شکارپور کا باولا کتا، اپنے کاٹنے کی عادت سے تنگ ،شہر
چھوڑگیا ۔۔
وقت کی آوارہ گردی اسے چونیاں لے آ ئی
شہر میں ایک دن اسکو ایک درندہ ملا
درندہ اپنی درندگی کے قصے سنانے لگا
کیسے فیضان کو ہوس کا نشانہ بنایا
کیسے فیضان کو موت کے گھاٹ اتارا۔۔
سلمان کی چیخوں کی ہنس ہنس کرنقل اتارنے لگا
حسنین کی معصومیت کے ساتھ اس نے کیسے کھیلا۔۔۔
درندہ ہنس رہا تھا اور
باولے کتے کی آنکھیں تر اور جی کر رہا تھا کہ خود کو ہی کاٹ لے
’’خدایا ، شکر ہے مجھے صرف باولا بنایا ۔۔ قصور کا درندہ نہیں‘‘
|