قاضی شریح..... عدل گستری کا ایک اجلا کردار!

قاضی شریح..... عدل گستری کا ایک اجلا کردار!

خلیفہ ثانی کا دور خلافت ہے۔ امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کسی شخص سے ایک گھوڑا اس شرط پر خریدتے ہیں کہ پسند آ گیا تو سودا نافذ ورنہ واپس کر دیں گے۔ گھوڑا سوار کو لئے راستے میں لنگڑانے لگتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ گھوڑا واپس کرنا چاہتے ہیں لیکن مالک لینے سے انکار کر دیتا ہے۔ دونوں شریح بن حارث کو ثالث مقرر کرنے پر راضی ہو جاتے ہیں۔ شریح فیصلہ کرتے ہیں ’’خریدے ہوئے گھوڑے کو رکھو یا جس حالت میں لیا تھا، اسی حالت میں واپس کردو۔‘‘ امیر المؤمنین قاضی شریح کے دلیرانہ فیصلے سے متاثر ہوکر صرف فیصلہ ہی تسلیم نہیں کرتے بلکہ شریح کو کوفہ کا جج بھی مقرر کر دیتے ہیں۔
اسلامی عدالت کے حوالے سے قاضی شریح رحمہ اللہ کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔آپ کا نام شریح بن الحارث بن قیس بن الجھم الکندی ہے۔ راجح قول کے مطابق آپ صحابی نہیں بلکہ جلیل القدر تابعین میں سے تھے، قرآن و حدیث، فقہ اور عربی ادب کے مانے ہوئے امام تھے۔ شعر وشاعری میں باکمال تھے۔ یمن کے رہنے والے تھے۔ زندگی کا کچھ حصہ دورِ جاہلیت کی نذر ہوا لیکن جب جزیرہ نمائے عرب نور ہدایت سے چمکا اور اسلام کی کرنیں سر زمین یمن تک پہنچیں تو قاضی شریح ان خوش نصیبوں میں سے ہوئے، جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے کی سعادت حاصل کی، تاہم سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کی ملاقات نہیں ہو سکی۔ جلیل القدر صحابہ کرام اور عظیم المرتبت تابعین قاضی شریح کی زود فہمی، دانشمندی، خوش اخلاقی ، ہمدردی، عدل گستری اور تجربہ کاری سے بے حد متاثر تھے۔
آپ 60 سال تک کوفہ کے قاضی رہے، ایک سو آٹھ یا ایک سو اسی سال عمر پانے والے قاضی شریح مستقبل کے ججزز کے لئے نہ صرف مشعل راہ ثابت ہوئے بلکہ آج بھی کتابوں میں ان کے کئے گئے مبنی بر انصاف فیصلے کہانیوں کی شکل میں محفوظ ہیں۔
بڑا دکھ ہوتا ہے جب تاریخِ اسلام کے ماتھے کا جھومر سمجھے جانے والے، کسی مایہ ناز شخصیت پر کوئی بلا دلیل الزام لگا کر ان کے کردار کو مشکوک بنانے کی کوشش کرتا ہے۔
8 ستمبر 2019 کے روزنامہ جنگ میں یاسر پیر زادہ نامی کالم نگار نے "امام حسین کے ساتھ کون تھا؟" کے عنوان سے ایک کالم لکھا جس میں انہوں نے ایک جلیل القدر تابعی قاضی شریح رحمہ اللہ کی شخصیت کی طرف بعض ایسی باتیں منسوب کی ہیں کہ جن سے آپ تاریخ کی مستند کتابوں میں بری نظر آتے ہیں۔
عجیب بات یہ ہے کہ جس واقعہ کو موصوف بطورِ اعتراض ذکر کرتے ہیں اسی واقعے کو مؤرخین قاضی شریح کے بے لاگ عدل وانصاف پر بطور دلیل پیش فرماتے ہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی زرہ کہیں گم ہوگئی تھی جو انہوں نےایک یہودی کے ہاتھ میں دیکھی، معاملہ قاضی شریح کی عدالت میں پہنچا، قاضی شریح نے امیر المؤمنین سے گواہان طلب کئے، حضرت علی نے اپنے بیٹے حسن اور غلام قنبر کو گواہی کے لیے پیش کیا چیف جسٹس شریح نے قنبر کی شہادت تو قبول کی لیکن حسن کی شہادت بیٹے ہونے کی وجہ سے قبول نہیں کی،
جس پر امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ عنہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: کہ کیا آپ نے نہیں سنا کہ حسن اور حسین جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں۔ چیف جسٹس شریح نے کہا ’’سنا ہے، مگر میرے نزدیک باپ کے حق میں بیٹے کی شہادت معتبر نہیں۔‘‘
چنانچہ دوسرا گواہ نہ ہونے کی وجہ سے قاضی شریح نے فیصلہ یہودی کے حق میں دیا۔ اسلامی عدالت کے اس بے لوث عدل اور امیر المؤمنین کے منصفانہ کردار سے متاثر ہو کر یہودی نے صرف زرہ ہی واپس نہیں کی بلکہ کلمہ شہادت پڑھ کر حلقہ اسلام میں بھی داخل ہوگیا، تاہم حضرت علی نے اس کے قبول اسلام کی خوشی میں زرہ واپس کردی۔
قابلِ تعجب یہ کہ اس موقع پر امیر المؤمنین نے نہ تو کوئی آرڈی نینس جاری کیا اور نہ ہی کسی قانون کی پناہ ڈھونڈ نے کی کوشش کی بلکہ فیصلے کے آگے سر تسلیم خم کر دیا، لیکن پیر زادہ صاحب قاضی شریح سے آج بھی شکوہ کناں نظر آتے ہیں۔ حالانکہ یہ واقعہ جس طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ کے کریمانہ اخلاق، تواضع اور عدل پر ایک روشن دلیل ہے اسی طرح قاضی شریح کے بے لاگ عدل وانصاف کی ایک ایسی مثال ہے کہ جس پر تاریخِ اسلام بجا طور پر ناز کرسکتی ہے۔
مذکورہ کالم نگار نے قاضی شریح کے حوالے سے چند دیگر باتیں ذکر کرکے آخر میں علامہ ڈاکٹر سید مجتبی حسن ناظم دینیات مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی کتاب (قاضی شریح کا کردار ) کا حوالہ دیا ہے۔
کتاب چونکہ ہمارے پاس موجود نہیں اس لئے نہ تو یہ پتہ لگانا ممکن ہے کہ صاحبِ کتاب نے کونسے مآخذ اور روایات کا سہارا لیا ہے اور نہ ہی کالم نگار کے ہر اعتراض کو تحقیق کی کسوٹی پر پرکھا جاسکتا ہے۔
البتہ ہم نے قاضی شریح کے بارے میں سرِ دست جن اصل مصادر کا مطالعہ کیا مثلاً
الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، اسد الغابہ، الاصابہ فی تمییز الصحابہ، سیر اعلام النبلاء اور تاریخِ مدینہ دمشق وغیرہ، ان میں کہیں بھی کوئی ایسی بات ہماری نظر سے نہیں گزری جو ان کے اجلے کردار کو داغدار کرسکے۔ اصولی طور پر کسی تاریخی شخصیت پر بحث کرتے ہوئے دیانت کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ اصل مصادر کا حوالہ دیا جائے۔ جبکہ معزز کالم نگار نے دورِ حاضر کی صرف ایک کتاب کو دیکھ کر خامہ فرسائی فرمائی ہے۔
موصوف کے بقول قاضی شریح کو بالآخر مختار ثقفی نے معزول کر کے کوفے سے جلاوطن کیا تھا لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ انہوں نے حجاج بن یوسف کے دور میں خود اپنے عہدے سے استعفا دے دیا تھا۔
ان کے کالم کے آخری پیراگراف سے خوب پتہ چلتا ہے کہ جناب نے قاضی شریح کی طرف جو چند غیر مستند باتیں منسوب کی ہیں اس سے وہ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ لکھتے ہیں: "ساڑھے تیرہ سو سال گزر گئے، حالات اب بھی نہیں بدلے، حکومت آج بھی فاش ہتھکنڈے اپناتی ہے، زیادہ تر لوگ ایسی حکومتوں کے سامنے بولنے کی جرات نہیں کرتے اور قاضی شریح کی طرح اپنا وقت پورا کرلیتے ہیں"
اس کے جواب میں اتنا عرض ہے کہ قاضی شریح جرات مند نہ ہوتے تو اپنے وقت کے دو حکمرانوں حضرت عمر اور علی رضی اللہ عنہما کے خلاف فیصلہ نہ سناتے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ آپ کو جج تعینات کرتے اور نہ ہی حضرت علی کرم اللہ وجہہ آپ کو عرب دنیا کے ٫٫سب سے بڑے قاضی،، ہونے کا لقب عطاء فرماتے۔
چونکہ پیر زادہ صاحب کے زیر بحث کالم کو کئ اہلِ علم حضرات نے کسی اختلافی نوٹ کے بغیر سوشل میڈیا پر شئیر کیا تھا اس لئے راقم نے اس وضاحت کو ضروری سمجھا۔ ہمیں کبھی بھی کسی معتمد شخصیت کے بارے ہر ایرے غیرے کی تحریر سے متاثر ہوکر غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیئے بلکہ اس کے متعلق کوئی رائے قائم کرنے سے پہلے درست، معتبر اور مستند مواد کی طرف ضرور رجوع کرنا چاہئے۔ خود تراشیدہ، غیرمقبول اور گری پڑی باتوں کو بنیاد بناکر کسی علمی اور تاریخی شخصیت کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنا نہ صرف اس شخصیت پر ظلم ہے، بلکہ خود علم وتحقیق کے ساتھ مذاق ہے۔
کسی بڑے اخبار میں لکھنے یا بڑے چینل پر بولنے سے کوئی شخص مستند نہیں بنتا۔ سن 2014 میں عربی ٹی وی چینل کے کسی پروگرام میں ایک بڑے شیخ نے امام بخاری کے نام کی تصحیح کرتے ہوئے فرمایا کہ دنیا میں اگر کوئی بخاری ہے تو وہ جمعہ محمد اسماعیل بخاری ہے، دراصل ان کو غلط فہمی صحیح بخاری کے کسی نسخے پر لکھے ہوئے نام سے ہوئی تھی، اس پر لکھا تھا "جَمَعَهٗ ابو عبداللہ محمد اسماعیل البخاری" جس کا مطلب ہے کہ کتاب میں مذکور روایات کو امام بخاری نے جمع فرمایا ہے۔
جب ایک پڑھے لکھے عربی شیخ کی عربی دانی کا یہ عالم ہے تو ہم کس کھیت کی مولی؟
یہی وجہ ہے کہ ایک نامور اخبار کے کالم نگار پیر زادہ صاحب ناقص معلومات کی بنیاد پر قاضی شریح کے انصاف کو مطعون کرتے کرتے خود بے انصافی کے مرتکب ہوگئے۔
 

Mufti Abdul Wahab
About the Author: Mufti Abdul Wahab Read More Articles by Mufti Abdul Wahab: 42 Articles with 40690 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.