشے‘، ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی تصانیف و تالیفات پر تبصرہ اور اظہار خیال ہے جسے فرمان شناسی کا نام دیا گیا، مصنف کے لکھے ہوئے یہ تبصرے مختلف رسائل و جرائد اور اخبارات میں شاءع ہوئے جنہیں انہوں نے جمع کر کے کتابی صورت دی ۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی تصانیف و تالیفات کے حوالے یہ ایک کا مفید مجموعہ ہے ۔

علامہ نیاز فتح پوری ایک کثیر الجہات شخصیت‘کے عنوان سے یہ مجموعہ 17مضامین کا مجموعہ ہے ۔ مختلف لکھاریوں نے علامہ نیاز فتح پوری شخصیت، اسلوب نگاری، علامہ کا نگار سے تعلق، ان کی جامعیت اور انفرادیت، علامہ کی بنیاد پرستی، ان کی دانش وری، اردو فکشن کی ترقی میں نیاز فتح پوری کا حصہ وغیرہ مضامین شامل ہیں ۔ لکھنے والوں میں دیگر کے علاوہ ڈاکٹرفرمان فتح پوری، ڈاکٹر سجاد باقر رضی، ڈاکٹر مسعود حسین، رشید حسن خان، ڈاکٹر سید عبداللہ، ڈاکٹر وزیر آغا، ڈاکٹر خلیق انجم اور دیگر شامل ہیں ۔

چند حمد گویانِ اردو‘ حمد باری تعالیٰ اس کا موضوع ہے ۔ نعتیہ نشاعری یا نعت گوئی پر تو زیادہ لکھا گیا، البتہ حمد گوئی پر کم کم ہی لکھا گیا ہے اصغر کاظمی نے اس موضوع پر کتاب مرتب کر کے اس موضوع پر خاصا مواد فراہم کردیا ہے ۔ اردو میں حمدیہ شاعری یا حمد گوئی اتنی ہی قدیم ہے جتنی اردو زبان ۔ مجموعہ میں حمد کی تعریف، اردو میں حمد نگاری کی روایت، بہزاد لکھنوی کے حمد یہ سرمائے کا جائزہ، بہزاد لکھنوی کے حمد یہ کلام کا تنقیدی جائزہ، ابرار کرت پوری کی حمد نگاری اور انعام گوالیاری کی حمد نگاری جیسے مضامین کے علاوہ مختلف شعرا کی کہی ہوئی حمد اور ان کے بارے میں اظہار خیال بھی کیا گیا ہے ۔ جیسے ظفر عمر زبیری کی حمد یہ شاعری، افسر ماہ پوری کی حمد یہ شاعری، شمیم ٹھٹھوی کی حمد یہ شاعری،محمد جان عاطف کی حمد یہ شاعری،ذاکر علی خان کی حمدیہ شاعری،پرو فیسر وصی احمد وفا صدیقی کی حمد یہ شاعری، نگار فاروقی کی حمد یہ شاعری، مسعود خان کی حمد یہ شاعری،تنویر حرا کی شاعرہ قمر سلطانہ، پیرزادہ سید ظفر ہاشمی کی حمد و نعت گوئی شامل ہے ۔ اپنے موضوع پر عمدہ کتاب ہے ۔

’حکیم محمد سعید شہید کے خطوط بنام وفیسر ڈاکٹر فرمان فتح پوری ‘،اس کتاب پر میرا لکھاہوا پیش لفظ ہے ۔ اس لیے وہی باتیں یہاں نقل کررہا ہوں ۔ حکیم محمد سعید شہید کے خطوط علم و ادب کے معروف استاد، نثر نگار، تنقید نگار،دانش ور پروفیسر ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے نام لکھے گئے خطوط کا مجموعہ ہے ۔ ایک اہل علم کے خطوط دوسرے علم و دانش کے نام ،دانش و حکمت کا اعلیٰ نمونہ اور ادب میں حسین اضافہ ہے ۔ یہ امر باعث مسرت ہے کہ موَلف نے حکیم محمد سعید شہید کے خطوط ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے نام مرتب کر کے علم و ادب کے مواد میں قابل قدر اضافہ کیا ہے ۔ اس نوع کے علمی کام اس سے پہلے بھی ہوتے رہے ہیں اور ہوتے رہنے چاہیے، ان کی علمی ، ادبی اہمیت ہے ، خطوط کے ذریعہ کسی بھی اہل علم کے خیالات،نظریات سامنے آتے ہیں جو تحقیق کرنے والوں کے لیے تحقیق میں معاون ہوتے ہیں ۔ غالب ; کو بجا طور پر خطوط نگاری کا بابائے آدم کہا جاتا ہے ، غالب ;کے خطوط صنفِ ادب کا اولین سنگ میل شمار ہوتے ہیں ۔

میری خوش بختی ہے کہ میری مکتوب نگار اور مکتوب الیہ یعنی محترم حکیم محمد سعید شہید اور ڈاکٹر فرمان فتح پوری مرحوم سے شناسائی رہی، حکیم صاحب پرکئی مضامین لکھے ، ڈاکٹر فرمان فتح پوری پربھی مضامین لکھے، دونوں سے علم و ادب اور پیار و محبت کا رشتہ تھا ۔ حکیم سعید سے کتاب اور کتب خانوں کی ترقی اور فروغ ہمارے درمیان تعلق تھا ۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری سے میری شناسائی اور عنایت کئی سالوں پر محیط رہی ۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری اہل علم و دانش کے لیے ایک سرمایہ تھے ۔ قیام پاکستان کے بعد ’نگارِ پاکستان‘ کی تدوین و اشاعت کا بار ڈاکٹر صاحب کے کاندھوں پر آن پڑاتھا جسے انہوں نے خوش اسلو بی کے ساتھ اپنی آخری سانسوں تک نبھایا ۔ کاظمی صاحب نے ڈاکٹر فرمان فتح پوری کومختلف انداز سے اپنا موضوع بنایا ۔ متعدد کتابیں ڈاکٹر صاحب کے حوالے سے مرتب کیں ۔

پیش نظر تصنیف میں شامل حکیم محمدسعید شہید کے خطوط مختلف موضوعات کا احاطہ کرتے ہیں ۔ ان خطوط میں حکیم صاحب ڈاکٹر صاحب کو علمی و ادبی موضوعات پر لکھنے اورگفتگو کی دعوت دیتے نظر آتے ہیں ، شکرگزاری کرتے ہوئے، مشورہ کرتے ہوئے، مشوروں پر احسان مند ہوتے نظر آتے ہیں ۔ یہ بات بھی قابل ستائش ہے کہ ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے حکیم صاحب کے خطوط کو حفاظت سے رکھا، ان کے تمام خطوط جمع کرتے رہے اور یہ بات اور بھی خوش آئند ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے ان خطوط کو ایک ایسی علمی وادبی شخصیت کے سپرد کردیا جو خطوط کی اہمیت سے واقف، حکیم محمد سعید اور ڈاکٹر فرمان فتح پوری سے عقیدت و محبت رکھتے ہیں ۔ موَلف مکاتیبی ادب کی تدوین کے آداب سے کمہ حقہ‘ واقف ہیں ، عملاً انہیں برتنے کی استعداد رکھتے ہیں ۔ یہ ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے تربیت یافتہ ہیں ،انہوں نے ڈاکٹر صاحب مرحوم کو کام کرتے دیکھا ہے، ان کی سرپستی میں انہوں نے طویل عرصہ تک ادبی ، تصنیفی کام بھی کیا ہے ۔ انہوں نے مکتوبات کو یکجا کرکے ایک بہت بڑا علمی کام انجام دیا ہے ۔ حکیم محمد سعید شہیدکے خطوط کو زمانے کے ہاتھوں تلف ہونے سے محفوظ رکھا، سلیقے سے ، ہنر مندی کے ساتھ ان خطوط کو یکجا کرکے کتابی شکل میں پیش کردیاہے ۔ خطوط کا یہ مجموعہ حکیم محمد سعید اور ڈاکٹر فرمان فتح پوری پر تحقیق کرنے اور مضامین تخلیق کرنے میں کسیبھی محقق کے لیے ایک بنیادی حوالہ اور ماخذ ہوگا ۔ اس عمدہ کام پر سیدمحمد اصغر کاظمی مبارک باد کے مستحق ہیں ۔ افسوس مکتوب نگار اور مکتوب الیہاب اس دنیا میں نہیں ، انہوں نے ادبی دنیا کو جس علمی و ادبی خزانے سے مالا مال کیا وہ رہتی دنیا تک انہیں زندہ و تابندہ رکھے گا ۔ اس تحریر کے ساتھ اصغر کاظمی صاحب کی 22کتابوں پر میری رائے یا تبصرہ دو مضامین کی صورت میں سامنے آچکا ہے ۔ امید واثق ہے کہ ان کی تصانیف و تالیفات کے بارے میں میری رائے قارئیں اور ان موضوعات پر تحقیق کرنے والوں کے لیے مفید ثابت ہوں گے
 

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 865 Articles with 1437671 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More