کہانی

نورین کی ساس کا نام رقیہ بیگم تھا- وہ اٹھاون ساٹھ سال کی ایک خوش شکل عورت تھی اور اس عمر میں بھی نورین کا سسر اس کا دم بھرتا تھا- سسر کی عمر چونکہ زیادہ ہوگئی تھی اس لیے اس کا کاروبار اس کے بیٹے عابد نے سنبھال لیا تھا مگر وہ اب بھی پاپندی سے روزانہ اپنی کمپنی جاتا تھا اور کاروبار کی دیکھ بھال میں بیٹے کا تھوڑا بہت ہاتھ بٹاتا تھا-

چھٹی والے دن اس کے سسر کی یہ ہی کوشش ہوتی تھی کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ ساتھ رہے- وہ ٹی وی دیکھ رہی ہوتی تھی تو وہ بھی اس کے پاس ہی بیٹھا نظر آتا تھا- دوپہر کو کئی مرتبہ اس نے کھانے کے بعد بیوی کو اخبار میں سے خبریں سناتے ہوۓ خود دیکھا تھا- رقیہ بیگم بھی اس کی سنائی ہوئی خبریں بڑی دلچسپی اور غور سے سنتی تھی- رات کے کھانے کے بعد دونوں ٹہلنے کے لیے بلا ناغہ قریبی پارک میں بھی جاتے تھے-

نورین کو یہ سب کچھ دیکھ دیکھ کر بہت اچھا لگتا تھا- اتنی عمر ہونے اور اتنا عرصہ ساتھ گزارنے کے باوجود بھی ان دونوں کی محبّت مثالی تھی- خود اس کی ساس بھی اس کے سسر کا بچوں کی طرح خیال رکھتی تھی- اس نے کیا کھانا ہے، کیا پینا ہے، سردی گرمیوں میں کون سا لباس زیب تن کرنا ہے وغیرہ وغیرہ ان سب باتوں کا وہ خود دھیان رکھتی تھی- اس کی پوری کوشش یہ ہی ہوتی تھی کہ اس کے سسر کا ہر کام اپنے ہاتھوں سے کرے- ویسے بھی وہ بڑی ہنس مکھ اور دوسروں کی خوشی میں خوش رہنے والی عورت تھی- وہ نہ خود غصہ کرتی تھی اور نہ غصہ کرنے والوں کو پسند کرتی تھی- نورین کے شوہر عابد کو ہمت نہیں ہوتی تھی کہ وہ اپنی ماں کے سامنے اس کو کسی بات پر غصے میں آ کر ڈانٹ سکے- وہ اپنی ماں کا بہت ادب اور احترام کرتا تھا، اس لیے اس کے سامنے نورین کو کبھی کچھ نہیں کہتا تھا-

ساس سسر کو ایک دوسرے میں مگن دیکھ کر نورین کو بہت لطف آتا تھا- یہ ماحول اس کے اپنے گھر میں نہیں تھا- اس کا باپ ایک غصے والا آدمی تھا اور اس کی ماں اس سے دبی دبی سی رہتی تھی- اس ماحول کی وجہ سے نورین اور اس کے دوسرے بھائی بہن بھی بہت سنجیدہ رہتے تھے- وہ حسرت سے سوچتی تھی کہ کاش اس کے باپ کا سلوک اس کی ماں کے ساتھ ایسا ہوتا جیسا اس کے سسر کا اس کی ساس کے ساتھ ہے تو اس کی ماں کتنی خوش ہوتی- بیوی نئی ہو یا پرانی اس کی اصل دولت اور خوشی تو اس کے شوہر کا پیار اور اس کی توجہ ہی ہوتی ہے-

ایک دفعہ اس کی نند نسرین کے ہاں بال بچہ ہونے والا تھا- اس کا شوہر فوج میں ملازمت کرتا تھا اور ان دنوں اس کی تعیناتی جہلم میں تھی جہاں دور پرے کا بھی کوئی رشتے دار نہیں تھا- بیٹی پر وقت پڑا تو ماں اس کی دیکھ بھال کے لیے اسلام آباد سے اس کے پاس جہلم چلی گئی- دل تو نورین کا بھی چاہ رہا تھا کہ وہ بھی اس کے ساتھ جائے، مگر اپنے سسر اور شوہر کی دیکھ بھال اور بچوں کے اسکولوں کی وجہ سے اس نے اپنا ارادہ ملتوی کردیا-

نورین کی ساس گھر سے گئی تو اس کا سسر اداس ہوگیا مگر مجبوری ہی ایسی تھی کہ کچھ نہیں کیا جاسکتا تھا- عابد نے اپنے باپ کی اداسی محسوس کرلی تھی- ایک روز اس نے مسکرا کر نورین سے کہا- "جانتی ہو میں تم سے ٹوٹ کر محبّت کیوں نہیں کرتا- میں سوچتا ہوں کہ تم اگر چند ہفتوں کے لیے بھی اپنی امی کے گھر چلی گئیں تو میں بھی ابّا جان کی طرح بے مقصد گھر میں ادھر ادھر کے چکر لگاتا پھروں گا-"

"آپ تو ابّا جان سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں- " نورین نے شوخی سے ہنس کر کہا- "مجھے امی کے گھر جانے ہی نہیں دیتے- نہ یہ گھر جائے گی نہ مجھے اداس پھرنا پڑے گا-"

اس کی بات سن کر اس کا شوہر جھینپ سا گیا- "میں تمہیں منع تھوڑا ہی کرتا ہوں- بس تم خود ہی بہت کم جاتی ہو-" اس نے اپنی صفائی پیش کرتے ہوۓ کہا-

"میں تو مذاق کر رہی تھی- میں تو اپنی امی کی بات پر عمل کرتی ہوں- انہوں نے مجھ سے کہہ رکھا ہے کہ جو شوہر اپنی بیویوں سے بہت زیادہ محبّت کرتے ہیں، ان کو اپنی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دینا چاہتے تو ان کی اس کمزوری کا کبھی فائدہ نہیں اٹھانا چاہیے- آپ منہ سے کہیں یا نہ کہیں مجھے اس بات کا اندازہ ہے اور اسے میں اپنی خوش قسمتی سمجھتی ہوں- ماؤں کی تو یہ ہی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی بیٹیاں اپنے اپنے سسرال میں ہنسی خوشی زندگی گزاریں- ان کی خوشی بیٹیوں کی خوشی سے جڑی ہوتی ہے-"

"امی تو کچھ دنوں کے لیے چلی گئی ہیں- میں سوچ رہا ہوں کہ کل اتوار ہے- ابّا جان کو کہیں پکنک پر لے کر چلتے ہیں- ان کا دل بہل جائے گا-" عابد نے کہا-

"یہ تو آپ نے اچھا سوچا ہے- ان کا ذہن بھی بٹ جائے گا اور دونوں بچے بھی باہر جا کر خوش ہوجائیں گے-" نورین خوش ہو کر بولی-

اگلے روز وہ لوگ فاطمہ جناح پارک میں پہنچ گئے- وہاں پر کافی چہل پہل تھی- پکنک کی غرض سے آئے ہوۓ بچے کھیل کود میں مصروف تھے- ان لوگوں نے بھی ایک مناسب جگہ دیکھ کر پڑاؤ ڈال لیا- نورین کے دونوں بچے اپنے باپ کے ساتھ آس پاس گھومنے پھرنے کے لیے تیار کھڑے تھے- عابد نے نورین سے کہا- "آؤ تم بھی چلو- ابّا جان یہاں بیٹھے ہیں-"

"نہیں آپ لوگ جائیے- میں ابّا جان کے پاس بیٹھی ہوں- یہیں بیٹھے بیٹھے آپ لوگوں کو دیکھتی رہوں گی-" نورین نے مسکرا کر کہا- عابد اور دونوں بچے چلے گئے-

نورین نے اپنے سسر کی طرف دیکھا- وہ دور جاتے ہوۓ اپنے بیٹے اور پوتوں کو دیکھتے ہوۓ کچھ سوچ رہا تھا-

"ابّا کافی نکالوں آپ کے لیے؟" اس نے تھرماس اپنی طرف کھسکاتے ہوۓ پوچھا-

"نیکی اور پوچھ پوچھ- یہ واحد چیز ہے جس پر تمہاری ساس نے پابندی نہیں لگائی ہے- اس میں نہ چینی ہوتی ہے اور نہ ڈبوں کا دودھ-" اس کے سسر نے خوش دلی سے کہا-

کافی کو کپ میں نکالتے نکالتے نورین مسکرا پڑی- اس کے سسر نے اس وقت بھی اپنی بیوی کو یاد رکھا تھا- کافی نکال کر اس نے کپ اسے تھمایا- اس نے ایک گھونٹ بھرا اور بولا- "بیٹی نورین جانتی ہو- جب میری شادی ہوئی تھی تو میں ایک نہایت غریب آدمی تھا- نائیلون کی چپلیں بنانے کی ایک فیکٹری میں ملازمت کرتا تھا اور ہم ایک ٹوٹے پھوٹے گھر میں رہا کرتے تھے-"

نورین نے نفی میں سر ہلا دیا- "گھر میں کبھی اس موضوع پر بات ہی نہیں ہوئی-"

"یہ موضوع کبھی نکلا ہی نہیں ہوگا ورنہ رقیہ تمہیں ضرور بتاتی-" اس کے سسر نے کہا- "شادی کے وقت میں انیس سال کا ہوں گا- میں نے عدم دلچسپی کی وجہ سے میٹرک بھی نہیں کیا تھا- نویں جماعت پڑھ کر ہی اسکول سے بھاگ گیا تھا- جس ماحول میں ہم لوگ رہتے تھے اور جہاں میری پرورش ہوئی تھی وہاں یہ کوئی عجیب بات نہیں سمجھی جاتی تھی-"

یہ تمام باتیں نورین کے لیے نئی تھیں- وہ حیرت اور دلچسپی سے انھیں سننے لگی-

"تمھاری ساس ہمارے خاندان کی ہی تھی اور اس کا باپ پیسے والا تھا- ان کا سلور کے برتن بنانے کا ایک کار خانہ تھاـ اس زمانے میں چائنا نے تو اتنی ترقی کی نہیں تھی، اس لیے مقامی سلور کے برتنوں کی بہت مانگ ہوا کرتی تھی- تمہاری ساس گھر بھر کی لاڈلی تھی اور اس کو تعلیم حاصل کرنے کا بھی بہت شوق تھا- یہ ہی وجہ تھی کہ شادی کے وقت اس کے جہیز میں اس کے میٹرک کا سرٹیفکیٹ بھی آیا تھا- میں اس بات سے قطعی مرعوب نہیں ہوا تھا کہ میں نان میٹرک ہوں اور میری بیوی میٹرک تک پڑھی لکھی ہے- مجھے زعم تھا تو اس بات پر کہ میں برسر روزگار ہوں اور اپنی بیوی کا خرچہ اٹھا سکتا ہوں- اس وقت میں غصے کا بھی بہت تیز تھا اور ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتا تھا- شائد اس کی یہ وجہ ہو کہ میں اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا اور بہت لاڈلا تھا- تعلیم چاہے لڑکے کی ہو یا لڑکی کی دونوں کو عقل دیتی ہے- تمہاری ساس نے بہت سمجھداری سے گھر بار سنبھالا- وہ میٹھی زبان کی ایک خدمت گزار اور صابر عورت تھی- اس نے مجھے کبھی یہ نہیں جتایا کہ اس کا باپ پیسے والا ہے اور نہ ہی اس نے کبھی روپے پیسے کی تنگی کا شکوہ کیا- اس کے دل میں لوگوں کے لیے کبھی منفی جذبات پیدا نہیں ہوتے تھے- وہ بزرگوں کو بہت عزت دیتی تھی اور سمجھتی تھی کہ ان کی خدمت کرنے سے گھر میں برکت اور خوشحالی آتی ہے- میرا ایک چھوٹا بھائی اور ایک چھوٹی بہن تھی- وہ ان کے ساتھ بھی بہت میل ملاپ سے رہتی تھی- ان کی ہر طرح کی ضروریات کا دھیان رکھتی، غرض کہ میرے گھر کا ہر فرد اس سے خوش تھا- اس نے ان کے دلوں میں جگہ بنا لی تھی- مجھے یاد ہے کہ جب میری بہن کی شادی ہو رہی تھی تو میری ماں نے رخصتی کے وقت اس سے چپکے سے یہ کہا تھا کہ دیکھ بیٹی، سسرال میں بالکل ایسے رہنا جیسے تمھاری بھابی یہاں رہتی ہے- اپنی پوری زندگی میں میں نے کسی کے لیے اس سے زیادہ تعریفی کلمات نہیں سنے-

ہماری شادی کا پہلا مہینہ بہت اچھی طرح گزرا- وہ بچوں کی طرح میری ذرا ذرا سی چیز کا دھیان رکھتی تھی- کبھی میری کسی خامی کا تذکرہ کر کے مجھے شرمندہ کرنے کی کوشش نہیں کرتی تھی- اس کا یہ انداز مجھے بہت اچھا لگتا تھا- یہ تو ہر ایک کی فطرت ہوتی ہے کہ وہ محبّت اور توجہ کا طلبگار رہتا ہے- کوئی اسے محبّت اور توجہ دے تو جواب میں وہ بھی اس کا دم بھرتا ہے اور پھر اپنی سی پوری کوشش کرتا ہے کہ کوئی ایسی حرکت نہ کرے جس سے محبّت اور توجہ دینے والے کا دل ٹوٹے- میں نے بھی اپنے غصے کو ختم کردیا تھا اور اچھی باتیں اپنانے کی کوششیں شروع کردی تھیں- میں نہیں چاہتا تھا کہ اتنے اچھے رویے والی بیوی کی اپنی کسی بات سے دل آزاری کروں-

شادی کے دو تین سال گزرے تو عابد اور نسرین پیدا ہو گئے- ہمارے اخراجات بڑھ گئے تھے مگر آمدنی وہیں کی وہیں تھی- بڑی تنگی کا سامنا کرنا پڑتا تھا-

جب یہ تنگی زیادہ بڑھی تو ایک روز مجھے احساس ہوا کہ میں نے پڑھائی چھوڑ کر غلطی کی تھی- اس کا تذکرہ میں نے رقیہ سے کیا تو وہ بولی- "میرے ذہن میں بھی یہ بات تھی- اسی سلسلے میں میں آپ سے بات کرنا چاہ رہی تھی- آپ ایسا کریں کہ دسویں جماعت میں پرائیویٹ طالب علم کی حیثیت سے داخلہ لے لیں- میں آپ کو ٹیوشن پڑھا دیا کروں گی- آپ ایک سال میں ہی میٹرک کرکے کالج میں داخلہ لینے کے قابل ہو جائیں گے- آپ پڑھ لکھ جائیں گے تو دیکھیے گا کامیابی کے دروازے کیسے کھلتے ہیں- الله نے چاہا تو آپ کا اپنا کاروبار ہوگا-

وہ میری ہر بات مانتی تھی، میرا بھی دل نہیں چاہا کہ اس کی بات رد کروں- میں نے کہا- "ٹھیک ہے- میں داخلہ تو لے لیتا ہوں مگر تم سے نہیں پڑھا کروں گا- مجھے شرم آئے گی- شام کو کسی ٹیوشن سینٹر چلا جایا کروں گا-"

وہ یہ سن کر خوش ہوگئی- میرا داخلہ بھی ہوگیا اور میں بیس روپے ماہوار پر شام کے ایک ٹیوشن سینٹر میں پڑھنے بھی جانے لگا- وہ میری تعلیمی سرگرمیوں پر نظر رکھتی تھی اور اندازے لگاتی رہتی تھی کہ میں کیسا پڑھ رہا ہوں- میری اس محنت پر وہ بہت خوش تھی اور اس کا اکثر تذکرہ کرتی رہتی تھی- اس کی اس نگرانی میں مجھے بہت مزہ آتا تھا اور میں خوب دل لگا کر پڑھتا تھا- دیکھتے ہی دیکھتے میں نے میٹرک کر لیا اور اگلے چار سال میں بی اے بھی-

گھر چلانے کے لیے میں ابھی تک اسی چپل بنانے کے کارخانے میں کام کرتا تھا- یہاں کی بنی ہوئی چپلیں سعودی عرب اور چند دوسرے ملکوں میں بھی جاتی تھیں اور وہاں دو ملازم ایکسپورٹ کے اس کام کو سنبھالے ہوۓ تھے- ان دونوں سے میری دوستی تھی- مجھے کچھ معلومات ملیں تو اس بات کا علم ہوا کہ اگر کوئی ایکسپورٹ کا لائسنس لے کر اپنا کام شروع کردے تو اس میں ترقی کے بہت مواقع ہیں- میں نے اس بات کا تذکرہ بیوی سے کیا تو وہ خوش ہوگئی- ویسے تو میری تنخواہ نہایت قلیل تھی، مگر وہ اس میں سے بھی کچھ نہ کچھ بچا لیتی تھی- ان بچے ہوۓ پیسوں سے اس نے تین چار سال پہلے ایک بڑی کمیٹی بھی ڈال دی تھی اور وہ کمیٹی جلد ہی نکلنے والی تھی-

کمیٹی کھلی تو میں نے ایکسپورٹ کے لائسنس کی درخواست دے دی- بی اے کرنے کی وجہ سے اور لوگوں سے جان پہچان کے نتیجے میں میری معلومات میں کافی اضافہ ہو گیا تھا- اس دوران میں نے چپل بنانے والے کار خانے سے نوکری چھوڑ دی تھی اور اپنے ایک دوست کے ساتھ جو ریڈی میڈ گارمنٹس کا کام کرتا تھا، اس کا شراکت دار بن گیا- اس شراکت داری میں رقیہ کی کمیٹی کام آئ تھی- کاروبار میں ہم ایک سے دو ہوۓ تو اس کام میں بھی تیزی آگئی اور ہمارا مال پاکستان کے دوسرے شہروں میں بھی جانے لگا اور ہماری آمدنی میں اچھا خاص اضافہ ہونے لگا-

ہمارا یہ کام بہت اچھے طریقے سے چل رہا تھا کہ مجھے ایکسپورٹ کا لائسنس بھی مل گیا- میں نے دوست کے مشورے سے بہترین کوالٹی کے بچوں کے ملبوسات تیار کر کے باہر کے ملکوں میں بھی بھیجنا شروع کردئیے- ہمارا تیار کیا ہوا مال ہر طرح سے نہایت معیاری ہوتا تھا اس لیے جلد ہی ہمیں بڑے بڑے آرڈر ملنا شروع ہوگئے اور ہمارا کام اتنا بڑھا کہ ہمیں سر کھجانے تک کی فرصت نہیں ملتی تھی- اس کے بعد ہمارے دن پھر گئے- ہمیں اس کام میں اتنا منافع ہوا کہ میں نے چند سالوں بعد اسلام آباد میں یہ گھر بھی خرید لیا اور عابد اور نسرین کو اچھے اسکولوں میں داخلہ بھی دلوا دیا-"

نورین حیرت سے اپنے سسر کی کہانی سن رہی تھی- وہ خاموش ہوا تو نورین نے کہا- "آپ نے تو بڑی ہمت سے کام لیا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آپ کو کامیابی مل کر رہی-"

"نہیں- یہ بات نہیں ہے- میں تو چپل بنانے والی فیکٹری کی ملازمت سے ہی بہت مطمئن تھا- یہ تو رقیہ کا ہی کمال تھا کہ اس نے سمجھداری سے کام لیتے ہوۓ مجھے ایک ٹھیک ٹریک پر ڈالا، میرے معاملات میں بھرپور دلچسپی لی اور میری ہمت بڑھاتی رہی- اگر وہ گھر کے تمام معاملات پر نظر نہ رکھتی اور ان کو ٹھیک کرنے میں دلچسپی نہ لیتی، مجھے پڑھنے لکھنے پر نہ اکساتی، پیسے بچا بچا کر کمیٹی نہ ڈالتی اور صرف اپنے کام سے کام رکھتی تو پھر ہماری زندگی میں بھی کوئی تبدیلی نہیں آتی- کسی نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ اکثر مردوں کی کامیابی کے پیچھے کسی عورت کا ہی ہاتھ ہوتا ہے-"

(ختم شد)

 

Mukhtar Ahmed
About the Author: Mukhtar Ahmed Read More Articles by Mukhtar Ahmed: 70 Articles with 132642 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.