فطری اور جذباتی طور پہ ہم مکلمل غیر متوازن قوم یا
معاشرہ ہیں۔۔۔کبھی معمولی سی بات پہ جذبات کی لہر میں بہہ کر مبالغہ آرائی
کے کہسار روندتے ہوئے کسی شخصیت کو غیر ضروری طور پہ تصورات کا ہیرو بنا
دیتے ہیں، اور کبھی بہت ہی غیر ضروری اور معمولی بات پہ کسی شخصیت کے تمام
مثبت پہلوؤں کو نظر انداز کرتے ہوئے اسے ہیرو بنانے کی دوگنی رفتار سے زیرو
بنا دیتے،یہ ہمارا نفسیاتی یا جذباتی تضاد ہے۔۔۔ یہ شخصی تضاد انفرادی سطح
سے لیکر قومی سطح تک موجود ہے، ،ایسی ہی ایک شخصیت، ہمارے وزیراعظم اور
پاکستان مسلم لیگ آزاد کشمیر کے صدر محترم راجہ فاروق حیدر صاحب کی ہے۔۔۔
محترم راجہ فاروق حیدر صاحب سے پہلی بار میرا باضابطہ اور بالمشافہ تعارف
1995 میں ہوا،جب مجاہد اول سردار عبدالقیوم خان وزیراعظم کی حثیت سے میرے
والد مرحوم راجہ عبدالجبار ایڈووکیٹ کی دعوت پر ہمارے گھر تشریف لائے،ان
کیساتھ کابینہ کے دیگر اراکین کے ہمراہ راجہ فاروق حیدر صاحب بھی آئے،راجہ
فاروق حیدر صاحب کسی وجہ سے وزیراعظم کے قافلے سے تھوڑا پہلے ہمارے گھر
پہنچ گئے، غصے اور جلدی میں دروازے سے داخل ہوتے ہوئے مجھے کہا " اوئے نکیا
ایسٹرے لے آ ۔" راجہ صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں سگریٹ سلگایا اور ساتھ
ہی خود بھی آگ پکڑتے گئے اور کابینہ کے ایک ساتھی کے بارے میں اپنے " مواد
حسنہ" سے مسفید فرمایا،راجہ صاحب جو لفظ اگل رہے تھے ان کا سلیس ترجمہ
سمجھنے میں مجھے کافی وقت لگا( اس وقت میں چوتھی جماعت کا طالب علم تھا
)۔۔۔اس کے بعد آج تک راجہ فاروق حیدر صاحب طبعیت کا ایک پہلو جو میری سمجھ
میں آیا کہ راجہ صاحب " گالی اور آنسو کی سیریز متوازی چلاتے ہیں، یہ پہلو
راجہ صاحب کی بہت ساری خوبیوں کو بھی کھا جاتا ہے ۔۔۔
کئی بار ایسا ہوا کہ کسی ایشو پہ راجہ فاروق حیدر صاحب نے کوئی درست بات
کی،تو ہم لوگوں نے سیاسی پسند اور نا پسند سے قطع نظر کھلے دل سے راجہ صاحب
کی بات کو سوشل میڈیا پہ سراہا ۔۔لیکن اگلے چوبیس گھنٹوں میں راجہ صاحب
ہمارا سارا بھرم توڑ دیتے ہیں،،،بہت پرانی بات نہیں کرتا کیونکہ میری ہم
عصر فیس بک مارکہ نسل کو سال 2000 سے پہلے کی تاریخ کا کم ہی پتہ ہے،،،
2006 میں جب مسلم کانفرنس کی حکومت بنی تو سردار عتیق احمد صاحب وزیر اعظم
بنے،راجہ فاروق حیدر صاحب مسلم کانفرنس کے سینئر نائب صدر تھے،اکثر
پیپلزپارٹی سے سردار عتیق احمد کی مفاہمتی پالیسی کو اپنی توپوں کے نشانے
پہ لیتے اور زرداری صاحب کیخلاف مخصوص زبان کا استعمال کرتے ،تھوڑا عرصہ
گزرا،جنوری 2009 میں اسی آصف علی زرداری صاحب کی جماعت سے ملکر مسلم
کانفرنس کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد بھی کر رہے تھے اور ساتھ آنسو بھی بہا
رہے ہیں، ،اس وقت مجھے اندازہ ہوا کہ راجہ صاحب کے آنسو سادے نہیں بلکہ
ہوشیار ہیں۔۔۔اب تو راجہ صاحب کے آنسو اتنے مشہور ہو گئے ہیں کہ اگر کسی
تقریب میں راجہ صاحب پریشان لہجے میں بات کریں اور آنسو نہ نکلے تو
خدانخواستہ کوئی بد خواہ یہ نہ کہہ اٹھے کہ " بھیا آج گلیسرین نہیں
ڈالی۔۔؟،،،
اس سال پانچ اگست کے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال زیادہ خراب ہوئی،تمام جماعتوں
نے سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مشاورت کے بعد راجہ فاروق حیدر
صاحب کو ہی ریاست کی نمائندگی کرنے کا کہتے ہوئے ان کے پیچھے چلنے کے عزم
کا اظہار کیا، 13 اگست کو وزیراعظم پاکستان عمران خان کشمیریوں سے یکجہتی
کے لیئے مظفرآباد آئے تو راجہ فاروق حیدر صاحب نے ہماری نمائندگی کرتے ہوئے
آنسو بہائے، راجہ صاحب کی تقریر پہ مجھ سمیت کئی دوستوں نے جو مسلم کانفرنس
یا کسی اور جماعت سے تعلق رکھتے تھے، راجہ صاحب کو ہیرو قرار دیا،یہ صورت
حال بھی اس بات کی متقاضی تھی کہ مقامی اور جماعتی سیاست سے قطع نظر کشمیر
اور پاکستان، ہندوستان کی کشیدگی کے تناظر میں انتائی سنجیدگی کا مظاہرہ
کیا جائے، ،،
ابھی چوبیس گھنٹے نہیں گزرے تھے، کشمیری اور پاکستانی قوم آسیہ اندرابی اور
اٹھارہ ماہ کی حبہ نثار جو بھارتی فوج کی پیلٹ گنز کی بوچھاڑ میں بینائی سے
محروم ہو گئی تھی، ان کی تصویریں اٹھائے پوری دنیا کے سفارت خانوں کے سامنے
ہندوستان کے ظلم و ستم کیخلاف آواز بلند کر رہے تھے، لیکن ہمارے " ہیرو "
راجہ فاروق حیدر صاحب کشمیریوں کو بھول کر،آسیہ اندرابی اور حبہ نثار سمیت
تمام مقبوضہ کشمیر کی ماؤں،بہنوں بیٹیوں کی آواز بلند کرنے کے بجائے،قومی
تقاضے کو پس پشت ڈال کر رایئونڈ کی جنگ کشمیر کے نام پہ مظفرآباد میں لڑنے
کے لئے مریم نواز کی تصویر اٹھائے کشمیریوں کا منہ چڑا رہے تھے، ،،مریم
نواز ایک ماں، بہن اور بیٹی کی حیثیت میں ہم سب کے لئے قابل احترام ہیں،
لیکن ایسے وقت میں جب پوری کشمیری اور پاکستانی قوم،برطانوی پارلیمنٹ،
یورپین یونین، انسانی حقوق کی تنظیمیں کشمیر میں ہونے والے مظالم پہ
ہندوستان کو ایکسپوز کر رہے تھے، اس وقت مظفرآباد کو اپنی جماعتی اور گروہی
سیاست کا اکھاڑا بناتے ہوئے راجہ فاروق حیدر صاحب کا مقبوضہ کشمیر کی ماں
بہن اور بیٹی کے لئے آنسو کیوں نہیں نکلا۔۔،؟ جو آپ کو پکار پکار کر کہہ
رہی ہیں
نگر نگر میں وہ بکھرے ہیں ظلم کے منظر،
ہماری روح کے چھالے بھی سوگ کرتے ہیں ۔۔۔
راجہ صاحب کوئی آپ کا حامی ہو یا مخالف، ،آپ ریاست کے نمائندے اور لیڈر
ہیں،،جب کشمیریوں کے سینے پہ مونگ دلتے ہوئے محترم میاں نواز شریف صاحب
اپنے ذاتی سٹاف کو بھی چھوڑ کر را کے financer سجن جندال اور اجیت ڈول کی
گاڑی خود ڈرائیو کر کے مری لے گئے، ،،اپنی جماعت کے سینئر لوگوں کو بھی
اعتماد میں نہیں لیا اس وقت تو ماتم بنتا تھا، لیکن آپ کے آنسو اس وقت کیوں
نہیں نکلے ۔۔؟
راجہ صاحب، ،نصرت درانی بھی ایک ماں،بہن اور بیٹی ہے،،،اس کی عزت اچھالتے
وقت میری ریاست کے لیڈر کی غیرت کیوں سو گئی تھی ۔۔؟
راجہ صاحب ۔۔دو دن پہلے کی بات ہے کھوئی رٹہ میں شہداء کی مایئں بہنیں اور
بیٹیاں بے بسی کے عالم میں ہمدردی کے دو بول سننے کے لئے آہ و بکا کرتی آپ
کے پاس آئیں تو اس وقت جناب کے آنسو کیوں نہیں نکلے ۔۔؟ الٹا آپ نے درد سے
چور ماں کو ایسی گالی دی کہ آپ کی اپنی والدہ مرحومہ اور والد مرحوم کی
روحیں بھی کانپ اٹھی ہوں گی ۔( اللہ راجہ محمد حیدر خان اور بیگم راجہ محمد
حیدر خان پہ ایک ایک سیکنڈ میں کھربوں رحمتیں نازل کرے آمین ۔)
راجہ صاحب میں آپ کی بہت سی خوبیوں کا معترف ہوں،مظفر آباد میں آپ آسیہ
اندرابی اور حبہ نثار کے بجائے مریم نواز صاحبہ کی تو اٹھا لیتے ہیں، لیکن
جب مقبوضہ کشمیر اور گجرات کے مسلمانوں کا قاتل مودی کیساتھ رائیونڈ میں
میاں نواز شریف صاحب ساڑھیوں کے تبادلے کریں تو اس وقت بھی دو آنسو بہا
لیتے ۔۔۔
راجہ صاحب ،میں ایسا بھی نہیں کہتا کہ جناب کے اندر کوئی خوبی نہیں ہے،
،اللہ نے دو بار آپ کو وزارت عظمیٰ کا منصب عطا کیا ہے تو اللہ نے آپ میں
بہت ساری خوبیوں بھی رکھی ہوں گے،آپ کے منصب کے حساب سے آپ کی ذمہ داری بھی
جماعتی سے زیادہ قومی اور ملی نوعیت کی ہے،۔۔مجھے پتہ ہے آپ کا گالی بریگیڈ
مجھ پہ تبریٰ کرے گا، ،لیکن ایک ادنیٰ سیاسی کارکن کی حثیت سے میرا فرض ہے
کہ قومی اور حساس نوعیت کے سوال آپ کے سامنے رکھوں۔۔
راجہ صاحب لگتا ہے آپ کے آنسو بہت سیانے ہیں، یہ فطری سے زیادہ، بائی چوائس
لگتے ہیں، بہت دیکھ بھال کہ اور ناپ تول کہ نکلتے ہیں ۔۔۔
آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں،
میں اگر عرض کروں گا تو شکایت ہوگی ۔۔
|