امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا عالم اسلام پر حملہ

صلیبیوں نے پھر لیبیا پر بلاجواز حملہ کردیا۔ پہلی جنگ عظیم میں صلیبیوں نے مسلم ممالک پر بے انتہا مظالم توڑے ۔ ان کا مقصد تو دن حق کو صفحہ ہستی سے مٹانا ہے لیکن اللہ پاک کا ارشاد ہے کہ کافر دین حق کو اپنی پھونکوں سے بجھانا چاہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے نور کو پورا فرمائے گا اگرچہ کافروں کو( اسلام کی سربلندی بری لگے)برا لگے۔ صلیبی آج نہیں بلکہ سرور کون و مکاں ﷺ کی حیات دنیوی میں مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے۔ غزوہ تبوک اس سلسلہ کی پہلے کڑی تھی کہ شاہ روم لاکھوں کی فوج لیکر اللہ کے نور کو مٹانے چلا مگر جب اسے معلوم ہوا کہ تاجدار انبیا ﷺ خود لشکر اسلام کی کمان فرماتے تشریف لارہے ہیں تو بزدل صلیبی باوجود کثرت تعداد کے بھاگ کھڑے ہوئے اور اس افراتفری میں اپنا جنگی سازوسامان اور خوراک بھی چھوڑ گئے جو مسلمانوں کے کام آئی۔ غزوہ موتہ میں صلیبیوں کے مدمقابل حضرت عبداللہ بن رواحہ ، حضرت جعفر بن ابی طالب اور حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہم لشکر اسلام کی کمان کرتے ہوئے شہید ہوگئے ۔ ان حضرات کی شہادت کی خبر آقائے عالمین ﷺ نے مدینہ طیبہ سے لشکر اسلام کی روانگی کے وقت ہی دیدی تھی۔ انکے بعد حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے لشکر اسلام کی کمان سنبھالی اور فتح سے ہمکنار ہوئے۔ سام ، مصر، فلسطین بیت المقدس ، قسطنطنیہ اور تمام افریقی ممالک میں صلیبیوں سے مردان حق کے مقابلے ہوئے اور مشرک صلیبی ہر جگہ ذلیل و خوار ہوئے۔ مٹھی بھر لشکر اسلام طارق بن زیاد کی کمان میں اندلس میں داخل ہوا تو یورپ کی کوئی طاقت انکے سامنے نہ ٹہر سکی۔ مسلمان نے یورپ کو علم وادب ، تہذیب تمدن او انسانیت کی دولت سے مالامال کیا۔ مگر صلیبیوں نے احسان فراموشی سے کام لیا اور ہمیشہ مسلمانوں کو مٹانے کی کوشش کی۔ ہسپانیہ اندلس میں مسلمانوں نے تقریباً آٹھ سو سال کے طویل دورحکومت میں جاہلوں کو علمی دولت سے مالا مال کیا اور اندلس میں اسلامی عدل کی بے مثال روائتیں چھوڑیں۔ مسلمانوں کے باہمی افتراق و انشقاق کے نتیجہ میں فرانس کی سربراہی میں صلیبوں نے منافقانہ طریقے اپناکر اندلس پر قبضہ کرلیا او مسلمانوں پر ظلم کی انتہا کردی لاکھوں مسلمان شہید ہوئے، لاکھوں خاندان ترک وطن کر کے مراکش اور دیگر افریقی ممالک کی طرف ہجرت کر گئے۔ صلیبیوں کے انتقام کی آگ ٹھنڈی نہ ہوئی انہوں نے مسلمامانوں کی قبریں تک اکھیڑ ڈالیں ۔ آج اندلس میں مسلمانوں کی قبریں موجود نہیں۔ آٹھ سو سال حکوموت کرنے والے مسلمانوں کی قبریں کہاں گئیں؟ آج ان انسانیت کے جھوٹے اور مکار عمبرداروں کوئی پوچھے کہ یہی تمہارا مذہب اور یہی تمہاری انسانیت ہے کہ تم دشمنوں کی قبریں بھی اکھیڑ دیتے ہو۔ انگریز برصغیر میں سو سال حکمران رہا مگر انکے قبرستان آج بھی محفوظ ہیں۔ کیونکہ یہ اسلام کی تعلیمات ہیں کہ مردوں کی بے حرمتی نہ کی جائے۔

میں چاہوں گا کہ قارئین صلیبیوں کی مسلم دشمنی کا خود تجزیہ کرلیں ۔کہنے کو وہ اللہ کے نبی حضرت عیسی علیہ السلام اور ان پر نازل ہونے والی کتاب انجیل مبارک کو ماننے والے ہیں۔مفاد پرستوں نے انجیل میں ردوبدل کیا۔ اصل نسخہ انجیل برنباس ہے جو منظر عام پر اس وقت نہیں۔ موجودہ عیسائیوں کے عقیدہ کے مطابق یہودیوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کو (معاذاللہ) سول چڑھایا۔ جبکہ عیسائی حضرت عیسی علیہ السلام کو خدا کا بیٹا(معاذاللہ) کہتے ہیں۔گرجا گھروں میں مصلوب بت بھی لگاتے ہیں۔ اس لحاظ سے یہودی عیسائیوں کے خدا کے قاتل ٹہرے۔ دین کا دشمن تو بڑا دشمن ہے اسکے ساتھ تو کبھی بھی دوستانہ تعلقات نہیں ہوسکتے۔ آئیں دیکھیں کہ صلیبیوں کا اس بارے کیا کردار ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد امریکہ، برطانیہ اور دیگر یورپی عیسائی ممالک نے فلسطین میں یہودیوں کو آباد کیا۔ جہاں انہوں نے اسرائیل کے نام سے یہودی ریاست قائم کی اور عربوں کی چھاتی پر مونگ دلنے کے لیئے امریکہ اور اسکے اتحادیوں نے اسرائیل کو تسلیم کیا اور اسکی پوری پوری سرپرستی کرتے چلے آرہے ہیں۔ اب اسرائیل کو ان لوگوں نے دنیا کا جدید ترین اسلحہ اور ایٹمی پاور بنایا ہے۔ جس مقصد صرف اور صرف فلسطین اور دیگر عرب مسلم دنیا پر مظالم کرنا ہے۔ آئے دن یہودی فلسطینی مسلمانوں کا قتل عام کررہے ہیں، انکے علاقوں پر قبضہ کررہے ہیں۔ بیت المقدس جو اردون کا حصہ تھا اس پر کئی عشروں سے یہودی قبضہ ہے۔ صلیبی اسلام دشمنی میں اپنا دین مذہب اور اپنے خدا کا سولی چڑھنا بھی بھول گئے۔ صلیبی اہل کتاب ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔ ذرا دیکھیں تو انگریز نے برصغیر پر جب اپنی روائتی فریب کاری سے قبضہ کیا تو نہتے مسلمانوں کا قتل عام کیا ۔ مگر ہندو سے پیار کیا۔ ہندو کو اپنا ساتھی بنایا۔ مسلم دشمنی کے لیئے ہندو کو مضبوط بنایا ۔ تقسیم ہند میں انگریز نے اپنی اسلام دشمنی میں کوئی بخل نہ کیا اور جتنا اس سے ہوسکا اس نے کیا مثلا ریڈکلف ایوارڈ میں جی بھر کر بے ایمانی کی، پنجاب کا طے شدہ علاقہ جو گورداسپور تک تھا وہ بھارت کو دیدیا۔ کشمیر پر بھارت کا قبضہ کرا دیا۔ انڈین آرمی میں موجود مسلمانوں سے اسلحہ لے لیا ۔ اور ہندو غنڈوں کو مسلح کر کے مسلمانوں کے قتل عام کی تھپکی دی۔ تاریخ گواہ رہے گی کہ قیام پاکستان کے موقع پر وہ کون سا ظلم ہے جو انگریز اور ہندو نے ہمارے ساتھ نہیں کیا۔ جنگ عظیم میں جن جن مسلم علاقوں پر اتحادیوں نے قبضہ کیا تھا وہاں قبضہ بحال رکھنا انکے بس کی بات نہ تھی۔ اس لیئے بادل نخواسہ انہیں جانا پڑا تو انہوں نے وہاں اپنے فرمانبردار لوگوں کو اقتدار سونپا۔

بعض علاقوں نے آزادی کے لیئے بڑی جدو جہد کی۔ جیسے لیبیا کہ انہیں اٹلی سے آزادی تحفے میں نہیں ملی ۔ یہا ں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ کیا مسلمان بزدل قوم ہے یا لڑنا نہیں جانتی کہ صلیبیوں نے خلافت اسلامیہ کے علاقوں پر قبضہ کرلیا۔ اسکی کئی وجوہات تھیں آدھی سے زیادہ دنیا پر مسلمانوں کی حکمرانی نے انہیں اس بات سے بے فکر کردیا تھا کہ کوئی انکے خلاف ہتھیار اٹھا بھی سکتا ہے۔ سلطان ترکی اگر زور سے کھانستا تو یورپ کے عیسائی حکمرانوں کے ہوش اڑجاتے تھے۔جب کبھی مسلمانوں سے پنگا لیا تو ذلیل و خوار ہوئے اور جزیہ دیا۔ صلاح الدین ایوبی نے انہیں وہ مار دی جسے یورپی صلیبی تاقیامت یاد رکھیں گے۔ دراصل اس وقت مسلمان اپنے رب کی رضا کے جہاد کو فرض سمجھتے تھے اور ہمہ وقت جہاد کے لیئے تیار رہتے تھے۔ صلیبیوں کی جرات میں اضافہ اس وقت ہوا جب فرانسیسی اندلس کے مسلمانوں پر ظلم کر رہے تھے اور اندلس سے مسلمانوں کا انخلا جاری تھا، سلطان ترکی خاموش تھا۔اسکی اس غفلت نے وہ دن دکھائے کہ پھر صلیبی اسلامی ریاست خلافت ترکیہ کے بیشتر علاقوں پر قابض ہوگئے۔ اسلام جدت اور ترقی کا دین ہے۔ ہر دور کے تقاضوں کے مطابق قومی سطح پر ترقی کا فقدان تھا۔ قرآن کریم میں مسلمانوں کو جدید اسلحہ فراہم کرنے کی تاکید فرمائی ہے لیکن مسلم حکمران اس غافل رہے ۔ جب کہ اہل یورُ نے مسلمانوں سے ہی ترقی کی تعلیم حاصل کی اور جدید اسلحہ تیار کرلیا جو گھوڑوں ، اونٹوں، تلوار، تیر،نیزہ بھالا سے کہیں زیادہ مؤثر تھا۔ گولہ بارود، بندوق، ٹینک جو دور سے نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ لیکن مسلمانوں کے پاس کہیں بھی اس طرح کا اسلحہ نہ تھا۔ اسی ناعقبت اندیشی نے مروا ڈالا۔ آزادی کے بعد مسلمانوں نے جدید اسلحہ کی طرف توجہ دی۔ دفاعی اور اقتصادی لحاظ سے اپنے آپکو مضبوط کیا۔ اس میں شبہ نہیں کہ مسلم ممالک کو اللہ تعالیٰ نے طرح طرح کی دولت عطا فرمائی ہے۔ کہیں سونے کے ذخائر ہیں تو کہیں تیل و گیس کی دولت ہے۔ کہیں عمدہ زمینیں اور دریا ہیں، بندرگاہیں ہیں۔ معدنی دولت سے مالا مال ہیں۔ دفاعی لحاظ سے صبر کرنے والی عساکر اسلامیہ، سائنسدان کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خاں جیسی ہستیاں اللہ نے مسلمانوں میں پیدا کیں۔

صلیبی طاقتوں کو مسلمانوں کی نشاة ثانیہ دیکھ کر پیٹ میں مروڑ پڑنے لگے۔ صلیبیوں نے اپنی روائتی مکاری اور اسلام دشمنی کو قائم اور مؤثر رکھنے کے لیئے اقوام متحدہ نام کا ادارہ بنایا۔جس پر امریکہ اور اسکے اتحادیوں کی اجارہ داری ہے۔ اسکے متعدد شعبے بنا کر مسلم ممالک میں انکو جاسوسی کے کام سونپ رکھے ہیں۔ اسکے ساتھ ساتھ وہ مسلم ممالک میں غدار پیدا کرنے اور ملک و قوم دشمن عناصر کی سرپرستی کے فرائض سرانجام دیتے ہیں۔ تعلیم، صحت اور دیگر فلاحی تنظیموں کے لبادے میں انہیں کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے۔ مسلمانوں نے دنیا کو علم کے خزانے دیئے ، انکے پاس علمی دولت کے لازوال خزانے موجود ہیں لیکن صلیبیوں کے فرمانبردار کارندے صلیبی ممالک کے نظام تعلیم سے قوم کو غلام رکھنا چاہتے ہیں۔ صحت یا کچھ اور ؟ بھلا سوچیں تو کیا ہمارے قاتل اور دشمن یہ چاہیں گے کہ ہم خوب صحتمند ہوں تاکہ دشمنوں کا مقابلہ کرسکیں۔ کیسے بھونڈے خیالات ہیں۔ جب تک مسلم ممالک میں یہ خبیث دندناتے پھرتے رہیں گے مسلم ممالک میں سازشیں، بد امنی،دہشتگردی، جہالت اور محتاجی ہرگز دور نہ ہوگی۔ پاکستان میں امریکی جاسوسوں کی سرپرستی ہماری ہر حکومت نے کی اور موجودہ حکومت بھی کررہی ہے۔ جیسے کہ حال ہی میں ریمنڈ نامی خبیث نے ہمارے تین شہری قتل کیئے، اس سے ایسے نقشے اور مواد ملا جس سے ثابت ہوگیا کہ وہ پاکستان کے خلاف کس قدر نقصان دہ کام کررہا تھا۔ امریکہ کی جان اٹک گئی۔ آخرکار ہمارے بااختیار لوگوں نے امریکہ کے فرمانبردار ہونے کا ثبوت دیا اور پاکستان کا بڑا بنیادی دشمن چھوڑ دیا۔ ابھی خدا جانے کتنے ریمنڈ اس ملک میں ہیں۔ مگر وہ سب ہمارے حکمرانوں کے لیئے مقدس ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کا مزاج ملک اور عوام کو مضبوط کرنے کے لیئے نہیں۔بلکہ انکا مزاج یہ ہے کہ جس قدر ہوسکے اس ملک کی دولت ہڑپ کرلیں۔ایسا کرنے میں اس مافیا نے نہائت دلیری اور فراخ دلی سے کام لیکر عوام کو فاقوں خود کشی پر مجبور کیا۔ حد یہ کہ ہمارے کمانڈو حکمران نے برملا اپنی کتاب میں لکھا کہ پاکستانی اور غیر پاکستانی مجاہدین کو پکڑ کر ڈالر لیکر امریکہ کے حوالے کیا۔ ایسے ہی ایک نوجوان ایمل کانسی ، افغانستان کے سفیر جناب ملا ضعیف اور ڈاکٹر عافیہ کو بھی امریکہ کو پیش کیا۔ پاکستان میں ایسے بے غیرتوں کی کمی نہیں۔

اب یہ بات ہر قسم کے شک و شبہ سے بالا تر ہے کہ امریکہ بڑا بدمعاش ہے اور باقی اسکے پالتو کتے ہیں۔ یہ لوگ اخلاق، مذہب ، انسانیت باختہ ہیں۔ اس سے قبل امریکہ کے اشارے پر مسلم ملک انڈونیشیا کا ایک حصہ بزور طاقت عیسائیوں کو ایک جدا ریاست کی صورت میں دلایا گیا۔اب سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پہلے مصر، تیونس، یمن اور سعودی عرب میں ہنگامے کرائے گئے۔ پھر لیبیا میں ایک پرامن حکومت کے خلاف بغاوت کرائی گئی۔ لیبیا کے عوام جانتے ہیں کہ کس طرح انہوں نے اٹلی کے مظالم برداشت کیئے اور پھر آزادی حاصل کی۔ محترم کرنل قذافی کو وہ اپنا بھائی سمجھتے ہیں۔ عوام کی خوشحالی کا یہ عالم ہے کوئی فقیر نہیں سب کے پاس اپنے مکان ، کاروبار، پاکستان کی طرح اشیاء خورد نی کی ہوشربا گرانی نہیں۔ عوام کو انصاف ملتا ہے۔ مذہبی جوش اور عشق رسول میں رچے بسے مسلمان مولود النبی ﷺ جس تزک و احتشام کے ساتھ مناتے ہیں ایسا کسی اور ملک میں دیکھنے میں نہیں آتا۔ جش مولود سرکاری طور پر منایا جاتا ہے اور محترم بھائی کرنل قذافی بڑی عقیدت کے ساتھ مرکزی جامع مسجد میں شریک محفل ہوتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ تمام اسلامی ممالک سے علما کرام کو اس محفل پاک میں شرکت کے لیئے اپنے خرچ پر بطور مہمان بلاتے ہیں جن کی تعداد ہزاروں میں ہوتی ہے۔

لیبیا تمام ممالک میں تیل کی دولت میں سر فہرست ہے۔ اسی تیل کی دولت سے امریکہ اور یورپی عیسائی ممالک کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہیں۔ ہمارے ناعاقبت اندیش مسلم حکمران اور ریاستوں کے شیوخ اسلام دشمن طاقتوں کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنے ہوئے ہیں۔

امریکہ اور اسکے اتحادی ممالک میں آئے دن مسلمانوں کے ایمانی جذبات کو چیلنج کیا جاتا ہے۔ ان خباثتوں کا مقصد صرف مسلمانوں کو روحانی اذیت دینا اور جانچنا کہ مسلم حکمرانوں میں کیا غیرت ایمانی ختم ہوچکی یا ابھی کچھ رمق باقی ہے۔ حال ہی میں امریکہ کی ریاست فلوریڈا میں عیسائی پادری نے کتاب اللہ کی انتہائی بے ادبی اور گستاخی کی ہے۔

اس خبیث کی اس حرکت سے مسلمان انتہائی کرب اور اذیت میں مبتلا ہوگئے۔ اس موقع پر چاہیے تو یہ تھا کہ تمام اسلامی ممالک کے سربراہان مؤثر احتجاج یوں کرتے کہ اولا امریکی سفرا کو اپنے اپنے ممالک سے بدر کرتے، ثانیا جہاد میں شمولیت کا اعلان کرتے جو امریکہ اور اسکے خبیث اتحادیوں کے اسلامی جمہوریہ لیبیا پر حملے سے شروع ہوچکا ہے۔ میں بار بار اس بات کا اعادہ کر رہا ہوں کہ صلیبی جنگ کا آغاز ہوچکا ہے۔ اسکے ساتھ ہی خبیث پادری کا یہ مذموم اقدام مسلمانوں کی غیرت ایمانی کے لیئے بہت بڑا چیلنج ہے۔ میرے ناقص خیال میں فوری طور پر مسلم امہ کے فکر اتحاد کی ضرورت ہے۔جسکے لیئے یہ اقدامات کیئے جائیں:
۱۔ امریکہ اور اسکے اتحادیوں کے سفیروں کو نکال دیا جائے۔
۲۔لیبیا کے تحفظ اور دیگر اسلامی ممالک کی بقا کے لیئے مشترکہ اسلامی فوج میں تمام ممالک اپنے یونٹ شامل کرے۔
۳۔ اسرائیل میں امریکہ اور اسکے اتحادیوں کی جان ہے۔ لہٰذا سب سے پہلے اسرائیل کو نشانہ بنا کر قبلہ اول واپس لیا جائے اور فلسطین کو یہودیوں سے آزاد کرایا جائے۔
۴۔ اقوام متحدہ کا کردار نہائت منافقانہ ہے۔ مسلم مفادات کے خلاف اسکی کارکردگی عیاں ہے۔ کشمیر میں نہتے مسلمانوں پر ہندو مظالم اقوام متحدہ کو نظر نہیں آتے، فلسطین کے مسلمانوں پر یہودی مظالم، افغانستان پر امریکی بمباریاں اور پاکستان کے شمالی علاقوں پر امریکی ڈرون حملوں پر اقوام متحدہ کی خاموشی قابل مذمت ہے۔ لیبیا پر حملوں کی قرارداد پر روس اور چین نے منافقانہ رویہ اپناتے ہوئے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ ۔ مسلم ممالک فوری طور پر اقوام متحدہ کے اس مسلم کش ادارے کی رکنیت ختم کریں۔
۵۔ OIC کے پلیٹ فارم کو مضبوط کیا جائے اور تمام اسلامی ممالک اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر پانچ سال کے لیئے اپنا سربراہ یعنی خلیفة المسلمین منتخب کریں۔
۶۔ ممالک اسلامیہ کے سرمایہ دار فوری طور پر اپنا سرمایہ یورپی اور امریکی بنکوں سے نکال کر اپنے اسلامی بنکوں میں رکھیں۔ کیونکہ امریکہ اور اسکے اتحادی مسلمانوں کے سرمایہ اور دولت پر عیش کر رہے ہیں۔ جب کسی کو ناپسند کرتے ہیں تو انکے اور انکے لواحقین کے اکاؤنٹس منجمد کر دیتے ہیں۔ہمارا جوتا ہمارے ہی سر پر مارتے ہیں۔ ہمارا کھا کر ہمیں پر غراتے ہیں۔ جو مسلمان ایسا نہ کرے وہ انہیں میں سے ہے یعنی یہودی یا نصرانی ہے۔
۷۔ یورپی اور امریکی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے۔ کیونکہ امریکہ اور اسکے اتحادی زیادہ تر صنعتی ممالک ہیں اور وہ دنیا کی ہر ضروری چیز کے بارے مسلمانوں کے محتاج ہیں۔امریکہ اور اسکے حواریوں کے غبارے سے ہوا نکال دیں۔
۸۔ اسلامی ممالک باہمی احترام کریں۔

لیبیا کے تحفظ کے لیئے فوری طور پر اپنا اسلحہ اور فوجیں ، رضاکار لیبیا روانہ کرنے میں تاخیر نہ کی جائے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو مسلم دنیا ایک دفعہ پھر پہلی جنگ عظیم جیس مصیبت اور مظالم کا شکار ہونے والی ہے۔
AKBAR HUSAIN HASHMI
About the Author: AKBAR HUSAIN HASHMI Read More Articles by AKBAR HUSAIN HASHMI: 146 Articles with 140636 views BELONG TO HASHMI FAMILY.. View More