کل کیلئے"ال" کو ہٹائو!!!

ہندوستان میں مسلم قیادت کے نام پر کئی سیاسی اور سماجی تنظیمیں وجود میںآچکی ہیں یا آ رہی ہیں،ان میں سے کئی ایک سیاسی جماعتیں ایسی ہیں جنہوں نے کھل کر مسلمانوں کی حمایت و قیادت کا دعویٰ کیا تھا۔لیکن انہیں اس دعوے میں کامیابی نہیں ملی۔جب جب ملک میں ہندو اور مسلمان کے نام پر سیاسی جماعتیں وجود میں آئیں اُس وقت ملک میں بٹوارا ہوا،ہندومسلم کے درمیان دوریاں بڑھیں ،ہندو مسلم کے درمیان فسادات ہوئے۔ان حالات میں ملک کے دستور کو بنانے والے بابا صاحب بھیم رائو امبیڈکرنے جو فارمولہ برہمنوںو دیگر اونچی ذات کے لوگوں کو چھوڑ کر بنایا تھاوہ سب سے کامیاب فارمولہ رہا ہے۔بابا صاحب بھیم رائو امبیڈکرنے ملک میںامن ،اتحاد،بھائی چارگی اور جمہوریت کی بحالی کیلئے تمام شہریوں کو مل جل کر رہنے کیلئے جو قانون بنایاہے وہی سیکولر قانون ہے۔جو لو گ اس قانون کی پاسدار ی کرتے ہیںاور جنہوں نے اس قانون کو اپنانے کی پہل کی ہے اُس وقت ملک میں امن وشانتی رہی،لیکن جب جب ہندو اور مسلمان دو الگ سمتوںمیں دوڑ لگانے لگے اس وقت ملک کے حالات کونقصان پہنچاہے۔آزادی سے پہلے جب سنگھ پریوار کا وجود ہو اتو اسے مسلمانوں نے یہ سمجھ لیاکہ سنگھ پریوار مسلمانوں کو ختم کرنے کیلئے بنایاگیا ہے،اس کے مقابلے میں مسلمانوں نے مسلم لیگ کی بنیا درکھی۔ایک طرف سنگھ پریوار تھا تو دوسری جانب مسلم لیگ کی بنیاد پڑی۔ان دونوں جماعتوں کے آنے کے بعد ہندوستان اور پاکستان کا بٹوارا ہوا۔آزادی کے بعد بھی مسلمانوں نےاپنے آپ کو ہر میدان میں الگ کرلیا۔ہمارے تعلیمی ادارے الگ،ہماری تنظیمیں الگ،ہمارے محلے الگ،ہماری سیاسی جماعتیں الگ،ہمارےخیالات الگ ،ہمارا رہن سہن الگ یہاں تک کہ ہم نے الگ الگ گائوں تک بسا لئے ہیں۔ جب ہم نے ہر کام کو دوسروں سے دور رہ کر انجام دینے کی کوشش کی تو اس ملک کی زمین کو ہم پر تنگ کردینا شروع کردیا ہے۔ہماری اس علیحدگی کی سوچ کا فائدہ جہاں مسلمانوں کے دشمنوں نے اٹھایا ہے وہیں مسلمانوںکے دوست کہلانے والی سیاسی جماعتوں نے بھی اس کا غلط فائدہ اٹھایا ہے۔ایک طرف ہم مسلمان اس بات کے دعویدار ہیںکہ ہم سب کو مل کر کام کرنا ہے،مل کررہنا ہے،آپسی بھائی چارگی کو بڑھنا ہے۔لیکن سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ جب ہم مسلمان ایسے حالات پیدا ہی نہیں کرتے کہ دوسری قوم کے لوگ بھی ہمارے ساتھ آکر جڑنے لگیں تو کیسے ممکن ہے کہ ہم سب مل کررہیں۔اکثرہم نے دیکھا ہے کہ سماجی خدمات کیلئے بنائی جانے والی تنظیمیں بھی اس طرح سے بنائی جاتی ہیںکہ دوسری قوم کے لوگ اس کے قریب بھٹک کر بھی نہ دیکھیں۔مثال کے طورپر کرناٹکا مسلم ویلفیر آرگناےئزیشن،مسلم بلڈ ڈونرس آرگنائزیشن،مسلم اسٹوڈینٹ فنڈ،اسلامک ریلف فنڈ جیسے نام رکھے جاتےہیں توکچھ لوگ تو اپنی تنظیموںو اداروں کو جو نام رکھتے ہیں اُس میں"ال" کا لفظ استعمال کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ہم سچے پکےمسلمان ہیں۔کیا کبھی ہم نے یہ دیکھا ہے کہ کرناٹکا ہندو ویلفیر آرگنائزیشن،ہندو بلڈڈونرس آرگنائزیشن،ہندو اسٹوڈینٹ فیڈریشن،کرسچن ویلفیر سوسائٹی کے نام سے تنظیمیں بنائی گئی ہیں۔نہیں ہرگز نہیں،ہمارے سامنے ایسے نام بالکل بھی نہیں آئے اور اگر آئیں بھی ہوں تو اس میں سماجی و فلاحی کام انجام نہیں دیئے جاتے۔جب دوسرے اپنی قوم کی پہچان کو چھپا کر سماج میں بہتری کاکام انجام دے رہے ہیں تو کیونکر ہم اپنے آپ کوسرِ عام بے پردہ کرتے ہوئےاپنے کام سے زیادہ مذہب کی پہچان بتا رہے ہیں۔جب ہم اپنے کام کو صحیح طریقے سے انجام دینے لگیں گے تو قدرتی طور پر ہماری پہچان بن جائینگی،ہمارا مذہب کونسا ہے یہ بھی لوگ جاننیں لگیں گے،ساتھ ہی ساتھ مسلمانوں کو اس بات کی بھی کوشش کرنے کی ضرورت ہے کہ مسلمان ہر حال میں دوسری قوموں کا تعاون لیکر کام کریں،نہ کہ اپنے آ پ کو کنویںکا مینڈک بنا کررکھیں۔
 

Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 197812 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.