پانی کی قلت موجودہ دہائی کے اہم مسئلوں میں سے ایک
ہے-دیکھا جائے تو پاکستان سب سے ذیادہ پانی استعمال کرنے والے ممالک میں
چوتھےنمبر پر ہےلیکن پانی زخیرہ کرنے کا اہتمام اتنا ہو رہا ہے کہ صرف 30
دن کا پانی محفوظ کرسکتا ہے-یعنی اگرقدرتی اسباب ختم ہو جائیں تو ہمارے ملک
کےپاس صرف تیس دن کا پانی ہوگااور خدانخواستہ اکتسویں دن پر ہر جگہ موت رقص
کرےگی-عالمی ریکارڈ اٹھا کر دیکھے جایئں تو ہر ترقی یافتہ ملک میں باقاعدہ
"water policy "نظر آتی ہے-ہمارا ہمسایہ ملک بھارت 100 دن کا پانی محفوظ کر
سکتا،مصر ہزار دن کا اور امریکہ 900 دن تک کا پانی محفوظ رکھ سکتا ہے-
اعدادوشمار کے مطابق15 میٹر سےبلند صرف 150چھوٹے ڈیم موجود ہیں. اس لئے ڈیم
بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے-سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اس اہم کام کا
بیڑا اٹھایا جو قابل ستائش اور قابل تقلید ہے-UNDPاور IMPکی تازہ رپورٹ کے
مطابق پاکستان کو منگلا ڈیم جیسے تین ڈیموں کی اشد ضرورت ہے ورنہ 2040 میں
بوند بوند کو ترسیں گے. جبکہ غفلت میں ڈوبی قوم ہر سال 21ارب کا پانی ضائع
کر کے سمندر میں بہا دیتی ہے- قوت اتحاد سے ناپید ہونے کی وجہ سے پہلے ہی
کالا باغ ڈیم سیاست کی نظر ہو چکا ہے- صوبہ سندھ کے تحفظات دور کرنے لئے
فیصل راوڈا جو کہ خود سندھی امید ہے کہ موئثر ثابت ہونگے. حقائق سے پردہ
اٹھایا جائے تو ملک خدادا کو" Water policy" مرتب کرنے کی ضرورت ہے.تمام
ارباب اختیار اور ٹیکنوکریٹ کو ایک پلاٹ فارم پر جمع ہو کر Techniqal
negotiationsکرنی چاہیئے تا کہ غیر ملکی کمپنیوں پر انحصار کرنے کی بجائے
ہم خود اپنے پیروں پر کھڑے ہو سکیں.ایک حراف Chinese company کے ساتھ
تنازعات کی بازگشت سنائی دیتی ہے اور دوسری طرف Wapda سے معاملات سنبھالے
نہیں سنبھلتے.
اس زمرے میں شاھد خاقان عباسی نےبھی 25April 2018کو Water policy کا اعلان
کیا تھاجس کے تحت بجٹ میں10 ارب ڈالر ڈیم کی تعمیر کے لئے مختص کرنے کا
عندیہ دیا گیا.سابقہ حکومتوں کی کاوشوں اور کوتاہیوں سے قطع نظر آج
بھیWater policy قابل عمل حالت میں نظر نہیں آتی.مثال کے طور پر اگر دریائے
سوات پر مہمند ڑیم بنایا جاتا تو نا صرف پچھلے دس سالوں میں آنے والے
سیلابوں سے بچا جاسکتا تھا بلکہ خطے میں زراعت اور روزگار کے مواقع بھی
بڑھتے- اب ہوش میں آئے ہیں تو Infrasyructureکی کمی اور Funding Strategy
مرتب نہ ہوسکنے کی رکاوٹیں سامنے آرہی ہیں.ایک سال سے فنڈ جمع کیے جا رہے
ہیں لیکن کام ہوتا کہیں دکھائی نہیں دے رہا-چیف جسٹس کے ریٹائر ہوتے ہی
معاملہ سست روی کا شکار ہے-اس امر میں سعودیہ عرب سے 37کروڈ 50 لاکھ ریال
کی امداد ڈیم بنانے کے لئے ملنے کا امکان ہے.جو آخری امید نہ سہی لیکن امید
کی ایک کرن ضرور ہے-خواص کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی اس کام میں ہمہ تن گوش
کاوشیں کرنی چاہیئے-کیونکہ پانی کی فراہمی بھی افضل ترین صدقہ ہے- بڑی بڑی
مسجدیں بنا کر خود کو جنت کے وارث سمجھنے والے امراء کاش کہ وہ پیسہ اپنے
آنے والی نسلوں کے روشن مستقبل کے لئے مختص کریں. انفرادیت کو ترک کر کے
قومیت کے لئے سوچیں!!!!
اب ایک سال گذر گیا ہے تو نا ڈیم کا پتا ہے نا ڈیم کے معماروں کا۔ کونسی
کمیٹی کام کررہی ہے نقشہ کہاں ہے ؟ قوم کا دیا گیا پیسہ کہاں گیا؟ کسی کو
کچھ خبر نہیں۔ لگتا ہے حکومت نے اس منصوبے کو پرانا اخبار سمجھ کر ردی میں
ڈال دیا ہے۔ اوپر سے بھارتی سرکار پانی چھوڑ رہی ہے اور سیلاب کا خطرہ
منڈلا رہا ہے۔ الغرض کہ پشاور میٹرو کی طرح ڈیم بھی حالیہ حکومت کے ناکام
منصوبوں میں شامل ہو چکا۔ الاماشاءاللہ
|