آٹھ ستمبر ۲۰۱۵ء کو عدالت عظمیٰ پاکستان نے دستور کی شق
۲۵۱ کی منشاء کے مطابق فوری طور پر قومی زبان اردو کو پاکستان کی سرکاری،
دفتری اور تدریسی زبان کے طور پر رائج کرنے کا حکم دیا۔ عدالت عظمیٰ کے
دوٹوک فیصلے کے باوجود حکمران مسلسل توہین عدالت کا ارتکاب کررہے ہیں۔ بات
یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ قائداعظم ؒ نے ۲۵ فروری ۱۹۴۸ء کو اردو کو پاکستان
کی قومی زبان قرار دیا اور اسی روز پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے اس
کی توثیق کی ۔ حکمران اور بیوروکریسی نے کمال مہارت سے انگریزی کے تسلط کو
جاری رکھنے کے لیے نت نئے بہانے تراشے ۔ ۱۹۵۶ء کے دستور میں اردو کو قومی
زبان قرار دیتے ہوئے دس سال کی معیاد مقرر کی گئی لیکن نفاذ اردو کے لیے
ایک قدم بھی نہیں اٹھایا گیا، ۱۹۶۲ء کے دستوربنا تو تب بھی اردو کو قومی
زبان قرار دیتے ہوئے دس سالوں میں سارے نظام مملکت کو اردو میں منتقل کرنے
کا حکم دیا گیا۔ ۱۹۷۳ء کے دستور میں ایک بار پھر اردو کو قومی زبان قرار
دیتے ہوئے پندرہ سالوں میں نظام مملکت کو قومی زبان میں منتقل کرنے کی مہلت
دی گئی۔ دستور کی منشاء پوری کرنے کے لیے حکومت نے کوئی عملی اقدام نہیں
اٹھایا۔ اس دوران جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ کیا اور ۱۹۷۹ ء میں
انہوں نے دستور کی شق ۲۵۱ کی منشاء کے مطابق ’’مقتدرہ قومی زبان‘‘ کا ادارہ
قائم کرکے نفاذ اردو کے لیے عملی اقدامات اٹھانے کی ذمہ داری دی۔ اس ادارے
نے۱۹۸۸ء تک مسلسل کام کرنے کے بعد صدر مملکت کو رپورٹ دی کہ اردو زبان کے
نفاذ کے لیے تمام ضروری اقدامات کرلیے گئے ہیں اور حکومت اردو میں دفتری
کام شروع کرسکتی ہے۔ اسی دوران جنرل ضیاء الحق ایک حادثے میں جان بحق ہوگئے
اور نفاذ اردو کا کام کھٹائی میں پڑ گیا۔
نفاذ اردو کے حوالے حکومتی بے اعتنائی سے نفاذ اردو کے لیے جدوجہد کرنے
والے طبقے میں مایوسی پھیل گئی۔ ۲۰۰۲ء میں کئی ایک افراد نے عدالت کا
دروازے پر دستک دی اور قومی زبان کے لیے انصاف طلب کیا۔ عدالتوں نے تاخیری
تدابیر کے تحت یہ مقدمہ ۲۰۱۴ تک لٹکائے رکھا۔ جب بھی عوام کی طرف سے نفاذ
اردو کا مطالبہ کیا جاتا تو حکومت یہی عذر پیش کرتی کہ معاملہ عدالت میں
زیرسماعت ہے، فیصلہ ہونے پر اردو نافذ کردی جائے گی۔ ۲۰۱۵میں جسٹس جواد ایس
خواجہ کی سربراہی میں ایک پینل نے اس کیس کو ترجیحی بنیادوں پر سماعت شروع
کی اور چند ماہ کی سماعت کے بعد بلآخر ۸ ستمبر ۲۰۱۵ء کو نفاذ اردو کا حتمی
فیصلہ آگیا۔نوازشریف حکومت نے نفاذ اردو کے لیے قلیل المدتی اور طویل
المدتی لائحہ عمل کی منظوری دیتے ہوئے نفاذ اردو پر کام شروع کردیا اور
نفاذ اردو کی پیش رفت کی نگرانی کرنے کے لیے تین اراکین کابینہ پر مشتمل
خصوصی کمیٹی وفاقی وزیر عرفان صدیقی کی سربراہی میں قائم کی۔ عرفان صدیقی
معروف قلم کار ہونے کے باوجود نفاذ اردو کو کھٹائی میں ڈالنے کی سازش کرتے
رہے اور چند ایک نمائشی اقدامات کے علاوہ کوئی کام نہ کرسکے۔ ان کی حکومت
ختم ہونے کے بعد عبوری دور میں بھی خاموشی برقرار رہی۔ تحریک انصاف کی
حکومت نے شفقت محمود کی سربراہی میں نفاذ اردو کمیٹی قائم کی جو خود نفاذ
اردو کا شدید مخالف ہے۔ یہ کمیٹی اپنے قیام سے اب تک کوئی ایک قدم بھی آگے
نہیں بڑھ سکی۔ قومی زبان کے نفاذ کی راہ میں روڑے اٹکانے اور قائداعظم ؒ کے
فرامین کو پس پشت ڈالنے میں لیاقت علی خان سے عمران خان تک سارے سربراہان
مملکت سوائے جنرل ضیا ء الحق کے سب کا کردار یکساں رہا ۔ عمران خان تو
یکساں نظام تعلیم اور قومی زبان کے نفاذ کے نعرے کے ساتھ انتخاب جیتے تھے
لیکن وہ بھی اس پر توجہ نہیں دے سکے۔
پاکستان میں انگریزی کے ناجائز غلبے کی وجہ سے ملک معاشی، معاشرتی، سیاسی
اور سماجی بدحالی سے دوچار ہے ۔انگریزی زبان میں تعلیم دینا ایسا ہی ہے
جیسے ہم لاکھوں حفاظ قرآن تیار کرلیتے ہیں جو قرآن کے ایک حرف کا ترجمہ یا
فہم نہیں رکھتے۔ اسی طرح پاکستانی ڈگری یافتہ افراد بھی رٹہ لگا کر ڈگریاں
حاصل کرلیتے ہیں لیکن علم و فہم حاصل نہیں کرپاتے۔ پاکستان کے موجودہ چیف
اور سابقہ چیف جسٹس بھی اس امر کا اظہارکرچکے ہیں کہ ہمارے جج حضرات
انگریزی نہ جاننے کی وجہ سے بروقت اور درست فیصلے نہیں کرپاتے۔قومی زبان کی
اہمیت ، ضرورت سے ہر فرد آگاہ ہے۔ دنیا کے سارے ممالک میں قومی زبانوں میں
تعلیم دی جاتی ہے اور نظام مملکت بھی قومی زبان میں چلایا جاتا ہے۔ صرف
پاکستان ہی دنیا کی واحد بدقسمت ریاست ہے جہاں بچوں کو جبرا غیر ملکی زبان
پڑھائی جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے پچاس فیصد بچے پرائمری سطح پر سکول چھوڑ جاتے
ہیں، بقیہ پچیس فیصد میٹرک اور ایف اے میں تعلیم چھوڑنے پر مجبور ہوتے
ہیں۔بمشکل چار سے پانچ فیصد طلبہ یونیورسٹیوں تک پہنچتے ہیں اور وہ سی ایس
ایس کے امتحان میں فیل ہوکر مایوسی کے دلدل میں پھنس جاتے ہیں۔ حال ہی میں
پنجاب پبلک سروس کے مقابلے کے امتحان میں پاس ہونے والوں کا تناسب 0.53فیصد
رہا۔
انگریزی زبان کے ذریعے ہمارے ٹیلنٹ کاقتل عام کیا جارہا ہے۔ اگر پرائمری سے
یونیورسٹی سطح تک قومی زبان میں تعلیم دینے کا اہتمام ہو جائے اور انگریزی
کو بطور لازمی مضمون پڑھایا جائے تو ہماری قوم چند سالوں میں دنیا کی ترقی
یافتہ قوموں کی صف میں شامل ہوسکتی ہے۔حکمرانوں اور نوکرشاہی کو قومی زبان
کے نفاذ کے لیے آمادہ کرنے کے لیے ہر محب وطن کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
تحریک نفاذ اردو پاکستان نے ۸ ستمبر سے ملک گیر دستخطی مہم شروع کرنے کا
اعلان کیا ہے، ہم سب کا فرض ہے کہ اس دستخطی مہم کو کامیاب کریں اور حکومت
کو مجبور کریں کہ وہ غیر ملکی زبان کو ختم کرکے قائداعظم کے فرامین، دستور
پاکستان کی منشاء اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق قومی زبان اردو کو نافذ
کرے۔
|