آج ہم اگرسکون نیند سو رہے ہیں تو اس کے پیچھے میرے ملک
کے انمول فرزندوں کی قربانی اور ملک سے محبت ہے ورنہ کرپٹ لوگ کی پیروی
کرتے ہوئے ملک کودھوکہ دینے کے سوا کچھ نہ کرتے۔ جہاں بھی ملک پاکستان کو
بہت بڑے خطرے اور نقصان کا اندیشہ ہوا تو میرے شہزادے خاکی وردی میں
لپٹےکام آئے ۔ ان کی واپسی قومی سبز پرچم میں لپٹے ہوتی یا پھر غازی بن کر
لوٹتے ۔لیکن اس کے باوجود کچھ مفاد پرست لوگ ان کو بُرا بھلا کہنے سے دریغ
نہیں کرتے۔
"سایہ"یہ تحریر ضرور پڑھیں
بھارتی وزیرِدفاع کے دفتر کے گیٹ پر ایک سہما سہما سا شخص پہنچا اور سنتری
کو سلام کرکے بولا "صاحب میں جمعداراشرف الدین ہوں میرا یہاں تبادلہ ہوا ہے"
سنتری نے حقارت سے اشرف الدین کی طرف دیکھا اور چیک پوسٹ کے ساتھ بنے دفتر
کی طرف اشارہ کرکے گالی بکتے ہوئے بولا"اُدھر دفع ہوجا اور اپنے کاغذات چیک
کروا"
اشرف الدین سہما سہما دفتر کے دروازے پر پہنچا جہاں ایک کرخت شکل والا ہندو
فوجی بیٹھا ہوا تھا
اشرف الدین نے سلام کرتے ہوئے کہا "صاحب میں جمعداراشرف الدین ہوں 244
گورکھا یونٹ سے میرا یہاں پوسٹنگ ہوا ہے"
ہندو فوجی جو حوالدار تھا نے گھور کر اشرف الدین کو دیکھا اور گالی دے کر
بولا "اوئےمُوسلے اپنا موومنٹ لیٹر چیک کروا اور اپنا سینک پتر(فوجی کارڈ)
دکھا مُجھے"
اشرف الدین نے کاغذات اُس کے سامنے میز پررکھے تو اُس حوالدار نے بہت نخوت
اور تکبر کے ساتھ کاغذات پر نظر ڈالی اور واپس کرتے ہوئے بولا "اندر دفع
ہوجا اور آگے سے بائیں ہاتھ پر چُوڑوں کے کمرے ہیں وہاں رہنا ہے تُو نے
باقی کاکام تُجھے صُبح بتایا جائے گا"
اشرف الدین سلام کرکے باہر آیا اپنا سامان اُٹھایا اور حوالدار کے بتائے
ہوئے راستے پر چل پڑا۔
صُبح اشرف الدین کو بھارتی فوج کے میجر سکسیناکے سامنے پیش کیا گیا جس نے
اشرف الدین کو گالی دیتے ہوئے کہا "آج سے تیری ذمہ داری ہے کہ تُو منتری جی
کا دفتر صاف کرے گا، لیکن یاد رکھ تُو منتری جی کے کسی کھانے پینے والے
برتن کو ہاتھ نہیں لگائے گا"
اشرف الدین نے سہمے سہمے انداز میں کہا "جی صاحب"
میجر سکسینا نے تکبر بھرے انداز میں کہا "تُم مُوسلے ایجنٹ بھی ہوتے ہو
لیکن یادرکھ میرا نام میجر سکسینا ہے اور پاکستان کا کوئی ایجنٹ میجر
سکسینا کی نظروں سے بچ نہیں سکتا اس لئے کہیں بھی آگیا (حُکم) سے چُوکا تو
تُجھے جاسوس ثابت کرکے تیری کھال اُتار دوں گا. چل اب دفع ہوجا"
دو مہینے گُزر گئے تھے اشرف الدین روزانہ ہندو فوجیوں کی گالیاں کھاتا اور
اپنا کام کرتا رہتا۔
ایک دن منتری کے دفتر کی صفائی کرنے پہنچا تو سنتری نے گندی گالی بکتے ہوئے
کہا "اوئے مُوسلے میجر صاحب نے بتایا ہے کہ آج ٹھیک سے صفائی کرنا کیونکہ
آج باہر سے مہمان آرہے ہیں۔جلدی سےصفائی کراور دفع ہوجا یہاں سے"
اشرف الدین سر جھکائے صفائی میں مصروف ہوگیا۔ صفائی ختم کرکے وہ واپس اپنے
کمرے میں پہنچ گیا۔
کمرے میں بیٹھے بیٹھے اشرف الدین نے کھڑکی سے دیکھا کہ منتری جی کے دفتر کے
سامنے بہت ساری گاڑیاں آکررُکیں کُچھ گاڑیوں کے آگے اسرائیل کے جھنڈے لگے
ہوئے تھے۔
اشرف الدین اُٹھا اور گیٹ پر آکربتایا کہ وہ میجر سکسینا کے بنگلو کی صفائی
کےلئے جارہا ہے۔ سنتری نے گالیاں بکتے ہوئے اشرف الدین کو تقریباً گیٹ سے
باہر دھکا دیا۔
آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹرز میں میجر رضا کے سامنے بہت ساری مشینیں لگی ہوئی
تھیں جن پر مختلف قسم کی لائیٹیں جل رہی تھیں۔کُچھ کمپیوٹر آن تھے جن پر
خودکارطریقے سے پیغامات آرہے تھے۔
اچانک سسٹم میں ایک ہلکی سی بیپ کی آواز سُنائی دی اور دہلی کے نشان پر سبز
رنگ کی بتی جل اُٹھی۔
میجر رضا نے برق رفتاری سے ہیڈ فون اپنے کانوں کے ساتھ لگائے اور سسٹم کو
کمپیوٹر کے ساتھ منسلک کردیا۔ساتھ ہی میجر رضا کاغذ پر کُچھ نوٹ بھی کرتا
جارہا تھا۔۔
اگلی رات بھارتی افواج نے کشمیر سیکٹر پر اچانک اور بہت بڑاحملہ کیا لیکن
بھارتی فوج کوپاکستان کی طرف سے اُس سے دوگنا جوابی حملہ سہنا پڑا جس کے
نتیجہ میں بھارتی فوج کا بےتحاشہ نقصان ہوا اور بھارتی فوج اپنا سامان اور
لاشیں چھوڑکر واپس بھاگ گئی۔
بھارتی وزیرِ دفاع کے دفتر میں ایک اعلیٰ پیمانے کی میٹنگ جاری تھی جس میں
بھارتی فوج کے سربراہ کے علاوہ کچھ غیرمُلکی بھی شامل تھے۔
بھارتی وزیرِ دفاع بھارتی فوج کے چیف کو گالیاں دے رہا تھا چیخ چلا رہا تھا
اور کہہ رہا تھا "کہاں ہے تُمھاری را،، ہمارا ہر پلان آئی ایس آئی ہمارے
اندر گھس کر لے جاتی ہے اور تُم ۔۔۔۔ سوئے ہوئے ہو۔۔۔ جانتے ہو اشرف الدین
کون تھا؟ مُجھے بھی پتہ نہ چلتا لیکن اُس نے میری ڈائری میں چِٹھی چھوڑی ہے
یہ دیکھو یہ ہے وہ چٹھی جس میں اُس نے لکھا ہے "میں سایہ ہوں اور سائے کو
تُم کبھی نہیں پکڑپاؤگے فقط تُمھارا خوفناک خواب میجر عباس
(مارخور)"...بھارتی وزیرِ دفاع نے بھارتی چیف کو کہا "وہ جمعدار اشرف الدین
اصل میں آئی ایس آئی ایجنٹ میجر عباس تھا جو میرے دفتر تک پہنچ گیا اور
ہمارا منصوبہ چُراکر غائب بھی ہوگیا".
بھارتی فوج کا سربراہ سرجھکائے سب سُن رہا تھا۔۔
فیروزپُور کینٹ کے گیٹ پر رکشہ رُکا اور ایک جوان باہر آکر سنتری سے بولا
"سلام صاحب، میں جمعدار نظام ہوں مُجھے جنرل جوشی صاحب کے بنگلو پر ٹرانسفر
کیا گیا ہے"....۔۔
میرے ملک کے غیر مخلص رویہ رکھنے والو،اربوں کا کاروبار کرنے والو اور
لاکھوں روپے تنخواہ لینے والو ان کے خلاف اپنی بکواس کرنے سے پہلے سوچا
کرو۔ جو تم لوگ اس ملک میں انجوائے کر رہے انہی کی بدولت ہے۔ ورنہ دنیا میں
نطر دوڑا کر دیکھو تمہارے جیسے غداروں سے کیا سلوک کیا جاتا ہے۔ اللہ کریم
ہمیں ملک سے محبت اوراچھی سوچ عطافرماے آمین۔
|