طلحہ السیف
ریمنڈ ڈیوس چلا گیا اور اسے جانا ہی تھا۔ مقتولین کے ورثا غائب ہیں اور
انہوں نے غائب ہونا ہی تھا۔ وفاقی اور صوبائی حکومت ایک دوسرے پر الزام
تراشی میں مصروف ہے اور ایسا ہونا ہی تھا۔ کچھ لوگ دھرنوں اور جلوسوں میں
مصرو ف ہیں انہوں نے یہ کرنا ہی تھا۔ امریکی جیت گئے انہوں نے جیتنا ہی تھا
اور ہم ہار گئے کیونکہ ہم نے ہارنا ہی تھا۔ ویسے بھی اس میدان میں ہار جیت
ہمارے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی اصل میدان سجا ہوا ہے اور دیکھئے وہاں
ہمارے شیروں نے آسٹریلیا کو ۲۱ سال بعد عبرت ناک شکست سے دوچار کرکے چہار
دانگِ عالم میں میں پاکستان کا نام روشن کر دیا اور قوم کو فاتحانہ بھنگڑے
ڈالنے کا موقع مہیا کیا۔ بات ریمنڈ کی چل رہی تھی اسکے قضیے میں جو ہونا
تھا وہی ہوا۔ فیصلے کی شب ایک بھائی کو ہارٹ اٹیک ہو گیا اور دوسرا ہنگامی
حالت میں تیمار داری کے لیے عازم لندن ہوا، یہ ایک بالکل ’’اوریجنل‘‘ صورتِ
حال تھی۔ یار لوگ خوامخواہ ہی انگلیاں اٹھاتے ہیں۔ ہارٹ اٹیک کسی وقت بھی
ہو سکتا ہے اور تیمارداری کی ضرورت کسی وقت بھی پیش آسکتی ہے، اس میں شک
کرنے کی کیا بات ہے اور خاص طور پر جب رانا صاحب جیسے ثقہ لوگ چیخ چیخ کر
یقین دلا رہے ہوں کہ بیماری ہمیشہ کی طرح بالکل اوریجنل ہے اور اگر ریمنڈ
کی رہائی سے اس علالت یا پنجاب حکومت کا کوئی بھی تعلق ثابت ہو جائے تو وہ
اپنی وزارت سے مستعفی ہونے پر بھی تیار ہیں، ایسے میں شک کا کیا جواز رہ
جاتا ہے؟ کیا کوئی انسان اتنی بڑی مونچھوں کے ساتھ بھی جھوٹ بول سکتا ہے؟
صد حیف، صد افسوس ان قصیدہ گو کالم نگاروں پر جنہوں نے ریمنڈ کے قضیے میں
اپنے حکمرانوں پر الزام تراشی اور بہتان طرازیوں کے پہاڑ توڑ دئیے۔ یہ سارے
باخبر لوگ جانتے تھے کہ ریمنڈ تفتیشی افسران کے ساتھ کیا سلوک کر رہا ہے؟
اور اسکے پروٹوکول کے تقاضے پورے کرنے کے لیے حکمرانوں کو کیا کیا بے
غیرتیاں کرنا پڑ رہی ہیں، جیل میں اذان بند ہے، تمام داڑھی والے قیدی
ساہیوال اور دیگر جیلوں میں منتقل کر دئیے گئے ہیں، مقتولین کے ورثا پر کیا
گزر رہی ہے، انہیں اس معاہدے پر راضی ہونے کے لیے کس قدر سخت دباؤ سے گزرنا
پڑ رہا ہے، امریکی کس لہجے میں بات کر رہے ہیں اور ہمارے حکمرانوں کا جواب
کس انداز میں ہے۔ ان ساری معلومات کے باوجود یہ افسانہ نویس کبھی حکمرانوں
پر ’’حمیت‘‘ کا الزام لگاتے ہیں اور کبھی ’’اصول پسندی‘‘ کا، کبھی ’’شفاف
انصاف‘‘ کی تہمت دھرتے ہیں اور کبھی ’’حق گوئی‘‘ کا بہتان۔ ظلم کی حد
دیکھئے کہ حکمرانوں پر ’’غیرت‘‘ اور امریکہ کے سامنے ’’کلمۂ انکار‘‘ کہنے
تک کی باتیں منسوب کردی گئیں۔ اخبارات کے صفحے خوب سیاہ کیے گئے اور ان
سارے بے بنیاد الزامات کا اس قدر واویلہ کیا گیا کہ امریکی شک میں پڑ گئے
ایک وفد جاتا اور دوسرا اگلے دن صفائی لینے آ پہنچتا۔ حکمران بیچارے ہاتھ
جوڑ جوڑ کر صفائیاں دیتے نظر آتے: کہ جناب! ہم سے ایسی ’’حرامکاری‘‘ کا
تصور بھی محال ہے، آپ ہمارا یقین کیجئے نہ کہ ان قلم فروش کالم نگاروں کا۔
ریمنڈ کے قضیے نے بہت سے نئے امور آشکار کر دیے، دو باتیں ہمیں بھی کام کی
معلوم ہوئیں۔ پہلی یہ کہ دنیا کی سب سے بے خبر اور بھولی حکومت پنجاب میں
پائی جاتی ہے۔ فور شیڈیول نامی ایک ظالمانہ فہرست میں مندرج ناموں کے ساتھ
پنجاب حکومت کا رویہ ہم پچھلے طویل عرصے سے دیکھتے چلے آرہے ہیں کہ پنجاب
کے دور دراز دیہاتوں میں رہنے والا کوئی ایسا شخص جسکا نام اس فہرست میں ہو
جونہی اپنے گاؤں سے نکلتا ہے فوراً لاہور تک گھنٹیاں بج جاتی ہیں، اس حسن
کارکردگی کی وجہ سے ہمارا خیال یہی تھا کہ پنجاب حکومت بہت باخبر ہے لیکن
اب پتا چلا کہ یہ بیچاری تو اسقدر بھولی بھالی اور سیدھی سادی مخلوق ہے جسے
اتنا بھی پتا نہیں چلتا کہ چار گھنٹے پہلے لاہور میں ایک امریکی طیارہ کیوں
اترا ہے؟ مقتولین کے ورثا کے گھروں پر تین دن تک تالے کیوں پڑے رہے؟ وہ
کہاں غائب ہیں؟ فرد جرم عائد ہونے کے ٹھیک پندرہ منٹ بعد عدالت کس نے
کھلوائی ہے؟ ورثا نے کہاں سے نازل ہو کر اپنا چند منٹ پرانا مؤقف اچانک
تبدیل کر کے دیت قبول کر لی ہے اور پھر کہاں غائب ہو گئے ہیں؟ ریمنڈ کب جیل
سے نکلا ہے؟ اور امریکہ روانہ ہو گیا ہے۔ اتنی بھولی بھالی اور سیدھی سادی
حکومتیں تو شاید اس زمانے میں بھی نہ ہوتی ہوں گی جب سائنس دانوں کے بقول
انسان بال پہنتا تھا، ہڈیاں کھاتا تھا اور پتھر کے گھر وں میں رہتا تھا۔
لیکن ہم شک کرنے کی ’’حماقت‘‘ نہیں کر سکتے کیونکہ رانا صاحب نہ صرف
انتہائی ثقہ آدمی ہیں بلکہ فور شیڈیول کی لسٹیں بھی انہی کا محکمہ بناتا ہے۔
دوسری کام کی بات ’’استاد ریمنڈ صاحب‘‘ نے خود سمجھائی کہ سوال کرنے اور
سوال پوچھنے میں کیا فرق ہوتا ہے؟ شنید ہے کہ دوران تفتیش اس نے ایک افسر
کے سوال پوچھنے پر اسے کہا کہ ’’تم سوال کرسکتے ہو پوچھ نہیں سکتے‘‘ ہمارے
افسران کو چونکہ یہ ادبی نکتہ معلوم نہیں تھا اس لیے ریمنڈ نے خود وضاحت
کردی ’’امریکہ پاکستان کے حکمرانوں کی جب آپس میں ملاقات ہوتی ہے تو امریکی
سوال پوچھتے ہیں اور پاکستانی سوال کرتے ہیں‘‘۔
ریمنڈ چلا گیا اور سب کچھ ویسا ہی ہوا جیسا کہ امید تھی ہمیں بھی اور
امریکیوں کو بھی۔ سودے بازی کی تفصیلات اور جزئیات اب وہی کالم نگار لکھ
رہے ہیں جنہیں کل تک ریمنڈ کے ساتھ انصاف ہوتا نظر آرہا تھا اس لیے ہم وہ
باتیں نہیں لکھتے انہیں کالموں سے معلو م ہوا کہ من جملہ ایک شق یہ بھی تھی
کہ آئندہ ڈرون حملے نہ ہونگے اور وہ غالباً اب تک نہیں ہوئے ، سرکاری جرگے
پر نازل ہونے والی تباہی کسی ’’فنی‘‘ خرابی کا شاخسانہ ہو سکتی ہے۔ امریکی
جہازوں اور میزائیلوں میں یہ بیماری اسی طرح عام ہے جس طرح پاکستان میں
نزلہ، زکام۔ افغانستان وغیرہ میں آئے روز کبھی افغان بچے اور کبھی خود
امریکی فوج اسی کے سبب لقمہ ٔ اجل بن جاتے ہیں اس لیے امریکہ پر ’’شک‘‘ نہ
کیا جائے۔ معاہدوں کی پاسداری اور وفا داروں کے ساتھ وفا امریکا کی وہ عادت
ہے جسکا دنیا میں کسی کو بھی انکار نہیں، لہٰذا دیت کی رقم ادا کرنے والے
وفاقی یا صوبائی حضرات بھی دل پر بوجھ نہ لیں امریکہ وہ رقم ادا کرنے کا
وعدہ بھی ضرور پورا کریگا بشرطیکہ کوئی ’’فنی‘‘ خرابی پیش نہ آگئی۔
ریمنڈ کا قضیہ تقریباً ڈیڑھ ماہ گرم رہا لیکن ہم نے اس پر کچھ نہ لکھا۔ کئی
حضرات بذریعہ فون و ای میل یاد دہانی کراتے رہے اور فرمائش بھی۔ ہم قطعی
طور پر اپنے حکمرانوں کے بارے میں کسی ’’بدگمانی‘‘ میں مبتلا نہ تھے اس لیے
خاموش رہے لیکن آج خیال آتا ہے کہ اگر یہ ساری باتیں پہلے ہی لکھ دیتے تو
آج کئی سینئر کالم نگاروں کی طرح ایک فخریہ کالم لکھتے اور اس میں باقاعدہ
اس کالم کا حوالہ دیکر اپنی باخبری کی دھاک بٹھاتے کہ جناب ہم نے تو اتنے
دن پہلے ہی بتا دیا تھا کہ ریمنڈ صاحب کسی دن باعزت بری ہو کر امریکہ چلے
جائیں گے اور ہمارے حکمران عدالتی فیصلے پر عمل کر کے سرخرو ہونگے۔ لیکن اس
بار بھی یہ حسرت دل میں ہی رہ گئی اور ہم نے ہمیشہ کی طرح دیر کر کے یہ
موقع بھی گنوا دیا۔ چلیں ایک پیشین گوئی تو لگے ہاتھوں سن ہی لیں! اگر ﴿خدا
نخواستہ﴾ پاکستان میں پھر رہے سینکڑوں ریمنڈوں میں سے کسی اور نے ایسی حرکت
دوبارہ کر دی تو نتیجہ یہی نکلے گا جو اب نکلا اس لیے نہ زیادہ جلسے جلوس
کریں اور نہ ہی حکمرانوں کے بارے میں کسی ’’بدگمانی‘‘ میں مبتلا ہوں۔ |