بھارتی مقبوضہ جموں کشمیر میں مسلسل کرفیو ساتویں ہفتہ
میں داخل ہو چکا ہے۔ محکوم کشمیری ضرویات زندگی سے محروم ہیں۔ قابض افواج
کی طرف سے ظالمانہ کاروائیاں جاری ہیں۔ نہتے عوام اس جبر و تشدد کا مقابلہ
کئے ہوئے ہیں جبکہ ہماری طرف سے زبانی بیانات اور بلند و بانگ نعروں کا
سلسلہ جاری ہے۔ عالمی ضمیر خصوصا عالم اسلام کی بے حسی میں کوئی فرق نہیں
آیا۔ دنیا کے اکثر ممالک اپنے معاشی مفادات کی وجہ سے خاموش ہیں۔ سلامتی
کونسل کے اجلاس پر ہم نے خوشیوں کے جو شادیانے بجائے تھے، اس سے بھی کچھ
نہیں نکلا۔ سلامتی کونسل کے پانچ مستقل رکن اور دنیا کے دیگر بڑے ممالک سے
ہمیں توقعات ہیں کہ وہ کشمیر کا مسئلہ حل کرائیں حالانکہ ان کا اپنا مفاد
اسی میں ہے کہ یہ مسئلہ کبھی حل نہ ہو۔ مسئلہ کشمیر حل نہ ہونے میں دہلی کا
غاصبانہ رویہ، اسلام آباد کی ناقص کشمیر پالیسی اور ریاست جموں کشمیر میں
اہل قیادت کے فقدان کے بعد عالمی طاقتوں کا رویہ بڑی رکاوٹیں ہیں۔ سلامتی
کونسل کے پانچ مستقل رکن ممالک دنیا میں اسلحہ بنانے اور فروخت کرنے میں سر
فہرست ہیں۔ کیا یہ چاہیں گے کہ عالمی تنازعات حل ہوجائیں اور ان کی اسلحہ
ساز فیکٹریوں کو زنگ لگ جائے لیکن ہماری حالت بقول میر تقی میر یہ ہے کہ
میر کیا سادے ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں
سویڈن کے عالمی تھینک ٹینک SIPRI کے مطابق دنیا کو اسلحہ فروخت کرنے والے
پہلے پچیس ممالک میں حقوق انسانی کا علمبردار سویڈن، امن کا عالمی نوبل
انعام دینے والا ناروے، غیر جاندار سوئٹزرلینڈ اور پر امن ملک فن لینڈ شامل
ہیں۔ پاکستان سویڈش اسلحہ کا تیسرا بڑا خریدار ہے جبکہ بھارت بھی صف اول
میں شامل ہے۔ کارگل جنگ میں بھارت نے سویڈن کی بنی ہوئی بوفرس توپوں سے
پانسا پلٹا۔ انہی توپوں سے آزادکشمیر کی سول آبادی نشانہ بنی۔ سویڈن نے ایک
طرف پاکستان کو RBS70 طیارہ شکن توپیں دیں جن کے استعمال سے کارگل جنگ میں
بھارت کا ایک طیارہ گرایا گیا لیکن ساتھ ہی سویڈن نے بھارت کو ان طیارہ شکن
توپوں کا توڑ فروخت کے لئے پیش کیا۔ ایک طرف یہ حقوق انسانی، امن اور
انسانیت کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف دوسروں کو جنگوں میں جھونکنے کے لئے
اسلحہ فروخت کرتے ہیں بقول علامہ اقبال
یورپ میں بہت روشنی علم و ہنر ہے
حق یہ ہے کہ بے چشمہ حیواں ہے یہ ظلمات
یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت
پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیم مساوات
پاکستان اور بھارت دونوں امریکی اسلحہ کے بڑے خریدار ہیں۔ پاکستان چینی
اسلحہ کا سب سے بڑا خریدار ہے اور اس کا 35 فی صد اسلحہ خریدتا ہے۔ برطانیہ،
روس، فرانس اور جرمنی اسلحہ بنانے اور فروخت کرنے والے اہم ممالک ہیں اور
انہی کا اثر رسوخ اقوام متحدہ میں ہے۔ دنیا کے یہ ممالک کب چاہیں گے کہ
کشمیر کا مسئلہ حل ہو یہی وجہ ہے کہ یہ ممالک کوئی فعال کردار ادا نہیں
کررہے۔ لیگ آف نیشن جس کے خمیر سے اقوام متحدہ بنی، علامہ اقبال نے اسے کفن
چوروں کا گروہ قرار دیا تھا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پاکستان کے ارباب اختیار اس حقیقت کو سمجھ کر
اپنی پالیسی مرتب کریں۔ بھارت جب آزادکشمیر پر حق جمنانے کے بیانات دیتا ہے
تو ہمارا دفتر خارجہ کو اپنے جواب میں جوناگڑھ اور حیدرآباد کو بھی شامل
کرنا چاہیے۔ جوناگڑھ اور مناور نے پاکستان سے الحاق کیا تھا جس پر بھارت نے
9 نومبر 1947 کو غاصبانہ قبضہ کرلیا جبکہ حیدر آباد نے خودمختاری کا فیصلہ
کیا جسے بھارت نے 17 ستمبر 1948 میں طاقت سے روند ڈالا۔ جموں کشمیر کی طرح
جوناگڑھ اور حیدرآباد بھی اقوام متحدہ کی فائلوں میں بند پڑے ہیں۔ وزیر
اعظم عمران خان جب 27 ستمبر کو اقوام متحدہ میں خطاب کریں تو وہ جموں کشمیر
کے ساتھ جوناگڑھ اور حیدرآباد کا بھی مسئلہ اٹھائیں ۔ ساتھ ہی یہ حقیقت بھی
پیش نظر رہنی چاہیے کہ دنیا طاقت ور کے آگے ہی جھکتی ہے اور مسائل اپنے زور
بازو سے ہی حل کئے جاتے ہیں۔ ستر سال سے جلسے، جلوسوں، مظاہروں،، تقریروں،
نعروں اور بیانات کے انبار لگے ہوئے ہیں لیکن بے اثر۔پانچ اگست کے بعد کتنے
دن گذر گئے، کیا محکوم کشمیری لوگوں کی مشکلات کے لئے عملی طور پر کچھ کیا
گیا۔ کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے لگانے سے کشمیر پاکستان نہیں بن جائے
گا۔ اگر اسے پاکستان بنانا ہے تو تو کچھ کریں کیوں یہ بھیک نہیں آزادی ہے ،
ملتی ہے بھلا مانگے سے کہیں۔ عالمی رائے عامہ امیدیں وابستہ کرنے سے کچھ
نہیں ہوگا اور اس پر غور کرتے ہوئے فیصلہ کریں کہ
مغرب کے سیاستدانوں سے امید نہ رکھ آزادی کی
طاقت سے کشمیر چھڑا یا آرزوئے کشمیر نہ کر
|