جند ہاری

تحریر: نمرہ نور
وہ کیا کہہ رہا تھا اُسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔آنکھیں بے یقینی سے پھٹی پھٹی سامنے اُسے دیکھ رہی تھیں۔جیسے اُس کی زبان سے ادا ہونے والے لفظوں پر سماعت کو یقین نہ ہو۔دل نہیں نہیں کی تکرار کررہا تھاکہ جو کانوں نے سنا وہ جھوٹ ہے۔یا وہ کسی وحشت خیز خواب کے زیر اثر ہے۔لیکن ایسا نہیں تھا۔وہ ایک حقیقت کے ربرو تھی۔جو بہت جان لیوا تھی۔ٹانگوں پر کھڑے رہنے کی سکت ختم ہورہی تھی۔دل کسی ذبح کیے ہوئے جانور کی طرح پھڑک رہا تھا۔
’’آلین فاطمہ مجھے یقین ہے تم میری بات سمجھ گئی ہوگی۔‘‘اپنی دلکش آنکھوں میں اُمید کی لو لیے اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔درد سے پھٹتے ہوئے دل کے ساتھ اُس نے اس دشمن جان کو دیکھا۔
’’آلین تو تمہاری بات سمجھ گئی ہادی لیکن آلین فاطمہ کو کون سمجھے ،آلین فاطمہ کے دل کو کون سمجھے گا ؟جو صرف تمہارے نام کے ساتھ دھڑکتا ہے۔‘‘ اُ س کی بات پراُس نے کرب سے سوچتے ہوئے ،آنکھوں کو زور سے بھینچ لیا۔جیسے آنکھوں میں مچلتے ہوئے آنسوؤں کو باہر نکلنے سے زبردستی روکا ہو۔درد سے سینہ شک ہورہا تھا۔اک ہچکی لب سے ادا ہوئی۔درد میں بلبلاتی،چشم ِنم کو چھپاتی ،آلین فاطمہ کو عبدا لہادی نے دیکھا۔
’’ہوسکے تو مجھے معاف کر دیناآلین ۔تم سے نکا ح صرف دادا کی ضد پر کیا تھا۔میں مجبور ہوگیا تھا۔اب وہ نہیں ہیں تو میں یہ مجبوری ساری عمر نبھا نہیں سکوں گا ۔‘‘ محبوب کے ظالم الفاظ دل کو چیر رہے تھے۔آلین کو لگ رہا تھا اُس کی یہ سفاک باتیں جان لے لیں گی۔اُس نے کہا تھا کہ وہ یہ مجبوری نہیں نبھا سکتا تھا،پھر اس مجبوری کو اس نے تین لفظ بول کر چھوڑ دیا۔خود مجبوری سے آزاد ہوگیا۔اوراُسے تا عمر رہنے والے دکھ،درد میں قید کرگیا۔
جاننے والوں میں،جنگل میں آگ کی طرح یہ خبر پھیلتی گئی۔رخصتی سے چند دن پہلے وہ اُسے طلاق دئے گیا۔ماں کا بُرا حال تھا۔باپ بیٹی سے نظریں نہیں ملا رہا تھا۔تایا،تائی الگ ندامت سے سر جھکائے،بیٹے کو کو سا،ڈانٹا،گھر سے بے دخل کیا۔۔۔لیکن کیا فرق پڑتا تھا اُس کی تو دنیا ہی اجڑ گئی تھی۔دھڑکن دھڑکن پر عبدالہادی کا نام رقصاں تھا۔نکاح کے بولوں سے جو اُس کے قلب پر ابھرتا چلا گیا۔جو دل پر حکومت کرتا گیا۔جس کے نام سے جڑتے ہی ایک خوشگوار ،میٹھا میٹھا سا احسا س ہی رگ رگ میں چھا جاتا۔وہ لمحوں میں سب مٹا گیا ۔جیسے کوئی بچہ ریت پر نام لکھ کر مٹا دیتا ہے۔لیکن اُس کے دل پر نقش اپنے نام کو مٹا نہ سکا۔وہ کون مٹا سکتا تھا؟کیسے مٹا سکتا ہے؟دل کی دھڑکنیں جب کسی کے نام پر رقص کرنے کا عادی ہوجائیں تو اُس نام کو مٹانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوجاتاہے۔
عبدالہادی نے کہا تھا کہ اس میں کوئی قباحت نہیں کہ وہ الگ ہوجائیں جبکہ وہ ایک دوسرے سے جذباتی بندھن میں قیدبھی نہیں ،بلکہ وہ تو ایک مجبوری کے بندھن میں تھے۔جو اُن کے دادا کی شدید خواہش میں باندھا۔
اُس کے لٖفظوں کی بازگشت اپنے چار سوں گونجنے لگی۔دل درد سے چور مچھلی بن آب مانند تڑپ رہا تھا
’’کاش ہادی آپ کو معلوم ہوتا کہ میں مجبوری کے نہیں محبت کے بندھن میں بندھی ہوئی تھی۔ایسی محبت جو پاک تھی۔جو نکاح کے بولوں سے پیدا ہوئی تھی۔ایسی محبت جہاں میں نے آپ کے نام کے ساتھ دور کا سفر طے کرنے نکلی تھی۔جہاں سے اب واپسی ناممکن ہے۔آپ نے اپنا نام مجھ سے چھین لیا ہادی اب میں واپسی کا سفر کیسے طے کروں گی۔آپ نے یہ کیسے کہہ لیا کہ ہمارے درمیان کوئی جذباتی بندھن نہیں۔آپ مجبور ہوسکتے ہیں لیکن آلین فاطمہ کا پور پور آپ کی محبت میں ڈوبا ہو ا ہے۔۔۔کاش ۔۔کاش میرے پاس ایسا آلہ ہوتا اور میں آپ کو اپنا دل دکھاتی ،جس کی در و دویوار پر صرف عبدالہادی کا نام لکھا ہے۔‘‘وہ زارو قطار روتے ہوئے ،اپنے خیالوں میں اُسے مخاطب تھی۔پورا بدن ہچکیوں کی زد میں تھا۔وہ غم کی تصویر بنے ،کمرے میں آتی اپنی ماں کو اندر تک دکھی کرگئی۔
’’بیڑا غرق ہو تیرا ہادی میری پھولوں جیسی بیٹی کا تم نے کیا حال کردیا۔۔۔‘‘ثریا بیگم کا دل کٹ کر رہ گیااور بے اختیار ہادی کو کوسا۔جب بھی اُ سے ایسے بے حال دیکھتی،تو وہ اُسی کو کوستی تھیں۔بچوں کو تڑپتا دیکھ کر ماں باپ بھی چین سے نہیں رہتے ۔والدین دنیا کا ہر دکھ خوشی سے سہہ لیتے ہیں لیکن اولاد کا دکھ اُن کوڈھا کر رکھ دیتا ہے۔
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
آلین فاطمہ اپنے والدین کی پہلوٹی کی اولاد تھی۔اس کے بعد اُس کے جڑواں بہن، بھائی تھے۔عبدالہادی اُس کے تایاکا اکلوتا بیٹا تھا۔وہ لوگ ایک ہی گھر میں رہتے تھے۔ایسا نہیں تھا کہ وہ اُس کی محبت میں بچپن سے ہی گرفتار تھی۔بلکہ وہ تو بہت کم گو،خاموش طبعیت لڑکی تھی۔اُن کی آپس میں بات نہ ہونے کے برابر تھی۔عام طور پر کزن کزنوں میں ہونے والی بے تکلفی اُن کے درمیان بالکل بھی نہیں تھی۔جبکہ وہ دیکھتی آئی تھی کہ اُس کی باقی کزنیں عبدالہادی سے کافی حد تک بے تکلف تھیں۔لیکن پتہ نہیں کیوں وہ ہمیشہ اُس سے دور رہی تھی۔یہاں تک کہ وہ اپنے باقی کزنوں کو بھی نہیں بلاتی تھی۔اُ س نے اپنے گرد ہمیشہ ایک ایسی دیوار بنا رکھی تھی۔جس کو اُس نے نہ خود پار کیا اور نہ ہی کسی کو کرنے دیا۔پھر دادا جان نجانے کیا سوچ کر مرتے ہوئے،اُن کانکاح کر گئے۔وہ تو ماں باپ کی رضا مندی پر سر جھکا گئی تھی۔عبدالہادی کو کس نے راضی کیا۔وہ راضی تھا بھی یا نہیں وہ انجان رہی۔نکاح کے لفظوں میں بہت طاقت ہوتی ہے۔عبدالہادی کے نام سے جڑتے ہی اس بات کا اُسے یقین ہوگیا تھا۔اس کا دل جو سرے سے محبت سے انجان تھا۔وہ نکاح کے بعد محبت سے متعارف ہوا ۔محبت کی دیوی اُس پر مہربان ہوئی،محرمِ محبت کی رنگ برنگی تتلی اُس کے گرد منڈلانے لگی اور اُسے محبت میں رنگتی چلی گئی۔دھڑکنیں عبدالہادی کا ورد کرنے لگیں۔سکھیاں اُس کے نام سے چھیڑتی اور وہ گلِ گلنار سی ہوجاتی،لبوں پر شرمیلی مسکان،من میں شگوفے پھول کے کھلنے لگے۔
’’ ہادی بھائی سے نکاح کے بعد تم تو، دن بدن گلاب کا پھول بنتی جارہی ہوآلین۔‘‘کزنیں تنگ کرتی۔اور گلال ہوتے چہرے سے وہ اُن کی بات کو رد کرتی۔
’’نہیں تو۔۔۔ایسی کوئی بات نہیں۔‘‘دل زبان کو جھٹلاتا اور دل کا حال آنکھوں میں رقم ہوتا۔وہ شرارت سے ہنس دیتیں۔
’’تو کیسی بات ہے میڈم ؟ذرا ہمیں بھی تو بتاو۔‘‘وہ مصنوعی غصے سے اُن کو دیکھتی۔
’’ہمیں کیوں بتائے گی یہ تو اب اپنے ہادی کو ہی بتائے گی ایسی ویسی بات۔‘‘شریر سی مسکان کے ساتھ وہ سب اُس کو تنگ کرتے قہقے لگاتیں۔
’’ہاں تو میں ابھی ہادی بھائی کو بلا کرلاتی ہوں۔ہمارے سامنے ہی تم بتا دینا تاکہ ہمیں بھی مستقبل کے لیے تھوڑی پریکٹس ہوجائے۔‘‘وہ اُس کی غیر ہوتی حالت کا خوب مزہ لیتیں اور وہ شریر کزنوں کی محفل سے ہی دم ہلا کر بھاگ جاتی کہ کہیں سچ میں وہ اُسے بلا نہ لائیں۔پہلے تو پھر بھی وہ اُس کے سامنے چلی جاتی اب تو وہ بھی ختم ہوگیا تھا۔اگر اُسے رُبرو اپنے دیکھ لیتی دل تو جیسے قابو میں نہیں رہتا اور فوراً سے اپنے بے قابو ہوتے دل کو لے کر منظر سے غائب ہوجاتی۔
’’افف میرے پیارے دل تم کتنا شور مچاتے ہو۔دو منٹ بھی تسلی سے اُس دشمن جان کو دیکھنے بھی نہیں دیتے۔اتنا بھی کسی کو کوئی تنگ کرتا ہے جتنا تم مجھے کرتے ہو۔‘‘اُس کے بعد اکثر وہ اپنے دل کو ننھے بچوں کی طرح ڈانتی ،جو اُس کے سینے میں خوب شور مچاتا تھا۔وہ چور نگاہوں سے ارد گرد دیکھتی کہیں کوئی اُس کی دھڑکنوں کا شور تو نہیں سن رہا۔
؂؂بہار کے سارے رنگ اُس کے دل پر اترے ، خزاں کا گماں بھی نہیں تھا۔ہر چیز دل کو لبھاتی ۔دل کی دنیا اگر رنگ برنگی ہے تو آپ کو کائنات کی ہر چیز رنگوں میں ڈوبی نظر آئے گی۔آپ کے اطراف سکون ہی سکون ملے گاجو آپ کے قلبی سکون کی عکاسی ہوگا۔گھر والوں نے رخصتی ایک سال بعد کرنے کا سوچا تھا۔لیکن کسی کو ایسی انہونی کا تو گماں بھی نہیں تھا ۔انسان خوشیوں کے گرداب میں جکڑ کر غموں سے کنارہ کرلیتا ہے۔وہ بھی اس کے ربرو آجائیں گے کبھی،یہ سوچتا ہی نہیں۔
ٹھیک ایک سال بعد جب رخصتی کی تاریح طے کی گئی تب وہ اُس کے سامنے آیا۔اور اُس سے بات کرنا چاہی اور نکاح کے بعد ایساشاید پہلی بار ہو اتھا۔آلین فاطمہ تو مانو اپنے دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ ہواؤں میں اڑنے لگی۔شرم سے نگاہیں جھکی،لبوں پر شرمیلی سی مسکان۔اور دل تو ایسے دھڑک رہا تھا جیسے پسلیاں توڑ کر باہر آجائے گا۔پھر جب اُس نے بات کرنا شروع کی تو سب کچھ بدل گیا ۔ہوا میں اڑتی آلین کو زمین پر لا پٹخا،لبوں کی مسکان سکڑتی چلی گئی،دھڑکتا دل جیسے رُکنے لگا،وہ مرنے لگی۔اور وہ بغیر پرواہ کیے چلا گیا۔خوابوں کے جزیرے پر اُس کو تنہا کرتا واپسی کی ساری کشتیاں جلا گیا۔ایسے موڑ پر وہ چھوڑ گیا ۔جہاں سے وہ نہ واپس آسکتی اور نہ باقی سفر طے کر سکتی تھی،وہی بیٹھ کر بس اپنے ٹوٹے ہوئے دل پر ماتم کناں تھی۔
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
محبت ہو اور غمِ یار بھی نہ ہو
ارے صاحب کیسی بات کرتے ہو
عبدالہادی نے آلین فاطمہ کو طلاق دئے دی ۔اس بات کو سنتے ہی رشتے داروں،آس پڑوس کا تو تانتا بندھ سا گیا۔سب افسوس کررہے تھے۔ایسا کیوں ہوا؟کیسے ہوا؟ جیسے سوال ہر زبان پر عام تھے۔نیا نیا جب کوئی واقع ہوتا ہے تو وہ بہت عام ہوتا ہے۔لوگوں کی گپ شپ میں اضافے کے لیے ایک قصہ مل جاتا ہے۔لیکن وقت کے ساتھ ساتھ وہ پرانا ہوجاتا ہے۔لوگ اُسے بھول جاتے ہیں۔اُس کی جگہ کوئی نیا قصہ لے لیتا ہے۔اور ایسا ہی ہوتا ہے۔یہی اصول ہے۔لیکن وہ واقع ،وہ قصہ جو کسی ذات کے ساتھ منسوب ہوتا ہے ۔جو اُس کی ساری زندگی بدل دینا کا کردار ادا کرتا ہے وہ ذات نہیں بھول سکتی۔بھول جانا آسان نہیں ہوتا ۔اور یہی حال آلین فاطمہ کا تھا۔وقت آگے کی جانب سرکتارہا۔لوگ بھولتے گئے۔آگے بڑھتے رہے۔یہاں تک کہ وہ دشمنِ جاں بھی اپنی زندگی میں آگے بڑھ گیا۔ لیکن وہ وہی کی وہی تھی تن تنہا،ریزہ ریزہ،دل کی کرچیاں اتنی ہوئی تھیں کہ اُ ن کو چنتے چنتے اُس کا سارا وجود زخمی ہوتا گیا۔کسی نے مڑ کر نہ دیکھا ،کسی کو کوئی پرواہ نہیں تھی کہ وہ کتنا ٹوٹی ،کتنا روئی،آج کے نفسا نفسی کے دور میں کہاں کسی کو کسی کی فکر ہوتی،افسوس ہوا،چند لفظ بولے اور آگے بڑھ گے۔بس ایک والدین واحد ہستی ہے جن کو اولاد کا دکھ دیمک کی طرح چاٹ جاتاہے۔
’’آلین اُس کو بھول جاو میری جان ۔کب تک اس غم کو سینے سے لگا کر رکھو گی ؟ وہ کمبخت تیر ے قابل ہی نہیں تھا۔نکال دئے اُس کو دل سے میری جان ۔‘‘ بیٹی کی اُجڑی حالت دیکھ کر ماں کا دل کرلاتا تھا۔اُسے شکوہ کناہ نگاہوں سے اپنی ماں کو دیکھا۔آنکھوں میں اتنا کرب تھا کہ ماں ایک پل بھی اُس کی آنکھوں میں نہ دیکھ سکی۔ایک دکھ بھری استہزائیہ تبسم لبوں پر بکھر کرہواتحلیل ہوا۔
’’کاش ماں جتنی آسانی سے آپ یہ بات مجھے کہہ رہی ہیں ،اتنا ہی بھول جانا آسان ہوتاتو میں کب کی بھول گئی ہوتی۔لیکن ماں یہ دل کا معاملہ اتنا آسان نہیں ہے۔‘‘سیاہ نینوں میں گرم آب اپنی جگہ بنانے لگا۔’’ماں جس طرح وہ طلاق دئے کر سرے سے رشتہ ختم کرگیا ہے ۔میرے نام سے اپنا نام جدا کر گیا ہے۔کاش کوئی ایسی طلاق ہوتی جس سے دلوں میں رقم محبت،اور دھڑکتے دل سے محبوب کا نام بھی مٹ جاتا۔‘‘آنسوں سے لہجہ رندھ گیا۔ماں نے تڑپ کر اُسے سینے سے لگا لیا۔آنسوں تواتر سے بہتے ہوئے ماں کا آنچل بھگونے لگے۔
’’ماں آپ ہی تو کہتی تھیں کہ جب لڑکا لڑکی کو نکاح کے بندھن میں باندھا جاتا ہے تو اُن کے دلوں میں اﷲ کی طرف سے محبت نازل ہوتی ہے۔میں تو کبھی کسی سے محبت نہیں کی تھی ۔محرم جس کو بنایا تھا خدا نے اُسی سے تو محبت کی تھی ،پھر محرم کی محبت کی سزا مجھے کیوں ملی ماں؟‘‘ وہ ماں کے سینے سے لگتے پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔
’’آلین میری گڑیا میری پیاری بیٹی ،تمہاری یہ حالت مجھ سے نہیں دیکھی جاتی۔اس لیے میری جان میری بات مان جاو۔یاور بہت اچھا انسان ہے۔تمہارا بھائی ۔۔۔۔‘‘
’’نہیں ماں پلیز میں ایسا نہیں کر سکتی۔آپ مجھے مجبور مت کریں ۔میں اک جیتی جاگتی انسان ہوں۔جس کے سینے میں بھی دل ہے۔کھلونا نہیں ہوں میں جو ایک سے بہل نہ سکی تو دوسرے سے بہل جاؤں گی۔‘‘وہ اُ ن کی بات کو کاٹتی نم آواز لیے بولی،تو ماں کے دل پر کرب و بلا کا موسم چھایا۔آجکل اُس کے لیے آئے ہوئے نئے رشتے پر اُن کا تکرار بڑھتا جارہا تھا۔پہلے بھی وہ اس طرح بہت رشتے ٹھکرا چکی تھی۔کوڑے دل کی تختی پر ایک دفعہ جس کا نام لکھ دیا جائے اُس کو مٹانا بہت مشکل ہوتا ہے۔
’’آلین میں اب تمہاری ایک بات نہیں سنوں گی۔تمارے غم کو سینے سے لگا کر تمہارے بابا ہمیں چھوڑ کر چلے گے۔اب تم کیا چاہتی ہو؟تمہاری ماں بھی تمہیں اس حال میں دیکھ دیکھ کر مر جائے۔‘‘ بات کرتے کرتے وہ بھی رونے لگیں۔وہ ماں کو روتا دیکھ کر خاموش ہوگئی۔
وہ ٹھیک ہی تو کہہ رہی تھیں اُس کے غم نے باپ کی جان لے لی اور اب ماں اُسے روز روز دیکھ کر مرتی تھی۔ماں کے آنسوؤں نے اُسے خاموش کردیا۔پھر چند دن بعد اُسے کسی اور کے لیے سجایا گیا۔ماں بھی خوش نظر آنے لگی۔آتے جاتے بیٹی کو دعاوں سے نوازتی۔
لیکن وہ اپنے دل کا قرار کہاں سے لاتی۔جس کو چین ہی نہیں تھا۔جس کی آہ و بکا کوئی نہیں سن رہا تھا۔
’’آہ میرا دلـ! میں کیا کروں؟ یا خدا میری مدد کر۔‘‘بے چینی سے اُس نے درد سے بڑھتے ہوئے ،اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر خدا کو پکارا۔پھر اٹھی اور بغیر کسی چیز کی پرواہ کیے ۔غسل خانے میں چلی گئی اور دس منٹ میں وضو کرکے باہر نکلی اور خدا کے حضور سجدے میں گر کر رونے لگی۔
’’ میرے مولامیری فریاد سن لے ،تجھے تیرے پیارے حبیب کا واسطہ میری مدد کر مولا۔توجانتا ہے مولا توسب جانتا ہے ،میرے دل کے حال سے بھی واقف ہے ۔میری مدد کر مولا ،میری مدد کر میں یہ نہیں کرسکتی۔۔۔۔میرا دل ،میرا دل پھٹ جائے گا مولا۔۔۔اس کو قرار دے۔۔۔‘‘وہ بلک بلک کر رو رہی تھی ،سسک رہی تھی۔تڑپتے ہوئے دل کے ساتھ وہ سجدے میں گری،مسلسل خدا سے مدد کی طلب گار تھی۔کمرے کی خاموشی میں اس کی سسکیاں گونج رہی تھیں۔دل کا درد تھا کی بڑھتا جارہا تھا۔۔جیسے جیسے دل کا تڑپتا ،خدا سے مدد کی تڑپ اور بڑھ جاتی۔
وہ اپنے بندے کی دعائیں سنتا ہے۔اور بہت قریب سے سنتا ہے۔آواز مدھم ہوتی گئی۔درد بھری سسکیاں تھمنے لگیں ،دل کو قرار آنے لگا۔
’’آلین۔‘‘ایک کزن اُس کی کمرے میں داخل ہوئی۔پھر اُسے سجدے میں دیکھ حیران ہوئی۔
’’اوو نو آلین یار تھوڑا سا تو انتظار کر لیتی۔بھلا نکاح ہوجاتا تو پھر نماز پڑھ لیتی۔‘‘ وہ منہ بسورتے ہوئے کرسی پر بیٹھی گئی۔اُس کے گھنٹوں کی محنت کو آلین نے منٹوں میں پانی میں بہا دیا تھا ۔اسی بات کا دکھ ہوا۔
وہ وہاں بیٹھ کر اُس کا انتظار کرنے لگی۔لیکن جب وہ مسلسل سجدے کی حالت میں پڑی رہی تو اُسے تشویش ہوئی اور اُٹھ کر اُس کی طرف بڑھی۔
’’ارے میڈم اٹھ جاو یا پھر سجدے میں ہی نیند پوری کرتے ۔۔۔‘‘اُس نے اُسے جنجھوڑتے ہوئے کہا لیکن ابھی اُس کی بات منہ میں ہی تھی کی وہ لڑھک کر ایک طرف زمین پر گر گئی۔بے حس وحرکت،ساکت۔۔اُس کا وجود اور پوروں پر ٹھہرے اُس کے آنسووں۔۔۔سب جامد ہوگیا۔
’’آلین۔‘‘فکر مندی سے اُس کے چہرے کو تھپتھپایا۔ڈرتے دل کے ساتھ نبض چیک کی گئی۔وہاں خاموشی تھی ایک طویل خاموشی۔۔اُس کے پر سکون زرد چہرے کو دیکھ کر ایک بلند چیخ کمرے میں گونجی۔نکاح خواں کے ساتھ داخل ہوتے بھائی اور ماں کا دل دہل سا گیا۔بھاگ کر وہ اُس تک پہنچے ،لیکن سب کچھ ختم ہوچکا۔۔؂؂؂؂
دھڑکنوں پر جو محبوب کا رقص تھا،وہ تھم چکا تھا،روح پر جو درد تحریر ہوا تھا،وہ نکل کر جسم کو درد سے رہائی دئے گئی ، ہر وقت برستی آنکھیں،ہمیشہ کے لیے بند تھیں۔سب دکھ درد ،غم اذیتیں ایک سانسیں تھمنے سے ختم ہوگے ۔بیٹی سے لپٹ لپٹ کر ماں تڑپ رہی تھی۔۔۔وہاں ہرآنکھ اشکبار ہونے لگی۔
’’میرے اختیار میں یہ نہیں تھا کہ میں محبوب کو دل میں بسا کر کسی اور کے ساتھ زندگی بسر کروں۔طلاق سے رشتے ختم ہوتے ہیں، محبت نہیں ۔۔۔۔‘‘کہیں آس پاس اُس کی آواز گونج کر ہوا میں تحلیل ہوئی۔
سنو جاناں!
دیکھو مجھے تیری محبت نے پاگل بنایا
پا کر کھویا جوتجھے، تومیں جندہاری
 

M.H BABAR
About the Author: M.H BABAR Read More Articles by M.H BABAR: 83 Articles with 64274 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.