حسین اور قرآن

امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے مسلمانوں کے سیاسی ،مذہبی حالات اور اعتقادات بدلنےکی سعی کے خلاف اور امت محمدی میں حقیقی اسلامی روح کو فعال کرنے کے لیے خدا کے حکم "اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی" (13:11) کی تعبیر کے لیے خروج کیا ۔ اور اس عمل کو حج پر ترجیح دی۔ ہر معاشرے کے مقدر کی لگام اس کے اپنے ہاتھ میں ہوتی ہے ۔ اور حکومت رعایا کی سوچ کی نمائندہ ہوتی ہے۔ اس قربانی نے نبی پاک کے قول کو سچ کرنے کے لیے کہ " جیسے تم خود ہو گے ویسے ہی تمہارے حکمران ہوں گے" رعایا اور حکمرانوں کے مابین خون کی لکیر کھینچی۔ امام حسین نے حکم خدا کی تعمیل میں گردنیں کٹائیں ۔اے ایمان لانے والو تم پورے کے پورے اسلام میں آجاﺅ (2:208) اور وقت کے منصف نے ان کو سر خرو ثابت کیا۔ اے لوگوں جو ایمان لائے ہو جو مال تم نے کمائے ہیں اور جو کچھ ہم نے زمین سے تمہارے لئے نکالا ہے اس میں سے بہتر حصہ راہ خدا میں خرچ کرو۔ (2:267) پر عمل کرتے ہوے نہ صرف اپنا مال و متاع بلکہ اولاد تک کوراہ خدا میں قربان کر دیا۔ جب معاشرے سے امانت کی قدرو قیمت اٹھ جائے اور عدل کی فراہمی معطل ہو پھر خدا کا حکم اترتا ہے ۔ "اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو ‘اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو ۔ ( 4:58) اور غصب شدہ امانتوں اور مفقود عدل کی بحالی متبرک خونی قربانی کے بغیر ممکن نہیں ہوتی۔ حسین نے نانا کی امت کے لیے نانا کی پیشگوئی کو سچ کر دکھایا۔ دراصل امام حسین رشتہ داروں اور خود اپنی ذات کی قربانی پیش کر کے حکم خدا "اے لوگو جو ایمان لائے ہو انصاف کے علم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو (4:135) پورا کر رہے تھے۔ امام حسین نے صلح کی ہر ممکن کوشش کر کے حکم خدا "اگر دشمن صلح اور سلامتی کی طرف مائیل ہوں تو تم بھی اس کے لئے آمادہ ہوجاﺅ (8:61) پر عمل پیرا ہونے کا فرض بھی نبھایا۔ واقعہ کربلا میں حکم خدا "اگر کوئی فاسق تمہارے پاس خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو ناداستہ نقصان پہنچا بیٹھو (49:6) کی اہمیت کی وسعت اور گہرائی کھل کر حقیقت آشنا ہوتی ہے۔ واقعہ کربلا رہتی دنیا تک باآواز بلند پکارتا رہے گا۔ "اور اگر اہل ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑ جائیں تو انکے درمیان صلح کراﺅ ۔ (49:9) واقعہ کربلا کے اسباق
1۔ اعلی انسانی حقوق کو نہ کہ طاقت کو سماجی زندگی کی بنیاد تسلیم کرتا ہے 2۔ تکمیل ذات اور تکمیل معاشرہ کے لئے قلب وروح اور جسم و اولاد کی قربانی سےہی دونوں جہانوں میں کامیابی وکامرانی ممکن ہوسکتی ہے ۔ 3۔ حق کی راہ پر چلنے کے لئے متحد ہونا لازمی ہے ۔ لیکن اس مقصد کے حصول کے لیے ' حسین' جیسی قربانی شرط اولین ہے۔ 4۔ مطمع نظر محض اپنی ذاتی خواہشات کی تسکین نہیں بلکہ عدل کو زندگی دینا۔دین کی حرمت کو بچانا اور ظالم کو آشکار کرنا ہو تو شہادت حسین کہلاتی ہے۔ 5۔ مذہب کے بنیادی اصول اس قابل ہوتے ہیں کہ ان کے تحفظ کے لیے ذات و خانوادہ قربان کر دیا جائے لیکن تاریخ انسانیت میں یہ فریضہ صرف امام حسین ہی نے ادا کیا۔ 6۔ ایمان ،حیات و موت اور تقدیر اٹل حقیقتیں ہیں۔ 7۔ عبادت ، اخلاق،مقصد اورتقوی کا معیار جتنا ارفع ہو گا۔ قربانی اتنی ہی گہری ہو گی۔ 8۔ طرز حکومت کیسا بھی ہو، فرد کی بر تری کو اہمیت حاصل رہتی ہے 9۔ جن کے پاس زیادہ وسائل ہوں یا جو لوگ کسی خاص خاندان یا گروہ سے تعلق رکھتے ہیں دوسروں پر حکمرانی کا وارثتی حق نہیں رکھتے۔ 10۔ سچائی ایک طاقت ہے جس سے یہ اصول رد ہوتا ہے کہ طاقت ہی حق ہے۔ 11۔انصاف و عدل کے بغیر حکمرانی کا قائم رہنا ممکنات میں سے نہیں ہے ۔ 12۔عقیدے اور اصول زندگی پر سمجھوتا ان کی موت ثابت ہوتا ہے۔ 13۔ حسین کی راہ پر چلنے والوں سے ذہنی آزادی کا حق سلب نہیں کیا جاسکتا 14۔کسی بھی انسان کو ثبوت کے بغیر مجرم نہیں گردانا جاسکتا اور یہ عمل ظلم ہی ثابت ہوا ہے۔ 15۔ مشاورت پر مبنی انتظامی نظامہی قائم رہ سکتا ہے۔ 16۔ معاشرے کےنام پر فرد کے حقوق کو قربان نہیں کیا جاسکتا ۔
 

Dilpazir Ahmed
About the Author: Dilpazir Ahmed Read More Articles by Dilpazir Ahmed: 135 Articles with 169563 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.