خبر چونکا دینے والی تھی اور
ساتھ ہی ساتھ اطمینان بخش بھی۔وہ یوں کہ اب وفاقی حکومت نے معزز اور منتخب
عوامی نمائندوں کی قیمتی جانوں کی حفاظت کا نہایت ہی معقول بندوبست کرلیا
ہے ۔ اب پارلیمنٹ لاجز سے پارلیمنٹ ہاؤس تک زیر زمین راستہ بنایا جائے گا،
جس میں سے گزر کر ہمارے نمائندے بخیر و عافیت اسمبلی میں پہنچ جایا کریں گے
، جہاں وہ مہنگائی، بدامنی ، بے روزگاری، لوڈشیڈنگ، ٹیکسز ، دہشت گردی اور
ایسے ہی دیگر عوامی مسائل پر سیر حاصل بحث کیا کریں گے اور ان کے بارے میں
قانون سازی کا فریضہ نبھایا کریں گے،عوام کی فلاح و بہبود اور حفاظت وترقی
کے منصوبے بنایا کریں گے۔
حکومت نے یہ انقلابی اقدام کابینہ کمیٹی برائے کابینہ سیکریٹریٹ کے فیصلے
کے بعد کیا،اب ان معزز ارکان کی حفاظت کا مسئلہ مستقل حل ہوجائے گا، اب
ہمارے محترم نمائندے اپنی سرکاری رہائش گاہ سے ہی ایک وسیع و عریض ، روشن
سرنگ میں داخل ہونگے اور کچھ ہی دیر بعد وہ اسمبلی ہال میں بیٹھے ہونگے۔ ان
کو اس ”طویل “ سفر کی صعوبت بھی برداشت نہیں کرنی پڑے گی، یہ فاصلہ بیٹریوں
پر چلنے والی گاڑیوں پر طے ہوگا، یہ گاڑیاں آرائش وزیبائش کے بہترین نمونے
ہونگی، لوڈشیڈنگ کے اس زمانے میں بھی وہاں دن کا سماں ہوگا، کہ لوڈشیڈنگ کی
سوغات صرف عوام کے لئے ہے،یہ بھی ممکن ہے کہ لفٹ کا نظام قائم کردیا جائے
تاکہ ہمارے نازک مزاج نمائندوں کو ایک قدم بھی پیدل چلنے کی زحمت نہ اٹھانی
پڑے۔
اس زیر زمین راستے کے باوجود ہمارے نمائندوں کو ایک پریشانی کا سامنا کرنا
پڑ سکتا ہے،وہ یہ کہ پارلیمنٹ لاجز سے پارلیمنٹ ہاؤس تک تو یہ لوگ محفوظ
ہوجائیں گے ، مگر اس سے پہلے اپنے اپنے علاقوں سے آتے وقت بھی سکورٹی کے
خدشات سے واسطہ پڑ سکتا ہے، کیونکہ ان کے آبائی علاقوں سے پارلیمنٹ لاجز تک
کسی زیرزمین راستے کا بندوبست نہیں ہے۔ اب مذکورہ کمیٹی کو نئی منصوبہ بندی
کرنی چاہیے ، اس کا ایک حل تو یہ ہے کہ ہر صوبے کے ارکان اسمبلی اپنے
صوبائی صدر مقام پر جمع ہوں ، جہاں سے ایک زیر زمین راستے کے ذریعے انہیں
اسلام آباد لایا جائے، لیکن صوبائی صدر مقام تک پہنچنے میں بھی کوئی ناخوش
گوار واقعہ پیش آسکتا ہے،اس لئے پہلے وہ لوگ اپنے اپنے ضلعی شہر پہنچیں،
جہاں سے صوبے کے لئے کسی زیرزمین راستے میں داخل ہوجائیں۔
یہاں بھی یہ مسئلہ بنے گا کہ بعض اوقات ضلعی صدر مقام کے لئے بھی سیکڑوں
کلومیٹر سفر کرنا پڑ جاتا ہے،اس کا بہترین حل یہ ہے کہ ہر رکن اسمبلی کے
گھر سے ہی سرنگ کا انتظام کیا جائے، جو تحصیل اور ضلع سے ہوتی ہوئی اپنے
اپنے صوبائی دارالحکومت میں پہنچے گی اور پھر چار سرنگیں اسلام آباد پہنچ
جائیں گی ، یوں اللہ کے فضل وکرم سے ہمارے ہیروز بحفاظت اسلام آباد پہنچنے
میں کامیاب ہوجائیں گے۔ یہاں یہ مسئلہ بھی سر اٹھائے گا کہ ایک دفعہ ایک
ممبر اسمبلی کے گھر سے سرنگ تعمیر ہوگی ، اگلی دفعہ اگر وہ انتخابی میدان
میں مد مقابل سے مات کھا گیا ، تو ایک نئی سرنگ نئے ممبر کے گھر سے کھودنی
پڑے گی، یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں، اپنے حکمرانوں کے پاس وسائل کی کمی نہیں،
ویسے بھی آج اگر ایک بڑا کامیاب ہوا ہے تو کل دوسرے کی باری ہے ۔ ہمارے ملک
میں ”سابق “ ہوجانے کے باوجود مراعات جاری رہتی ہیں۔
کسی کو اس بات کا غم کھانے کی ضرورت نہیں کہ یہ لوگ عوام کے مسائل کیسے حل
کریں گے، عوام کو جان لینا چاہیے کہ ان اربوں روپے سرنگوں پر لگانے والے
لوگوں سے کسی بہبود اور ترقی کی بات کرنا بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف
ہے،سرنگوں میں سفر کرنے والے یہ ”عوامی نمائندے“ گھلتے عوام کے غم میں ہیں
، مرتے اپنے مفاد کے پیچھے ہیں۔ زیر زمین سرنگوں میں چلنے والی اس مخلوق کی
نظر اتنا دور بھی نہیں دیکھ سکتی کہ جب یہ ”زیر زمین“ چلے جائیں گے ، تو
ملک اور دنیا کا نظام پھر بھی چلتا رہے گا، اور معاشرے میں کوئی ان کا نام
لیوا بھی نہ ہوگا۔ |