قادیانیت برطانوی سامراج کا خود کاشتہ پودا

الحمد اﷲ ہم مسلمان ہیں ۔اﷲ کو ایک مانتے ہیں۔ رسول اﷲ صلی اﷲ وعلیہ و سلم کو اﷲ کا آخری نبی ؐ مانتے ہیں۔ قرآن اور اس سے قبل آسمانی کتابوں توریت ،انجیل، اور زبور پر ایمان لاتے ہیں۔ اس پر بھی ہمارا ایمان ہے کہ رسول ؐ اﷲ کے آخری پیغمبر ؐہیں۔ ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ ہر کوئی اپنی جان کی حفاظت کرتا ہے۔اپنے مال کی حفاظت کرتا ہے۔ اپنے گھر کی حفاظت کرتا ہے۔ مگر یہ بھی المیہ ہے کہ جب کوئی ہمارے اس عقیدے پر نقب لگائے تو مسلمان اس کی حفاظت کی با لکل پرواہ نہیں کرتے۔ہم اپنے عقیدے اور ایمان کی حفاظت کیوں نہیں کرتے؟ کیا جس کی جومرضی ہو وہ ہمارے دین کے اندر نقب لگا لے ؟مسلمانوں کو دین کے بارے میں کم از کم بنیادی معلومات ہر حالت میں اَزبر ہونی چاہیے تاکہ کوئی ان کے دین میں نقب نہ لگا سکے۔ چند دن پہلے میں نے محمد متین خالد صاحب کی کتاب ’’قادیانیت برطانوی سامراج کا خود کاشتہ پودا‘‘ حرف بہ حرف پڑھی تو مجھے محسوس ہوا کہ مسلمانوں کے عقیدے کی حفاظت کے لیے یہ کتاب ایٹم بم کا درجہ رکھتی ہے۔ جس طرح ڈاکٹر قدیر خان صاحب نے پاکستان کی حفاظت اورسا لمیت کے لیے ایٹم بم بنایا تھا ۔ پاکستان دشمنوں سے محفوظ ہو گیا اور دشمن اس کی طرف ٹیڑھی نظر رکھنے سے پہلے ہزار بار سوچتا ہے۔ اسی طرح اس کتاب کے ہوتے ہوئے اور اس کو سمجھ کر اسے یاد رکھنے، اس پر عمل کرنے سے مسلمان کے عقیدے کی حفاظت ایک ایٹم بم کی سی ہے۔ مسلمانوں کے عقیدے کے خلاف دشمن سو قسم کی مکاریاں اور ٹگھیاں کرے وہ اس کا کچھ بھی نہیں بگاڑ نہیں سکے گا۔ یہ ایک ایسی کتاب ہے جس کے مندرجات پڑھنے سے محسوس ہوتا ہے کہ مصنف نے کس طرح عرق ریزی اور محنت سے قادیانیوں کے اپنے لڑیچر سے حقیقی مواد اس کتاب کے اندر جمع کر دیا ہے۔ کس طرح فتنہ قادیانیت جس نے ہمارے دین میں نقب لگایا ہے کے بت کو بے نقاب کیا گیا ہے ۔اس محنت کو دیکھ کر ایک مسلمان کا ایمان تازہ ہو جاتا ہے اس کو اگر مصنف کا’’ انسائیکلوپیڈیا آف قادیانیکا‘‘ مانا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ قادیانیوں کا نبی الگ،قرآن الگ،نماز روزہ ،حج،اور زکوٰۃ مسلمانوں سے مکمل الگ ہے اس کے باوجود ٹھگی کر کے خود کومسلمان کہلوانے اور شعائر اسلامی استعمال کرنے پر بضد ہیں۔ قادیادنی مذہب کے پیروکارمرزاقادیانی کی بیوی کوام المومنین ،اس کے گھر والے اہل بیت مانتے ہیں۔قادیانی ٹھگی کر کے اپنے آپ کو مسلمانوں کا ایک فرقہ ظاہر کرتے ہیں جبکہ وہ فرقہ نہیں ہیں غیر مسلم ہیں۔ پاکستان کے آئین ۱۹۷۳ء میں ان کو غیر مسلم قرار دیا گیا ہے۔۷؍ ستمبر ۱۹۷۴ء بلاشبہ عالم اسلام بالخصوص پاکستانی مسلمانوں کے لیے ایک یادگار دن ہے جب منتخب پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر پر ان کو اقلیت قرار دیا ۔ اپریل ۱۹۷۴ء میں رابطہ عالم اسلامی کے اجلاس میں ۱۴۰؍ تنظیموں اور ملکوں کے نمائندوں نے انہیں غیر مسلم اقلیت قرار دیا تھا۔ حکیم لاامت علامہ اقبالؒ نے قادیانیوں کو ’’ قادیانیت یہودیت کا چربہ ہے‘‘ کہا ہے علامہ اقبال ؒ نے ۱۹۳۶ء میں پنجاب مسلم لیگ کی کونسل میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی تجویز پاس کرائی اور مسلم لیگی امیدواروں سے حلفیہ تحریر لکھوائی تھی کہ وہ کامیاب ہو کر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیے جانے کے لیے آئینی اداروں میں مہم چلائیں گے۔بانیِ پاکستان قائد اعظم ؒ سے ۱۹۴۸ء میں کشمیر سے واپسی پر سوال کیاگیا کہ قادیانیوں کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے تو انہوں نے فرمایا’’ میری رائے وہی ہے جو علمائے کرام اور پوری اُمت کی رائے ہے‘‘ اس سے ظاہر ہے وہ قادیانیوں کو غیر مسلم سمجھتے تھے۔ شہیدِ ملت لیاقت علی خانؒ نے اپنے قتل کی سازش بے نقاب ہونے پرسر ظفراﷲ کے ہم زلف میجر جنرل نذیر احمدقادیانی کو جو امپریل ڈیفنس کالج لندن میں ایک تربیتی کورس پر گیا ہوا تھا واپس بلوا کر گرفتار کر لیا تھا۔ قادیانیوں کی پاکستان کے خلاف سازشیں کا ذکر کچھ اس طرح ہے ۔ذوالفقارعلی بھٹو کے دور میں۱۹۷۳ء حکومت کا تختہ الٹنی کی سازش میں تین فوجی قادیانیوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔جن میں میجر فاروق،سکوارڈرن لیڈر محمد غوث اور میجر سعید اختر (ملک اختر حسین کا بیٹا اور لیفٹینیٹ جنرل عبدالعلی ملک کا بھتیجا) ملوث تھا۔اس کے دو ماہ بعد ایک اور سازش کا انکشاف ہوا جس میں فوج کے چودہ افسران ملوث تھے۔ ان کے خلاف ۲؍ جولائی ۱۹۷۳ء کو مقدمہ شروع ہوا۔ گروپ کیپٹن عبدالستار نے انکشاف کیا قادیانی افسر بھٹو حکومت کو ختم کرنے کی سازش کر رہے ہیں۔ایک بار ایئر فورس کے سربراہ ظفر چودھری قادیانی کے ہاتھوں کورٹ مارشل ہونے والے ایک مسلمان افسر نے بھٹو تک رسائی حاصل کر کے، ظفر چودھری کے مقاصد بیان کیے تو بھٹو نے کہا ’’اچھا یہ ہے ان کا اصل روپ‘‘(موید قومی ہیرو ایم ایم عالم صفحہ ۱۸۳۔ ۲۸۴) پھر۲۵ جولائی ۱۹۷۴ء کو جسٹس صمدانی کے سامنے جب یہ معلومات آئیں کہ مرزا ناصر احمدکی صدارت میں سرکردہ قادیانیوں نے بھٹو کو راستے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے(جسٹس صمدانی رپورٹ یکم اکتوبر ۱۹۷۴ء) دسمبر۱۹۷۲ء کو قادیانیوں کا جلسہ ربوہ میں ہو رہا تھا تو ایک ایک کر کے تین قادیانی پائلٹوں نے غوطہ لگا کر مرزا ناصر قادیانی کو سلامی دی۔ اس کے بعد ائیر فورس کے قادیانی سربراۂ ائیر مارشل ظفر چودھری کی قیادت میں انہی جہازوں نے قادیانیوں کے جلسے پر پھولوں کی پتیاں نچھاورر کیں۔ اس پر مرزا ناصر نے کہا تھا’’میں دیکھ رہا ہوں احمدیت کا پھل پک چکا ہے‘‘ اس کے بعد جلسے میں احمدیت زندہ باد کے نعرے لگائے گئے۔ اخبارات میں اس کی رپورٹنگ ہوئی اور خفیہ والوں نے بھی یہی رپورٹ دی تو بھٹو نے ایئر مارشل ظفر چودھری کو رخصت کر دیا۔ اس دور میں ایک سائنس کی کانفرنس ہو رہی تھی ۔ نوبیل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی کو بھی دعوت تھی۔ مگر اس نے کارڈ پر لکھ کہ واپس کر دیا کہ ’’ میں اس لعنتی ملک پر قدم نہیں رکھنا چاہتا۔ جب تک کہ آئین میں کی گئی ترمیم واپس نہ لی جائے‘‘ بھٹو نے یہ ریمارکس پڑھ کر اسٹیبلشمنٹ سیکرٹری وقار احمد کو لکھا ڈاکٹرعبدالسلام کو فارغ کر دیا جائے ۔ مگر اس حکم کو کا ریکارڈ میں رکھنے کے بجائے اپنے پاس رکھ لیا اور بعد میں معلوم ہوا کہ وقار احمد بھی قادیانی ہے ( ڈاکٹر عبدالقدیر اور کہوٹہ سنٹر ازیونس خلش صفحہ۸۰) ایک اہم واقعہ زاہد ملک کی کتاب ’’ڈاکٹر عبدالقدیر اور اسلامی بم‘‘کی کتاب کے صفحہ ۲۳ پر ڈاکٹر عبدالسلام کی پاکستان دشمنی کے بارے میں بتاتے ہیں ۔نیاز اے نائیک نے صاحبزادہ یعقوب علی خان کے بیان کردہ واقعہ بتایا کہ امریکہ میں ایک دورے کے دوران پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا ذکر ہو رہا تھا۔ مجھے بتایا اورکہا گیا پاکستان ایٹمی پروگرام میں مصرو ف ہے اور ایٹم بم بنا رہا ہے۔ میں نے انکار کیا تو سی آئی اے کا ایک اہلکار دوسرے ممبران کے ساتھ مجھے اور ان کو ایک کمرے میں لے گیا۔ کسی چیز پر پڑا ہوا ایک پردہ ہٹایا ۔کوئی گول سی گیند نما چیر دکھائی اور کہا ہم کو سب کچھ معلوم ہیں یہ ہے آپ کا اسلامی ایٹمی بم۔ اس پر میں نے کہا، میں ٹیکنیکل آدمی نہیں ہوں اگر آپ کہتے ہیں تو ہوگا اسلامی بم۔ ہم سب باہر نکل رہے تھے تو جیسے ہی میں نے پیچھے موڑ کر دکھا تو ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی ایک دوسرے کمرے سے نکل کر اس کمرے میں داخل ہو رہاتھا۔ میں نے دل میں کہا اچھا ! تو یہ بات ہے۔۱۹۷۲ء میں قومی اسمبلی میں مولانا ظفر احمد انصاری نے پارلیمنٹ کو یہ بتا کر حیران کر دیا کہ’’ فلسطین میں قادیانی مسلمانوں کو قتل کر رہے ہیں۔ ۶۰۰ سو قادیانی اسرائیلی فوج میں بھرتی ہیں حوالہ’’ اسرائیلی اے پروفائل ‘‘ یہودی مصنف پروفیسر آئی آئی نومائی(۲۹ دسمبر ۱۹۷۵ء نوائے وقت لاہور صفحہ ۵) قادیانی یہودیوں کے ساتھ مل کر فلسطینی مسلمانوں کو قتل کر رہے ہیں۔اسرائیل میں کوئی بھی مذہبی مشن کام نہیں کر سکتا۔ لیکن قادیانی مشن کام کر رہا ہے۔ اس کی تصدیق کچھ عرصہ قبل نوائے وقت میں ایک تصویر سے عیاں ہوئی کہ قادیانی مشن اسرائیل کے شہر حیفہ کا انچارج شیخ شریف نئے آنے والے قادیانی مشن کے انچارج شیخ محمد حمید کا تعارف کروا رہا ہے ۔اس سے ایک طرف قادیانیوں میں غم کی لہر دوڑی اور دوسری طرف مسلمانوں کو حیرت میں ڈال دیا۔ ہفت روزہ تکبیر مارچ ۱۹۸۶ء کے مطابق مشہور سراغرساں جیمز سالمن ونسٹنٹ نے انکشاف کیا کہ شہید ملت لیاقت علی خان کو قتل کرنے والا ایک جرمن جیمز کنز ہے۔ اس کا نام قادیانی ہونے کے بعد عبدالشکور تھا۔ اس کو سر ظفراﷲ نے قادیانی بنایا تھا۔ یہ اب بھی مغربی جرمنی کے شہر برلن میں زندہ ہے۔

کتاب’’ قا د یا نیت برطانوی سامراج کا خود کاشتہ پودا ‘‘کے مندرجات سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان بنتے و قت قا دیانیوں بظاہر ٹھگی کرتے ہوئے پاکستان کی حمایت اور اندر ہی اندر اپنے نکتہ نظر کی آبیاری کی گئی۔ اس امر کی تصدیق (الفضل قادیان مئی ۱۹۴۷ء صفحہ نمبر ۲) سے ہوتی ہے اس کا مفہوم یہ ہے’’ مرزا قادیانی اپنی رُویا بیان کرتے ہیں کہ ہندوستان کی تقسیم عارضی ہے ۔ساری قومیں متحد رہیں تو احمدیت کے لیے بہتر ہے ۔ہم اگر ہندوستان کی تقسیم پر رضا مند ہوئے ہیں تو خوشی سے نہیں بلکہ مجبوری سے ،اور پھر کوشش کریں گے کہ کسی نہ کسی طرح جلد متحد ہو جائیں۔‘‘ سر ظفراﷲ بظاہر پاکستان کے وکیل تھے مگر ساتھ ساتھ قادیانیوں کو غیر مسلم ظاہر کر کے قادیان کو وٹیگن سٹی قرار دینے کے لیے الگ میمورنڈم بھی باؤنڈری کمیشن کو پیش کیا جو ۱۹۴۰ ء میں تیار کیا گیا تھا ساتھ ہی ساتھ گرداسپور کا نقشہ بھی پیش کیا گیا تھا جس کو دیکھ کر باؤنڈری کمیشن اس وقت حیرت میں پڑ گیا تھا ۔ وٹیگن سٹی کا مطالبہ تو نہ مانا گیا مگراسی وجہ سے گرداسپور کو بھارت میں شامل کر لیاگیا تھا۔ اس سے بھارت کو کشمیر ہڑپ کر لینے کی راہ میسر آگئی۔حوالہ(قادیانیت کا سیاسی تجزیہ از صاحبزادہ طارق محمود)۔ اس واقعہ کو مذید تقویت اس حرکت سے ملتی جو قادیانی ظفراﷲ نے کی۔ گرداسپور میں تقسیم کے وقت مسلمان ۵۱ فی صد ،ہندو ۴۹ فیصد اور قادیانی ۲ فی صد تھے۔ جب ۲ فی صد قادیانی مسلمانوں سے علیحدہ ہو گئے تو مسلمان ۵۱ فی صد کی بجائے ۴۹ فی صد رہ گئے۔ قادیانی سر ظفراﷲ کی اس چال سے گرداسپور جاتا رہا۔مسلم لیگی رہنما میاں امیرالدین صاحب نے ایک انٹرویو میں اعتراف کیا، کہ باؤنڈری کمیشن کے مرحلے پر ظفراﷲ کو مسلم لیگ کا وکیل بنانا مسلم لیگ کی بہت بڑی غلطی تھی ۔پٹھان کوٹ کا علاقہ قادیانیوں کی سازش سے ہندوستان میں شامل ہو ا حوالہ (ہفت روازہ چٹان ۶ اگست تا ۱۳؍ اگست۱۹۸۴ء) قادیانی سر ظفراﷲ کی دوغلی پوزیشن کا ذکر ہندوستان ٹائمز میں بھارت کے سابق کمشنر، سری پرکاش کی قسط وار سوانح عمری سے واضح ہوتا ہے۔ اس نے ۱۹۴۷ء میں قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ کو بیوقوف قرار دیا تھا اور کہا تھا اگر پاکستان بن گیا تو ہندوؤں سے زیادہ مسلمانوں کو نقصان پہنچے گا۔کچھ عرصہ بعد کراچی میں ملاقات کے دوران اس سے معلوم کیا، اب آپ کا کیا خیال ہے تو سرظفراﷲ نے کہا میرا وہی جواب ہے حوالہ( اداریہ روز نامہ مشرق ۱۵ فروری ۱۹۶۴ء) محمد خالد متین کی کتاب کے مدراج سے معلوم ہوتا ہے پاکستان کے اندر قادیانی ریاست بنانے کے منصوبے کو بے نقاب کرتے ہوئے قادیانی ریاست کاموادقادیانیوں کی کتابوں سے جمع کیا گیا ہے، جس سے انکار ممکن نہیں رہتا۔قادیانیوں کا رابطہ پاکستان کے دشمنوں سے اور ملک کے اندر مسلمانوں کے ملی وجود کے مخالفوں سے بھی ہے ان کے عزائم یہ ہے ’’ ہم احمدیت کی حکومت چاہتے ہیں ہمیں اس کے لیے تیار رہنا چاہیے۔۱۹۴۸ء مرزا محمود اس مقصد کے لیے بلوچستان گیا اور اسے قادیانی صوبہ بنانے کا اعلان کیا اور کہابلوچستان کی آبادی ۵ لاکھ ہے اتنی آبادی کو احمدی بنانا کوئی مشکل کام نہیں جب تک ہماری بیس نہ ہو گی کامیابی مشکل ہے میں جانتا ہوں یہ صوبہ ہمارے ہاتھوں سے نہیں بچ سکتا یہ ہمارا شکارضرور ہو گا‘‘( روزنامہ الفضل قادیان۱۹۴۸ء)جسٹس تنویر احمد یک رکنی ٹربیونل کی رپورٹ کے مطابق فروری۱۹۹۷ء میں شانتی نگر خانیوال میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان تصادم کا ذمہ دارقادیانی جماعت خانیوال کا صدر نور احمد تھا۔ اس سے پورے پاکستان میں لاء ایند آدر کا مسئلہ پیدا ہوا تھا۔ مگر افسوس حکومت نے کوئی کاروائی نہیں کی۔ اِس سے گمان ہوتا ہے کی قادیانی غیر ملکی ایجنسیوں، جیسے بلیک واٹر سے مل کر پاکستان کے حالات خراب کرنے میں ملوث ہو سکتی ہیں۔ یوں تو اس کتاب کے صفحہ ۶۸ تا ۲۴۵ تک مرزا قادیانی انگریز کو اپنی اور اپنے خاندان کی وفاداری،خیرخواہی، خدمت گزاری،شکرگزاری،تقریری اور تحریری خدمات سے انگریز سلطنت کی تعریف،جانثاری کایقین دلاتے نظر آتا ہے مگر خاص کر خود اپنے آپ کو ’’برطانوی سامراج کا خود کاشتہ پودا‘‘ ثابت کرتا ہے۔ اپنے ایک عریضہ میں اس طرح رقطراز ہے’’ عریضہ بعالی خدمت گورنمنٹ عالیہ انگریزی‘‘ میں لکھتا ہے’’ اِس خود کاشتہ پودا کی نسبت نہایت حزم اور احتیاط اور تحقیق اور توجہ سے کام لے کر اور اپنے ماتحت حکام کو اشارہ فرمائیے کہ وہ بھی اس خاندان کی ثابت شدہ وفاداری اور اخلاص کا لحاظ رکھ کر مجھے اور میری جماعت کو ایک خاص عنایت اور مہربانی کی نظر سے دیکھیں‘‘۔ایک دوسری جگہ مسلمانوں کے خلاف انگریزوں کی مدد کرتے ہوئے ایک خط بنام ملکہ ہندوستان و انگلستان میں رقم طراز ہے کہ’’ میرے والد مرزا غلام مرتضیٰ نے ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں انگریز حکومت کی مدد پچاس گھوڑوں مع سواروں سے کی تھی اور ساتھ ساتھ یہ بھی ارادہ کیا تھا کہ جنگ کا کچھ اور طول ہوتا تو میرے والد سو اور سواروں کی بھی مدد کے لیے تیار تھے‘‘

صاحبو!اوپر بیان کردہ تجزیہ کے تحت جس گروہ کو علامہ اقبال ؒ ۱۹۳۶ء میں اقلیت قرار دینے کا مسلم لیگی امیدواروں سے عہد لیا تھا۔ قائداعظمؒ ۱۹۴۸ء میں اِنہیں غیر مسلم مان چکے ہیں۔لیاقت علی خان ؒ نے ۱۹۵۱ء نے اپنی شہادت سے قبل، قتل کی سازش بے نقاب ہونے پر سرظفراﷲ کے ہم زلف میجر جنرل نذیر احمد جوقادیانی کو جو امپریل ڈیفنس کالج لندن میں ایک تربیتی کورس پر گیا ہوا تھا واپس بلوا کر گرفتار کر لیا تھا۔ مولانا ظفر احمد انصاریؒ ۱۹۷۲ء ۶۰۰ قادیانیوں کا اسرائیلی فوج میں بھرتی اور فلسطینی مسلمانوں کو قتل کرنے کا انکشاف کیا تھا۔ جو ذوالفقار علی بھٹو کو۱۹۷۳ء میں دو مرتبہ قتل کی سازش کر چکے ہیں۔ صاحبزادہ یعقوب سابق وزیر خارجہ کا انکشاف کہ ڈاکٹرعبدالسلام قادیانی نے امریکہ کو پاکستان کے ایٹم بم ماڈل سازش سے پہنچایا ہے۔ پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ ، اسلامی دنیا کی نمائندہ تنظیم رابطہ عالم اسلامی اور مسلمانوں کے تمام مکتبہ فکر کے لوگ غیر مسلم تصور کرتے ہیں ۔ ان کو پاکستان اوراسلام کا دشمن مانتے ہیں ۔ عام مسلمان ان کو کافر تصور کرتے ہیں۔ ان حالات میں یہ کیسے ممکن ہوا،کہ ایک قادیانی ایئر مارشل بن سکتا ہے۔بری فوج کا جنرل ، نیول فوج کا افسر بن سکتا ہے۔ پاکستان ایٹمی پروگرام کا ممبر بن سکتا ہے۔ کلیدی عُہدوں پر فائز ہو سکتا ہے۔ اب بھی بُہت سے قادیانی ا پنے باطل مذہب کو چھپائے ہوئے ہیں اور اپنے آپ کو مسلمانوں کا ایک فرقہ ظاہر کرتے ہیں۔ ملک دشمنی اور جاسوسی سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔یا اﷲ یہ کیا ماجرا ہے! ہم میں سے کون قصور وار ہے؟ کیا اقتدار کے بُھوکے سیاست دان․ ․ ․ دولت اورجاہ وجلال کے بُھوکے بیوروکریٹس․ ․ ․ دنیا کے مالیاتی اداروں کی مقروض پاکستانی حکومتیں․ ․ ․ ہماری مقتدر حلقوں کی ذہنی غلامی ․ ․ ․یا بیرون ملک اسلام دشمن طاقتیں جن کو ملکوں کے اندر جاسوس درکار ہوتے ہیں․ ․ ․ ہماری ہر اُس پاکستانی فرد سے درخواست ہے جو اسلام اور پاکستان کا مخلص ہے اُسے اپنی اپنی جگہ پر اِس قادیانی سازش کاڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہیے تاکہ ہمارا پیارا پاکستان محفوظ اور قائم و دائم رہے۔ پاکستان ہے تو ہم ہیں․ ․ اور ہاں، اتنی سازشوں کے باوجود اگر پاکستان محفوظ قائم ودوائم ہے۔ اِس سے ہمارا ایمان مذید پختہ ہو گیا ہے، کہ اﷲ تو ہی اِس مثل مدینہ مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حفاظت کر رہا ہے۔ ورنہ ان حالات میں پاکستان کا باقی رہنا مشکل سے مشکل ترتھا۔ اﷲ پاکستان کا حامی و ناصر ہو آمین۔
 

Mir Afsar Aman
About the Author: Mir Afsar Aman Read More Articles by Mir Afsar Aman: 1130 Articles with 1095070 views born in hazro distt attoch punjab pakistan.. View More