خالق ارض و سمٰوات نے جب تخلیق
انسان کے پارے اپنے ارادہء خفی سے ملائکہ مقربین کو مطلع کیا تو سب نے
بارگاہ ایزدی میں دست پستہ التجا کی کہ اے مالک کائنات یہ مخلوق (انسان)
روئے زمین پر فساد برپا کرے گی، قتل و غارت گری کرے گی، ہر ہر قدم پر خون
کی ہولی کھیلے گی- یا رب ! ایسی مخلوق نہ پیدا فرما- اور اگر ترا مقصود حمد
و ثنا ہے تو اس کے لئے ہم ( فرشتے) سر نیاز خم کئے ، حاضر دربار ہیں-
لیکن اس مہربان و کریم لجپال پروردگار نے فرمایا کہ اے فرشتو ! جو میں
جانتا ہوں ، وہ تم نہیں جانتے- میں اسے (انسان) کو کسی خاص مقصد کے لئے
پیدا کر رہا ہوں-
مگر تاریخ شاہد ہے کہ اس انسان نے زمین پر آنے کے بعد ملائکہ مقربین کی اس
پیش گوئی ، جس کا ذکر اللہ نے قرآن شریف میں خصوصیت سے کیا ہے، کا ایک ایک
حرف سچ ثابت کر دکھایا ہے-
کبھی اس نے شداد و ہامان کی صورت میں گردن سرکشی بلند کی، کبھی یہ فرعون و
نمرود کی شکل میں ظاہر ہوا، کبھی تو اس نے درندگی، سفاکیت اور کمینگی کی
انتہا کو چھوتے ہوئے یزید کا روپ دھار کے محسن انسانیت، سید و سرور کون و
مکاں کے حلقوم مبروک پہ تیغ ہوس و ستم چلانے سے بھی گریز نہ کیا، کبھی یہ
ملعون روزگار مرزائے قادیان کی شکل میں منظر عام پر آیا اور آج تو واقعی اس
(انسان) نے ساری حدیں پامال کر کے رکھ دیں ہیں-
قارئین کرام ! یقین جانئے آج ہمیں اپنے انسان ہونے پر واقعی شرم محسوس ہو
رہی ہے اور اپنے آپ سے گھن آ رہی ہے کہ ہمارا شمار اس مخلوق میں ہو رہا ہے
جو اسفل سافلین کی مظہر اتم ہے- نہ جانے ہماری قوم کی عقل کہاں گھاس چرنے
گئی ہے کہ وہ ہر وقت اپنے اشرف المخلوقات ہونے کے زعم میں مبتلا رہتی ہے-
قارئین ! کیا اشرف المخلوقات کے اطوار ایسے ہوتے ہیں جو ہم لوگوں کے ہیں؟
قرآن شریف جو ام الکتاب ہے ، جس کا ایک ایک حرف نہ صرف معدن خیر و برکت ہے
بلکہ مصدر علم و حکمت اور منبع عرفان الٰہی ہے- مجھ ایسا کوتاہ بیان اور
ناقص العلم بندہ قرآن شریف کے اوصاف بیان نہیں کر سکتا- امن اور بھائی
چارے، محبت اور آشتی کا درس دینے والی ، معاشرے میں انسانیت کو اس کا حقیقی
مقام دلا کر بنی نوع انسان کا سر بلند کرنے والی، یہ آفاقی اور ازلی و ابدی
مقدس، طیب و طاہر صحیفہ آسمانی اور کلام مالک کل کو ایک درندہ صفت شخص نے
جلانے کی مکروہ و قبیح کاوش کی-
میرے ہاتھوں میں دم نہیں کہ میں اس گھناؤنی حرکت کے بارے لکھ سکوں، مگر اس
کے باوجود ہماری قوم کے کانوں پہ جوں تک نہیں رینگی- کیا یہ طرز عمل اور یہ
قومی رویہ ہماری کلی اور کھلی بے غیرتی پہ دال نہیں ؟
قارئین ! مسلمان ہونا تو دور کی بات ہے- آپ مسلمانی کے مقام اور معیار کو
ایک طرف رکھ کے میری اس سیدھی اور کھری بات کا جواب دیں (کیونکہ مسلمانی تو
شہادت گہ الفت میں قدم رکھنے کا نام ہے، کجا رام رام، کجا ٹیں ٹیں !) کیا
ہم اب بھی خود کو انسان سمجھنے اور کہلوانے کے حقدار ہیں؟ وہ انسان جسے
مسجود ملائکہ ہو نے کا شرف حاصل ہے، جسے اشرف المخلوقات ہونے کی خلعت زیبا
کا شرف بخشا گیا- کیا ہم میں سے کوئی اس معیار پر پورا اترتا ہے؟
اگر ہماری قوم کی رگوں میں ذرا سی بھی غیرت ایمانی موجود ہے تو پھر اب وقت
ہے کہ ہم کھلے عام اعلائے کلمتہ الحق کے لئے منظر پر آئیں اور اپنے یورپ کے
پروردہ ان حکمرانوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں جو نہ صرف پوری قوم کے لئے
باعث رسوائی و شرم ہیں بلکہ دین حق کے لئے بھی مار آستیں سے کم نہیں- ان کا
کردار و عمل بھی دور حاضر میں فرعون اور ہامان سے کم نہیں- اس سر زمین پر
یہ یزیدان عصر بجا طور پر آلہ طاغوت ہیں ، جن کا ہونا ملت اسلامیہ کی ہلاکت
اور تنزلی کا باعث ہے- اور اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اس خنزیر سرشت کا قلع قمع
کرنے کے لئے بھی میدان عمل میں اترنا ہو گا جس نے یہ مکروہ جسارت کی تا کہ
وہ آئندہ کے لئے نشان عبرت بن سکے-
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کر تا بہ خاک کاشغر |