سونے کا انڈہ دینے والی مرغی کس کی ہے !

ہیروشیما جب مکمل تباہ ہو کر اپنے پیروں پر دوبارہ کھڑا ہوسکتا ہے تو کراچی کیوں نہیں ۔اگر ضرورت ہے تو صرف اس شہر کے ساتھ مخلص ہونے کی ۔اس شہر کے بہترین مفاد کی خاطر ہمیں اپنے تمام سیاسی مفادات، ذاتی مفادات ، ماضی کے گلے شکوے بلائے طاق رکھنے ہوں گے اور سنجیدگی سے ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہوئے اس شہر کے مسائل حل کرنے ہوں گے ۔ کیوں کہ اس شہر کی ترقی سے ہی ملک کی ترقی وابستہ ہے۔

آج کل جو آرٹیکل 149 کا بڑا شور سنائی دے رہا ہے بظاہر اس سے کراچی کے مسائل کا قطعی کوئی تعلق نظر نہیں آرہا ، مسئلہ یہ ہے کہ سونے کا انڈہ دینے والی مرغی کو پکڑنا ہے اب صرف انڈوں سے گذارا نہیں ہو رہا اب پوری مرغی کا مسئلہ ہے ۔ سیاسی جماعتیں کراچی کو وفاق کے کنٹرول میں جانے کے حق اور خلاف دلائل دے کر کراچی کو لوگوں کو باور کرانے کی کوشش کر رہی ہیں کہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں وہ کراچی کی بھلائی کے لیئے کررہے ہیں ۔ لیکن اصل میں بھلائی کراچی یا کراچی کے باسیوں کی نہیں بلکہ وہ جو کر رہے ہیں خود اپنی بھلائی کے لیئے کر رہے ہیں ۔

کراچی کی بھلائی کی بات ہوتی تو اب بھی ملک کا دارلحکومت کراچی ہی ہوتا ، کراچی کی بھلائی مقصود ہوتی تو پاکستان نیول ہیڈ کوارٹر آج بھی کراچی میں ہوتا، کراچی کی بھلائی کا سوچا جاتا تو کراچی اسٹاک ایکسچینج کا نام پاکستان اسٹاک ایکسچینج تبدیل کرکے اسلام آباد شفٹ کرنے کی بات نہ کی جاتی، اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے کچھ دفاتر کو اسلام آباد منتقل کرنے کا ارادہ نہ ظاہر کیا جاتا، سول ایوی ایشن اور پی آئی اے کے صدر دفاتر کو اسلام آباد منتقل کرنے کی بات نہ کی جاتی ، کراچی اتنا ہی عزیز ہوتا تو ایم اے جناح روڈ پر واقع ریڈیو پاکستان کی تاریخی عمارت یوں ویران نہ ہوتی ۔ لیکن اس وقت ان کی کنٹرول تو کیا منتقلی پر بھی ایسا کچھ نہیں ہوا جو اب دیکھا جارہا ہے ۔ کیا کسی نے اس وقت اس شدت سے بیانات دیئے کہ جس شہر کو قائد دارلحکومت بنا کر گئے تھے اس کی یہ حیثیت نہ ختم کی جائے، کسی نے پوچھا کہ پاکستان کا واحد شہر جہاں سمندر ہے جہاں دو سی پورٹ ہیں وہاں سے نیول ہیڈ کوارٹر کیوں منتقل کیا جارہا ہے اور اب ایک عرصے سے سول ایوی ایشن ، اسٹیٹ بینک، کراچی اسٹاک ایکسچینج ، پی آئی اے سمیت کئی اداروں کے کچھ حصے یا ان کے صدر دفاتر کو اسلام آباد منتقل کرنے کی باتیں کی جارہی ہیں ۔

اب رہی بات کراچی کو وفاق کے ذریعے کنٹرول کرنے کی تو یہ یوں بھی کامیاب ہوتی نظر نہیں آرہی کہ کچھ ہی عرصہ پہلے وفاقی حکومت کراچی کے تین بڑے اسپتالوں جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر، قومی ادارہ برائے امراضِ قلب ( این آئی سی وی ڈی ) اور قومی ادارہ برائے امراضِ اطفال ( این آئی سی ایچ ) کو عدالتی اور وفاقی کابینہ کے فیصلوں کے بعد کنٹرول میں لینے کا تجربہ کرچکی ہے جسے کنٹرول میں لینے کے چند ہی دن بعد صوبے کو واپس منتقل کردیئے گئے تھے۔

کراچی کو بگڑی ہوئی اولاد نہ سمجھا جائے اور نہ خالہ یا پھوپھی بن کر اسے سدھارنے کی بات کی جائے ۔ کراچی کماؤ پوت ہے وہ اتنا کما کر دے رہا ہے کہ پورا ملک چل رہا ہے ۔اس کی قدر کی جائے اس کی عزت کی جائے اس کو اس کا حق دیا جائے اس کا کمایا ہوا پیسہ اس کی بہتری پر خرچ کیا جائے ۔ کراچی میں مسائل ضرور ہیں لیکن ایسا نہیں کہ اس کے مسائل حل ہی نہیں ہوسکتے۔کراچی کے مسائل کے حل میں کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے ، ہیروشیما جب مکمل تباہ ہو کر اپنے پیروں پر دوبارہ کھڑا ہوسکتا ہے تو کراچی کیوں نہیں ۔اگر ضرورت ہے تو صرف اس شہر کے ساتھ مخلص ہونے کی ۔اس شہر کے بہترین مفاد کی خاطر ہمیں اپنے تمام سیاسی مفادات، ذاتی مفادات ، ماضی کے گلے شکوے بلائے طاق رکھنے ہوں گے اور سنجیدگی سے ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہوئے اس شہر کے مسائل حل کرنے ہوں گے ۔ کیوں کہ اس شہر کی ترقی سے ہی ملک کی ترقی وابستہ ہے۔

 Arshad Qureshi
About the Author: Arshad Qureshi Read More Articles by Arshad Qureshi: 141 Articles with 150024 views My name is Muhammad Arshad Qureshi (Arshi) belong to Karachi Pakistan I am
Freelance Journalist, Columnist, Blogger and Poet, CEO/ Editor Hum Samaj
.. View More