اقوام متحدہ کے خصوصی نمائیندہ برائے انسانی حقوق مائیکل
فورسٹ نے رواں سال اپریل میں کہا تھا کہ کشمیر اقوام متحدہ کے لئے’’
انفارمیشن بلیک ہول ‘‘بن چکا ہے۔ یہ بیان انھوں نے بلگریڈ ، سربیا میں
انٹرنیشنل سوسائٹی ہفتہ کے موقعہ پر دیا، جب پلوامہ حملے کے بعد بھارت نے
300کلومیٹر سرینگر جموں شاہراہ کو ہفتہ میں دو بار عوام کے لئے بند کر
دیا۔مائیکل فورسٹ کو بھارت نے کشمیر کے حالات معلوم کرنے کے لئے دورہ کی
اجازت دینے سے انکار کر دیاتھا۔جس کشمیر کو کبھی جنت نظیر کہا جا تا تھا،
اسی کشمیر کو دنیا کی خوبصورت جیل کا نام دیا گیا۔مگر یہ کشمیر آج بھارت کا
ٹارچر سنٹر بن چکا ہے۔ آج بھارت نے 40دن سے مقبوضہ کشمیر کے ایک کروڑ عوام
کو عملی طور پر قید کر رکھا ہے۔ ان کا رابطہ دنیا سے کاٹ دیا ہے۔ کوئی
کشمیری نہیں جانتا، اس کے عزیزو اقارب کس حال میں ہیں۔ آج کے دور میں کوئی
انٹرنیٹ، سمارٹ فون، ٹیلیفون ، ٹی وی ، اخبارات کے بغیر زندگی کا تصور بھی
نہیں کر سکتا۔مگر بھارتی کرفیو اور پابندیوں کے دوران کشمیری پیغام رسانی
کے لئے خطوط کا سہارا لینے پر مجبور ہیں۔ وہ کبوتروں کے زریعے اپنوں تک
اپنا حال پہنچانے کا سوچ رہے ہیں۔ ایک دنیا جانتی ہے کہ بھارت نے کشمیریوں
کو ان کے گھروں، جیلوں، تعذیب خانوں ، کال کوٹھریوں میں قید کر رکھا ہے۔
دنیا کو انسانی حقوق کی پامالیوں سے بے خبر رکھنے کے لئے مواصلاتی رابطے
منقطع کر دیئے ہیں۔ ایک دنیا تک یہ خبر پہنچ چکی ہے۔ بی بی سی، الجزیرہ، اے
پی، نیو یارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ ، گارڈین جیسے میڈیا ادارے دنیا کو
کشمیریوں کی درد بھری داستانیں سنا رہے ہیں لیکن پھر بھی دنیا بھارت پر
دباؤ ڈالنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ ورنہ بھارت کشمیریوں کو طویل ترین کرفیو
اور سخت پابندیوں کا شکار کرنے کی جرائت کیسے کر سکتا تھا۔ کشمیری پاکستان
کی طرف دیکھ رہے ہیں۔پاکستان اپنے مسائل اور محدود وسائل کے باوجود سفارتی
اور سیاسی دوڑ دھوپ کر رہا ہے۔ دنیا سے رابطے ہو رہے ہیں۔ سلامتی کونسل، او
آئی سی کشمیر رابطہ گروپ، یو این انسانی حقوق کونسل تک پہنچ رہا ہے۔ وزرائے
خارجہ کو بریفنگ دے رہا ہے۔ عمران خان کے ٹویٹ دنیا دیکھ رہی ہے۔ وہ
پارلیمنٹ میں بیانات دے رہے ہیں۔ آزاد کشمیر کی اسمبلی میں دھوں دار تقریر
کر چکے ہیں۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے ہمراہ جنگ بندی لائن کا دورہ
بھی کر لیا۔پاک فوج کشمیر پر کسی سودا بازی کے خدشات کو سختی سے مسترد کر
چکی ہے۔ کچھ لو، کچھ دو ، آؤٹ آف دی بکس حل کے فارمولے قصہ پارینہ بن چکے
ہیں۔ بی جے پی نے اٹانومی اور سیلف رول کے لالی پاپ ہڑپ لئے ہیں۔ اپنے ماضی
کے اتحادیوں عمر عبداﷲ اور محبوبہ مفتی کی خوش فہمیاں دور کر دی ہیں۔ حالات
کے سنگین نتائج کشمیری عوام بھگت رہے ہیں۔ ان کے ساتھ اظہار یک جہتی، جلسے
جلوس، احتجاج ، جنگ بندی لائن کو توڑنے کے اعلانات، بھارت کے خلاف مذمتی
بیانات داغے جاتے ہیں۔ یہ سب سرگرمیاں کشمیریوں کی تکالیف اور بھارتی مظالم
کو کم نہیں کر سکی ہیں۔
آج ایک بار پھر وزیراعظم عمران خان مظفر آبادکا دورہ کر رہے ہیں۔ وہ جلسہ
عام کریں گے۔ ایک بار پھر قیدی کشمیریوں کے ساتھ اظہار یک جہتی ہو گا۔
سفارتی، سیاسی اور اخلاقی امداد جاری رکھنے کا اعلان ہو گا۔یہاں کشمیر کا
مطلب آزاد کشمیر سمجھا جاتا ہے۔ وزیراعظم اایک بار پھر آزاد کشمیر کے دفاع
اور تحفظ کا اعلان کریں گے۔ یہاں دو وزیراعظم موجود ہوں گے۔ وزیراعظم آزاد
کشمیر بھی ایک ماہ تک دنیا میں مسلہ کشمیر اجاگر کرنے کے بعد کل واپس وطن
پہنچ چکے ہیں۔ ان کے بقول ان پر جنگ بندی لائن توڑنے کے لئے عوام کا سخت
دباؤ ہے۔ اس سے پہلے وہ اسمبلی میں بے بسی کے آنسو بہا چکے ہیں۔ ان کا
مطالبہ تھا کہ کشمیریوں کو خود مسلہ اجاگر کرنے کا موقع دیا جائے۔ یہ
مطالبہ تسلیم کر لیا گیا۔اب وہ اگلے مرحلے میں دنیا کے دیگر سربراہاں مملکت
و حکومت سے ملاقات کی کوشش کریں گے۔ عالمی میڈیا بتا رہا ہے کہ کشمیری
بھوکے پیاسے مر رہے ہیں۔ بھارتی فوج خود کو فاتح سمجھتی ہے۔ وہ گھروں میں
گھس کر بچوں تک کی ہڈی پسلیاں توڑ رہی ہے۔تشدد سے چیخنے چلانے والوں کے منہ
میں مٹی ریت ڈال رہی ہے۔ کھانے پینے کی اشیاء میں مٹی اور تیل خاکی ڈال کر
لوگوں کو فاقہ کشی پر مجبور کرتی ہے۔ وزیر خارجہ نے اب کشمیریوں کی معاونت
کے سلسلے میں اخلاقی کی جگہ’’ آئینی ‘‘کا لفظ استعمال کیا ہے۔ کشمیریوں کو
پاکستان کی آئینی معاونت کا طریقہ کار عالمی عدالت انصاف سے انصاف سے جڑ
گیا ہے۔ تا ہم توقع ہے کہ وزیراعظم عمران خان کشمیریوں کی ریلیف کے لئے
کوئی بڑا اعلان کریں گے۔ اس وقت بھارت کی جابرانہ قید میں محبوس کشمیریوں
کو یک جہتی سے بھی زیادہ کسی فوری اور ہنگامی ریلیف کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم
عمران خان انٹرنیشنل میڈیا ، یو این فوجی مبصرین ، اسلام آباد میں موجود
دنیا کے سفارتکاروں کو بھی بھارتی جارحیت دکھانے مظفر آباد سے چکوٹھی کی
طرف علامتی مارچ کی نگرانی کرنے کی دعوت دینے پر غور کر رہے تھے۔ تا ہم اس
بارے حتمی فیصلہ نہ ہو سکا۔حکومت پاکستان یا وزیراعظم آزاد کشمیر کی دعوت
پر انٹرنیشنل ریڈ کراس یا کسی بھی عالمی ادارہ چالیس دن گزرنے کے باوجود
مقبوضہ کشمیر کے عوام تک ادویات یا خوراک پہنچانے کا ابھی تک کوئی پروگرام
نہیں بنا سکا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ عمران خان اس بارے میں مظفر آباد کے جلسہ
عام میں کوئی معلومات فراہم کر سکیں، یا اس بارے کوئی ٹویٹ ہی کر دیں۔
کشمیر جو معلومات کا بلیک ہول بن چکا ہے ، اس وقت اپنو ں اور غیروں سے
بالکل کٹا ہو اہے۔عمران خان کا دورہ اس لئے بھی اہمیت رکھتا ہے کہ اسی
مہینہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا سیشن ہو رہا ہے۔ انہیں وہاں بھی خطاب
کرنا ہے۔ دنیا کو کشمیر کی جانب متوجہ کرنا ہے۔ عالمی رہنماؤں کی حمایت
حاصل کرنا ہے۔ مظفر آباد کا جلسہ پی ٹی آئی یا حکومت پاکستان کا جلسہ نہیں۔
اس کا مقصد کشمیریوں سے اظہار یک جہتی ہے۔ توقع ہے یہ یہ جلسہ کامیاب ہو گا۔
اور اس سے کشمیریوں کو کوئی فوری ریلیف فراہم ہونے کے امکانات پیدا ہو ں گے۔
اگر عمران خان نے مقبوضہ کشمیر کے عوام کے لئے کوئی کارنامہ انجام دیا،
کشمیریوں کو ریفرنڈم کا موقع فراہم کرنے میں کامیابی حاصل کی، تو ہو سکتا
ہے وہ مظفر آباد کے بعد کبھی سرینگر کا دورہ کرنے میں بھی کامیاب ہو جائیں۔
|