پاکستان میں توہین رسالت کے قوانین سے متعلق اٹھنے والے سوالوں کا تفصیلی جائزہ

پاکستانی اخبارات کی روایت کے برعکس زیر نظر مضمون کا مسودہ عربی متن سمیت پیش خدمت ہے تاہم اگر آپ کے لیے عربی متن سمیت شامل اشاعت کرنا ممکن نہ ہو تو انتہائی احتیاط سے اسے ڈیلیٹ کر کے صرف ترجمہ پر بھی اکتفاء کیا جا سکتا ہے۔

گزشتہ دنوں پاکستان میں انسداد توہین رسالت سے متعقلہ قوانین اور اسلامی احکامات مختلف مقامات ، مختلف حوالوں اور پہلووؤں سے زیر بحث رہے۔اس موضوع پر بہت کچھ کہا ،سنا اور لکھا گیا لیکن وفاقی وزارت قانون، انصاف اور پارلیمانی امور کی طرف سے ”پاکستان میں توہین رسالت کے قوانین سے متعلق اٹھنے والے سوالوں کا تفصیلی جائزہ“کے عنوان سے جو تفصیلی ریفرنس وزیر اعظم پاکستان کی خدمت میں بھیجا گیا وہ ایک تاریخی دستاویز کی حیثت رکھتا ہے اور پھر وزیر اعظم کی طرف سے اس کی منظوری اور وزیر اعظم سیکرٹریٹ کی طرف سے تمام متعلقہ وزارتوں کو انہی تجاویز کی روشنی میں اقدامات اٹھانے کی ہدایت سے ان تجاویز کی اہمیت دوچند ہوگئی ۔ یہ تجاویز کسی عالم،کسی دینی تحریک ،کسی مذہبی ادارے کی طرف سے پیش نہیں کی جا رہیں اور نہ ہی انسداد توہین رسالت کے قوانین پر اب آمر کی طرف سے بنائے گئے قوانین کی پھبتی کسی جا سکتی ہے ۔تحفظ ناموس رسالت کے حوالے سے حالیہ جدوجہد کی تفصیلات پر مبنی ہمارے گزشتہ کالم میں ان تجاویز کا حوالہ آیا تھا اور ہم نے قارئین سے وعدہ کیا تھا کہ اگلے نشست میں ان تجاویز پر بات ہو گی۔مگر یہ تجاویز بذات خود انتہائی جامع اور مدلل ہیں اس لیے انہیں مِن وعن پیش کیا جا رہا ہے ۔قارئین اور بالخصوص اربابِ علم ودانش اس تاریخی ،قومی اور قانونی دستاویز کو اپنے ریکارڈ کا حصہ بنائیں اور وہ حضرات جو انسداد توہیں رسالت کے قانون کے حوالے سے کسی بھی قسم کے فکر ی مغالطے میں مبتلاء ہیں وہ اس دستاویز میں قرآن وسنت او ر دنیا کے مختلف ممالک میں موجود قوانین کی روشنی میں اپنے افکار ونظریات پر نظر ثانی فرمائیں ۔وزارت قانون وانصاف کی طرف سے بھیجی جانے والی سمری ملاحظہ فرمائیں ۔

” 1۔ وزیراعظم پاکستان کو مختلف افراد، اداروں اور غیر ملکیوں کی طرف سے کچھ خطوط موصول ہوئے جو وزیراعظم سیکرٹریٹ کی جانب سے U.O-No.5(30)/FSA/2010کے تحت30سمبر2010ءاور ریفرنس نمبرOGW/Misc/Asiabibi/2010کے تحت 15جنوری2011ءکو وزارت قانون کو بھیجے گئے۔وزارت داخلہ کی طرف سے لکھے گئے ایک خط نمبرU.O.7/32/2010-Ptns, بتاریخ 8 دسمبر کے ذریعے ایک علیحدہ ریفرنس بھی موصول ہو ا۔ یہ سب ریفرنس ایک مجاز عدالت سے توہین رسالت کے جرم میں سزا یافتہ مسماة آسیہ نورین کے حوالہ سے ہیں ۔ اس کے علاوہ وزارت اقلیتی امور کی جانب سے توہین رسالت قانون میں ترمیم کے مطالبہ پر مبنی ریفرنس بھی موصول ہوا۔
2۔ وزارت خارجہ نے 23نومبر 2010کو اسی موضوع پر ایک ریفرنس نمبرu.o.DG(Americas)-1/2010 اس وزارت کو بھیجا۔
3۔15 دسمبر 2010ءکو قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کی جانب سے بھی اس وزارت کو ایک ریفرنس نمبر F.23(45)/2010-Legis موصول ہوا۔جس کے تحت رکن قومی اسمبلی مسماة شہر بانو رحمان (شیری رحمان) کی جانب سے جمع کرائے جانے والے پرائیویٹ ممبربل بعنوان
''the criminal law(review of punishment for blasphemy)(amendment)Bill 2010''
پر رائے طلب کی گئی تھی۔اس بل میں پاکستان میں توہین رسالت قوانین میں ترمیم کرتے ہوئے پاکستان پینل کوڈ1860اور اسی طرح cod of criminal procedure 1898, ترمیم کیلئے کہا گیا تھا۔
قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کا سوال یوں تھا۔
”زیر دستخطی کو یہ بتانے کی ہدایت کی گئی ہے کہ محترمہ شیری رحمان ایم این اے نے ایک نجی بل بعنوان ''the criminal law(review of punishment for blasphemy)(amendment)Bill 2010''جمع کرانے کا نوٹس دیا ہے۔ لہٰذا فیصلہ کیا گیا ہے کہ مزید کارروائی سے پہلے اس بل پر federal shariat court 10'' ''PLD 19میں درج وفاقی شرعی عدالت کے فیصلہ کی روشنی میں وزارت قانون و انصاف اور پارلیمانی امور کی رائے/ تبصرہ حاصل کیا جائے۔“
4۔ اس معاملے کی نوعیت اور اہمیت کے پیش نظر وزیر قانون و انصاف اور پارلیمانی امور نے خود اس معاملہ میں تحقیق کی اور قرآن، احادیث رسولﷺ، پاکستان پینل کوڈ 1860، دفعہ 295-cاوراس سے متعلقہ قوانین کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک میں توہین رسالت کے قوانین ( Blasphemy Laws) کی روشنی میں جائزہ لیا۔
5 ۔ توہین رسالت قوانین پر حالیہ بحث مسماة شہر بانو رحمان (شیری رحمان) ایم این کی جانب سے پیش کئے گئے ایک پرائیویٹ ممبربل کے بعد شروع ہوئی۔لہٰذا قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کے سوال کا جواب پہلے دیا جانا ضروری ہے۔ اس سلسلہ میں تسلیم شدہ پوزیشن کے مطابق وفاقی شرعی عدالت نے PLD.1991 FSC page 10 پر رپورٹ شدہ اپنے فیصلہ میں اس قانون کو قرآن اور سنت رسولﷺسے اخذ کردہ اور درست قرار دیا ہے۔ آئین کی دفعہ203Dکے تحت وفاقی شرعی عدالت ہی اس امر کی مجاز ہے کہ وہ کسی قانون کے اسلامی ےا غیر اسلامی ہونے کا فیصلہ کرے۔ آئینی شق203Dکے مطالعہ کے بعد شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔جس میں کہا گیا ہے کہ

”عدالت کے اختیارات اور فرائض
(1) عدالت از خودنوٹس پر یا پاکستان کے کسی شہری کی پٹیشن پر یا وفاقی یا کسی صوبائی حکومت کی پٹیشن پر یہ اختیار رکھتی ہے کہ وہ قرآن اور سنت رسولﷺ کے اصولوں کی روشنی میں کسی بھی قانون یا اس کی شق کے اسلام کے مطابق یا اسلام سے متصادم ہونے کا فیصلہ کرسکے“۔
6۔ یہ امر شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ پاکستان کی پارلیمنٹ قوانین وضع کرنے ،ان پر نظر ثانی کرنے ،ان میں ترمیم کرنے، ان کی تنسیخ کرنے کے وسیع تر اختیارات رکھتی ہے۔ پارلیمانی طریقہ کار اور قانون سازی کی روایات کے مطابق پارلیمنٹ کی طرف سے وضع کردہ یہ قانون کئی دہائیوں سے نافذ العمل ہے اورآئینی عدالت کے کڑے معیار پر پورا اتر چکا ہے۔ نجی بل جو میڈیا رپورٹس کے مطابق متعلقہ رکن نے زبانی طور پر واپس لے لیا ہے اور اس امر کی تردید بھی نہیں آئی ۔ اس میں توہین رسالت قانون کے مجوزہ پیرا گراف کا وفاقی شرعی عدالت آئینی شق203Dکی ذیلی شق 2کے تحت پہلے ہی باریک بینی سے جائزہ لے چکی ہے اور اس کے فیصلہ کی رو سے موجود قانون قرآن و سنت کے عین مطابق ہے اور قرار دیا گیا ہے کہ کسی بھی قسم کی متبادل سزا اسلامی تعلیمات سے متصادم ہوگی۔ آئین کی شق 203Dکی ذیلی شق (b)کے تحت یہ فیصلہ فوری طور پر نافذ ہو چکا ہے ۔اس لئے محترمہ شہربانو رحمان (شیری رحمان) کا مجوزہ بل مسترد کردینے کے قابل ہے۔
7۔اس معاملے پر چند قرآنی آیات پیش کی جاتی ہیں۔
ترجمہ: اور اُن میں سے بعض پیغمبرﷺ کی بد گوئی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ شخص نرا کان ہے (یعنی صرف سُنتا ہے) اُن سے کہو کہ وہ کان ہے تو تمھاری بھلائی کے لیے ہے۔ وہ ﷺیقین لاتا ہے اللہ پر اور یقین لاتا ہے مومنوں کی بات پر جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اُن کے لیے رحمت ہے اور جو لوگ اللہ کے رسول کی بد گوئی کرتے ہیں اُن کے لیے دردناک عذاب ہے۔(التوبہ :61)

جو لوگ اللہ اور اس کے رسولﷺ کو ستاتے ہیں اللہ نے اُن پر لعنت بھیجی دنیا میں اور آخرت میں اور ان کے لیے ذلّت والا عذاب تیار کر رکھا ہے۔(الاحزاب: 57)

اے ایمان والو! اپنی آوازوں کو نبی ﷺکی آواز سے بلند نہ کرو ۔ اور اُس سے تڑخ کر نہ بولو جیسے ایک دوسرے کے ساتھ تڑخ کر بولتے ہو، (کہیں ایسا نہ ہو کہ) تمھارے (نیک) اعمال اکارت ہو جائیں اور تم کو خبر بھی نہ ہو۔(الحجرات: 2)

رسول ﷺکو ایسے مت پکاروجیسے تم آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہو، اللہ تم میں سے اُن لوگوں کو جانتا ہے جو آنکھ بچا کر پھسل نکلتے ہیں۔ لہٰذا وہ لوگ جو اس کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں اس بات سے ڈرتے رہیں کہ (کہیں اچانک) اُن پر کوئی فتنہ یا کوئی تکلیف دہ عذاب آپڑے۔(النور: 63)

تا کہ تم لوگ اللہ اور اس کے رسول ﷺپر ایمان لاؤ اور اُس کی مدد کرو اور اُس کی عزت کی پاسداری کرواور صبح شام اُس کی پاکی بیان کرتے رہو۔(الفتح :9)

اے ایمان والو ! نبی ﷺ کے گھروں میں مت داخل ہو ا کرو،مگر جب تمھیں کھانے کی دعوت دی جائے، (پہلے ہی پہنچ کر)اُس کے پکنے کا انتظار مت کرتے رہو بلکہ جب تم بلائے جاؤ تبھی داخل ہوا کرو، پھر جب کھا چکو تو وہاں سے ہٹ جاؤ اور آپس میں باتیں رچا کر مت بیٹھ جاؤ۔ تمھاری اس بات سے نبیﷺ کو تکلیف ہوتی ہے ، لیکن وہ تم سے حیا کرتے ہیں اور اللہ ٹھیک بات بتانے میں حیا نہیں کرتا۔ اور جب( اُس کی) بیبیوں سے کوئی چیز مانگنے جاؤ تو پردہ کے پیچھے سے مانگو، یہ (طریقہ)تمہارے اور اُن کے دلوں کی مناسبت سے زیادہ پاکیزہ ہے اور تمھارے لیے اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ تمھاری وجہ سے رسول اللہ ﷺکو کوئی تنگی پہنچے اور نہ ہی تم اُس کی ازواج مطہرات سے اُس کے بعد کبھی بھی نکاح کر سکتے ہو کیوں کہ یہ بات(یعنی نبیﷺکو ناگوار پہنچنا)اللہ کے نزدیک بہت بڑا گناہ ہے۔ (الاحزاب :53)

بیشک جو لوگ اللہ اور اُس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی مخالفت کرتے ہیں وہ ذلیل ترین لوگوں میں ہیں۔ ( المجادلہ: 20)

بے شک جو تیرا دشمن ہے وہ دم کٹا ہے۔ ( الکوثر:3) ۔

جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد کی سعی کرتے ہیں اُن کی سزا ہے ہی یہی کہ وہ قتل کیے جائیں یا سولی چڑھائے جائیںیا اُن کے ہاتھ پاؤں مخالف جانب سے کاٹے جائیں یا وہ زمین سے دور کر دیے جائیںیہ اُن کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں اُن کے لیے بڑا عذاب ہے۔(المائدہ:33)

اور اگر وہ وعدہ کر لینے کے بعد اپنی قسموں کو توڑ دیں اور تمھارے دین میں عیب لگائیں تو تم کفر کے سرداروں سے جنگ لڑو(کیونکہ) اب اُن کی قسمیں بالکل (قابلِ اعتبار) نہیں ہیں، تا کہ وہ باز آ جائیں۔ (التوبہ:12)

قرآنی آیات مبارکہ کے بعد سنت رسول اور احادیث مبارکہ سے قیمتی موتی چن کر بڑی خوبصورتی سے اس میں پروئے گئے ہیں ۔ملاحظہ فرمائیے
”8 ۔ اب توہین رسالت سے متعلق حضور پاک ﷺ کی سنت/ا حادیث سے کچھ مثالیں حسب ذیل ہیں۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے روز مکہ میں داخل ہوئے تو آپ کے سر مبارک پر خود تھا۔ جب آپ ﷺنے اسے اتارا تو آپ کی خدمت میں ایک صحابیؓ نے حاضر ہو کر عرض کیا کہ ابن خطل کعبہ کے پردوں سے لپٹا ہوا ہے، آپ ﷺنے فرمایا اسے قتل کر دو۔ (بخاری:۵۳۰۴)

امام مالکؒ کی رائے یہ ہے کہ آپ اس روز حالتِ احرام میں نہیں تھے۔

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :کعب بن اشرف کو کون سنبھالے گا۔ حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا :کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں اسے قتل کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”ہاں“ انھوں نے عرض کیا کہ مجھے اجازت دیجے کہ میں(اسے اعتماد میں لینے کی خاطر اس سے کچھ )کچھ خلافِ حقیقت باتیں کر سکوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اجازت ہے۔ (بخاری:۳۲۰۳)

حضرت براءبن عاذب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ایک یہودی ابو رافع کو قتل کرنے کے لیے انصار میں سے کچھ لوگوں کو بھیجا۔ عبداللہؓ بن عتیق کو اُن لوگوں کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔ ابو رافع، رسول اللہﷺ کی دل آزاری کیا کرتا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ رسول خدا کے دشمنوں کی بھی آپﷺ کے خلاف مدد کیا کرتا تھا۔ وہ سرزمین حجاز پر موجود اپنے قلعے میں رہتا تھا۔ جب وہ لوگ قلعہ کے قریب پہنچے اس وقت سورج غروب ہوچکا تھا اور لوگ اپنے مویشیوں کو واپس اپنے گھروں کی طرف لارہے تھے۔ حضرت عبداللہؓ (بن عتیق) نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اپنی جگہ پر بیٹھ جائیں میں جاکر قلعہ کے گیٹ پر موجود چوکیدار سے ایک چال چلنے کی کوشش کرتا ہوں تاکہ میں قلعے میں داخل ہوسکوں۔ پس عبداللہ قلعہ کی طرف چل دیے اور جب وہ قلعہ کے دروازے پر پہنچے تو انہوں نے خود کو کپڑے سے ڈھانپ لیا۔ انہوں نے ایسے ظاہر کیا جیسے وہ قدرت کے کسی بلاوے کا جواب دے رہے ہیں۔ لوگ اندر جا چکے تھے اور چوکیدار (جو عبداللہ کو قلعہ کا خادم سمجھ رہا تھا) نے اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا ”اے اللہ کے بندے ! اگر تم اندر آنا چاہتے ہو تو آجاﺅ کیونکہ میں دروازہ بند کرنا چاہتا ہوں۔“ عبداللہؓ اپنی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں ”پس میں اندر چلا گیا اور خود کو چھپالیا، جب لوگ اندر آگئے تو چوکیدار نے دروازہ بند کردیا اور چابیاں لکڑی کے کھونٹے سے لٹکا دیں ۔میں نے اٹھ کر چابیاں اٹھالیں اور دروازہ کھول دیا کچھ لوگ رات گئے تک ابو رافع کے کمرے میں اس کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف رہے۔ جب یہ خوش گپیاں ختم ہوئیں اور اس کے ساتھی چلے گئے تو میں اس کی طرف آیا۔ میں نے اس کا دروازہ کھولا اور پھر اسے اندر سے بند کرلیا۔میں نے سوچا کہ لوگوں کو اگر میرا پتہ چل بھی جائے تومجھے اس وقت تک پکڑا نہیں جانا چاہئے جب تک اس کو قتل نہ کر دوں۔ میں اس تک پہنچا تو وہ ایک اندھیرے کمرے میں اہل خانہ کے درمیان سو رہا تھا،میں اسے پہچان نہیںسکتاتھا لہذا میںنے اسے پکارا ” اے ابو رافع !“۔ وہ فوراً بولا ”کون ہو تم؟“ میں آواز کی سمت بڑھا اور اس پر تلوار سے حملہ کر دیا۔بے یقینی کی صورتحال کے سبب میں اسے قتل نہ کر سکا۔ لہذا باہر آکر ایک لمحہ بعد ہی میں نے پکارا”ابو رافع! یہ آوازیںکیسی تھیں؟“ اس نے کہا”تمہاری ماں تمہیں روئے یہاں کوئی گھس آیا ہے اس نے مجھ پر تلوار سے حملہ کیا ہے“ ا س بار میں تیار تھا آواز کی سمت زوردار حملہ کیا مگر اسے مار نہیں سکا۔ میں نے تلوار کی نوک اس کے پیٹ پر رکھ کر اتنے زور سے دبائی کہ اس کی پشت سے جا ٹکرائی۔ میں سمجھ گیا کہ یہ مارا جا چکا۔میں نے ایک ایک کرکے دروازے کھولے اور سیڑھیوں تک جا پہنچا میں سمجھا میں زمین پر پہنچ گیا ہوں۔میں نے قدم باہر رکھا تو نیچے گر پڑا اور میری ٹانگ ٹوٹ گئی۔میں نے اسے پگڑی سے باندھا اورا س وقت تک چلتا رہا جب تک گیٹ پر نہیں پہنچ گیا۔میں نے فیصلہ کیا کہ اس وقت تک باہر نہیں جاﺅں گا جب تک کہ مجھے اس کی موت کی خبر نہیں مل جاتی۔صبح جب مرغ اذان دے رہے تھے تو وہاں کے اعلان کرنے والے نے دیوار پر چڑھ کر اعلان کیا کہ”میں حجاز کے تاجر ا بورافع کی موت کا اعلان کرتا ہوں“۔یہ سن کر میں باہر اپنے ساتھیوںکے پاس آیا اور کہا کہ اب ہمیں خود کو محفوظ کر لینا چاہئے۔ لہذا ہم وہاں سے چل پڑے اور رسول اللہ کے پاس پہنچ گئے۔ہم نے انہیں پوری داستان سنائی۔ انہوں نے فرمایا اپنی ٹوٹی ہوئی ٹانگ باہر نکالو،میں نے ٹانگ باہر نکا لی آپ نے اس پرہاتھ پھیرا تو وہ ایسے ہو گئی جیسے ٹوٹی ہی نہ ہو۔(بخاری:۳۱۸۳)

’ ’عمیرؓ ابن امیہ سے روایت ہے کہ ان کی ایک بہن مشرکہ تھی،وہ آپ کو ستاتی رہتی تھی۔جب وہ ؓرسول اللہ ﷺسے ملنے جاتے تو وہ آپﷺکے متعلق توہین آمیز کلمات کہتی، ایک دن انہوں نے اسے مار ڈالا۔اس کے بیٹوں نے کہا کہ وہ قاتل کو جانتے ہیں۔ عمیرؓنے سوچا کہ وہ کسی اور بے گناہ کو قتل نہ کردیںلہذ ا وہ رسول اللہﷺکے پاس گئے اور سارا معاملہ بیان کر دیا ۔ آپ ﷺنے سوال کیا ”تم نے اپنی بہن کو قتل کر دیا؟“انہوں نے کہا ”جی ہاں“ آپﷺ نے پوچھا ”کیوں؟“انہوں نے کہا ”وہ میرے اور آپ کے تعلق کو نقصان پہنچارہی تھی۔ آپﷺ نے مقتولہ کے بیٹوں کو بلایا اور قاتل کے بارے میں دریافت کیا انہوں نے کسی اور کا نام لیا ۔ تب آپ نے انہیں اصل صورتحال بتائی اور اس قتل کو رائیگاں قراردیا۔(یعنی یہ قتل جائز تھا اس کا بدلہ نہیں ہو گا۔) (مجمع الزوائد ومنبع ولفوائد جلد 5صفحہ260 )

٭۔۔عکرمہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تو ہین کی۔ آپﷺ نے فرمایا اس دشمن کے خلا ف کون میری مدد کرے گا۔ زبیر نے کہا ”میں“ اور وہ اس سے لڑے اور اسے قتل کر ڈالا۔آپ نے انہیںشاباش دی.( 10/25)۔

حضرت اسحٰق ؓبن ابراہیم،عبدللہؓ بن محمد،سفیانؓ بن عینیہ اور حضرت عمروؓ نے حضرت جابر سے روایت کی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کعب بن اشرف کو کون قتل کر ے گا۔ اس نے اللہ کے نبی ﷺکو ستایا ہے ۔حضرت محمد بن مسلمہؓ نے کہا یا رسول اللہﷺ کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں اسے قتل کر دوں آپﷺ نے فرمایا ”ہاں“ اور پھر انہوں نے اسے مار ڈالا۔(صحیح مسلم کتاب الجہاد 2158)

روایت کی جاتی ہے کہ فتح مکہ کے بعد رسول اللہﷺ نے عام معافی کا اعلان فرمانے کے بعد حکم دیا کہ توہین رسالت پر مبنی شاعری پر ابن خطل اور اس کی لونڈی کو قتل کر دیا جائے۔(الشفا (اردو ترجمہ ) از قاضی ایاض، جلد 2،صفحہ284.َََََََ)

اس کے بعد پھر دفعہ 295/cکے حوالے سے تفصیلاً گفتگو کی گئی ملاحظہ فرمائیے
9۔۔ 1860ءکے پاکستان پینل کوڈ کا سیکشن 295سی اس بحث سے متعلق ہے۔ اس لیے سیکشن 295سی کا مطالعہ ضروری ہے۔
[ 295 C رسول پاکﷺ کے بارے میں گستاخانہ کلمات کہنا:
”اگر کوئی ایسے الفاظ لکھے یابولے یا کسی بھی طرح ان کااظہار کرے یا کسی بھی طرح بالواسطہ یا بلاواسطہ ایسا اشارہ کنایہ کرے جس سے رسول پاک حضرت محمدﷺ کی شان میں گستاخی کا پہلو سامنے آئے تو یہ جرم ہوگا۔ جس کی سزا موت ےا عمر قید ہوگی ۔ اس کے ساتھ ساتھ جرمانہ بھی کیا جاسکتا ہے۔“
”چارج“
میں (سیشن کورٹ کا آفس اور نام وغیرہ) تم(ملزم کا نام )پر الزام عائد کرتا ہوں کہ تم نے فلاں دن، فلاں وقت (تحریری یا تقریری الفاظ ان کا ذکر کیا جائے یا تحریری مواد کی صورت میں مواد پیش کیا جائے) رسول پاک حضرت محمدﷺ کی شان میں گستاخی کی ہے۔ دانستہ اور بدنیتی کی بنا پراس طرح کی گستاخانہ حرکات پاکستان پینل کوڈ 1860ءکے سیکشن 295c کے تحت قابل سزا جرم ہے اور میں ہدایت کرتا ہوں کہ تم پر لگنے والے اس الزام کا کیس اس عدالت میں چلے گا۔]
پھر اس قانون کے غلط استعمال کا واویلا ختم کرنے کے لیے یہ وضاحت کی گئی کہ
”قرآن پاک کی بہت سی آیات اور رسول پاک کی احادیث سے توہین رسالت کی سزا موت ثابت ہے لہٰذ اقرآن وسنت اور پاکستان کی مقننہ نے معاملہ کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوے”د انستہ اور بد نیتی “ کے الفاظ استعمال کئے ہیں۔ اور کوئی عدالت دئے گئے نمونہ کے برعکس چارج شیٹ نہیںکر سکتی ۔ اس سے عدالتی کارروائی کے غلط استعمال کو روکنے کی خاطردو طرح کی ضمانت حاصل ہوتی ہے۔ اول اس بات کا یقین حاصل کرنا کہ ملزم نے دانستہ طورپریہ جانتے ہوئے کہ جو وہ کر رہا ہے یہ جرم ہے ،یہ جرم کیا۔دوسرے توہین کے جرم کی اصل حقیقت کی چھان بین ، criminal administration of justiceیہ دونوں اصول عالمی طور پر نہ صرف تسلیم شدہ ہیںبلکہ یہ طریقہ کار بین الاقوامی معیار کے عین مطابق ہے۔“
10 ۔۔ گستاخی رسول تمام الہامی مذاہب میں قابل سزا جرم ہے ۔یہودیت سے بھی اس کی مثال پیش کی جاسکتی ہے۔ تورات میں ہے کہ ”جو (لوگ) گستاخانہ باتیں کرتے ہیں انہیں لازمی طور پر سزائے موت دی جائے گی(توراة،کتاب3۔evitievs;24;16)۔
11 ۔ یہ پروپیگنڈہ کہ توہین رسالتﷺ کا قانون صرف پاکستان میں ہے اور اس کا مقصد ایک خاص طبقہ کو نشانہ بنانا ہے۔مکمل طور پر بے بنیاد اور غلط ہے۔اس قانون کی مختصر تاریخ اور مختلف ممالک میں اس سے متعلقہ قوانین کا جائزہ پیش خدمت ہے ۔
افغانستان:۔اسلامی ملک افغانستان میںتوہین رسالت قابل سزا جرم ہے اور اس کی سزا شرعی قوانین کے تحت دی جاتی ہے ۔جرمانوں سے لیکر پھانسی کے ذریعہ سزائے موت تک دی جا سکتی ہے۔
آسٹریلیا:۔ آسٹریلیا کی مختلف ریاستوں ،علاقوں، دولت مشترکہ آف آسٹریلیا میں گستاخی کی سزا دینے کا معاملہ یکساں نہیں ہے کچھ حصوں میں گستاخی کرنا جرم ہے جبکہ دیگر میں ایسا نہیں ہے۔اس سلسلہ میںآخری بار1919میں مقدمہ چلایا گیا۔
آسٹریا:۔ آسٹریا میں پینل کوڈ کی دو شقیںتوہین رسالت سے متعلق ہیں۔
(۱) 188: مذہبی تعلیمات کی تذلیل کرنا۔
(۲)189: مذہبی عبادات /معاملات میں خلل پیدا کرنا۔
بنگلہ دیش:۔بنگلہ دیش کے پینل کوڈ اور دیگر مختلف قوانین کے ذریعہ سے توہین رسا لت کرنے اور مذہبی جذبات مجروح کرنے کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔
برازیل:۔ پینل کوڈ کی شق 208کے تحت برازیل میں مذہبی شخصیات، اعمال اور عبادات کی کھلے عام توہین کرنا قابل سزا جرم ہے۔ اس کی سزا ایک ماہ سے لے کر ایک سال تک قید یا جرمانہ ہوسکتی ہے۔
کینیڈا:۔کریمینل کوڈ آف کینیڈا کے مطابق بھی گستاخی یا توہین ایک جرم ہے۔مگر charter of rights and freedoms کو اس پرفوقیت حاصل ہے۔آخری بار اس سلسلہ میں 1935میںکارروائی کی گئی۔
ڈنمارک:۔ پینل کوڈ کا پیرا گراف نمبر140 توہین کے بارے میں ہے۔ یہ پیرا گراف 1938ءسے استعمال نہیں کیا گیا۔جب ایک نازی گروپ کو یہود مخالف پروپیگنڈہ پر سزا دی گئی تھی۔ اس کوڈ کا پیرا گراف 266bنفرت انگیز تقریر کے بارے میں ہے، اس پیرا گراف کو ایک تسلسل کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔ 2004ءمیں گستاخی سے متعلقہ کلاز کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی لیکن کثرت رائے سے اسے مسترد کر دیا گیا۔
مصر:۔ مصر کی اکثریت سنی ہے یہاں پر بھی توہین رسالت اور مذہبی اقدار کی توہین کے متعلق قانون موجود ہے۔ کئی مرتبہ یہ قانون دوسری اقلیتوں اور مسالک کے خلاف بھی استعما ل کئے جانے کا الزام ہے۔
بھارت:۔ بھارت کے اکثریتی مذہب ہندو مت میں توہین رسالت کی سزا کا کوئی تصور نہیں مگرہندوستان کے مسلم حکمرانوں نے یہ قوانین متعارف کروائے ۔1860میں برطانوی استعمار نے یہ قوانین ختم کردئے تاکہ مسیحی مشنریوں کو کھل کھیلنے کا موقع مل سکے۔ان دنوں بھارتی پینل کوڈکے سیکشن295A کے تحت نفرت آمیز تقاریر ،کسی مذہب کی یا کسی شخص کے مذہبی اعتقاد کی توہین کی کوشش پر سزا دی جاتی ہے۔
انڈو نیشیا:۔کریمنل کوڈ کے آرٹیکل156aکے تحت دانستہ طور پر سر عام کسی مذہب کے خلاف جارحانہ ،نفرت آمیز اور توہین پر مبنی جذبات کے اظہار یا مذہب کی توہین قابل سزا جرم ہے۔اور اس کی سزا زیادہ سے زیادہ 5سال قید ہے۔
مسلم اکثریت، آرتھو ڈکس اور دیگر اقلیتیں قانونی کارروائی کے لئے کریمنل کوڈ، صدارتی حکم اوروزارتی ہدایات کو استعمال کرتی ہےں۔
ایران:۔ ایک اسلامی ملک ہے۔ توہین رسالت کے خلاف قوانین شریعت سے اخذ کرتا ہے۔ توہین رسالت کے خلاف قانون،اسلامی حکومت پر تنقید کے خلاف قانون،اسلام کی توہین کے خلاف قانون اورخلاف اسلام مواد کی اشاعت کے خلاف قوانین موجود ہیں۔
آئر لینڈ:۔آئر لینڈ میں توہین رسالت آئینی طور پر جرم ہے اور اس کی زیادہ سے زیادہ سزا25000پونڈ جرمانہ ہے۔یہ قانون 09جولائی2009کو پاس ہوا اور یکم جنوری2010کو نافذ کیا گیا۔مارچ 2010 میںاعلان کیا گیا کہ اس قانون کی متنازعہ ترامیم کے حوالہ سے ایک ریفرنڈم کروایا جائے گا۔
اسرائیل:۔ٍاسرائیل میں پینل کوڈ کی شق 170اور 173توہین رسالت سے ہیں۔
یورپی یونین:۔ کونسل آف یورپ کی پارلیمانی اسمبلی نے 29جون 2007کو Strasbougمیںتوہین رسالت،مذاہب کی توہین،مذہب کی بنا پر کسی فرد یا گروہ کےخلاف نفرت انگیز گفتگو کے خلاف recommendation 1805(2007)پاس کی ہیں۔
اسی طرح مذہبی توہین انڈورہ،سائپرس،کروشیا،ڈنمارک،سپین،فن لینڈ،جرمنی،گریس،آئس لینڈ،اٹلی،لتھوینیا،ناروے،ہالینڈ،پولینڈ،پرتگال،روس،سلواکیہ،سویٹزرلینڈ،ترکی اور یوکرائن میں جرم ہے۔
فن لینڈ:۔کریمنل کوڈ chapter17 کی شق10 تو ہین رسالت سے متعلق ہے۔ ,1917,1965,1970,1998اور1914میں اس کے خاتمہ کی کو ششیں ناکام رہیں۔
جرمنی:۔ جرمنی میں ان کے کریمنل لائStafgesetzbuchکی شق166تو ہین رسالت سے متعلق ہے۔اس کے تحت اگر کسی کسی عمل سے امن و امان کی صورتحال خراب ہوتی ہو تو قانون حرکت میں آسکتا ہے۔2006میںManfred van H. )المعروف (MAHAVOکے خلاف اس قانون کے تحت کارروائی کی گئی۔
گریس:۔ پینل کوڈ کی شق201،99,198 1توہین کو جرم قرار دیتی ہے۔ شق 198کے مطابق.......
”1۔اگر کوئی دانستہ طور پرسر عام کسی بھی طرح سے خدا کی توہین کرے تو اسے توہین پر سزا دی جائے گی جو دو برس سے زائد نہیں ہو گی۔
2۔پیرا گراف ایک سے ہٹ کر اگر کوئی سرعام خدا کے احترام میں کمی کا مرتکب ہو تو اسے 3ماہ سے زائد قید کی سزا نہیںدی جا سکتی۔
آرٹیکل 199 ،”Blasphamemy concerning religions“ کے مطا بق اگر کوئی سر عام دانستہ طور پرکسی بھی طرح Greek orthodox churchیا کسی بھی پر امن مذہب کی توہین کرے گا تو اسے سزا دی جائےگی جو سال سے زیادہ نہیں ہو گی۔
اردن:۔ارد ن میں اسلام کی توہین،اسلامی تعلیمات اور مسلمانوں کی توہین اور توہین رسالت جرم ہے جس کی سزا سال تک قید اور جرمانہ ہے۔
کویت:۔ کویت ایک اسلامی ملک ہے۔ یہاں پر اسلام اور اسلامی شخصیات کی شان میں گستاخی کی روک تھام کے لیے آئین سازی کی گئی ہے۔
ملائشیا:۔اس اسلامی ملک میں بھی مذہبی تعلیمات اور شخصیات کی گستاخی ایک جرم ہے۔ اس کی روک تھام تعلیم کے ذریعے اور نشرو اشاعت کی پابندیوں کے ذریعہ کی جاتی ہے ۔ملک کے کئی حصوں میں اس جرم کی سزا شرعی عدالتوں کے ذریعہ دی جاتی ہے جبکہ کچھ حصوں میں ملائشیا کے پینل کوڈ کے مطابق بھی سزائیں دی جاتی ہیں۔
مالٹا:۔
مالٹا میں توہین رسا لت کے خلاف قوانین کے بجائے مذہب کی تو ہین اور غیر اخلاقیات کے خلاف قوانین ہیں۔ مالٹا کے پینل کوڈ کا آرٹیکل163 . 1933ءمیں بنا تھاجو رومن کیتھولک مذہب کی توہین کی روک تھام کرتا ہے۔ یہاں پر رومن کیتھولک مذہب کی توہین کی سزا ایک ماہ سے لے کر چھ ماہ تک ہوسکتی ہے۔ آرٹیکل 164کے مطابق ”کسی بھی مذہب کی توہین پر 3ماہ تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔آرٹیکل 338(bb)نشے کی حالت میں توہین کو بھی سزا کا مستحق قرار دیتاہے، اس کے مطابق سر عام کوئی بھی بدتمیزی غیر اخلاقی لفظ ےا بدتمیزی پر مبنی اشارہ یا عمل یا کوئی بھی ایسا طریقہ جس کا ذکر نہیں آسکا جرم قرار پائے گا ۔آرٹیکل 342کے مطابق توہین کی سزا 11.65یورو جرمانہ سے کم اورتین ماہ قید کی سزا سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔2008ءمیں 621 افراد کے خلاف توہین رسالت پر فوجداری مقدمات قائم ہوئے۔
ہالینڈ:۔ہالینڈ میں انبیاکرام کی توہین کا قانون موجود ہے۔ ہالینڈ کے آئین کے آرٹیکل 147کے تحت توہین کے مرتکب افراد کو تین ماہ قید یا 3800یورو جرمانہ کی سزا دی جاسکتی ہے۔
نیوزی لینڈ:۔نیوزی لینڈ کے کرائم ایکٹ 1961ءکے مطابق سیکشن 123کے تحت توہین رسالت کے مرتکب افراد کو ایک سال قید تک سزا دی جاسکتی ہے نیوزی لینڈ میں 1922ءمیں اس قانون کے تحت جان لگودر نامی شخص ( جو ماﺅزلینڈ اخبار کا پبلشر تھا) کو سزا دی بھی جا چکی ہے۔
نائیجیریا؛۔نائیجیریاکے کریمنل کوڈ کے آرٹیکل 204کے تحت توہین انبیاءکے مرتکب افراد کو سزا دی جاتی ہے ۔جبکہ بعض ریاستوں میںشریعت کے مطابق مقدمات چلائے جاتے ہیں ۔قانون کے موثر استعمال کا اختیار بھی متعلقہ عدالت کی ذمہ داری ہے۔
سعودی عرب:۔سعودی عرب میں اسلامی قانون نافذ ہے۔ یہاں توہین رسالتﷺ کے مرتکب افراد کو موت کی سزا تک دی جاتی ہے۔ سزا کا فیصلہ ملکی مفتیان کی کونسل کرتی ہے۔
سوڈان:۔سوڈان میں سنی اسلام ریاستی مذہب ہے ۔یہاں کی 70فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ سوڈان کے کریمنل ایکٹ کے سیکشن 125کے تحت مذہب کی توہین یہاں تک کہ کسی کی دل آزاری اور عقائد کے خلاف تک بات کرنا قابل دست اندازی جرم ہے توہین کے مرتکب افراد کو قید اور جرمانہ کی سزا دی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ زیادہ سے زیادہ چالیس کوڑوں کی سزا بھی دی جاسکتی ہے۔
نومبر 2007ءمیں سوڈان میں توہین رسالت کا قانون ٹیڈی بیئر بلاسفمی کیس کے تحت قانون حرکت میں آیا دسمبر 2007ءمیں یہ سیکشن مصر کے دو کتب فروشوں کے خلاف حرکت میں آیا اور ان کو حضرت عائشہ صدیقہؓ کے خلاف مواد پر مبنی کتب فروخت کرنے پر6ماہ قید کی سزا دی گئی۔
متحدہ عرب امارات:۔متحدہ عرب امارات میں توہین کی حوصلہ شکنی کے لئے نشرو اشاعت کی مانیٹرنگ کی جاتی ہے۔ مسلمانوں کے شرعی سزا اور غیر مسلموں کے لئے عدلیہ کے اختیارات استعمال کئے جاتے ہیں۔
برطانیہ:۔ برطانیہ میں توہین رسالت خاص طور پر عیسیٰ علیہ اسلام کی توہین کے خلاف قانون موجود ہے، یہ قانون کو آخری بار 2007میں اس وقت حرکت میں آیا جب ایک بنیاد پرست عیسائی گروپ کریسچن وائس نے نجی طور پر BBCکے خلاف مقدمہ درج کروایا یہ مقدمہ بی بی سی پر ایک پروگرام نشر کرنے پر چلایا گیا جس میں عیسائی عقیدہ کے خلاف مواد شامل تھا۔ بی بی سی کے خلا ف مقدمہ ویسٹ سنٹر کے مجسٹریٹ نے خارج کردیا ۔کرسچئن وائس نے مجسٹریٹ کے فیصلہ کے خلاف عدالت عالیہ میں اپیل بھی کی۔ ہائی کورٹ نے بھی اپیل خارج کردی۔ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ توہین رسالت قانون کا اطلاق تھیٹر ایکٹ 1968کے تحت نہیں ہوتا۔
توہین رسالت کے قانون کے تحت آخری سزا وائٹ ہاﺅس بنام لیمن 1977 میں ہوئی ۔ڈینس لیمن ایک اخبار کا ایڈیٹر تھا اور اس کے اخبار نے ایک متنازعہ نظم شائع کی تھی اس نظم میں حضرت عیسیٰ کے خلاف تو ہین آمیز الفاظ استعمال کیے تھے۔ اس جرم میں لیمن کو 500پونڈ جرمانہ 9ماہ کی معطلی کی سزا دی گئی۔ اس کے بعد 2002ءمیں اپنی نظم دانستہ طور پر مقامی اخبار میں شائع کی گئی اس دفعہ ایک بار پھر سینٹ مارٹن ان دی فیلڈ چرچ نے مقدمہ کی پیروی تو کی مگر مجرم کو سزا دلانے میں ناکام رہا۔
اسی طرح 1921ءمیں برطانیہ میں ہی جان ولیم گوٹ توہین کا مرتکب پایا گیا اور اس کو نو ماہ کی سزا دی گئی جان ولیم گوٹ نے بھی عیسائی عقائد کے خلاف پمفلٹ شائع کیے تھے جس میں حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کی توہین کی گئی تھی۔ یہ اس سے قبل بھی 3بار اسی جرم میں ماخوذ پایا گیا۔سکاٹ لینڈ میں توہین رسالت کے قانون کے تحت 1697ءمیں سکاٹ لینڈ ہی کے ایک شخص تھامس ایکن ہیڈ کو پھانسی کی سزا دی جا چکی ہے۔اسے 1843میں اس سزا پر عمل درآمد کیا گیا۔
5مارچ 2008ءکو" criminal justice and immigration Act 2008 میں ترمیم کی گئی اور انگلینڈ اور ویلز کے کامن لا ءمیں توہین رسالت کو ختم کر دیا گیا۔ 8مئی 2008ءکو اس پر شاہی دستخط کے بعد یہ ترمیم قانون کی شکل اختیار کرگئی۔

یمن:۔
باقی تمام ممالک کی طرح یمن میں بھی توہین رسالت کا قانون موجود ہے۔ اس قانون کے تحت توہین رسالت کے مرتکب افراد کو یمن میں نہ تو ہلاک کیا جاسکتا ہے نہ ہی ان کو ملک بدر کیا جاتا ہے ۔جس شخص پر توہین رسالت کا الزام ہو اس کا فیصلہ شریعت کے تحت کیا جاتا ہے اور جرم ثابت ہونے پر مجرم کو موت کی سزا دی جاسکتی ہے۔یہ قانون یہاں اقلیتوں اور حکومت مخالفین کے استعمال کرنے کا بھی الزام ہے ۔
امریکہ؛۔امریکہ میں پہلے تو توہین رسالت کی سزا موت تھی مگر اب یہ سزا ناپید ہوچکی ہے۔
ماسا سچوسٹ ،مشی گن ،اوکلوہاما ،ساﺅتھ کیرولینا ،ویومنگ اورپینسویلینا میںتوہین رسالت کی سزا کاحوالہ ملتا ہے۔ کچھ ریاستوںمیں ابتدائی دور کا قانون بھی کتابوں میں موجود ہے ۔مثال کے طور پر ماسا سچوسٹ کے جنرل لاءکے 272کی صورت میں آج بھی توہین رسالت کا قانون موجود ہے۔
سیکشن 36کے تحت خدا کی ذات پر بہتان دھرنا، الزام لگانا اور گالی گلوچ کرنا،حضرت عیسیٰ پر الزام تراشی، ان کی کتاب کو بُرا بھلا کہنا قانونی جرم ہے اور اس کی زیادہ سے زیادہ سزا ایک سال ہے۔ اور زیادہ سے زیادہ جرمانہ 300ڈالر ہے۔
میری لینڈ ریاست میں 1930ءکے ترمیمی ایکٹ کے تحت ایسے کسی بھی قانون کے اجرا ءکی ممانعمت ہے جو 1879ءکی کوڈیفیکشن میں جس کے مطابق توہین رسالت سے باز رکھا گیا ہے۔
ایکٹ 72سیکشن 189کے مطابق کوئی شخص تحریری یا زبانی ایسے الفاظ کا استعمال نہیں کرسکتا جس میں خدا یا حضرت عیسیٰ کی توہین کا عنصر نمایاں ہو۔ توہین رسالت کے مرتکب شخص کو زیادہ سے زیادہ100ڈالر جرمانہ اور ایک سال قید کی سزا دی جاسکتی ہے۔ عدالت کوئی ایک یا دو سزائیں دینے کی مجاز ہوگی۔
12 ۔۔پاکستان آئینی طور پر اسلامی ریاست ہے،جس کا تعین آئین پاکستان کے دیباچہ میں کر دیا گیا ہے اور 12اپریل 1973ءکے آئین کے تحت ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔ آئین میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری کائنات پر حاکمیت اعلیٰ صرف اللہ کی ہے۔ اس کے عطا کردہ اختیارات کو پاکستانی عوام اسلام کی حدود کے اندررہتے ہوئے استعمال کرسکتے ہیں۔اور پاکستانی عوام کا فیصلہ ہے کہ ان کی ریاست اپنی طاقت اور اختیارات جمہوری اصولوں کے مطابق عوام کی منتخب کردہ پارلیمنٹ کے ذریعہ سے استعمال کرے گی۔آزادی،مساوات،برداشت اور سماجی انصاف جیسے اصول جن پر اسلام زور دیتا ہے ان کا لازمی خیال رکھا جائے گا۔
13۔پاکستا ن کا آئین یہ بھی تقاضہ کرتا ہے کہ ایسا معاشرہ تشکیل دیا جائے جس میں مسلمان اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو قرآن اور سنت کے مطابق اسلامی سانچے میںڈھال سکیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ آئین اقلیتوں ، پسماندہ اورپسے ہوئے طبقات کے جائزمفادات کے مکمل تحفظ کی ضمانت بھی فراہم کرتا ہے ۔
14۔یہ امر بھی اہم ہے کہ ہم پاکستانی اللہ کے ہاں جوابدہی کا احساس اور قیام پاکستان کے وقت دی گئی قربانیوں کا احترام کرتے ہوئے قائد اعظم محمد علی جناح کے اس اعلان پر کار بند ہےں کہ پاکستان ایک ایسا جمہوری ملک ہوگا جس کی بنیاداسلام کے سنہری اصولوں اور سماجی انصاف کی بنیاد پرہوگی۔اور یہ بنیاد ہمیں ہمارا آئین فراہم کرتا ہے۔تاکہ پاکستانی عوام ترقی کریں اور دنےا میں اپنا جائز اور باوقار مقام حاصل کرتے ہوئے دنیا کے امن اور ترقی میںاپنا کردار ادا کرسکیں۔
15۔۔ معاشرہ یہ مقاصد اس وقت تک حاصل نہیںکر سکتا جب تک متعلقہ قانون سازی نہ کی جائے اور ادارے قائم نہ کئے جائیں۔پاکستان کا ریاستی مذہب اسلام ہے اورقرآن و سنت قانون سازی کے بنیادی اور بڑے مآخذ۔
16۔اب بات کرتے ہیں سیکشن 295C کی validity کی ۔یہ قانون ایکٹ نمبرIIIکے ذریعہ سے1986 میں پاکستان پینل کوڈ1860 کا حصہ بنایا گیا۔یہا ں ضروری ہے کہ اس قانون کو دوبارہ دیکھا جائے جو پہلے ہی ایک فیصلہ کے تحت حتمی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔
[ ” 295c
رسول پاکﷺ کے بارے میں گستاخانہ کلمات کہنا:
اگر کوئی ایسے الفاظ لکھے یابولے یا کسی بھی طرح ان کااظہار کرے یا کسی بھی طرح بالواسطہ یا بلاواسطہ ایسا اشارہ کنایہ کرے جس سے رسول پاک حضرت محمدﷺ کی شان میں گستاخی کا پہلو سامنے آئے تو یہ جرم ہوگا۔ جس کی سزا موت ےا عمر قید ہوگی ۔ اس کے ساتھ ساتھ جرمانہ بھی کیا جاسکتا ہے۔“]
توہین رسالت کا یہ قانون پہلے ہی پارلیمنٹ کے اندر اور اس کے باہر پارلیمانی فورمز پر زیر بحث لایا جا چکا ہے۔ یہاں تک کہ ایک آئینی عدالت وفاقی شرعی عدالت اس قانون کے تمام پہلوﺅں کا قرآن سنت کی روشنی بغور جائزہ لے چکی ہے۔
”محمد اسماعیل قریشی بنام پاکستان بذریعہ سیکریٹری قانون و پارلیمانی افیئرزپاکستان “
[PLD1991 Fsc page 10]کے عنوان سے ایک کیس میںوفاقی شرعی عدالت نے اس قانون کا قرآن و سنت کی روشنی میں تفصیل سے جائزہ لیا اور قرار دیا کہ توہین رسالت کیس میںسزائے موت کے متبادل عمرقید کی سزا اسلامی قوانین کے خلاف ہے۔ اس فیصلہ کے کچھ حصے پیش خدمت ہیں۔
”33۔سب وشتم اوراذ ی کے الفاظ قرآن و سنت کے مطابق رسول اللہﷺ کی تو ہین کے معنوں میں استعمال ہوئے ہیں۔ ” سب “کے معنی نقصان پہنچانے ،توہین کرنے،ہتک عزت اور جذبات کو مجروح کرنے کے ہیں۔(Arabic ENGLISH lexicon,E.W,Lane,Book-1,part-1 page 44) .۔جب کہ” شتم “کے معنی گالی گلوچ کرنا اور وقار مجروح کرنا ہےPLD1991 Fsc page 26))۔
”66۔تمام ماہرین قانون اس بات پر متفق ہیں کہ یہ الفاظ تمام انبیاءاکرام کے متعلق ہیں اور اگر کوئی شخص کسی بھی نبی کی ،کسی بھی انداز میںتوہین کرتا ہے تو اس کی سزا موت ہوگی۔
67ََََّ۔اس تمام بحث سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ توہین رسالت کی جو سزا پاکستان پینل کوڈ 1860ء میں درج ہے وہ سزا موت اور عمر قید ہے جو قرآن سنت سے مطابق نہیں رکھتی کیونکہ قرآن وسنت میں توہین رسالت کی سزا صرف موت ہے عمر قید نہیں۔ اس لئے عمر قید کا لفظ ختم کردینا چاہئے(PLD1991 Fsc page 10 )۔
17۔۔پاکستان میں موثر عدالتی نظام موجود ہے۔ جس کے تحت ایسے تمام مقدمات جن میں سزا موت ہے اور وہ سیشن کورٹ میں riable T ہےں ۔
ان میںrocedure code 1898 Chapter XXIIA of Criminal p اورقانون شھادت آرڈر1984 منصفانہ سماعت کی ضمانت ہے۔اس قانونی ضمانت سے ہٹ کر بھی اٹھارویں ترمیم کے ذریعے آئین کے part ii میں ہر ملزم کے لئے fair trial بنیادی حق قرار دے دےا گےا ہے۔آئین کے مطابق اس امر کو یقینی بنایا جائے گا کہ کسی بھی شہری پر لگنے والے مجرمانہ الزام پر اسے Due processکے ساتھ fair trialکا حق ملے ۔ اس نظام عدل میں ہر ملزم کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ قانونی معاونت حاصل کرے اور اپنا دفاع کرے۔ کوئی شخص یا ملزم خودقانونی دفاع ےا اپنی پسند کے قانونی ماہرسے قانونی معاونت کے حق سے انکار بھی نہیں کرسکتا ۔ آئین کی دفعہ 10کی شق 1کے مطابق کسی بھی ملزم کی سزا موت پر اس وقت تک عمل درآمد نہیں ہوسکتا جب تک ہائی کورٹ کا ڈویژنل بنچ اس کی تو ثیق نہ کردے ۔
Criminal procedure code 1898کے section 374 میں یہ امروضاحت کے ساتھ موجود ہے۔ ”374 جب سیشن کورٹ کسی شخص کو سزا موت سنادے تو یہ مقدمہ ہائی کورٹ میں پیش کیا جائے گااور اس وقت تک سزا پر عمل درآمد نہیں ہوسکتا جب تک ہائی کورٹ سزا موت کی تو ثیق نہ کردے۔“
18۔۔اگر کسی ملزم کو سیشن جج یا ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت سے سزا ہو جائے تو وہ criminal procedure code 1898 کے سیکشن 410 کے تحت ہائی کورٹ میں اپیل کر سکتا ہے۔کسی ملزم کی اس سطح پر بریت کی صورت میں صوبائی حکومت پبلک پراسیکیوٹر کو criminal procedure code 1898 کے سیکشن417 کے تحت ہائی کورٹ میں اپیل کی ہدایت کر سکتی ہے۔ہائی کورٹ کے سوا کسی بھی عدالت سے بریت کاحکم جاری ہونے پر اس سے متاثرہ فریق سیکشن417کی ذیلی شق 2aکے تحت ہائی کورٹ میں اپیل کر سکتا ہے۔
19۔ مقدمہ جو ہائی کورٹ میںسیکشن 374کے تحت آیا ہو۔ criminal procedure code 1898 کے سیکشن 376کے تحت ہائی کورٹ اس میںسزا کی توثیق کرسکتی ہے یاکوئی نئی سزا دے سکتی ہے۔ےا اسی الزام میں یا کسی دوسرے الزام میںدوبارہ سماعت کا حکم دے سکتی ہے۔
یہاں اس امر کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے کہ بعض لوگ پروپیگنڈہ کے زیر اثر ایک غلط تصویر پیش کرتے ہیں کہ پاکستان کا procedural قانون انسانی حقوق کے عالمی معیار کے مطابق نہیں یا پھر انہیں عالمی سطح پر تسلیم نہیں کیا جاتا۔یہ تاثرسراسربے بنیاداورغلط ہے۔اس حوالہ سے قریب ترین مثال بھارت کی پیش کی جاسکتی ہے۔ جہا ں Code of criminal of 1974)کے Chapter XXVIII میں بھی سزائے موت کے حوالہ سے یہی طریقہ کار دیا گیا ہے۔
”366 ۔سیشن کورٹ اگرکسی شخص کو سزا ئے موت سنادے تو یہ مقدمہ ہائی کورٹ میں پیش کیا جائے گا۔اور اس وقت تک سزا پر عمل درآمد نہیں ہوسکتا جب تک ہائی کورٹ سزا موت کی تو ثیق نہ کردے۔“
اس سے موازنہ کی خاطر اگر ہم پاکستان کے قانون کو دیکھیں توcriminal procedure code 1898 کی دفعہ374بھی یہی کچھ کہتی ہے۔
”374۔سیشن کورٹ اگرکسی شخص کو سزا ئے موت سنادے تو یہ مقدمہ ہائی کورٹ میں پیش کیا جائے گا۔اور اس وقت تک سزا پر عمل درآمد نہیں ہوسکتا جب تک ہائی کورٹ سزا موت کی تو ثیق نہ کردے۔“
اس سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ پاکستان کے Criminal procedure code1898اور بھارت کےCode of criminal procedure 1973(Act 2 of 1974) میںلفظوں کا بھی فرق نہیں۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان کا قانون مقدمات کی سماعت کے عالمی معیار کے مطابق ہے۔یہا ںافسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ Code of Criminal procedure آزادی کے بعد ہم نے نہیں بنایا بلکہ یہ پہلے سے انگریزوں کا بنایا ہوا ہے۔
20۔کسی بھی ملزم یا مجرم کے لیے Criminal procedure code 1898 کی شق 411Aکے تحت ہائی کورٹ میںاپیل کی گنجائش موجود ہے ۔ اسی طرح کسی بھی ملزم یا مجرم یا کسی بھی متا ¿ثرہ فریق کو آئین پاکستان کے آرٹیکل185 کی ذیلی شق 2کے پیرا گراف Aکے تحت پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت میں اپیل کا حق بھی حاصل ہے۔اس شق کے تحت سپریم کورٹ میں ایسے تمام مقدمات میں اپیل کی جاسکتی ہے جن میں ہائی کورٹ فیصلہ دے چکی ہو۔
21۔یہاں تک کہ سپریم کورٹ ،یا کسی بھی دوسری عدالت یا ٹربیونل کی طرف سے حتمی فیصلہ کے بعد بھی آئین کے آرٹیکل 45کے تحت صدر پاکستان کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی عدالت،ٹربیونل یا اتھارٹی کی طرف سے دی گئی کسی بھی سزا کو معاف کردے ،معطل کر دے ،ملتوی کردے ،تبدیل کردے ،عمل درآمد روک دے یا اس میں کمی کردے ۔ صدر کا یہ اختیار عدالتی عمل سے بھی توثیق پا چکا ہے۔(عبدالمالک بنام سٹیٹ(PLD 2006 SC 365)َ۔اس مقدمہ میںمجھے(وفاقی وزیر قانون ڈاکٹربابر اعوان کو)بطور وکیل یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں نے عدالت کی معاونت کی تھی ۔چیف جسٹس افتخار محمدچودھری کے زیر قیادت اس بنچ میں مسٹر جسٹس رانا بھگوان داس، مسٹر جسٹس فقیر محمد کھوکھر، مسٹر جسٹس ایم جاوید بٹراور مسٹر جسٹس تصدق حسین جیلانی شامل تھے۔عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلہ میں قرار دیا تھا کہ صدر کا یہ اختیار آئین کے آرٹیکل کی روح کے خلاف نہیں ہے۔
22۔اوپر دی گئی بحث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان پینل کوڈ1860کی شق 295-cکے تحت توہین رسالت پر موت کی سزا اسلام کے عین مطابق اور قرآن وسنت سے اخذ کردہ ہے۔ اس میں کسی تبدیلی یا ترمیم کی کوئی ضرورت نہیں۔ پیرا گراف (1)مین بیان کردہ تمام ریفرنسز منفی اورقانون کی غلط تشریح پر مبنی ہیں۔آئین کے آرٹیکل9کے مطابق کسی شخص کی زندگی اور آزادی کو دوسروں پر ترجیح حاصل نہیںاور آئین کی شق25(1)کے تحت تمام شہری قانون کی نظر میں برابر ہیں اور یکساں طور پر قانونی تحفظ کے حقدار ہیں۔ لہٰذا 295-c کے تحت مقدمات سیشن کورٹ میںہی قابل سماعت ہیں ،اس کے لئے کسی خصوصی عدالت کی بھی ضرورت نہیں ۔
23۔ایک اور معاملہ جس پر مختصر بات ضروری ہے، وہ ہے پاکستان میں مذہب کی آزادی۔ پاکستان کا آئین ہر کسی کے لئے آزادانہ طور پر کوئی بھی مذہب اختیا ر کرنے اور مذہبی ادارے بنانے کو اس کا بنےادی حق تسلیم کرتا ہے،جو ملکی قانون کے دائر ہ کے اند ر ہو۔آئین پاکستان کے آرٹیکل 20کے پیرا گرافAکے مطابق” اس امر کی ضمانت دی جاتی ہے کہ ہر شہری مذہب اختیار کرنے ،اس پر عمل کرنے اور اس کی تشہیر کرنے میںآزاد ہوگا۔“ اور پیرا گرافBکے مطابق ”ہر مذہب کے ہر فرقہ کو اپنے مذہبی ادارے بنانے چلانے کا حق ہوگا۔“ اور یہ آزادی عالمی اصولوں اور قوانین کے عین مطابق ہے۔مگر بہر حال یہ سب قانون ،امن عامہ اور اخلاقیات کے مطابق ہو گا۔
24۔پاکستان ایک انتہائی ذمہ دار اور اپنی آئینی وقانونی ذمہ داریوںکے حوالہ سے با صلاحیت ریاست ہے ۔اور مقدمات کی سماعت کے حوالہ سے ایک قابل اعتماد نظام رکھتا ہے جس کے سبب شروع سے آج تک اس قانون کے تحت ایک بھی سزائے موت نہیں ہوئی جو اس امر کا بین ثبوت ہے کہ اس ملک میںعدالتی نظام کس قدر مستحکم ہے۔
25۔۔وزارت داخلہ کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ قانونی راستہ اختیار کرے۔executiveکو کسی ایکشن کی ضرورت نہیں مسمات آسیہ نورین کوCriminal procedure code1898 کی شق 410کے تحت پہلے ہی قانونی طور پر REMEDYحاصل ہے ۔وہ ہائی کورٹ میں اپیل کرکے عدالت کے فیصلہ اور اپنی سزا کو چیلنج کر سکتی ہیں۔
26۔وزارت اقلیتی امور کی جانب سے وزیر اعظم کو توہین رسالت قانون میں فوری طور پر تبدیلی کی درخواست بھی مبنی بر حقیقت نہیں لہٰذا اس پر کوئی ایکشن نہ لیا جائے۔
27۔۔وزارت خارجہ کو Briefing material کی ضرورت ہے ۔اس جائزہ کی ایک کاپی الگ سے وزارت خارجہ کو ارسال کردی گئی ہے۔ تجویز کیا جاتا ہے کہ وزیر اعظم تمام ڈویژنز اور متعلقہ حلقوں کو ہدایت جاری کریں کہ وہ آئینی اور قانونی معاملات میںوزارت قانون کی رائے لئے بغیر تبصرہ آرائی سے گریز کریں۔یہ1973کے حکومت پاکستان کے رولز آف بزنس کے تحت لازمی ہے۔

دستخط
ڈاکٹر ظہیرالدین بابر
وزیر قانون ،انصاف وپارلیمانی امور

پھر ان تجاویز پر وزیر اعظم کی طرف سے درج ذیل آرڈ رجاری کیا گیا۔ جو یقیناپاکستانی تاریخ کا اہم ترین واقعہ ہے جس نے فتنہ وفساد کا درواز ہ بند کرکے ملک وقوم کو ایک بڑے بحران سے نجات دلائی ہے ۔وزیر اعظم کا حکم نامہ بھی ملاحظہ فرمائیں

وزیر اعظم سیکرٹریٹ اسلام آباد
عنوان؛پاکستان میں توہین رسالت کے سلسلہ مین اٹھنے والے سوالات کا تفصیلی جائزہ

28 ۔۔ وزیر اعظم پاکستان وزیر قانون و انصاف وپارلیمانی امور کی تجاویز کی بخوشی منظوری دیدی ہے ، تمام متعلقہ وزارتوں کو ضروری اقدامات کی ہدایت کی جاتی ہے ۔منطور شدہ تجاویز کی کاپی الگ سے ارسال ہے۔
دستخط
خوشنود اختر لاشاری
پرنسپل سیکریٹری برائے وزیر اعظم پاکستان
08-02-2011

ڈائری نمبر۔611/pspm/m/2011

اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ عوامی اور حکومتی سطح پر انصاف اورحق تک پہنچنے کے لیے جو کوششیں کی گئیں اللہ رب العزت انہیں شرف قبولت بخشیں اور ان مساعی کو اس ملک کے مستقبل اور استحکام ودوام کا وسیلہ بنائیں ۔آمین
Molana Qari Muhammad Hanif Jalahndri
About the Author: Molana Qari Muhammad Hanif Jalahndri Read More Articles by Molana Qari Muhammad Hanif Jalahndri: 35 Articles with 66118 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.