کالم تاریخ کے اوراق
فلسفہ کربلا
از بلال حسین بلالی
اوراق شریعت بھی تڑپے ہونگے یہ دیکھ کر
جب سرچشمہ تمیم سےنمازیں اداہوئی ہوں گی
دنیا میں کامیاب ہونے کے لیئے درپیش آنے والے مصائب و آلام کو بھلانا لیکن
ان سے حاصل ہونے والے سبق کو یاد رکھنا ضروری ہے۔
جن قوموں نے ترقی کی اور اپنی شجاعت و بہادری۔ عقلمندی۔ کا لوہا منوایا وہ
قومیں جانتی ہیں کہ ماضی پر ماتم کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا البتہ مستقبل
عروج کے لیئے اس ماضی سے درس حاصل کر کے اس کو فکر بنا کر ماتم کی بجائے
کام کرنا چاہیے۔اگر ماتم کی بجائے کام۔کیا ہوتا تو آج فلسطین
برما۔ عراق۔ روہنگیا۔ افغانستان۔ کشمیر۔ کے لیئے کھڑے ہو کر آدھا گھنٹہ
ماتم نہ کرنا پڑتا ۔
نوحہ کناں کو کوئی جاکر یہ سمجھاو بلالی
ایمان باقی ہے تو ماتم۔کیوں طوفان اٹھا دو
شاعر مشرق نے اسی کے لیئے کہا تھا کہ۔
اس کو دیکھ جو ہو رہا ہے جو ہونے والا ہے
دھرا کیا ہے بھلا عہد کہن کی داستانوں میں
(کہن کامطلب پرانی۔ گزری ہوئی)
ویسے تو فلسفہ کربلا اسی دن سے شروع ہو گیا تھا جب حضرت علی رضی اللہ عنہ
اور شہزادی شاہ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں حضرت امام حسین ابن علی
رضی اللہ عنہما کی ولادت بمع خبر شہادت ہوئی۔ اگر میں اس وقت سے شروع کروں
تو تحریر طوالت کا شکار ہو جائے گی۔ اور اصل بات دور نکل جائے گی۔میں معرکہ
کربلا کی روشنی میں فلسفہ کربلا کے کچھ خاص پہلو پیش کیئے دیتا ہوں ۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم مسلمانوں کو ہر وقت رونا رونے کی عادت سی ہو گئی
ہے۔ اور مجھے پہلے تو ان سے گلہ ہے جو نام اسلام کا لیتے ہیں اور اپنی
تاریخ کورو رو کربتاتےہیں۔ مسلمانوں کی تاریخ میں کوئی بھی ایسا واقعہ نہیں
جس پہ افسوس کیا جائے یا رونا دونا مچایا جائے۔ اسلام کی تاریخ ایک روشن
اور غیرت والی اور جرات و بہادری سے مزین تاریخ ہے۔
معرکہ کربلا کو یاد کر کے رونا۔ ماتم کر کے کفار کو یہ پیغام دیا جاتا ہے
کہ گویا کربلا کی جنگ افسوس کا سامان ہے۔ وہ جنگ نہ ہوتی ۔ اور ہمارے اکابر
کو موت نہ آتی۔حالانکہ مسلمان شہادت کا شیدائی ہے۔
معرکہ کربلا میں بظاہر تو خانوادہ نبی کی شہادت ہوئی مگر حقیقت میں امت کو
باطل کو کچلنے اور حق کی آواز کو بلند کرنے کی تربیت دی گئی۔ جانثاران
کربلا اس موسم میں مکہ و مدینہ چھوڑ کر اسلام بچانے نکلے جب لوگ حج کے لیئے
مکہ شہر میں جوق در جوق داخل ہو رہے تھے۔
معرکہ کربلا کا فلسفہ تین حصوں میں بیان کرتا ہوں۔
پہلا حصہ جب خانوادہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اھل کوفہ کے خطوط ملے کہ ہم
پر ایک ایسی حکومت مسلط ہے جو اسلام کا نقشہ بگاڑ رہی ہے اور لبرل و
سیکولرازم کو ترقی دے رہی ہے۔ اور ہم سے اس کے لیئے ووٹ(بیعت) مانگ رہی ہے۔
آپ آئیے اور ہماری مدد کیجئے ہم آپ کی بیعت کریں گے اور آپ کا ساتھ دیں گے۔
معرکہ کربلا کا دوسرا حصہ میدان کربلا ۔ بالب فرات سیکولر و لبرلازم کے
ماننے والوں اور اسلام کے پیروکاروں کے درمیان گمسان کا رن جوچشم فلک نے
دیکھا۔
اس تاریخی واقعہ کا تیسرا حصہ خاندان نبوی اور یاران نبی کی شہادت اور باقی
رفقاء کو گرفتارکر لینے کے بعد سیکولر و لبرل گورنمنٹ کا اقتدار پر قبضہ
اور حرمین طبیبن میں صحابہ کرام کے قتل۔عام اور مدینہ پاک کی بے حرمتی و
مکہ شہر پر چڑھائی کرنے سے لے کر مختار ثقفی کے دور تک کا دورانیہ ہے۔
فلسفہ کربلا جہاں عقائد حقہ کو ثابت کرتا ہے وہی پر دو کرداروں کو بیان
کرتا ہے۔ ایک کردار وہ جس میں شریعت اسلامیہ کے قوانین کے برخلاف اپنا
ایجنڈا تھا۔ اور ایسی حکومت بنانے کا خواہش مند تھا۔جس میں ہر طرح کی آزادی
ہو۔ مثلا شراب۔ زنا۔ بہن سے نکاح۔ناچ گانا۔ میوزیکل پروگرامز۔ فحاشی ۔
عریانی۔نمازوں سے دوری۔ کہ اسلام کا تشخص بگاڑنے کا ایجنڈا تھا۔ جس کو آج
کل لبرلازم یا سیکولرازم کا نام دیا گیا ۔ اور دوسرا وہ کردار جو اسلام
پسندوں کا تھا جو اس لبرل و سیکولرازم کے خلاف کھڑا ہو گیا اور ایسی حکومت
کو ووٹ کرنے سے انکاری رہا۔ آج مسلمانوں کے لیئے کربلا کے فلسفہ میں کیا
پیغام ہے۔ اس پر کچھ تحریر کروں اس سے پہلے فلسفہ کربلا کو ذرا آور واضع
کرنے اور ان دوکرداروں کو واضع کرنے کے لیئے مندرجہ بالا تین ادوار کےمختصر
واقعات تحریر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔جناب امام حسین کی ولادت بمع خبر شہادت
کے بعد سے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اپنی آل کی محبت و احترام بارے حکم
ارشاد فرماتے رہے۔ اس سے سبق ملتا ہے کہ اھلبیت و شہدا کربلا سے عقیدت جز
ایمان ہے۔
اس سارے واقعے میں خاص کردار یزید کا تھا جس نے اس سارے معرکے کی بنیاد
رکھی یزید کے بارے جاننے کے لیئے حضرت عبداللہ بن حنظلہ ابن الغسیل رضی
اللہ عنہ کا یہ فرمانا کافی ہے۔ کہ ہمیں اندیشہ ہو گیا کہ اس کی بدکاریوں
کے سبب آسمان سے پتھر نہ برسنے لگیں۔۔یزید نے اپنی حکومت قائم رکھنے کے
لیئے دو شخصیات کو اپنی بیعت(ووٹ) کا کہا۔ ایک حضرت امام حسین بن علی اور
دوسرے صحابی رسول حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ تھے۔ یزید جانتا تھا کہ یی دو
شخصیات مجھے لبرل و سیکولرازم حکومت کا نفاذ نہیں کرنے دیں گے اور یہ دو
شخصیات کبھی بھی میرے ان کرتوں کو رواں نہیں رکھنے دیں گے۔
یزید نے جن خلاف شرع کام کو رواج دینا شروع کیا ان میں
محرمات سے نکاح۔ سود۔شراب منہیات کو عام رواج دیا۔
یزید جب تخت سلطنت پر بیھٹا اس نے ووٹ(بیعت) کے لیئے تمام ممالک میں مکتوب
روانہ کیئے۔یہی خطوط جن امام حسین کے پاس پہنچے تو آپ نے اس کے فسق وفجور
اور لبرل سوچ کی وجہ سے ووٹ سے انکار کردیا۔
اھل کوفہ نے یزید کے برخلاف آپ کی بیعت کرنے کی یقین دہانی کے لیئے خطوط
بھیجے اور کوفہ آنے کی دعوت دی۔ مگر جید صحابہ کرام کیونکہ اھل کوفہ کی بے
وفائی جانتے تھے آپ کو روکا۔ اور کوفہ جانے سے منع کیا۔ مگر امام حسین نے
انکار کا عزر شرعی نہ ہونے کی وجہ سے مدینہ سے رحلت کی تیاری کر لی
اسی کام کے لیئے اس نے اھل کوفہ سے ووٹ مانگا مگر اھل کوفہ جو ابتدائی طور
پر اھلبیت سے محبت کرتے تھے مگر بعد میں یزید سے ڈر کر اور لالچ میں آکر
اھلبیت سے جنگ کر بیٹھے اور یہی لوگ اب تک اپنے اسی عمل پر ماتم کرتے سر
پیٹتے ہیں.
اھل کوفہ کی بدعہدی و بے وفائی
اھلبیت کا دم بھرنےوالےدشمن ہوگئے ۔
۔المختضر میدان کربلا میں حق و باطل کی جنگ کا آغاز ہو گیا۔ ٹوٹل 82
نفوس(جن میں بیبیاں بھی۔ بچے بھی۔بیمار بھی تھے) سے مقابلے کے لیئے یزید نے
22 ہزار کا لشکرجرار بھیجا تھا۔اس پر حد یہ کہ پانی بھی ڈر کے مارے بند
کردیا کہ اور قوی مضمحل ہو جائیں اور مقابلے کی تاب نہ رہے
۔اللہ نے جو فرشتوں کو کہا تھا کہ جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔اس کا
مظاہرہ ہونے جا رہا تھا۔
تیرے نام پہ تلوار اٹھائی کس نے
بات جو بگڑی تھی بنائی کس نے
بےسروسامان 72 کا مقابلہ تازہ دم فوج کے ساتھ پھر بھی وہ فوج لرزہ براندام
تھی۔
۔مقابلے میں زیادہ تعداد ان کی تھی جنہوں نے امام حسین کو خطوط لکھ کر
بلوایا تھا۔مسلم بن عقیل کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔اس ظلم و ستم پر ہر ظالم
کا سر بھی جھک گیا ہوگا۔ مگر فرزند رسول کو مصائب کا ہجوم جگہ سے نہ ہلا
سکا۔ان کا عزم و استقلال میں فرق نہ آیا۔ان کے پائے ثبات میں جنبش تک نہ
ہوئی۔۔10 محرم تک یہی کوشش ہوتی رہی کہ امام حسین یزید کو ووٹ دے دیں۔مگر
امام حسین نے اپنے نانا کی امت کی تباہی و بربادی گوارا نہ کی۔ اپنا گھر
لٹا دیا مگر اسلام کی عزت میں فرق نہ آنے دیا۔ اور نانا کی امت کو یزید
پلید کے حوالے نہ کیا۔
معرکہ کربلا کا تیسرا دور اس معرکےکےبعد سے لے کر یزید کی فوج کی مکہ و
مدینہ پاک میں شیطانیت کے بعد یزید کی موت اور مختار سقفی کا دور اقتدار
ہے۔
حضرت امام حسین کی شہادت ہوئی کہ یزید کھل کھیلا اور انواع واقسام کے معاصی
کی گرم بازاری ہو گئی۔
زنا۔ لواطت۔حرام کاری۔بھائی بہن کا نکاح۔سود۔شراب۔دھڑلے سے رائج
ہوئے۔نمازوں کی پابندی اٹھ گئی۔شیطانیت کی حد یہ کہ 12 ہزار کے لشکر سے
مدینہ پاک پر دھاوا بول دیا۔ سن 63 ہجری میں مدینہ پاک میں قتل عام کیا۔
ہمسائیگان رسول پر مظالم شروع کر دیئے۔ صحابہ کے گھر لوٹ لیئے۔700 صحابہ کو
شہید کر دیا۔باقی ملا کر 10 ہزار لوگ شہید کیئے۔مدینہ پاک کی عورتوں کی
عزتیں لوٹی گیئں۔مسجد نبوی میں گھوڑے باندھے گئے۔تین دن تک مسجد رسول بند
رہی۔بعد اس کے مکہ مکرمہ پر چڑھائی کی اور پتھر برسائے۔ خلاف کعبہ جل
گیا۔مسجد الحرام کے ستون ٹوٹ گئے۔
ابھی یہ شیاطانیت کا کھیل جارہی تھا کہ یزید پلید 3 سال 7 مہینے۔تخت حکومت
پر شیطانیت کر کے سن 64 ہجری میں مر گیا۔حضرت عبداللہ ابن زبیر ابھی تک
زندہ تھے۔ان کی بیعت کر لی گئی۔یزید کی فوج کوخائب و خاسر کردیا گیا۔بعد اس
کے سن 65 ہجری میں مختار بن عبید اللہ ثقفی کا اقتدار آیا۔یزیدی کردار
والوں اور اھلبیت کے خون سے ہاتھ رنگنے والوں کے انجام کا وقت شروع ہوگیا۔
مختار نے عمر بن سعد کو۔ اس کے بیٹے حفص کو بلوایا اور کہا کہ تم نے اھلبیت
کے مقابلے میں یزید کو ووٹ کیا تھا۔ مختار نے ان دونوں اور شمر کو قتل کر
کے ان کے سر لانے کا حکم کردیا۔ اور ان کو گرفتارکرکے قتل کیا گیا۔ ان کی
لاشوں کو گھوڑوں کے سموں سے باندھ کر روندا گیا۔ جس سے سینے کی ہڑیاں۔ اور
پسلی چکنا چور ہو گئیں۔ شمر امام حسین کا قاتل اور اور ابن سعد اس لشکر کا
سالار تھا۔
اے تشنگان خون جوانان اھلبیت
دیکھا کہ تم کو ظلم کی کیسی سزا ملی
دنیاپرستو! دین سے منہ موڑ کر تمھیں
دنیا ملی نہ عیش و طرب کی ہوا ملی
اس کے بعد مختار نے حکم عام جاری کیا کہ کربلا میں جو جو شخص عمر بن سعد کا
شریک تھا جہاں ملے مار دیا جائے۔یہ سن کر جفاشعار سورما بصرہ بھاگنا شروع
ہوئے مگر مختار کی فوجوں نے ان سب کا تعاقب کیا۔مار کر لاشیں جلا دیں گیئں۔
گھر لوٹ لیئے گئے۔
خولی بن یزید جس خبیث نے امام پاک کا سر تن سے کاٹ کر جدا کیا تھا۔ یہ
روسیاہ گرفتار کر کے مختار کے پاس حاضر کیا گیا۔مختار نے پہلے اس کے ہاتھ
پاوں کٹوائے۔پھر سولی لٹکادیا۔آخر میں آگ میں پھنک دیا۔
چھے ہزار کوفیوں کو کربلا میں اھلبیت کی بےحرمتی و قتل پر طرح طرح کے عذاب
دے کر ہلاک کر دیا۔
عبید اللہ ابن زیاد 6 سال بعد عین فرات کے کنارے قتل کیا گیا۔ اور کوفہ میں
جشن منایا گیا۔
امام حسین کی شہادت کے بدلے 70 ہزار شقی مارے گئے۔۔ لشکریوں کو گراں قدر
انعامات کے لالچ۔وزیروں کو عہدے۔ اور یزید و ابن زیاد کی آنکھوں میں
جہانگیر سلطنت جیسے نقشے تھے۔جو وہ امیدیں باندھے سیاہ باطن و مغروران
تاریک دوروں تھے حکومت و انعامات کیا ملے رسوائی و ذلت و عزاب نے آن گھیرا۔
ظلم کے انجام ۔قہر الہی کی تباہ کن بجلیوں نے آلیا اور سلطنت کے پرزے پرزے
ہوگئے۔
وہی 10۔محرم۔ وہی میدان کربلا۔وہی کنارہ فرات۔ اور ظالم قوم اور مختار کے
گھوڑوں نے ان کو روند دیا۔ ہاتھ پاوں کاٹے گئے۔لاشیں جلائیں گئیں۔سولیاں دی
گئیں۔دنیا نے تف تف کیا۔ہلاکت پر جشن منائے گئے۔۔اور آج تک ملامت کیا جا
رہا ہے۔
حضرت امام کی شہادت حمایت حق کے لیئے تھی۔اس راہ میں ہر تکلیف برداشت
کی۔مگر دین اسلام کا چہرہ لبرل کے ہاتھوں مسخ نہ ہونے دیا۔
ان تینوں ادوار کے ان واقعات سے دو کردار واضع نظر آتے ہیں ایک وہ کردار جو
اسلام کا چہرہ لبرل سے بدلنا چاہتا تھا۔ اور دوسرا وہ کردار جس نے اسلام کی
صورت کو بگاڑنے سے بچاتے ہوئے ہر ظلم برداشت کیا اور لبرل کو ووٹ دینے سے
انکار کیا اوراپنی جان سمیت خاندان تک کی جانوں کی پرواہ تک نہ کی۔
اس معرکہ کربلا کی وجوہات میں لبرل حکومت کا قیام اور اسلام کے منافی امور
کا عام کرنا شامل تھا۔ کربلا کا فلسفہ ایک طرف یزیدیت کے کردار کو عیاں
کرتا ہے جیسے بے نمازی۔ فحش کلامی۔بے حیائی لواطت۔زنا۔شراب نوشی۔بھائی بہن
کا نکاح۔اھل بیت کی توہین۔صحابہ کی گستاخی و قتل۔مساجد کی بے حرمتی۔گانے
باجے۔دین کا مزاق۔۔ یہ سارےکام اگر آج بھی کسی حکومت میں عام ہو رہے ہیں۔
تو یہ بھی یزیدی کردار ہے جو معرکہ کربلا میں پیش کیا گیا۔
اور دوسری طرف کربلا کا فلسفہ اس کردار کو بیان کرتا ہے جس کو حسینیت کہا
جائے گا۔ جیسے۔ زیر تلوار بھی نماز۔
معاشی ترقی کے مقابلے میں اسلام کی ترجیح۔۔زہد و تقوی۔با حیا بیبیاں۔صبر
استقلال کے پہاڑ نہ کہ نوحہ کناں۔اسلام کی فکر۔ سنت رسول کی پاسدار۔اسلام
کے لیئے جانثاری۔قرآن و سنت کا احیاء۔۔
فلسفہ کربلاسےمسلمانوں کو ماتم کرنے کی بجائے درس حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔
فلسفہ کربلا ہمیں بتاتا ہے کہ ہمیشہ راہ حق کے راہی بن کر رہیں چاہے اس
رستے میں کھٹن و خاردار گھاٹیاں ہوں۔ کبھی بھی کسی کیسے ہی حالات ہوں حق کو
ووٹ کرنا چاہیے۔ اگر امام حسین ووٹ دے دیتے تو شائد مسلمانوں کی زندگی
معاشی طور پر بھی اچھی ہوجاتی مگر اسلام کی روح نہ رہتی۔ مگر امام حسین نے
معیشت کے مقابلے میں اسلام کی سربلندی کو ترجیح دی۔اور دنیا نے دیکھا کہ
اسلام پھیل گیا اور یزیدی نا حکومت کر سکے اور نہ معیشت بنا سکے بلکہ خود
بھی عبرت کا نشان بن گئے۔اگر حق قلیل ہی ہو تو کثیر کو زیر کر سکتا ہے۔جس
طرح 72 نے 22 ہزار کو ناکوں چنے چبوا دیئے تھے۔ جس طرح بدر میں 313 نے 1
ہزار کو کاٹ کر رکھ دیا تھا۔فلسفہ کربلا مسلمانوں کو صبر و استقلال کا اور
باطل کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا درس دیتا ہے۔جس طرح یزیدی لعن تعن کے مستحق
ٹھرے اسی طرح یزیدی صفات بھی لعن تعن کے مستحق ہیں۔ جیسے نااہل و نا حق اور
اسلام کے خلاف کسی کو ووٹ دینا۔ علماء کو چھوڑ کر لبرلز کی حمایت کرنا۔ ووٹ
کا غلط استعمال۔۔ ایمان کے مقابلے مین معیشت کو اہمیت دینا۔۔
فلسفہ کربلا بتاتا ہے کہ اسلام کو چھوڑ کر کبھی بھی سرخرو نہیں ہو پاو گے۔
کبھی بھی اقوام عالم کا مقابلہ نہیں کر پاو گے۔ یہ فلسفہ ہمیں سمجھاتا ہے
کہ دین کو چھوڑنے والوں کا نہ دین رہا۔ نہ دنیا ملی۔
ہمیں یہ بھی سبق ملا کہ اللہ کی مدد اھل ایمان کے ساتھ ہے لبرل و سیکولر کے
ساتھ نہیں۔ حقیقت میں یزید ایک سیکولر اور لبرل ریاست کا قیام چاہتا تھا جس
کی راہ میں رکاوٹ جناب امام حسین تھے ۔ یی فلسفہ ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ
سیکولر حکومت کے قیام کے لیئے اسلام پسندوں سے لڑائی یزیدی کردار ہے۔ چاہے
وہ کسی بھی دور میں ہو۔یزیدی اسلام کی تصویر مسخ کرنا چاہتے تھے جس کے
مقابلے مین امام حسین اور ان کے رفقاء ڈٹ گئے۔ جس طرح آجکل کے حکمران اسلام
کو چھوڑ کر اسمبلیوں میں بیٹھ کر اسلام کے خلاف قوانین بنارہے ہیں۔ وہ بھی
یزیدی کردار والے ہیں اور جو ان کو ووٹ کرتے ان کی حمایت کرتے ہیں وہ بھی
یزیدی کردار والے ہیں۔ ان کا بھی علاج وہی ہے جو امام حسین نے کیا۔
اس فلسفہ کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ یزیدی کردار اور حسینی کردار کو سمجھ
کر اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کہ ہم کس کردار پر ہیں۔ یزید نے اسلام کی تصویر
مسخ کی۔ سنت کو مٹایا۔ نماز کو چھوڑا۔ ناچ گانا عام کیا۔ مسجدوں کی بےحرمتی
کی۔ اھلبیت کو قتل کیا۔ صحابہ کو قتل کیا۔ فحاشی و عریانی کو رواج دیا۔
امام حسین نے ان سب کے خلاف جان و مال اور امال بھی لٹا دیئے مگر حق پر
سمجھوتا نہیں کیا۔ اور دنیا نے دیکھا کہ باطل آخر مٹ گیا۔ اسلام کا جھنڈا
جو امام حسین نے بلند کر کے چھوڑا تھا وہ باقی رہا۔
اسی لیئے تو کہتے ہیں کہ
اسلام زندہ۔ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد۔۔
مگر ضروری ہے کہ ماضی پر ماتم کی بجائے حکمت عملی کو اپنا کر دشمن کو زیر
کرنا چاہیے۔ جن قوموں نے ایسا کیا وہ ترقی پر ہیں ۔ اور جو ماتم کرتے رہے
وہ آج بھی ماتم ہی کر رہے ہیں۔
نوحہ کناں کوکوئی جاکریہ سمجھاوبلالی
ایمان باقی ہے تو ماتم کیوں طوفان اٹھادو
|