ٹریفک کے نئے قانون نے ایک ملک ایک آئین کی ہوا نکال دی

۵ اگست ۲۰۱۹؁ کو جب جموں کشمیر سے دفع ۳۷۰ ختم کی گئی تو بڑے زور شور سے یہ دعویٰ کیا گیا کہ اب ہندوستان کا ہر قانون بلا چوں چرا پورے ملک میں نافذ ہوسکے گا ۔ سنگھ پریوار کا یہ دیرینہ خواب اب شرمندۂ تعبیر ہوگیا ہے ۔ اس دعویٰ کا ابھی چہلم بھی نہیں ہوا تھا کہ سنگھ کے منظور نظر مرکزی وزیرِ مواصلات نتن گڈکری نے ٹرافک کے نظام میں بہتری لانے کے لیے نئے جرمانے نافذ کردیئے۔ ان کی دھمکی ہے کہ کوئی بھی ریاستی حکومت ‘موٹر وہیکل ترمیمی ایکٹ’ میں تبدیلی نہیں کر سکتی ہے۔ وہ اس خوش فہمی کا بھی شکار ہیں کہ کسی بھی ریاست نے اسے نافذ کرنے سے انکار نہیں کیا ہے اور کوئی بھی صوبہ اس قانون سے بالاتر نہیں ہے۔ گڈکری کا یہ دعویٰ درست ہے کہ کسی نے ابھی تک سرمو انکار تو نہیں کیا لیکن اگر قانون کو توڑ مروڈ کرکے نافذ کیا جائے یا اس کا نفاز معطل کردیا جائے تو پھر اس ۵۶ انچ والی ہیکڑی چہ معنی دارد؟

گودی میڈیا تو یہ دعویٰ کررہا ہے ۹ ریاستوں میں یہ قانون نافذ ہوگیا لیکن زمینی حقیقت بہت مختلف ہے۔ صرف تین صوبوں نے اب تک اس قانون کو شرح صدر کے ساتھ نافذ کیا ہے۔ ان میں سب سے آگے مودی کے کٹر مخالف کیجریوال کی دہلی ہے۔ یہ گتھی ابھی تک کوئی نہیں سلجھا سکا کہ غریب پرور شبیہ کے مالک کو وزیر اعلیٰ نے اس قدر بے رحمی کا مظاہرہ ایسی سرعت کے ساتھ کیوں کیا؟ بعید نہیں کہ کون بنے کا کروڈ پتی میں امیتابھ بچن آخرمیںیہ سوال کرے کہ اور اس کے لیے مندرجہ ذیل امکانی جوابات ہوں ۔ (الف) کیجریوال نہیں چاہتے کہ انہیں محبوبہ مفتی کی مانند قوم دشمن قرار دے دیا جائے۔(ب) چدمبرم کے انجام نے انہیں خوفزدہ کردیا ہے۔ (ج) دہلی میں فضائی آلودگی کو کم کرنے کے لیے وہ نجی گاڑیوں کے استعمال کو کم کرنا چاہتے ہیں۔(د) انہیں اپنے رائے دہندگان کی جان و مال کا بہت خیال ہے۔ سچ تو یہ ہے ان چاروں میں سے کوئی بھی صحیح جواب نہیں ہے پھر بھی کسی ایک کو لاک کرنے سے ایک کروڈ کی تجوری کا خزانہ کھل جائےگا۔

دہلی کے علاوہ ہریانہ اور بہار نے فوراً اس قانون کو نافذ کردیا ۔ نتیش کمار نے سوچا ہوگا کہ جب اپنے صوبے میں کسی قانون پر عمل ہی نہیں ہوتا تو اس پر کیا ہوگا ؟ بھلائی اسی میں ہے کہ مرکز سے پنگا لینے کے نفاذ کا اعلان کردیا جائے تاکہ باہر والوں کے نزدیک کم ازکم بہار کی شبیہ کسی قدر سدھرے ۔ ہریانہ کے کھٹر نے انتخاب سے قبل ایک بڑا خطرہ مول لے لیا لیکن شاید وہ سوچ رہے ہوں اس سے ٹرافک پولس کے رشوت میں جو اضافہ ہوگا اس سے وہ دیوالی کا تہوار ٹھیک ٹھاک مناسکیں گے اور خوش ہوکر مع اہل و عیال کمل پر مہر لگادیں گے ۔ ویسے اب اپنے ہی کارکن کو گلا کاٹنے کی دھمکی دینے والے کھٹر جے پائے اسقلال میں جنبش دکھائی دینے لگی ہے۔سیاسی اعتبار سے ان تینوں ریاستوں کے درمیان بڑا تنوع پایا جاتاہے۔ ایک جگہ خالص بی جے پی کی سرکار ہے دوسری اس کے حلیف کی حکومت ہے اور تیسرے مقام پر حریف کا اقتدار ہے۔ کیرالہ میں بی جے پی کی کٹر مخالف کمیونسٹ سرکار نے تین دن تک اس قانون کو نافذ کرنے کے بعد عوامی احتجاج کےبعد معطل کردیا ۔

آسام اور تری پورہ شمال مشرق کی ایسی ریاستیں ہیں جہاں بی جے پی برسرِ اقتدار ہے۔ ان دونوں نے نئے قانون کو نافذ کرنے کا یقین تو دلایا گیاہے لیکن اس پر کب سے عمل ہوگا اس بابت خاموشی ہے۔ اڑیسہ میں بیجو جنتا دل کی حکومت نے اسے تین ماہ کے لیے ٹھنڈے بستے کی نذر کردیا ہے یعنی عوام کو فی الحال تین ماہ کی راحت دے دی گئی ۔ مہاراشٹر اور اترپردیش کی سرکاریں تذبذب کا شکار ہیں۔ یہ دونوں ابھی تک حکمنامہ جاری کرنے کی جسارت نہیں کرپارہے ہیں۔اتفاق سے ان دونوں مقامات پر بی جے پی کی مستحکم حکومتیں ہیں۔ وزیراعظم مودی اترپردیش سے انتخاب لڑتے ہیں اور وزیر مواصلات گڈکری کا تعلق مہاراشٹر سے ہے۔ مہاراشٹر میں دستوری ماہرین سے مشورہ کیا جانا نیت کا کھوٹ ظاہر کرتا ہے۔ممکن ہے ریاستی انتخاب میں ووٹ لینے کے بعدعوام کو ذبح کرنے کا منصوبہ ہو۔ جھارکھنڈ میں بھی چونکہ انتخاب سر پر ہیں اس لیے اس نے نئے قانون کو نافذ کرنے میں آنا کانی شروع کردی ہے۔ ایوان پارلیمان میں کشمیر کے حوالے سے بلند بانگ دعویٰ کرنے والوں کی یہ سست روی زعفرانی منافقت کی آئینہ دار ہے۔

ممتا بنرجی کے شانہ بشانہ تین کانگریس کی صوبائی حکومتوں یعنی پنجاب، چھتیس گڈھ اور مدھیہ پردیش نے مختلف وجوہات سے اس قانون کے نفاذ کو معطل کررکھا ہے۔ راجستھان نے درمیانی راہ اختیار کی ہے۔ وہاں پر ۱۶ بڑے جرائم پرمرکزی ہدایت کے مطابق جرمانہ وصول کیا جارہا ہے لیکن ۱۷ چھوٹے جرائم پر ابھی چھوٹ ہے اور غور خوض کا سلسلہ جاری ہے۔اس معاملے میں سب سے دلچسپ صورتحال دیش بھکتی کے سرچشمہ گجرات کی ہے جس نے اس قانون کے خلاف علم بغاوت بلند کرتے ہوئے کوئی جرمانہ ۵۰ فیصد تو کوئی ۷۰ فیصد کم کردیا ہے۔ امیت شاہ اگر واقعی سپر مین ہیں تو خود اپنے صوبے میں ٹرافک کا یہ قانون نافذ کروا کر دکھائیں ۔ فوج کے بل بوتے پر کشمیر کو ایک جیل میں تبدیل کردینا کوئی بہادری نہیں ہے۔ شاہ جی کے اندر اگر دم خم ہے تو اپنے نام نہاد آدرش گجرات میں ٹرافک کا معمولی قانون نافذ کرانے میں کیا دقت ہے۔ نتن گڈکری کو ذلیل کرنے کے لیے سازش کے طور پر اگر ایسا کیا جارہا ہے تو بی جے پی کو چلو بھر پانی میں ڈوب مرنا چاہیے۔ گجرات سے شہ لے کر بی جے پی کے اتراکھنڈ نے بھی ان قوانین میں من مانی ترمیم کردی ہے اور کرناٹک سرکار بھی اس کو تبدیل کرکے نافذکرنے کی تیاری کررہی ہے۔

گجرات میں اس قانون کے ساتھ جو سلوک ہوا وہ اگر وادیٔ کشمیر میں ہوتا تو اسے ملک سے بغاوت اور پاکستان کی حمایت پر محمول کیا جاتا۔ گجرات کی روپانی سرکارنے مرکز کواعتماد میں لیے بغیردوپہیہ اور زراعتی کام میں لگی گاڑیوں کے جرمانے میں تخفیف کردی ۔وزیر اعلیٰ وجے روپانی نے خود اعلان کیا کہ ’’ہماری حکومت نے نئے ٹریفک قوانین کی دفعہ 50 میں تبدیلی کی ہے اور جرمانے کی رقم کو کم کر دیا گیا ہے‘‘۔اس ترمیم کے مطابق اب ہیلمٹ نہیں پہننے پر یا سیٹ بیلٹ نہیں لگانے پر جرمانہ کی رقم کو 1000 روپے سے گھٹا کر 500 روپے کر دی گئی ہے۔ علاوہ ازیں جرمانہ میں یہ تخفیف بعض معاملات میں تو ۹۰ فیصد تک ہے مثلاً ایمبولنس کا راستہ روکنے پر 10 ہزار کےبجائے 1 ہزار، موٹر سائیکل کے اوور لوڈ ہونے پر 1 ہزار کی جگہ 100 روپئے، بغیر رجسٹریشن کی موٹر سائیکل پر 5 ہزار کی جگہ صرف ایک ہزار روپے کا جرمانہ۔

اس سے ظاہر ہوگیا ہے کہ یہ سرکار ایک معمولی قانون بھی سارے ملک میں یکساں طور نافذ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی۔ حزب اقتدار پارٹی کی ریاستی حکومتوں کے درمیان بھی اس بابت یکسانیت نہیں ہے یہ لوگ آپس میں دست و گریباں ہیں۔ ایسے لوگوں کو فوقتاً یکساں سول کوڈ کا نعرہ لگانے سے قبل اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا چاہیے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بڑی بڑی باتیں کرنا جس قدر آسان ہے اس پر عمل کرکے دکھانا اتنا ہی مشکل ہے۔ ٹرافک کے قانون نےسرکاری دعووں کی پول پوری طرح کھول دی ہے۔

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449734 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.