عنوانات...
(1)ایک واقعہ قبل از اعلان نبوت
(2)دوسرا واقعہ بعد از اعلان نبوت
(3) جنگ فجار
نوٹ....ان تین واقعات سے انشاءاللہ آپکو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی
شان مبارکہ کا اندازہ بھی ھو گا اور اسلام کی حقیت بھی نمایاں ھوگی اللہ
تعالی مجھے اور آپکو سمجھنے اور عمل کی توفیق عطا فرماۓ...
اعلانِ نبوّت سے پہلے
جنگِ فجار:۔
اسلام سے پہلے عربوں میں لڑائیوں کا ایک طویل سلسلہ جاری تھا۔ انہی لڑائیوں
میں سے ایک مشہور لڑائی “جنگ فجار” کے نام سے مشہور ہے۔ عرب کے لوگ
ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور رجب، ان چار مہینوں کا بے حد احترام کرتے تھے
اور ان مہینوں میں لڑائی کرنے کو گناہ جانتے تھے۔ یہاں تک کہ عام طور پر ان
مہینوں میں لوگ تلواروں کو نیام میں رکھ دیتے۔ اور نیزوں کی برچھیاں اتار
لیتے تھے۔ مگر اس کے باوجود کبھی کبھی کچھ ایسے ہنگامی حالات درپیش ہو گئے
کہ مجبوراً ان مہینوں میں بھی لڑائیاں کرنی پڑیں۔ تو ان لڑائیوں کو اہل عرب
“حروب فجار” (گناہ کی لڑائیاں) کہتے تھے۔ سب سے آخری جنگ فجار جو “قریش”
اور “قیس” کے قبیلوں کے درمیان ہوئی اس وقت حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم
کی عمر شریف بیس برس کی تھی۔ چونکہ قریش اس جنگ میں حق پر تھے، اس لئے ابو
طالب وغیرہ اپنے چچاوں کے ساتھ آپ نے بھی اس جنگ میں شرکت فرمائی۔ مگر کسی
پر ہتھیار نہیں اٹھایا۔ صرف اتنا ہی کیا کہ اپنے چچاوں کو تیر اٹھا اٹھا کر
دیتے رہے۔ اس لڑائی میں پہلے قیس پھر قریش غالب آئے اور آخر کار صلح پر اس
لڑائی کا خاتمہ ہو گیا۔ (سيرت ابن هشام ج۲
ص۱۸۶)https://qalamdan.net/archives/2401
حلف الفُضول:۔
روز روز کی لڑائیوں سے عرب کے سیکڑوں گھرانے برباد ہو گئے تھے۔ ہر طرف
بدامنی اور آئے دن کی لوٹ مار سے ملک کا امن و امان غارت ہو چکا تھا۔ کوئی
شخص اپنی جان و مال کو محفوظ نہیں سمجھتا تھا۔ نہ دن کو چین، نہ رات کو
آرام، اس وحشت ناک صورتِ حال سے تنگ آکر کچھ صلح پسند لوگوں نے جنگ فجار کے
خاتمہ کے بعد ایک اصلاحی تحریک چلائی۔ چنانچہ بنو ہاشم، بنو زہرہ، بنو اسد
وغیرہ قبائل قریش کے بڑے بڑے سردار ان عبداللہ بن جدعان کے مکان پر جمع
ہوئے اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے چچا زبیر بن عبدالمطلب نے یہ
تجویز پیش کی کہ موجودہ حالات کو سدھارنے کے لئے کوئی معاہدہ کرنا چاہیے۔
چنانچہ خاندان قریش کے سرداروں نے ” بقائے باہم ” کے اصول پر ” جیو اور
جینے دو ” کے قسم کا ایک معاہدہ کیا اور حلف اٹھا کر عہد کیا کہ ہم لوگ:
(1) مسافروں کی حفاظت کریں گے۔
(2) ملک سے بے امنی دور کریں گے۔
(3) مظلوم کی حمایت کریں گے۔
(4) غریبوں کی امداد کرتے رہیں گے۔
(5) کسی ظالم یا غاصب کو مکہ میں نہیں رہنے دیں گے۔
اس معاہدہ میں حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بھی شریک ہوئے اور آپ
کو یہ معاہدہ اس قدر عزیز تھا کہ اعلانِ نبوت کے بعد آپ صلی اللہ تعالیٰ
علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ اس معاہدہ سے مجھے اتنی خوشی ہوئی کہ اگر اس
معاہدہ کے بدلے میں کوئی مجھے سرخ رنگ کے اونٹ بھی دیتا تو مجھے اتنی خوشی
نہیں ہوتی ۔اور آج اسلام میں بھی اگر کوئی مظلوم “یاآل حلف الفضول ” کہہ کر
مجھے مدد کے لئے پکارے تو میں اس کی مدد کے لئے تیار ہوں۔
اس تاریخی معاہدہ کو “حلف الفضول” اس لئے کہتے ہیں کہ قریش کے اس معاہدہ سے
بہت پہلے مکہ میں قبیلہ “جرہم” کے سرداروں کے درمیان بھی بالکل ایسا ہی ایک
معاہدہ ہوا تھا۔ اور چونکہ قبیلۂ جرہم کے وہ لوگ جو اس معاہدہ کے محرک تھے
ان سب لوگوں کا نام “فضل” تھا یعنی فضل بن حارث اور فضل بن وداعہ اور فضل
بن فضالہ اس لئے اس معاہدہ کا نام “حلف الفضول” رکھ دیا گیا، یعنی ان چند
آدمیوں کا معاہدہ جن کے نام “فضل” تھے۔ (سيرت ابن هشام ج۱ ص۱۳۴)
میثاق مدینہ
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مدینہ ہجرت کے بعد یہاں کی آبادی
(خصوصاً یہود) کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جو میثاق مدینہ کے نام سے موسوم ہے۔
یہ پہلا بین الاقوامی تحریری معاہدہ ہے۔ بعض مورخین میگنا کارٹا کو پہلا
بین الاقوامی معاہدہ قرار دیتے ہیں حالانکہ میثاق مدینہ 622ء میں ہوا جبکہ
میگنا کارٹا 600 سالوں بعد 1215ء میں انگلستان کے شاہ جان اول کے زمانے میں
ہوا۔
میثاق مدینہ میں 53 دفعات شامل تھیں۔ اس کی سب سے اہم خصوصیت یہ تھی کہ
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہود سے اپنی سیادت تسلیم کرائی جو
صدیوں سے مدینہ کی سیادت کرتے چلے آ رہے تھے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آمد کے وقت مدینہ میں تین یہودی
قبائل بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنو قریظہ تھے۔
معاہدے کی وجوہات
میثاق مدینہ کی اہم وجوہات یہ ہیں:
مسلمانوں کی آمد سے قبل یا مدینہ میں اسلام کی روشنی سے قبل یہودی شہر کے
تمام معاملات پر چھائے ہوئے تھے۔ سیاست، اقتدار، معیشت غرض کے ہر شعبہ
یہودیوں کے ہاتھ میں تھا اب بھلا وہ کیسے برداشت کر سکتے تھے کہ ان کی
قیادت کسی اور کے ہاتھ میں چلی جائے۔ اس لیے وہ مسلمانوں کا وجود اپنے لیے
خطرہ سمجھنے لگے تھے۔ ان کی طرف سے خطرے کے امکانات کو کم کرنے کے لیے آپ
صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم معاہدہ کرنا چاہتے تھے۔
مسلمانوں کا تحفظ اور اسلامی ریاست کو بیرونی خطرات سے بچانا۔
ان سے بڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قریش کے زخم خوردہ تھے اس لیے
یہاں آ کر ہر طرح سے اطمینان کر لینا چاہتے تھے تاکہ یہاں آباد کسی غیر قوم
کے اختلافات رکاوٹ نہ بن سکیں۔
بلا رکاوٹ تبلیغِ اسلام ہو سکے۔
ان وجوہات کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہودیوں کے تینوں
قبائل سے ہجرت کے پہلے ہی سال ایک سمجھوتہ کر لیا جو میثاق مدینہ یا منشور
مدینہ کہلاتا ہے۔ رشتۂ اخوت کے بعد دوسرا قدم جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ
وسلم نے اٹھایا وہ یہودیوں سے سمجھوتہ ہی تھا۔
معاہدے کے اہم نکات
منشور کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو اس معاہدے کے دو حصے نظر آتے ہیں۔
پہلے حصے کا تعلق انصار و مہاجرین سے ہے۔ اس کے اہم نکات یہ ہیں [1] [2]
[3] [4] [5] [6] [7]:
تمام مسلمان اپنے آپ کو رضا کار سمجھیں گے۔
مسلمان آپس میں امن و اتحاد قائم رکھیں گے جو اسلام کی بنیاد ہے۔
اگر ان میں کوئی اختلاف ہو تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فیصلے کو
تسلیم کریں گے
مسلمانوں کے مختلف عناصر کو حقوق و فرائض کے لحاظ سے مساوی سمجھا جائے گا۔
فوجی خدمت سب کے لیے ضروری ہوگی۔
قریش مکہ کو پناہ نہیں دی جائے گی۔
تمام مہاجرین کو ہر معاملات میں ایک قبیلہ کی حیثیت دی گئی جبکہ اس منشور
کی روشنی میں انصار کے قبائل کو اسی شکل میں تسلیم کیا گیا۔
تمام معاملات کے لیے اور آپس میں اختلافات کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ و
آلہ وسلم کا فیصلہ قطعی ہوگا۔
دوسرے حصے کا تعلق یہودیوں کے تینوں قبائل سے تھا جس کے اہم نکات مندرجہ
ذیل ہیں:
مدینہ میں رہتے ہوئے یہودیوں کو مذہبی آزادی ہوگی۔
مدینہ کا دفاع جس طرح مسلمانوں پر لازم ہے اسی طرح یہودی بھی اسے اپنی ذمہ
داری سمجھیں گے۔
بیرونی حملے کے وقت مسلمانوں کے ساتھ ساتھ متحد ہو کر مدینہ کے دفاع میں
حصہ لیں گے۔
ہر قاتل سزا کا مستحق ہوگا۔
مسلمان کے قتل ناحق پر اگر ورثا رضا مندی سے خوں بہا لینے پر آمادہ نہ ہوں
تو قاتل کو جلاد کے حوالے کیا جائے گا۔
تمدنی و ثقافتی معاملات میں یہودیوں کو مسلمانوں کے برابر حقوق حاصل ہوں
گے۔
یہودی اور مسلمان ایک دوسرے کے حلیف ہوں گے۔ کسی سے لڑائی اور صلح کی صورت
میں دونوں ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے۔
مسلمانوں پر جارحانہ حملے کی صورت میں یہودی مسلمانوں اور یہودیوں پر حملے
کی صورت میں مسلمان ان کا ساتھ دیں گے۔
قریش یا ان کے حلیف قبائل کی یہودی مدد نہیں کریں گے۔
یہودی اور مسلمانوں کے درمیان کسی قسم کے اختلافات کی صورت میں عدالت
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ہوگی اور ان کا فیصلہ قطعی ہوگا۔
اسلامی ریاست کی سربراہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات ہوگی اور
یہودی بھی آپ کی قیادت و سیادت تسلیم کریں گے۔ اس طریقے سے آنحضرت صلی اللہ
علیہ و آلہ وسلم مسلمان اور یہودیوں کی متحدہ افواج کے سربراہ بھی ہو گئے۔
ان کے اندرونی معاملات میں کوئی مداخلت نہیں کی جائے گی۔
شہر مدینہ میں ایک دوسرے فریق کے ساتھ جنگ کرنا حرام ہے۔
منشور کی اہمیت
ان نکات پر 1 ہجری میں میثاق مدینہ طے ہوا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ
وسلم کچھ عرصے تک ان کی مخالفت کے خطرے سے نجات حاصل کر کے اسلام کی ترقی و
اشاعت میں مصروف ہوئے۔ دوسری طرف اندرونی معاملات اور مذہبی آزادی برقرار
رہنے سے یہودی متاثر ہوئے اور ان کی ساری غلط فہمیاں اور خدشات دور ہو گئے
اور ایک مرکزی نظام قائم ہو گیا۔ یہودیوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ
وسلم کو حکمران تسلیم کر لیا۔ یہ اس معاہدے کی سب سے اہم دفعہ اور آنحضرت
صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عظیم فتح تھی۔
یہ پہلا تحریری معاہدہ تھا جس نے آج سے چودہ سو سال قبل انسانی معاشرے میں
ایک ایسا ضابطہ قائم کیا جس سے شرکائے معاہدہ میں سے ہر گروہ اور ہر فرد کو
اپنے اپنے عقیدے پر کار بند رہتے ہوئے آزادی کا حق حاصل ہوا۔ یہودیوں کی
مدینہ کی سیاست اور قیادت کا خاتمہ ہوا اور اسلام کا غلبہ ہونے لگا۔
یہودیوں کے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قیادت کو تسلیم کرنے سے
مسلمانوں کی سیاست پر بڑا اہم اثر پڑا۔ اس معاہدے کی اہمیت یوں بھی نمایاں
ہوئی کہ یہ دنیا کا پہلا بین الاقوامی تحریری معاہدے ہے جو 622ء میں ہوا۔
یہ پہلا تحریری بین الاقوامی منشور ہے جس میں ایک غیر قوم نے آنحضرت صلی
اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قیادت کو قبول کیا لیکن کچھ ہی عرصے کے بعد ان کی
جانب سے عہد شکنی ہوئی۔ ان حالات میں بھی آپ نے دوستانہ تعلقات قائم رکھے
لیکن جب ان کی جانب سے کھلی بغاوت ہونے لگی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
نے جوابی قدم اٹھایا۔
منشور پر جامع تبصرہ
انسانی تہذیب و تمدن کی تاریخ میں اسلام کو مرکزی اور محوری مقام حاصل ہے۔
ھبوط آدم علیہ السلام سے تا ھنوز نسل انسانی نے تہذیب و تمدن کے ارتقاء کی
بے شمار منزلوں کو طے کیا۔ اس سفر میں جو پیش رفت اسلام کے واسطے سے ہوئی
وہ کسی دوسری مذہبی، علمی، فکری یا اصلاحی کاوش کے نتیجے میں نہیں ہوئی۔
اسلام ایک مکمل نظام زندگی ہے جو فطرت کے عین مطابق ہے۔ اسلام کے فطرت کے
عین مطابق ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ نسل انسانی کی بقا اسلام کے اصول و ضوابط
کی اتباع میں ہے اور ان اصولوں سے انحراف خودکشی کے مترادف ہے۔ تاریخ
انسانی گواہ ہے کہ جس ملک و ملت نے بھی اسلام کا اقرار کرتے ہوئے یا بغیر
اعلانیہ اقرار کے، اسلام کے آفاقی قوانین کی پابندی کی ہے ترقی و عروج اس
کا مقدر رہا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسوہ حسنہ وہ واحد
معیار ہے جو اسلام کے آفاقی اصولوں کی عملی تعبیر و تشریح ہے۔ سیرت نبوی
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہر گوشہ نسل انسانی کے لئے اپنے اندر رہنمائی
کے ان گنت پہلو رکھتا ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تحریک اسلام کے فروغ کے لئے دعوتی و
تبلیغی، عسکری و جہادی، آئینی و دستوری اور سیاسی و معاہداتی مناہج کو
اختیار فرمایا اور ان تمام تر اقدامات میں آپ کی جدوجہد کی غایت جو احقاق
حق، ابطال باطل اور غلبہ دین حق سے عبارت ہے موجود رہی۔ میثاق مدینہ آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیاسی و معاہداتی اور آئینی و دستوری جدوجہد میں
ایک نمایاں اور اساسی سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ میثاق مدینہ نے جہاں ایک
طرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت و تبلیغ کی مساعی کو ایک نئے مرحلے
میں داخل کر دیا وہاں ابدالآباد تک عالمی منظرنامے میں بھی اسلام کو ایک
نمایاں اور بے مثال مقام دے دیا۔ میثاق مدینہ کو کائنات انسانی کا سب سے
پہلا تحریری دستور ہونے کا مقام حاصل ہے۔ صحرائے عرب کے امی نبی صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے اس وقت دنیا کو پہلے جامع تحریری دستور سے متعارف کروایا
جب ابھی دنیا کسی آئین یا دستور سے ناآشنا تھی۔ جدید مغربی دنیا کا آئینی و
دستوری سفر 1215ء میں شروع ہوا جب شاہ انگلستان King John نے محضر کبیر
(Magna Carta) پر دستخط کئے جبکہ اس سے 593 سال قبل 622ء میں ریاست مدینہ
میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے ایک جامع تحریری دستور
دیا جا چکا تھا۔ مگر یہ امر نہ صرف باعث حیرت بلکہ باعث صد تاسف بھی ہے کہ
میثاق مدینہ کی اس تاریخی اہمیت کے اعتراف میں اکثر اہل مغرب نے ہمیشہ تنگ
نظری، تعصب اور علمی بخل کا مظاہرہ کیا۔ جب بھی عالمی تہذیب و تمدن کے
ارتقاء کا تذکرہ ہوا، اہل مغرب نے اسلام کے درخشاں دور اور اس کے کارناموں
کو درخور اعتناء نہیں سمجھا مثلاً برطانیہ سے شائع ہونے والے لائبریری آف
ماڈرن نالج نے دنیا کے سیاسی وآئینی ارتقاء کو بیان کرتے ہوئے لکھا:
"The world's first unified state of which we know was established in
Egypt around 3200 B.C. . . . . . when the two kingdoms of upper and
lower Egypt were united. A centralised and bureaucratic empire
eventually developed. Other empires followed, notably those of Persia,
China and Rome all of which covered vast areas of the world. But the
state as it exists today is based on a model that evolved in Western
Europe after the fall of the Roman Empire in the 5th Century A.D."
’’دنیا کی پہلی ریاست جسے ہم جانتے ہیں 3200 ق م میں مصر میں قائم ہوئی۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ جب مصر کی دونوں مملکتیں متحد ہوئیں۔ اس طرح ایک مرکز اور باقاعدہ
نظام کی حامل سلطنت وجود میں آئی۔ اس کے بعد جو سلطنتیں وجود میں آئیں ان
میں اہم ایران، چین اور روم ہیں جو دنیا کے بڑے حصے پر محیط تھیں۔ لیکن جو
ریاست آج موجود ہے اس کا وجود اس ریاستی معیار پر مبنی ہے جو پانچویں صدی
عیسوی میں سلطنت روما کے زوال کے بعد مغربی یورپ میں ارتقاء پذیر ہوئی۔،،
اس کے بعد یورپ کے جاگیرداری نظام اور Dark Ages کا تذکرہ کرنے کے بعد
تاریخ اسلام کے صدیوں پر محیط دور کو نظرانداز کرتے ہوئے مصنف لکھتا ہے:
The next stage in the evolution of the state as we know it today was the
development of the territorial states a defined area of land with a
single ruler ..... By the end of the 17th century, this form of state
was common all over the Europe.
(Reader's Digest Library of Modern Knowledge, Vol.2, Ed.1979)
’’ریاست کے ارتقاء کی اگلی منزل، جیسا کہ ہم آج جانتے ہیں، علاقائی ریاستوں
کا وجود میں آنا تھا یعنی ایک مقررہ علاقہ پر مشتمل ریاست جس کا ایک حکمران
ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سترھویں صدی کے اختتام تک اس طرح کی ریاستوں کا وجود پورے
یورپ میں عام تھا۔،،
یعنی دنیا کے سیاسی و آئینی ارتقاء کے سارے سفر میں مغربی مصنفین کو اسلام
کا کوئی کردار نظر نہیں آتا۔ حالانکہ تاریخ گواہ ہے کہ یورپ نے اپنا موجودہ
آئینی و سیاسی سفر صدیوں میں طے کیا۔ برطانیہ میں 1215ء میں محضر کبیر
(Magna Carta) کے بعد 16 دسمبر 1689ء میں Bill of Rights، 01۔ 1700ء میں
The Act of Settlement اور 1911ء میں The Parliament Act کو اختیار کیا
گیا۔ امریکہ کا Constitutional Convention 1787ء میں ہوا اور فرانس میں
قومی اسمبلی نے آئین کی منظوری 1791ء میں دی۔
اگرچہ مغرب نے انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے دستوری سفر 1215ء میں شروع کیا
مگر عام آدمی تک اس کے اثرات پہنچنے میں صدیاں بیت گئیں اس کا ثبوت اس امر
سے ملتا ہے کہ ریاستی حکام کے خلاف عوامی شکایات کا ازالہ کرنے کے لئے
محتسب (Ombudsman) کا تقرر یورپ میں پہلی مرتبہ سویڈن میں 1809ء میں کیا
گیا جو ایک عرصہ تک گمنام اور رسمی عہدہ رہا۔ بہت بعد میں دیگر یورپی ممالک
نے اسے اختیار کیا جبکہ 1ھ میں میثاق مدینہ سے شروع ہونے والا اسلام کا
سیاسی و آئینی سفر 10 سال کے کم عرصے میں اپنے منتہائے کمال کو پہنچ گیا۔
جب 10ھ میں حجۃ الوداع کے موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ
تاریخی خطبہ ارشاد فرمایا جو آج بھی نسل انسانی کے لئے ایک آفاقی اور ابدی
ورلڈ آرڈر کی حیثیت رکھتا ہے۔ پھر اس کے تسلسل اور اثر آفرینی کو خلفائے
راشدین کے دور میں آگے بڑھایا گیا۔ جب ایک عام شہری کو بھی اتنی جرات اور
اختیار حاصل تھا کہ وہ کسی بھی معاملہ پر خلیفہ وقت کا احتساب کر سکے۔
آج ترقی یافتہ ممالک کے دساتیر میں امریکہ کے دستور کو 7000 الفاظ کا مختصر
ترین مثالی دستور قرار دیا جاتا ہے مگر 1400 سال قبل حضور اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کا دیا ہوا 730 الفاظ پر مشتمل میثاق مدینہ اس سے کہیں
زیادہ جامع، موثر اور مکمل دستور ہے جس میں تمام آئینی طبقات کے حقوق کا
تحفظ کیا گیا، مختلف ریاستی وظائف کی ادائیگی کا طریق کار طے کر دیا گیا۔
اقلیتوں سمیت تمام افراد و طبقات معاشرہ کے حقوق کو تحفظ دیا گیا اور ایک
اسلامی فلاحی ریاست کی حقیقی بنیادوں کو واضح کر دیا گیا۔
میثاق مدینہ نہ صرف پہلی اسلامی ریاست کا اساسی دستور ہے بلکہ عالمی تہذیب
و تمدن کی تاریخ میں بھی ایک نمایاں اور عدیم النظیر پیش رفت ہے اور اس میں
طے کردہ بنیادی اصولوں کی روشنی میں ایک مثالی اسلامی مملکت کی تشکیل کے
ساتھ ساتھ آج بھی دنیا کو امن، بقائے باہمی اور فلاح کا گہوارہ بنایا جا
سکتا ہے۔
حوالہ جات
↑ ابو داؤد السجستانی ۔ سنن ۔ دار احیائے السنۃ النبویہ۔ بیروت
↑ ابن سعد، الطبقات الکبری۔ بیروت
↑ ابن کثیر، البدایہ والنہایہ، مکتبۃ المعارف بیروت الطبعہ الثانیہ 1978ء
↑ محمد حمید اللہ، ڈاکٹر، الوثائق السیاسیۃ ، دارالارشاد ، بیروت
↑ ژاں ژاک روسو، معاہدہ عمرانی، مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد۔ 1998ء
↑ محمد حمید اللہ، ڈاکٹر، عہد نبوی میں نظام حکمرانی، اردو اکیڈمی سندھ
1981ء
↑ میثاقِ مدینہ از ڈاکٹر طاہرالقادری
|