ملک کا جو بھی رہنما ہوتا ہے وہ قوم کے مزاج، سوچ، سلوک،
ظرف، ضمیر،عزت و وقار،رویہ، جاہ و حشمت اور عزت و ناموس کی علامت ہوتا ہے ،
انہیں ہی دیکھ کر دیگر قومیں قو م کی گہرائی گیرائی کا اندازہ لگاتی ہیں،
ان کے افعال و اعمال، رہن سہن، سلوک اور برتے جانے والے رویے سے یہ اندازہ
لگایا جاتا ہے کہ وہاں کی قوم کا کیسی ہوگی،ان کے اندر کتنی عمق ہوگی ،
کتنا ہلکا پن ہوگا،کتنا اعلی ظرف ہوگی یا کتنی سطحی ہوگی۔ ہمارے پردھان
سیوک یا چوکیدار کو دیکھ کر ہمارے بارے میں اقوام عالم اندازہ لگاچکی ہے کہ
ہمارے اندر کتنی سوچ بوجھ، تدبر، تفکر،حالات کو سمجھنے کی صلاحیت ،دوررس
اور فہم و فراست ہے۔ کیوں کہ جمہوریت میں ہمیشہ ایسے رہنما کو منتخب کرتے
ہیں جو ہماری سوچ کو آگے بڑھاتے ہیں یا ہماری سوچ و فکر کے مطابق کام کریں،
جن کے اعمال و افعال ہماری سوچ کے عکاس ہوتے ہیں۔ ہم نے پردھان سیوک یا
چوکیدار کو دوسری میعاد کے لئے منتخب کیا ہے ظاہر سی بات ہے کہ اس کا
انتخاب کسی سوچ کے مطابق ہی عمل میں آیا ہے اور پردھان سیوک اسی سوچ پر عمل
پیرا ہیں اور اس کا اظہار وہ ہر جگہ، ہر جلسے، مجلس، محفل خواہ قومی ہو یا
بین الاقوامی کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں اب ملک کو الگ نظریے سے
دیکھا جانے لگا ہے، اس کے بارے میں شائع ہونے والی خبریں یا مضامین اس کے
گواہ ہیں۔ ہر سطح پر ہندوستان کی کم ہوتی رینکنگ اس کا عملی اظہار ہے۔ پہلے
جب ہندوستان کے رہنما کچھ بولتے تھے دنیا کے لوگ اسے سنجیدگی سے سنتے
تھے۔اب کیا صورت حال ہے یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اب تو صورت حال یہ ہوگی
ہے کہ ہمارے پردھان سیوک فوج کی کامیابی کواپنی کامیابی شمار کراتے
ہیں۔سائنس دانوں کی کامیابی اپنی کامیابی بتاتے ہیں۔ اب تو ملک میں فوج کو
’مودی سینا‘ کہا جانے لگا ہے۔ جو کام فوج یا سائنس دانوں کو کرنا چاہئے یا
کہنا چاہئے وہ ہمارے پردھان سیوک کہتے ہیں۔ جو اعلان سائنس دانوں کو کرنا
چاہئے وہ اعلان ہمارے پردھان سیوک کرتے ہیں۔لوگوں کے ذہن سے وہ واقعہ ذہن
سے محو نہیں ہوا ہوگا کہ جب لوک سبھا کے انتخابی عمل کے دوران سائنس دانوں
نے سیٹلائٹ کو مار گرانے کا تجربہ کیا تھا جس کی ضرورت قطعی نہیں تھی لیکن
شہرت کے بھوکے ہمارے پردھان سیوک نے نہ صرف تجربہ کروایا بلکہ اس کا سہرا
اپنے سر لینے کے لئے قوم کے نام خطاب بھی کیا جب کہ اس وقت انتخابی ضابطہ
اخلاق نافذ تھا۔ اس کا مقصد صرف اور صرف انتخابی فائدہ اٹھانا تھا جو انہوں
نے بخوبی اٹھایا اور اس کے لئے اپنے عزم کا ڈھنڈورا پیٹا اور کہا تھا کہ
گزشتہ حکومت کے اندر یہ ہمت نہیں تھی اس لئے اس نے اس کا تجربہ نہیں کیا۔
ہم نے کر دکھایا جس کے بعد عالمی پیمانے پر ہندوستان کے اس قدم کی سخت
تنقید کی گئی تھی۔کیوں کہ اس کے دوررس نقصانات ہوتے ہیں اور کوئی بھی بڑا
حادثہ ہوسکتا ہے۔جو خاندانی ہوتے ہیں یا جس رہنما کے اندر تدبر و فکر ،عمق
اور گہرائی ہوتی ہے انہیں بتانے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ دنیا محسوس کرتی
ہے جیسا کہ راجیو گاندھی کے ساتھ امریکی صدر ریگن کا سلوک یا بارک اوبامہ
کا منموہن سنگھ کے سلوک۔اسے قومی اور بین الاقوامی سطح پر محسوس کیا
گیا۔خلا میں سیارہ کو مارگرانے کی یہ صلاحیت منموہن سنگھ حکومت کے دوران
ہندوستانی سائنس دانوں نے حاصل کرلی تھی لیکن منموہن کے اندر تدبر عمق ،
گہرائی اور گیرائی ہے اس لئے انہوں نے اس وقت نہ تو اس کا اعلان کیا اور نہ
ہی تجربہ کیا کیوں فوجی اور جنگی طاقت کا حامل اسی کو کہا جاتا ہے جس کے
بارے میں دنیا بہت کم جانے ، جیسا کہ چین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے
پاس کیا کیا ہے کسی کو نہیں معلوم اور وہ ہمیشہ اپنی صلاحیت بہت کم کرکے
دنیا کو بتاتا ہے اسی لئے چین سے امریکہ بھی خوف کھاتا ہے۔اس کے خلاف کوئی
ملک اور امریکہ بھی کوئی قدم اٹھانے سے گریز کرتا ہے۔ چندر یان دوم جب
تاریخ رقم کرنے سے محض ایک قدم دور تھا اس موقع پر وزیر اعظم کا کنٹرول
سنٹر جاناسائنس دانوں کے کام میں رخنہ ڈالنے کے مترادف تھا۔یہ ساری حرکت
ملک کے اقتصادی بحران سے عوام کی توجہ کو ہٹانے اور خود کو سرخیوں میں لاکر
چندریان مشن کی کامیابی کا سہرا اپنے سر لینے کی کوشش تھی۔
ہندوستانی خلائی تحقیقی تنظیم (اسرو) نے ہفتہ کویعنی سات ستمبر کو بتایا کہ
چندریان -2 کے لینڈر وکرم کے چاند پر اترنے سے متعلق پہلے سے طے منصوبے کے
مطابق چل رہا تھا اور چاند کی سطح سے محض 2.1 کلومیٹر تک اس کا ڈسپلے چل
رہا تھا۔ لیکن اس کے بعد زمین پر واقع مرکز سے لینڈر کا رابطہ ٹوٹ گیا۔
ٹھیک ایک بج کر 53منٹ پر لینڈر وکرم چاند کی سطح پرپہنچنے والا تھاتاہم اس
کا رابطہ ٹوٹ گیا ۔لینڈر کا مشن کنٹرول پینل سے رابطہ ٹوٹتے ہی وہاں موجود
اسرو کے چیرمین ڈاکٹر کے سیون اور دیگر سائنسدانوں کے چہرے مرجھا گئے۔ وزیر
اعظم نریندر مودی نے کچھ دیر بعد سائنسدانوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا
کہ انہیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرو کے سائنسدانوں
نے اس مشن میں جتنا کچھ حاصل کیا ہے وہ قابل تعریف ہے اور ملک کو ان پر فخر
ہے۔چندریان -2 کا پروجیکشن 22 جولائی کو آندھرا پردیش کے شری ہری کوٹا واقع
ستیش دھون اسپیس سینٹر سے کیا گیا تھا۔ 14 اگست تک زمین کے مدار میں رہنے
کے بعد چاند کی طرف اس کاسفر شروع ہوا تھا اور چھ دن بعد 20 اگست کو وہ
چاند کے مدار میں پہنچا تھا۔ چندریان -2 کے تین حصے’آربیٹر‘، ’لینڈر‘ اور
’روور‘ میں سے آربیٹر اب بھی چاند کے مدار میں چکر لگا رہا ہے۔ چندریان
ٹومشن میں ایک ایسی روبوٹ گاڑی بھی شامل ہے، جو چاند کی سطح کا جائزہ لینے
کے ساتھ ساتھ وہاں پانی کی تلاش جاری رکھے گی۔ طے پروگرام کے مطابق لینڈر
وکرم اور اس کے اندر واقع روور ’پرگیان‘ کو آج صبح ڈیڑھ سے ڈھائی بجے کے
درمیان چاند کی سطح پر اتارا جانا تھا۔وکرم لینڈر سے سگنلس کے لئے اسرو کے
بنگلور ہیڈ کوارٹرس میں سائنس دانوں میں کافی تجسس دیکھا گیا۔سائنسدانوں نے
اس کے پیامات کا انتظار کیا۔اس کے سگنلس بھیجنے میں تاخیر سے اسرو کے
ہیڈکوارٹرس میں موجود تمام افراد فکر مند ہوگئے ۔بعد ازاں سیون نے اعلان
کیا کہ چندریان 2 کے لینڈر سے رابطہ ٹوٹ گیا ہے۔ تاہم چاند کی سطح سے چند
کیلو میٹر کی دوری پر ہی چندریان مشن 2کے لینڈر سے رابطہ کے ٹوٹنے کے بعد
اسرو کے سائنسداں اس سے ڈاٹا حاصل کرتے ہوئے اس کاتجزیہ کرنے میں مصروف ہیں
اور لینڈر وکرم کے ساتھ رابطہ کی بحالی کی کوشش کر رہے ہیں۔
خلائی ایجنسی چندریان 2کے لینڈر کے ٹریجکٹری سے ملنے والے ٹیلی میٹرک ڈاٹا
کا تجزیہ کر رہی ہے۔ساتھ ہی زمین پر کنٹرول سنٹر کو آخری مرتبہ ملنے والے
سنسر ڈاٹا کا بھی تجزیہ کرنے کا کام کیا جارہا ہے۔اسی دوران اسرو وکرم
لینڈر سے رابطہ کی بحالی کی مساعی میں سرگرم ہوگیا۔وہ دنیا بھر کے راڈارس
اور مواصلاتی آلات کے نٹ ورک سے رابطہ کر رہا ہے تاکہ چندریان 2کے لینڈر کے
اترنے کے بارے میں مزید ڈاٹا حاصل کیاجاسکے۔اسرو،چندریان 2کے آربیٹر کا
استعمال کرکے لینڈر کا پتہ چلایاگیا لیکن اس کی صحیح صورت حال کے بارے میں
ابھی کچھ معلوم نہیں۔ اسرو کے چیرمین کے سیون نے اس مشن کے آخری 15منٹوں کو
دہشت کے 15منٹ قرار دیا تھا جب لینڈر وکرم اپنے طورپر کام کرپاتا کیونکہ
زمین سے اس کی رہنمائی یا کنٹرول ختم ہوجاتاہے۔اسرو کی جانب سے چاند کے
جنوبی قطب علاقہ تک رسائی کا پیچیدہ مشن انجام دینے کی مساعی کی گئی
ہے۔ایجنسی نے اس کے لئے نئی ٹکنالوجی کا استعمال کیا۔اسی طرح کی کوشش اپریل
میں اسرائیل کی جانب سے کی گئی تھی جو کامیاب نہ ہوسکی۔اسرو کے سائنس دانوں
کو لمحہ آخر میں رابطہ کا انتظارکرنا پڑا کیونکہ لینڈر کو اس طرح ڈیزائن
کیا گیا تھا کہ وہ اس مرحلہ پر اپنے طورپر کام کرسکتا تھا اورفیصلہ کرسکتا
تھا تاہم چاند کے جنوبی قطب علاقہ میں اترنے سے دو منٹ پہلے اس کا رابطہ
ٹوٹ گیا۔
ہندوستان کے چاند کے جنوبی قطب پر پہنچنے کے پیچیدہ مشن کے تحت چندریان 2کے
وکرم لینڈر کے اترنے سے پہلے اس سے رابطہ ٹوٹنے کی خبر نے عالمی سطح پر
سرخیاں بنائی۔نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا نے چاند کے جنوبی قطب پر
پہنچنے کے سلسلہ میں اسرو کی ستائش کی۔امریکی میگزین وائرڈ کے آن لائن
ایڈیشن نے اسرو کی اس کوشش پر سرخی لگائی’’مشن کے لئے سب کچھ ختم نہیں
ہوا‘‘۔ نیویارک ٹائمس نے ہندوستان کی اس مساعی کی ستائش کی اور کہا کہ
دہائیوں کی خلائی تحقیق،عالمی عزائم کے ساتھ رہی۔نیو یارک ٹائمس نے
لکھا’’آربیٹار ہنوز کارکرد ہے‘‘۔’’چاند کے جنوبی قطب پر پہنچنے والے ممالک
کی صف میں ملک کے شامل ہونے کی کوشش میں تاخیر‘‘۔فرانس کے ایک اخبار سے
سرخی لگائی’’ٹوٹا ہوا خواب‘‘۔برطانیہ کے اخبارگارجین نے اپنی خبر میں سرخی
لگائی’’ہندوستان کا چاند کی سطح پر قدم جمانا متاثرکن‘‘۔
چندریان مشن پر دس ارب روپے کی لاگت آئی ہے اور اگر یہ مشن چاند کی سطح پر
اترنے میں کامیاب ہو گیا تو اپنی نوعیت کا یہ سستا ترین مشن ہو تا۔ اس سے
قبل صرف امریکہ، روس اور چین ہی چاند تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
ہندوستان اس فہرست میں چوتھا ملک ہوتا اگر کامیاب ہوتا۔ اس سلسلے میں
ہندوستان نے اپنا پہلا مشن سن 2008کے دوران خلاء میں بھیجا تھا اور اس نے
چاند کی سطح پر پانی کی موجودگی کی نشاندہی کی تھی۔ ہندوستان ایسا ہی ایک
انسان بردار مشن 2022 میں چاند پر بھیجنے کا ارادہ رکھتا ہے۔اسرو کے
چیئرمین ڈاکٹر کے سیون کے مطابق یہ پہلی بار ہے کہ چاند پر بھیجے گئے کسی
آربیٹر میں ایل بینڈ سار لگایا گیا ہے۔ چندریان -1 سمیت اب تک کے سبھی مشن
میں ایس بینڈ سار کا استعمال نہیں کیا گیا تھا۔ چندریان -2 میں دونوں ہیں۔
ایل بینڈ سار کی خاصیت یہ ہے کہ یہ چاند کی سطح سے 10 میٹر نیچے تک پانی
اور برف کا پتہ لگانے کے قابل ہے۔یہ پہلی بار ہے کہ کسی آربیٹر پر پانچ
مائکرون ویب لینتھ والے ہائی ریجولیشن انفراریڈ اسپیکٹرو میٹر کا استعمال
کیا گیا ہے۔چندریان-2 کے پاس کئی سائنس پے لوڈ ہیں جو چاند کی ارتقا اور اس
کی نشوونما کو تفصیل سے سمجھنے کا راستہ ہموار کریں گے۔ آربیٹر کے تحت 8 پے
لوڈ ہیں ، لینڈر کے پاس 3 پے لوڈ ہیں اور روور کے پاس دو پے لوڈ ہیں۔ لینڈر
اور روور کے پے لوڈ لینڈنگ سائٹ کے نزدیک صورتحال کا تجزیہ اور مطالعہ کریں
گے۔آربیٹر بالکل اچھی طرح کام کر رہا ہے اور اس معاملے میں ہم نے جو ہدف
مقرر کئے تھے، تقریبا تمام حاصل کر لیے ہیں۔ ویسے تو چاند کے مدار میں
آربیٹر ایک سال تک چکر لگانا طے کیا گیا ہے لیکن اس میں ساڑھے سات سال کے
لئے ایندھن ہے۔ اس ساڑھے سات سال میں وہ پورے چاند کی میپنگ کرسکے گا۔
چندریان 2کی ناکامی یہ پہلی ناکامی نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی چاند سے متعلق
متعدد مشن ناکام ہوچکے ہیں۔ ہندوستان ہندی میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق
گزشتہ چھ عشرے سے چاند کی سطح پر لینڈنگ سے متعلق نصف مشن ناکام رہے ہیں۔
امریکی خلائی ایجنسی ناساکے حقائق کی بنیاد پر یہ معلومات سامنے آئی ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق 1958 سے سب تک 109چاند مشن پروگرام چلائے گئے ہیں جن
میں سے 61کامیاب رہے۔ تقریباً 46مشن چاند پر اترنے سے متعلق تھے۔ ان میں سے
روور کی لینڈنگ اور سیمپل رٹرن بھی شامل تھے۔ان میں سے 21کامیاب رہے۔ جبکہ
دو کو جزوی کامیابی ملی۔ سیمپل رٹرن ان مشنوں کو کہا جاتا ہے جن میں نمونوں
کو جمع کرنا اور زمین پر بھیجنا شامل ہے۔ پہلا سیمپل رٹرن امریکہ کا اپولو
12تھاجو نومبر 1969میں شروع کیا گیا تھا۔ پہلے چاند مہم کا منصوبہ امریکہ
نے 17اگست 1958میں بنایا۔ مگر پائینیر صفر کا تجربہ ناکام رہا تھا۔ 1958سے
1979تک امریکہ اور یو ایس ایس آرنے ہی چاند مشن شروع کئے۔ ان 21 برسوں میں
دونوں ملکوں نے 90 مہم شروع کئے۔ اس کے بعد جاپان، یوروپی یونین، چین،
ہندوستان اور اسرائیل نے اس شعبے میں قدم رکھا۔ ان ممالک نے مختلف چاند مشن
، آربیٹر،لینڈر، فلائی بائے ( چاند کے مدار میں رہنا، چاند کی سطح پر اترنا
اور چاند کے پاس سے گزرنا)شروع کئے۔ ایک سال سے زائد وقت کے اندر اگست 1958
سے 1959کے دوران امریکہ اور ایو ایس ایس آر (روس)نے 14مہم شروع کئے۔ ان میں
سے صرف تین لونا ون، لونا، دو اور لونا تون کامیاب ہوئے۔ یہ سبھی یو ایس
ایس آر نے شروع کئے تھے۔ اس کے بعد جولائی 1964 میں امریکہ نے رینجر سات
مشن شروع کیا جس نے پہلی بار چاند کے نزدیک فوٹو لیا۔ روس کے جنوری 1966میں
شروع کئے گئے لونا 9مشن نے پہلی بار چاند کی سطح کو سطح کو چھوا اور اس کے
ساتھ ہی چاند کی سطح سے تصویر ملی۔ پانچ مہینے کے بعد 1966میں امریکہ نے
کامیابی سے ایسے ہی ایک مشن سرویئر ون کو انجام دیا۔ چاند پر پہلی مہم چار
جنوری 1959کو سوویت یونین کا لونا ون تھا۔ اسے یہ کامیابی چھٹے چاند مشن
میں ملی۔ اس سے قبل روس کی پانچ مہم ناکام رہی تھی۔ چاندپر 1969میں امریکہ
کی طرف سے بھیجا گیا اپولو11ایک لینڈر مارک مشن تھا۔ جس کے ذریعہ انسان نے
پہلی بار چاند پر قدم رکھا۔ تین رکنی مہم ٹیم کی قیادت نیل آرم اسٹرانگ نے
کی تھی۔
کسی مشن کی کامیابی یا ناکامی کو سائنس دانوں کی کامیابی یا ناکامی سے
موازانہ نہیں کیا جاسکتا۔ ان کی کوشش آخری لمحے تک ہوتی ہے کہ وہ کامیابی
سے ہمکنار ہوجائے تاکہ ان کا نام بھی تاریخ کے صفحات میں درج ہوجائیں۔جب
چندریان کا لینڈر وکرم اپنے ہدف سے 38کلو میٹر دور تھا تو وزیر اعظم اپنے
لاؤ لشکر کے ساتھ سنٹر پہنچ گئے۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب کوئی وی آئی پی یا
ملک کا وزیر اعظم کسی سنٹر میں پہنچے گا تو پروٹوکول کے حساب سے اس کا
خیرمقدم کیا جائے گا، اس وقت کام میں مصروف سائنس دانوں کے کام میں رخنہ
پڑے گااور جو ساری توجہ سے مشن پر ہونی چاہئے تھی کچھ نہ کچھ ضرورٹ بھٹکے
گی۔ سائنس دانوں کو اس موقع پر ساری توجہ اپنے مشن پر مرکوز رکھنی ہوتی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ اس وقت یہی ہوا ہوگا اور سائنس دانوں کے ذہن پر ایک
نفسیاتی دباؤ رہا ہوگا۔ اس سے قبل چندر یان ون کے لانچنگ کے وقت منموہن
سنگھ سنٹر نہیں گئے یا اگنی 5 میزائل داغنے کے وقت منموہن سنگھ نہیں گئے
تھے۔ اس کا مطلب قطعی نہیں تھا کہ منموہن سنگھ کو میزائل اور چندر یان ون
سے کوئی تعلق نہیں تھابلکہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ کام سائنس دانوں کا ہے اور
انہیں ہی کرنا چاہئے ۔ ان کے کام میں داخل دینا یا ان کے توجہ میں خلل
ڈالنا مشن کو ناکام بنانے کے مترادف ہوگا۔ اس لئے چندریان ون کامیاب رہا
اور اس مشن پر محض پانچ سو کروڑ روپے ہی خرچ ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ ملک نے
خلاء سے لیکر دفاع کے میدان میں قابل فخر کارنامہ انجام دیا لیکن کوئی وزیر
اعظم اس کا سہرا اپنے سر لینے کے لئے سنٹر نہیں پہنچ گئے تھے۔ ہمارے پردھان
سیوک نے اس موقع پر پہنچ کر جب مشن آخری مرحلے تھے ، اس مشن میں خلل نہیں
ڈالا؟ دنیا کے ممالک میں ایسا ہوتا ہے ؟ کیا کسی امریکی صدر کو ناسا سنٹر
میں لانچنگ یا سنٹر میں سائنس دانوں کو خلل ڈالتے ہوئے دیکھا یا سنا ہے؟۔
ہمارے وپردھان سیوک نے ایسا کیوں کیا اس پر ضرور غور کریں گے۔
|