مسلم دنیا کےعوام کا مسئلہ ان کی ناخواندگی ، پسماندگی
اور جہالت کا ہونا ہے تعلیم کی کمی اور معاشرتی شعور کی کمی کی وجہ سے وہ
بہت جلد کسی کے بھی فریب میں آجاتے ہیں خاص طور پر اگر کوئی مزہب کا لبادہ
اوڑ کر بہکادے تو پھر بڑے پڑھے لکھے لوگ بھی بے وقوف بننے میں دیر نہیں
لگاتے جس کا اندازہ آپ کو آگےکی تحریر میں ہوگا ۔ یہ بلاگ مزہب کے نام پر
دھوکھا دینے والی ایک شخصیت کے متعلق ہے جسنےسترکی دھائی کے دوران ایک
مزہبی ہیشین گوئی کو بنیاد بنا کر عالم اسلام کو کو دھوکہ دینے کی کوشش کی
اور پھر یکایک غائب ہوگئی یہ شخصیت ملائشیا سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون
تھی جس کا نام زہرہ فانا تھا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس نے ایک دفعہ تو
پوری اسلامی دنیا کو اپنے سحر میں جکڑ ہی لیا تھا لیکن کچھ پاکستانی
ڈاکٹروں کی کوششوں سے اس کا راز فاش ہوگیا اور وہ ایسی بھاگی کہ پھراس کا
کچھ پتہ نہیں چلا کہ اس کا کیا ہوا زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔اس کی
کہانی بیان کرنے سے پہلے زرا اس وقت کے بین القوامی حالات اور پاکستان کے
سیاسی حالات کا جائزہ لے لیا جائے تو بہتر ہوگا تاکہ پتہ چل سکے کہ کس پس
منظر میں اس نے اپنی شعبدہ بازی سے اور زبان کی چاشنی سے اسلامی دنیا کو
اپنی جانب متوجہ کرنے میں کامیاب ہوئی تھی۔
۱۹۷۰ کے جنرل الیکشن سے پہلے یہ بات واضع ہوچکی تھی کہ مشرقی پاکستان میں
شیخ مجیب الرحمان کی عوامی پارٹی اور مغربی پاکسان میں ذولاالفقارعلی بھٹو
کی پیپلز پارٹی جیت جائے گی یہ دورامریکہ اورسابق سویت یونین اور ان کے
اتحادیوں کے درمیان سرد جنگ کا دور تھا۔ ویت نام کی جنگ لڑی جارہی تھیشمالی
کوریہ اور جنوبی کوریہ کی جنگ کو ختم ہوئے بھی کچھ زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا
دنیا کی دو سپر طاقتوں کے درمیان سرد جنگ اولمپک کھیلوں سے لیکر سی آئی اے
اور کے جے بی کی پراکسی وار تک اپنے عروج پر تھی اسلامی دنیا بھی دو دھڑوں
میں بٹی ہوئی تھی کچھ روس کے ساتھ اور کچھ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے
ساتھ تھی لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسلامی دنیا ایک اپنا علیحدہ تشخص قائم کرکے
تیسری طاقت بننا چاہتی تھی فلسطین اور کشمیر کا مسئلہ،عرب اسرائیل جنگیں،
۶۵ کی پاک بھارت جنگ اور پھر مشرقی پاکستان میں بھارت کی سازشوں کے اس
ماحول میں اسلامی دنیا ہراس واقعہ یا شخصیت کی جانب متوجہ ہوجاتی جس میں
انہیں اسلامی دنیا میں اتحاد اور یکجہتی پیدا کرنے کا کوئی امکان نظر آتا
تھا ایسے کسی ایشو یا شخصیت کی جانب نہ صرف حاکم بلکہ علما اکرام بھی راغب
ہوجاتے۔ وہ محسوس کررہے تھے کہ ان دو سپر پاورز کی جنگ میں اسلامی دنیا
قربانی کا بکرا بن رہے ہیں۔ اسی ماحول میں ملائشیا کی ایک خاتون زہرہ فانا
نے دعویٰ کیا کہ اس کے پیٹ میں پلنے والا بچہ امام مھدی(نعوذ باللہ) ہے اور
امام مھدی کے ظہور کا وقت آگیا ہے اس قسم کے دعویٰ ماضی میں بھی بے شمار
کئے جاتے رہے نعوذ باللہ نبوت کے دعویٰ بھی ہوتے رہے لیکن ان پرکبھی کسی نے
کوئی خاص توجہ نہ دی تھی لیکن زہرہ فانا کے ایک اور دعویٰ نے اسلامی دنیا
کے علما اکرام اور سربراہوں کو اپنی جانب متوجہ کرلیا اور وہ یہ تھا کہ اگر
وہ اپنے پیٹ کو خانہ کعبہ کی جانب کرتی ہے تو اس پیٹ سے ازان کی آواز آتی
ہے۔ اس میں حقیقت بھی تھی کیوںکہ کئی مذہبی دینی اہم شخصیات نے یہ آواز
سنی اور اس کے درست ہونے کی تصدیق کردی۔ کئی سکالرز نے اس خاتون سے ڈیبیٹ
کی سوالات جوابات ہوئے لیکن حیران کن طور پر وہان کو قائل میں کامیاب رہی
کہ اس کے پیٹ میں امام مھدی پل رہا ہے ان مذہبی سکالر نے اس کے اوپر
آریٹیکل بھی لکھے اور لیکچر دیئے کہ زہرہ فانا کے پیٹ میں پلنے والا بچہ
ہی امام مھدی ہے جس پر پوری اسلامی دنیا میں اس خاتون کے چرچے ہونے لگے اس
نے کئی اسلامی ممالک کے دورے کئے اور جس ملک میں بھی یہ جاتی ایک جم غفیر
اکٹھا ہوجاتا ہزاروں لوگوں نے اس کے پیچھے نماز بھی پڑھی جن میں کئی نامی
گرامی مزہبی سکالر اور حکمران بھی شامل تھے۔
اسی دور میں زہرہ فانا پاکستان بھی آئی۔ پاکستان میں اس خاتون کا ایسے
استقبال کیا گیا کہ جیسے نعوذ باللہ واقعی امام مہدی کی آمد ہورہی ہو ملک
کے نامی گرامی مزہبی سکالرز نے اس خاتون سے ملاقات کی کئی سوال و جواب ہوئے
دو اصحاب نے تو اپنے کان سے ازان کی آواز بھی سنی ازان سنانے کا طریقہ بھی
انتہائی شرمناک تھا کہ ازان سننے والا زہرہ فانا کی شرم گاہ کے قریب اپنا
کان لے جاتے۔ یہ تجربہ کرنے والوں میں ایک سابق رویت ہلال کیمٹی کے رکن اور
پاکستان کے ایک مشہور مولانا بھی شامل تھے اس خاتون نے کئی شہروں میں
اجتماعات کئے اور مبینہ طور پر کئی مزہبی شخصیات نے اس کے پیچھے نماز بھی
پڑھی۔
جہان معصوم عوام اور مزہبی سیاسی شخصیات اس کا دم پڑھنا شروع ہوگئیں وہاں
روشن خیال طبعقہ نے اس پر سوال بھی اٹھانے شروع کر دیئے یاد رہے یہ وہ دور
تھا جب ذوالفقارعلی بھٹو، ڈاکٹر مبشر حسن جیسے لوگ محتاط انداز میں شوشلزم
اور فیض احمد فیض کھلےعام کیمونسٹ کا پرچار کررہے تھے یہ وہ لوگ تھے جو
پاکستان میں شوشلزم یا کمیونزم آنے کیلئے پرامید تھےچناچہ ایسے ہی کچھ
بائیں بازو کی زہنیت رکھنے والے پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے ممبران اور
جناح ہسپتال کراچی کے ڈاکٹروں نے زہرہ فانا کے میڈیکل ٹیسٹ لینے کا کہا اور
اس مقصد کیلئے لیڈی ڈاکٹروں کی ایک ٹیم کا نتخاب بھی کرلیا گیا لیکن زہرہ
فانا نے کسی قسم کے ٹیسٹ یا میڈیکل ایگزامن سے انکار کردیا اس کے دفاع میں
کئی لوگ کھڑے ہوئے لیکن کسی نہ کسی طرح اسے راضی کر ہی لیا گیا کہ وہ اپنا
معائنہ کروائے چناچہ جیسے اس کے ٹیسٹ کئے گئے تو زچگی کے ٹیسٹ نیگٹو آئے
یعنی وہ امید سے تھی ہی نہیں۔ اس انکشاف نے زہرہ فانا کے غبارے سے ہوا نکال
دی لیکن ایک معاملہ سلجھنا باقی تھا کہ ازان کی آواز کیسے آتی ہے اس کا
پتہ اس وقت چلا جب ڈاکٹر صاحبان نے اس کی بچہ دانی سے ایک چھوٹا سا ٹیپ
ریکاڈر نکال کر یہ معمہ بھی حل کردیا۔ اس سے پہلے کہ یہ بھید عوامی سطح پر
کھلتا۔ زہرہ فانا نے اپنا بوریا بستر گول کیا اور راتوں رات غائب ہوگئی۔
تاریخ میں پھر اس کا ذکر نہیں ملتاممکن ہے کہ زہرہ فانا راز افشاٗ ہونے پر
ڈر گئی ہو کہ اسے کوئی نقصان نہ پہنچائے اور وہ خود روپوش ہوگئی ہو یا اس
کے پیچھے کوئی ایسی طاقت جس نے اسے اسلامی دنیا کیلئے ایمپلانٹ کیا تھا نے
اسے ٹھکانے لگادیا ہو تاہم اس کے ساتھ کیا ہوا کوئی نہیں جانتا۔ لیکن وہ
لوگ تو یہیں تھے جو اس کی بات مان کر اس کی امامت میں نماز بھی پڑھتے رہے۔
اسے کی شرم گاہ کے قریب اپنے کان لیجا جاکر ازان سنتے رہے۔
وہ کیا کسی شاعر نہ کہا ہے کہ
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
زہرہ فانا یہ ڈرامہ کرکے غائب ہوگئی لیکن ان دینی سکالر حکمرانوں اور عوام
کے لئے خفتگی اور شرمندگی چھوڑ گئی جو کہ اسے سچ ثابت کرنے پر تلے ہوئے تھے
یہ وہ زمانہ تھا جب امریکہ اور روس چاند پر پہنچ چکے تھے بیس جولائی ۱۹۶۹کو
امریکہ کا خلاباز نیل آرمسٹرانگ چاند پر پر اپنا قدم رکھ چکا تھا میڈیکل
سائنس اتنی ترقی کرچکی تھی کہ ماں کے پیٹ میں بچے کی جنس تک بتا دی جاتی
تھی گلاسکو سکاٹ لینڈ کے ایک ہسپتال میں ۱۹۵۰ سے شروع ہونے والی الٹرا
ساوٗنڈ مشین ۱۹۷۰ تک برطانیہ اور دوسرے ممالک میں عام استعمال کی جاتی تھی
ٹیپ ریکارڈر ۱۹۳۰ یعنی دوسری جنگ عظیم سے پہلے جرمنی میں ایجاد ہوچکا تھا
اور اسے دوسری عالم گیر جنگ کے دوران جاسوسی کے مقاصد کیلئے استعمال کیا
جاتا رہا تھا۔ پھر کیوں ایک عام سی عورت اسطرح پوری اسلامی دنیا کو فریب دے
گئی اور کیسے دینی سکالر تھے جو اس کے ہاتھوں بےوقوف بن گے کیا اسلامی دنیا
کی ان اعلی شخصیات کو ان سائنسی ایجادات کا پتا نہیں تھا پھر کیسے انہوں نے
عالم اسلام کو شرمندہ ہونے کا موقع دیا یہ بھی ممکن ہے کہ ان دینی فگرزنے
جان بوجھ کر ایسے طبعی معائنہ پرخاموشی اختیار کی ہو کہ ہوسکتا ہے کہ امام
مھدی (نعوذباللہ) کے نائب وہی کیوں نہ ہوں اور نائب کا مطلب نبوت میں اور
امامت میں کیا ہوتا ہے قارئین اکرام اچھی طرح سمجھ سکتے ہیںبحرکیف اس کاجو
بھی نتیجہ نکالا جائے ایک کریڈٹ تو پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کو جاتا ہے
کہ وہ اس فریبی عورت کی اصلیت دنیا کے سامنے لے آئے ورنہ جزباتی مسلمان تو
تلواریں تیز کئے بیٹھے تھے بلکہ کچھ مذہبی گروپوں نے تو اس بنا پر اپنے
ملکوں کے غیر مسلموں کو دھمکانا شروع کردیا کئی جگہ ان پرحملہ تک بھی کئے
گئے اور املاک کو نقصان بھی پہنچایا گیا ایسی ہی ایک سیاسی مزہبی جماعت نے
پاکستان میں بھی ایسی حرکتیں کئیں۔اب اگر آپ ان سے پوچھو تو وہ کہیں گے
کون زہرہ فانا ہم نے تو یہ نام پہلی دفعہ سنا ہے۔زہرہ فانا کے نام کے اس
ڈرامہ کا فلاپ سین یہ نہیں کہ وہ بھاگ گئی یا روپوش ہوگئی بلکہ یہ ہے کہ
ایمان کی کمزوری انسان سے غلطیاں کرواتی ہے۔ |