ٹائم ٹریول اور ٹیلی پورٹیشن دلچسپ حقائق تیسرا حصہ

تحریر: کرن خان
اگلا موضوع ہے پیرالل ورلڈز یعنی متوازی کایناتوں کا وجود۔۔یہ کافی مشکل موضوع تھا اس ٹاپک نے بلامبالغہ میرا دماغ چاٹ لیا تھا ۔ اوپر سے کوانٹم ورلڈ کی جادوگر بلیاں یعنی چیشائر کیٹس نے مزید کثر پوری کردی ۔۔یہ پراسرار مسکراہٹ والی بلی میرے حواسوں پر کتنا ہی عرصہ سوار رہی۔جہاں بھی کالی بلی نظر آتی میں اس کو دیکھ کر سوچ میں پڑ جاتی کہ یہ کب مسکراے گی؟

اگر مسکرائی تو کب غایب ہوگی اس کو میں نے دیکھ لیا میں اس کی نآظر اس نے مجھے دیکھ لیا یہ میری ناظر اب غایب کون ہوگا پہلے ؟ تو ہم دونوں ہی ایک دوسرے سے ڈر کر ادھر ادھر بھاگ جاتے۔۔میں اس کو دیکھ کر مسکراتی تو پریشانی کی بات نا تھی لیکن اگر بلی مسکراتی تو معاملہ خراب ہوسکتا تھا ۔۔میرا ہارٹ فیل بھی ہوسکتا تھا۔۔

۔بہرحال یہ بلی ابھی سمجھ سے باہر ہی تھی کہ پین سپرمیا کا نظریہ مارکیٹ میں آگیا ۔۔اس کا تو نام ہی ڈرانے کو کافی تھا ۔۔میں نے سر تھام لیا ۔۔او نو ۔۔یہ کیا بلا ہوگی اب؟؟
لیکن نام کے برعکس یہ جادوگر بلیوں جتنا مشکل نا تھا۔۔خیر قصہ مختصر یہ تھیوری مجھ سے کسی صورت ہضم نا ہو رہی تھی۔۔دو سال شدید شوق سے رٹنے کے باوجود مجھے یہ ماننے میں کوئی عار نہیں کہ مجھے اس تھیوری کو سمجھنے میں مشکل پیش آرہی تھی۔

۔۔لیکن کیا کیا جاے شوق کا کہ مجھے اس تھیوری کو سمجھنا تھا ہر صورت کیونکہ۔۔liGo اور Cern جیسے تحقیقاتی اداروں میں ان تھیوریز پر کام ہورہا تھا کوئی مذاق تھوڑی تھا۔۔بالآخر یہاں مدد اس زریعے سے ہوئی جو میں نے سوچا تک نا تھا ۔جی ہاں یہاں بھی میرے مذہب نے ہی میری رہنمائی کی۔۔یا چند گنے چنے اسلامک اسکالرز کے لیکچر ڈھونڈ ڈھونڈ کر پڑھے جو ایسی تھیوریز کو سمجھتے ہیں اور سمجھاتے ہیں ۔

۔نا گوروں کی ریسرچ کہہ کر مذاق اڑاتے ہیں ۔نا ملحدوں کے جھوٹ کہہ کر نفرت کرتے ہیں۔۔اب بھی ایسے کئی لوگوں سے میرا واسطہ پڑا جو میری جان کو آجاتے ہیں کہ جھوٹ ہے بکواس ہے یوں نہیں یوں ہے لیکچر شروع کردیں گے ۔تو ان سے گزارش ہے کہ اختلاف رائے رکھیں لیکن مہذب انداز اپنائیں میرے ساتھ زہر پلانے یا سولی پر چڑھانے والا رویہ نا رکھیں یہ دور جاہلیت کی علامت ہے ۔۔

خیر مذہب کی مدد سے یہ مشکل ترین تھیوری مجھے ایسے سمجھ آئی کہ میں خوشگوار حیرت میں مبتلا ہوگئی۔۔یہاں اکثر اداروں میں کوانٹم مکینکس جیسا ٹاپک پڑھانے سے ٹیچر کتراتے ہیں ۔۔اور یوں ڈرتے ہیں گویا اس کو پڑھانے سے ایمان ضایع ہوجاے گا ۔ میں سب کو ٹارگٹ نہیں کر رہی گنے چنے ہی سہی پڑھاتے تو ہیں ۔جو نہیں پڑھاتے اگر قرآن پاک سمجھ کر پڑھتے تو کبھی نا ڈرتے ۔
۔آج ان سے پوچھ لو تو مسلمان ساینسدانوں کی فتوحات گنواتے نا تھکیں گے ۔۔لیکن یہ مانتے ان کو موت لاحق ہوگی کہ مسلم ساینس دان کبھی ان جیسے تنگ نظر نہیں تھے۔۔انہی تمام تھیوریز پر اس دور میں مسلم ساینسدان بھی کام کر رہے تھے ۔تو کیا وہ بھی غلط تھے؟

خیر موضوع پر آتے ہیں ۔۔ اب زرا کھلے دماغ کے ساتھ حقایق کو سمجھیں ۔۔پین سپرمیا کا نظریہ کیا ہمارے مذہب سے متصادم ہے ؟؟ ان شارٹ یہ نظریہ کہتا ہے زندگی زمین پر نا تھی خلا سے آئی یا کسی اور جگہ سے لائی گئی ۔تو کیا ہم نہیں جانتے کہ زمین ہمارے رہنے کی جگہ نا تھی ہمیں جنت سے یہاں بھیجا گیا ہمارے لیے آباد کی گئی ۔ اس نظریے میں تو ہمارے عقاید کی تائید ہی ہوئی نا ۔۔۔ !

اور رہ گئی بات پیرالل ورلڈ کی تو قرآن میں بعض مقامات پر اللہ فرماتے ہیں کہ سات زمینیں سات آسمان بناے۔۔اب ہمیں نا تو آسمانوں کا پتہ نا بقیہ چھ زمینوں کا ۔۔ظاہر ہے اللہ نے کہا ہےتو شک کی گنجایش ہی نہیں ان بقیہ چھ زمینوں کو پیرالل ورلڈز بھی کہا جا سکتا ہے نا؟ متوازی کایناتیں اگر نظریہ دیا جا رہا تو ہمارے لیے پریشانی کی تو بات ہی نہیں۔۔
ہمیں تو خوشی ہونی چاہیے ۔۔ہماری کتاب کی سچائی ان پر مزید بہترین طریقے سے آشکار ہورہی ہے۔۔اب کچھ لوگوں کو کل سے یہ اعتراض کہ ساینس قرآن کا موضوع نہیں ۔تو یہ آپ کے سمجھنے کی غلطی ہے۔۔ قرآن ایک مربوط جامع متفرق موضوعات پر مبنی کتاب ہے ۔۔اس میں زندگی کے ہر شعبے کے لیے مناسب رہنمائی موجود ہے ۔۔اس میں امر ہیں نہی ہیں سوشیالوجی ' پولیٹکس' ساینس ' ادب ' بزنس ' وراثت ' حقوق العباد حقوق اللہ 'عبادات اور معاملات کیا نہیں ہے؟ زندگی گزارنے کے لیے جو ضروری ہے سب موجود ہے ۔۔جب آپ سب ٹاپکس سے فایدہ اٹھا رہےہوتے ہیں تو ساینس کی فیلڈ کو بھی سمجھیں۔۔

یہ نشانیاں ایسے ہی نہیں دے دی گئیں۔۔بار بار کہا گیا کہ عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں تو عقل والوں کو ایک طرح سے دعوت ہی دی گئی کہ ان نشانیوں کو سمجھو ۔

اب تو سنا ہے مارس پر سفر کی تیاریاں ہیں۔۔سن 2022 میں ایک قافلہ وہاں روانہ ہورہا ہے ۔۔اور تیاریاں بھی مکمل ہیں۔۔مریخ کے اس مشن پر بے پناہ اعتراضات دیکھنے میں آے جتنی شدومد سے اس کی مخالفت ہوئی اسی شدت سے اس پر کام جاری رہا ۔۔ کافی مسلمانوں نے بھی کھل کر مخالفت کی ۔۔شاید میں بھی تنقید ہی کرتی اگر ایک مسلمان ریسرچر کی اس سفر کے بارے میں زبردست سی وضاحت نا دیکھتی۔۔اور ظاہر ہے اس کی تحقیق نے سوچ کا رخ بدلنے پر مجبور کردیا ۔

۔انہوں نے سورت یاسین کی آیت نمبر 40'41 '42 کا سیکوینس کے ساتھ ترجمہ کیا اور نتیجہ سامنے تھا۔۔آیت نمبر 38 سے فلکیات کا موضوع شروع ہوا جو 44 تک رہا ان آیات کا خلاصہ یوں ہے کہ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ چاند سورج ستارے زمین اپنے اپنے مدار میں تیر رہے ۔اور ان کی حد بندی ہوچکی اپنے اپنے مداروں میں تیرنے کے پابند ہیں ایک دوسرے کے مداروں میں داخل ہوکر ٹکرا نہیں سکتے یا ایک دوسرے کو پکڑ نہیں سکتے ۔

اس کے بعد 41 نمبر آیت زیادہ توجہ طلب ہے جس کا ترجمہ کچھ یوں کیا جاتا تھا کہ ہم نے انسانوں کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا اور ایسی اور بھی سواریاں انسانوں کے لیے بنائیں تاکہ یہ سوار ہوں۔۔( مولانا اشرف علی تھانوی) اب فلک المشحون کی تفسیرمیں حضرت نوح سےکشتی مراد لی جاتی رہی کیونکہ بیسویں صدی میں خلا کا سفر یا کسی دوسرے سیارے پر رہایش کا تصور موجود نا تھا ۔

۔لیکن کافی مفسرین ساتھ ساتھ غور کرتے رہے کہ سیاق وسباق میں جب فلکیات ڈسکس ہورہی ہے کسی طوفان بارش یا پانی کا زکر نہیں تو درمیان میں حضرت نوح کی کشتی کا حوالہ موضوع فٹ نہیں ہورہا لہذا یہ فلک المشحون پر مسلسل غور کرتے رہے ۔تو ان کے مطابق میں نے یہ تشریح اب جا کے سمجھی کہ اللہ تعالی اس آیت میں کچھ یوں سمجھا رہے کہ ہم نے انسانوں کو تیرتی ہوی کشتی یعنی زمین پر سوار کیا ۔۔اور اس کے علاوہ بھی موجود ہیں جہاں ہم سوار کراتے ہیں یا کرائیں گے۔۔تو اس طرح اللہ تعالے نے چودہ سو سال پہلے ہی واضح کردیا کہ دوسرے سیاروں پر یا تو آل ریڈی انسان آباد ہیں ۔یا انسان آباد کریں گے ۔۔

بہرحال مجھے بھی یہ تشریح بڑی پسند آئی اور سیاق سباق سے ریلیٹڈ بھی لگی۔۔,آیت نمبر 43 میں انسان کو اسکی حثیت بھی یاد دلا دی کہ ہم چاہیں تو تمہیں اسی جگہ غرق کردیں کوئی بچانے والا نا ہوگا ۔۔اورآیت نمبر 44 میں مزید بھی وضاحت کردی کہ ان سہولتوں سے فایدہ اٹھا رہے ہو تو اسی کی مرضی سے اٹھاوگے۔اور معین وقت تک ۔۔ بلاشبہ قرآن پاک ایسی معجزاتی کتاب ہے اس کو سمجھتے جائیں اس کے کمالات کم نا ہونگیں۔۔( اگلا حصہ آخری ہوگا )
 

Kiran Khan
About the Author: Kiran Khan Read More Articles by Kiran Khan: 16 Articles with 20500 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.