ابن بطوطہ سے لے کر ابن انشا تک
طوطے جس انداز میں فکری ارتقا کے مدارج طے کرتے آرہے ہیں وہ ہر عہد میں
طوطا چشم افراد کے لیے چشم کشا بھی ہے اور قبض کشا بھی ۔ جب بھی میرا پالا
کسی طوطا چشم سے پڑتا ہے مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میری روح قبض کی جارہی
ہے اور اہل ہنر کی خاک پر قبضہ کرنے کی ٹھان لی گئی ہے ۔ طوطے فریب صنعت
ایجاد کی انوکھی صورت ہیں ۔سبز رنگ کی وردی میں ملبوس یہ طیور نہ صرف سبز
باغ دکھانے میں ید طولی رکھتے ہیں بلکہ ساون کے اندھوں کو خواہ کتنی ہی دور
کی سوجھے یہ ہمیشہ ہر ے ہی دکھائی دیتے ہیں۔ طوطے کے مراسم گرگٹ سے ہمیشہ
کشیدہ رہے ہیں ۔ گرگٹ محض رنگ بدلتا ہے جب کہ طوطا ڈھنگ بھی بدلتا ہے۔گرگٹ
سرعت سے چولا بدلتا رہتاہے جبکہ طوطا بڑ بولا بن کر اپنے منہ میاں مٹھو بنا
رہتا ہے۔
شیخ چلی سے لے کر شیخ سعدی تک تمام اہل دانش کا اس امر پر اتفاق ہے کہ طوطا
اپنی جسمانی ساخت اور ہیئت کذائی کے باعث طلسم ہوش ربا کا مظہر ہے ۔میرے
جاننے والوں میں بد قسمتی سے ایک ایسا شخص بھی شامل ہے جو فلسفے کی ابجد سے
یکسر نا بلد ہے مگر رواقیت کا داعی بن بیٹھا ہے ۔اس کا دعویٰ ہے کہ طوطوں
کا آبائی مولد سبزوار ہے لیکن کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ طوطوں کی آنول نال
سبزہ زار میں گڑی ہے ۔طوطوں کی نسل کے ارتقا پر ابلق ایام کے سموں کی گرد
اس طرح پڑی ہے کہ تمام منظر نامہ ہی دھندلا گیا ہے ہاتھ کو ہاتھ اور طوطے
کو طوطا سجھائی نہیں دیتا۔اس کے باوجود فریب خیال نے تخیل کی شادابی سے
ایسے سیکڑوں مناظر تلاش کر لیے ہیں جن میں طوطے من موتے ہر ڈال پر نگاہ ڈال
کر اپنے وجود کا اثبات کرنے پر تل گئے ہیں اور اسی کشمکش میں وہ کوڑیوں کے
بھاؤ تل رہے ہیں۔میرے فلسفی واقف حال کا دعویٰ ہے کہ ڈائنو سار کے معدوم
ہونے کی بڑی وجہ طوطے ہیں ۔وہ یہ دور کی کوڑی لائے ہیں کہ زمانہ قبل از
تاریخ میں طوطے ڈائنو سار کے مانند قوی الجثہ ہو تے تھے ۔یہ ایک ایسے جنگل
میں رہتے تھے جس میں ظاہر ہے کہ جنگل کا قانون پوری قوت اور درندگی کے جبر
کے ساتھ نافذ تھا۔اس عہد ستم میں ڈائنو سار تو یکسر معدوم ہو گئے مگر طوطے
اس قدر مغموم ہوئے کہ گھل گھل کر ان کا سائز مو سا ہو گیا ۔طوطا اپنی
موجودہ شکل میں اپنے قدیم حلیے اور جسامت کا عشر عشیر بھی نہیں۔
ماہرین حیوانات نے سالہا سال کی تحقیق کے بعد افادیت سے معرا اور تصنع سے
لبریز جو نتائج اخذ کیے ہیں وہ خفاش منش انسانوں کے اسلوب شپرانہ کی مکمل
صور ت سامنے لاتے ہیں۔بعض سفہا نے طوطے کی ہجو گوئی کو وتیرہ بنا رکھا ہے ۔طوطے
کے بارے ان کے غیظ و غضب کا یہ عالم ہے کو طوطے کا نام سنتے ہی ان کی بھویں
تن جاتی ہیں اور منہ سے جھاگ کے ساتھ ساتھ عف عف کی آوازیں از خود نکلنا
شروع ہو جاتی ہیں ۔محکمہ انسداد بے رحمی حیوانات اس تمام صور ت حال کو
دیکھتے ہوئے بھی ٹس سے مس نہیں ہوتا۔بعض کرگس زادے اس بات پر شدید اضطراب
میں مبتلا ہیں کہ کہیں طوطے کی نسل ہی عنقا نہ ہو جائے ۔اس سے پہلے ہما اور
ققنس جیسے جاہ و جلال والے طیور آوارہ اس جانکاہ صدمے سے گزر کر تاریخ
حیوانات کے طوماروں میں دب چکے ہیں ۔اس خدشے کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایک طوطے
والے نجومی پروفیسر نے عالمی طوطا کانفرنس بلانے کی تجویز زیر و زبر کر کے
پیش کی ہے ۔اس کا خیال ہے کہ طوطوں کے ساتھ نا روا امتیازی سلوک روا رکھا
جا رہا ہے اور اس طرح انتہائی حیوانی حقوق کی گوشمالی کا سلسلہ جاری ہے ۔جب
تک طوطوں کو تمام شکوک و شبہات سے فارغ خطی نہیں مل جاتی طوطے بین کرتے
رہیں گے ۔نہ خود چین سے بیٹھیں گے اور نہ ہی اپنی ٹیں ٹیں سے کسی کو چین سے
بیٹھنے دیں گے ۔
طوطے کی طوطا چشمی کو دیکھ کر ضمیر فروش رشک کے مارے اسے آہ بھر کر دیکھتے
ہیں بالکل اسی طرح جیسے محبوب کی سیاہ چشمگی کو دیکھ کر سرمہ فروش حسد اس
کی آنکھو ں کو دیکھتے ہیں اور بے اختیار ان کی آہ نکل جاتی ہے ۔ماہرین
بشریات کو بہت دیر سے ہی سہی بہت دور کی سوجھی ہے ۔ان کا خیال ہے کہ طوطے
کی طوطا چشمی اور محبوب کی سیاہ چشمگی دونوں کی کیفیت بالکل ایک جیسی ہیں ۔جس
طرح قید حیات اور بند غم اپنی اصلیت کے اعتبار سے ایک ہیں اسی طرح محبوب
اور طوطے میں بہت سی چیزیں مشترک ہیں ۔ایسی مو شگافی طوطا شکنی کے مترادف
ہے ۔اس کے باوجود طوطا فکر کو لائق استرداد نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ایک میا ں
مٹھو کا کہنا ہے کہ رنگ ،خوشبو اور حسن و خوبی کے تما م استعارے طوطوں کے
دم سے ہیں ۔جب لوگ ایسی بے پر کی اڑاتے ہیں تو میرے ہاتھوں کے طوطے اڑ جاتے
ہیں اور میں ایسے کوتاہ اندیش لوگوں کے پرزے اڑانے کے بارے میں سوچنے لگتا
ہو ں مگر کیا کروں جب سے مستری آسو خان نے میری بائیسکل کے پرزے اڑائے ہیں
مجھے کسی کل چین نہیں ۔ایسے طوطا چشم ،جو فروش گندم نما بگلا بھگت وحشیوں
نے تو لٹیا ہی ڈبو دی ہے ۔ان سے تاریخ یہ سوال کر رہی ہے اونٹ رے اونٹ تیری
کون سی کل سیدھی۔کل شام ایک طوطا اور ایک بوم راہ فنا پر چل نکلے ان کے نہ
ہونے کی ہونے دیکھنے والا کوئی نہ تھا ۔زمانے کی اس بے حسی نے طو طوں کو
منقار زیرپر رہنے پر مجبو کر رکھا ہے ۔
عالمی ادبیات میں طوطے اہم کردار ادا کرتے چلے آ رہے ہیں ۔لفظوں کے طوطا
مینا بنانے کا سلسلہ زمانہ قبل از تاریخ سے جاری ہے اور جب تک طوطوں کے دم
میں دم ہے اس کی شدت میں کمی آنے کا کوئی امکان نہیں ۔لفاظ حشرات سخن کا ان
دنوں خوب طوطی بولتا ہے ۔قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں طوطوں کی فراوانی
جہد للبقا کا اہم ترین تقاضا ہے ۔بے حسی کا عفریت چاروں جانب منڈلا رہا ہے
۔اس نقار خانے میں بھانت بھانت کی آوازیں آرہی ہیں اور طوطی کی آواز پر کان
دھرنے والا کوئی نہیں ۔اپنی اپنی ڈفلی اور اپنا اپنا راگ الاپنے والے شب
ہجراں کے جاگنے والے مفادات کی شیریں چوری کھانے کے بعد لمبی تان کر اور
گھوڑے بیچ کر سو چکے ہیں ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ ابن الوقت طوطا چشم
تمام وسائل ڈکار کر مردوں سے شرط باندھ کر سو چکے ہیں ۔
طوطوں کی بہت سی انواع واقسام ہیں ۔ سرخ کندھوں والے طوطے ، گردن پر سرخ
پروں والی مالا رکھنے والے طوطے ، بعض لوگوں نے مبالغہ آرائی کی حد کردی ہے
وہ طوطوں کے مذہب کے بارے میں بھی درفنطنی چھوڑ دیتے ہیں ۔سرخ کندھوں والے
طوطے جو انسانوں کی طرح گفتگو کر نے پر قادر ہیں ان کو یہ لوگ اسلامی طوطا
کہتے ہیں ۔ جب کہ ٹیں ٹیں کرنے والے طوطے کو وہ غیر اسلامی طوطے کے نام سے
منسوب کرتے ہیں ۔ظاہری حسن میں تو یہ یکساں ہیں مگر ان کی باطنی کیفیا ت
یکسر مختلف ہیں ۔ بولنے والے طوطے اس وقت تک اپنے آقا اور صیاد کی تعریف
میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے ہیں جب تک وہ پنجرے میں محبوس رہیں اوراس کی
چوری کھاتے رہیں جونہی وہ پنجرے سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو وہ
چونچ پھاڑ کر اور پنجے جھاڑ کر صیاد کے قبیح کردار کو ہد ف تنقید بناتے ہیں
اور اس طرح صیاد کا کچا چٹھا سامنے لاتے ہیں کہ اس کو چھٹی کے دودھ کے ساتھ
ساتھ نانی بھی یاد آجاتی ہے۔ہمارے معاشرے میں طوطوں کا جس بے دردی سے
استحصال ہورہا ہے اس پر طوطے چونچ پا احتجاج بن چکے ہیں ۔ ان کو تین تیرہ
سے خارج کردیا گیا ہے۔ فاختہ کو تو امن کاپرندہ شمار کیا جاتا ہے ۔الو کو
حماقت کا نشان سمجھا جاتا ہے ، کرگس مردار خوری کی علامت ہے جب کہ اسے راجہ
گدھ قرار دیا جاتا ہے ۔ شپر کو بھی خورشید کی ضیا پاشیوں سے انحراف کا نشان
قرار دیا جاتا ہے ۔ طوطے اب بھی بے نشان ہیں۔
طوطے بہ یک وقت رجائیت اور قنوطیت کے مظہر ہیں ۔ان کی فطرت میں سادیت پسندی
کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے ۔لذت ایذا حاصل کرنا ازل سے طوطے کا وتیرہ رہا ہے
۔ننھی ننھی کونپلوں،غنچوں،شگوفوں،کچے پکے پھلوں اور فصلوں کو نوچ کر کھانا
طوطوں کا پسندیدہ مشغلہ ہے ۔جس شاخ پہ بیٹھے اسی کو نوچنا اور جس پھل کو
دیکھ لے اسی کو کھدیڑنا اور درختوں کے تنے میں ایسے شگاف ڈالنا جیسے چور
کسی گھر کی دیوار میں نقب لگاتا ہے طوطے کی پہچان ہے ۔ہد ہد اور طوطے اس فن
میں ید طولیٰ رکھتے ہیں ۔بکری کی میں میں اور طوطے کی ٹیں ٹیں نے تو اب
کلاسیکی موسیقی کو بھی مات دے دی ہے ۔دیپک راگ کے اثرات سے متمتع ان طیور
آوارہ اور جانوروں کی مست خرامی بعض لوگوں کے نزدیک نمک حرامی کی حدود کو
چھو لیتی ہے ۔جراثیم کش ادویات بھی جراثیم کا قلع قمع کرنے میں اس قدر زود
اثر نہیں جس قدر محسن کشی میں طوطے ہیں ۔اس فضیحت میں تو طوطے ہتھیلی پر
سرسوں اگا دیتے ہیں ۔بعض اوقات مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں ایک ایسے
جزیرے میں گھر گیا ہوں جہا ں گھنا جنگل ہے ۔ اس جزیرے کے چاروں طرف ایسا
سمندر ہے جس کی ہر موج میں حلقہء صد کام نہنگ ہے ۔ اس جزیرے پر جو مخلوق ہے
اس کی بے بصری ، کور مغزی جہالت اور درندگی کا یہ ثبوت ہے کہ پورے جزیرے
میں جنگل کا قانون نافذ کردیا گیا ہے کئی قسم کے طائران ِ ہرزہ سرا وہاں
محو پرواز ہیں ان میں بوم وشپر ، کرگس ا ور زاغ وزغن کا اس قدر شور ہے کہ
کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی ۔ ان بھانت بھانت کی آوازوں میں طوطے کی آواز
سب سے نمایاں ہے ۔
ابن ملجم سے لے کر ابن زیاد تک تاریخ کے ہر دور میں طوطے زیر عتاب رہے ہیں
۔طوطے کی ٹیں ٹیں کو صیاد کی شقاوت آمیز نا انصافیوں نے ٹائیں ٹائیں فش میں
بدلنے کی جو مذموم کو ششیں ہر عہد میں کی ہیں وہ تاریخ طیور کا ایک پر فشاں
باب ہے ۔اس تمام طوطا گردی کے پس پردہ ہوس چونچ و بال وپر کا عنصر درد
انگیز نالوں کی صورت میں سنائی دیتا ہے ۔اسیر ہوس طوطا نو گرفتار صید سے یو
ں گویا ہوتا ہے اور زبان حال سے پکارتا ہے۔
ہوس میں مجھ سے روداد دہن کہتے نہ ڈر طوطے
پھنسی ہو جس میں پھر چُوری وہ میرا ہی دہاں کیوں ہو
طوطے کی خود نمائی بالعموم جگ ہنسائی کا سبب بن جاتی ہے ۔بعض طوطوں کی بے
بصری اور کور مغزی انھیں سادیت پسندی ( Sadism ) کا مریض بنا دیتی ہے گلشن
میں برگ و باراور ہر شاخ ثمر دار پر منقار کا وار کرنا طوطوں کا پسندیدہ
مشغلہ ہے ۔اکثر دیکھا گیا ہے کہ حریص طوطے پھل کم کھاتے ہیں مگر انھیں
برباد زیادہ کرتے ہیں ان کی یہ بیداد گری گلزار ہست و بود کو بیگانہ وار
دیکھنے کی ایک بھونڈی مثال ہے ۔ننھی اور نرم و نازک کونپلوں ،ثمر دار شاخوں
کو نوچنا ،کھدیڑنا، درختوں کی چھال کو ادھیڑنا اور یہ سب اذیتیں نباتات کو
دے کر بھی داد طلب رہنا طوطوں کا مطمح نظر رہا ہے ۔طوطوں کے ہم پر اور بھی
بے شمار گماں ہیں ۔یہ بات واضح ہے کہ ابھی چوری کھانے کے لیے انھیں اور
متعدد امتحان درپیش ہیں ۔کہتے ہیں کہ طوطے کو جب تک چوری ملتی رہے یہ دیپک
راگ کی تان پر بھی مست رہتا ہے ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نیرو کی روح آوا گون
کے بعد طوطے میں حلول کر گئی ہے ۔طوطوں نے معاشرتی زندگی میں جو اندھیر مچا
رکھا ہے وہ سب پر عیاں ہے ۔جب تک طوطے چوری ڈکار کر ٹیں ٹیں میں انہماک کا
مظاہرہ کرتے رہیں گے اہل درد قبر میں پاﺅں لٹکائے بیٹھے رہیں گے۔طوطوں کے
تحفظ کی تنظیم جو سال چار سو بیس میں قائم ہوئی تھی اور جس کا مرکزی دفتر
عدم آباد میں ہے انتیس فروری کو یوم طوطا منانے پر نہایت ڈھٹائی سے مصر ہے
۔ اب ان عقل کے اندھوں کو کون سمجھائے کہ 29فروری کا دن ہر سال نہیں بلکہ
صرف لیپ کے سال میں آتا ہے ۔ جب بھی ایسی باتیں کی جائیں تو طوطوں کے بہی
خواہ لیپا پوتی کے ذریعے بات کو ٹال دیتے ہیں۔ اس دن کو منانے کے لیے پوری
د نیا سے ہر سال خونیں منقار والے طوطے اکٹھے ہوتے ہیں اور منقار کی پکار
پر ہل من مزید کا نعرہ مستانہ لگاتے ہوئے اپنے اندر کلاغی روح بیدار کرنے
کا عزم کرتے ہوئے ریگستانوں ،ویرانوں اور کھنڈرات میں اضافے کے لیے اپنی پر
آشوب جد و جہد جاری رکھنے پر اتفاق کرتے ہیں۔ طوطے اس قدر سخت جاں ہوتے ہیں
کہ شورقیامت ان کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔تمام طائران ہرزہ سرا سے مل
کر طوطے مجبوروں کے چام کے دام چلانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ۔نالہ فریاد
آہ و زاری سن کر ان کے کان پر جو ں تک نہیں رینگتی ۔کھٹمل البتہ طوطوں کو
ان کی اوقات فراموش کرنے سے باز رکھتا ہے ۔
داناﺅں کا کہنا ہے کہ طوطے ،بوم ،شپر اورکرگس اپنی اصلیت کے اعتبار سے
فلسفیانہ تصورات میں کھوئے رہتے ہیں ۔ہر معاملے میں چونچ اڑانا ان کی گھٹی
میں پڑا ہوتا ہے ۔طوطے اور بگلے کی طرز زندگی میں گہری مماثلت پائی جاتی ہے
۔فہم غم حیات اور شعور ذات سے مبرا یہ طیور ہاتھی کے دانتوں کو بھی مات دے
گئے ہیں ۔یہ ایسے کواکب ہیں جو بظاہر اجلے اور ضوفشاں دکھائی دیتے ہیں مگر
ان کے اندر تاریکی،سفاکی عفونت ،سڑاند اور سفاک ظلمت ڈھیروں کے حساب سے
موجود ہے ۔بعض طوطے اگر چہ فلسفے کی ابجد سے بھی نا بلد ہیں مگر پھر بھی بے
غیرتی اور بے ضمیری کاکنٹوپ اوڑھے فلسفیانہ مو شگافیوں میں غلطاں رہنا ان
کا وتیرہ بن چکا ہے ۔اپنے منہ میاں مٹھو بننا ان کی قبیح عادتوں میں سر
فہرست ہے ۔طوطے اور حاسد کے مابین کوئی حد فاصل نہیں ۔اندھی نقالی اور
جلاپے میں دونوں اژدہا کے مانند ہیں جو آن کی آن میں آنکھو ں میں منظر اتار
لیتا ہے ۔طوطے چونچ پھاڑ کر بولتے ہیں جب کہ حاسد کفن پھاڑ کر بولتے ہیں ۔اس
کے باوجود ایک معمولی سا فرق ہے جو کہ ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے ۔حاسد عام
لوگوں کے خون کا پیاسا ہوتا ہے جب کی طوطے خون پسینے کی کمائی پر گلچھڑے
اڑاتے ہیں ۔
طوطے کی تذکیر و تانیث اور املا کا مسئلہ زمانہ قبل از تاریخ سے ایک معما
بنا ہوا ہے ۔یہ طائر بھی عجیب ہے اس کا نام دو طرح سے لکھا جاتا ہے ۔” طوطا
“ اور ” توتا“ دونوں طرح سے مستعمل ہیں ۔یہ ایک ایسی مشق ستم ہے جو مسلسل
جاری ہے ۔بہر حال یہ معا ملات بہت نازک ہیں جو جس کے جی میں آئے وہ کرتا
پھرے طوطوں کو اس سے کوئی غر ض نہیں۔جہاں تک اس پرندے کی تذکیر و تانیث کا
تعلق ہے یہ بھی ایک طرفہ تماشا ہے ماہرین لسانیات کا کہنا ہے کہ طوطا،بلبل
،کوئل،کرگس اور شپر قماش کے طیور کو ایک ہی جنس اور تذکر و تانیث کا حامل
سمجھنا درست ہو گا۔مثال کے طور پر کوئل کا مذکر کوئلہ اور بلبل کا مذکر
بلبلہ لکھنا صحت زبان پر کوہ ستم توڑنے کے مترادف ہے ۔اس عقدہ کو اب کون وا
کرے کہ در و بام پر منڈلانے والا طائر نر ہے یا مادہ ؟صرف قیافہ شناسی ہی
سے کچھ کام چلایا جا سکتا ہے ۔ہم اس معاملے میں کچھ کہنے سے اس لیے قاصر
ہیں کہ نقار خانے میں طوطی کی آواز بھلا کون سنتا ہے ۔ اہل ہوس صیاد چاروں
جانب دام بکھیرے طوطوں کے متلاشی دکھائی دیتے ہیں ۔ان ہراساں شب وروز میں
طوطے جب اپنے آشیاں کے چار تنکے طوفان حوادث کی زد میں دیکھتے ہیں تو حالات
سے سمجھوتہ کر کے چپکے سے اپنے بال وپر سے دست بردار ہو کر صید زبوں بن کر
قفس میں بالکل اسی طرح گوشہ عافیت تلاش کرلیتے ہیں جیسے پس ماندہ ممالک کے
کٹھ پتلی حکمران کیا کرتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ان دنوں صیاد کا خوب طوطی
بولتا ہے ۔
ہماری تنقید اور تحقیق کی سب سے بڑی محرومی یہ رہی ہے کہ متعد تلخ حقائق
خرافات کے طوماروں میں دفن کر دیئے گئے ہیں ۔عمرانیات ،نفسیات ،علم بشریات
اورتاریخ کے ماہرین نے اس جانب کوئی توجہ نہیں دی کہ آخر کیا وجہ ہے کہ
البیرونی سے لے کر الاندرونی تک ہر دور میں طوطے کو قرعہ فال نکالنے کے لیے
کیوں استعمال کیا جاتا رہا ہے ۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ طوطے کابا طن
منورہوتا ہے ۔اور دور کی کوڑی لانے میں کوئی جان دار اس کا مقابلہ نہیں کر
سکتا ۔میرے ہمسائے پروفیسر تاسف کھبال کھان کر گسوف طوطو ں پر اپنی اختصاصی
مہارت کی وجہ سے ذلت ،تخریب ،بے توفیقی اور بے ضمیری میں اپنا ثانی نہیں
رکھتے وہ اپنے والدین کا اتنا خیال نہیں رکھتے جتنا اپنے پالتو طوطوں
کاخیال رکھتے ہیں ۔طوطوں کے کئی جوڑے انھوں نے پا ل رکھے ہیں ۔طوطی کی گردن
میں سرخ رنگ کی پرو ں کی مالا دیکھ کر ان کی آنکھوں میں ایک شیطانی چمک
پیدا ہو جاتی ہے اور وہ جذبہ بے اختیار شوق سے مغلوب ہو کر طوطے سے لپٹ
جاتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ طوطا اپنے من میں ڈوب کر نہ صرف مستقبل کی زندگی
کا سراغ لگا لیتا ہے بلکہ چوری کھلانے والے کے لیے پیام نو بہار بھی لاتا
ہے ۔ہر طوطے کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسے وہی کا ٹنا پڑتا ہے جو وہ بوتا ہے
۔میرے خیال میں طوطے کا فال نامہ محض قیاسی ہوتا ہے اور طوطا جو لفافہ اٹھا
کر لاتا ہے اس کا یہ فعل فاقہ کشی کے باعث بد حواسی پر مبنی ہو تا ہے ۔
ذہنی افلاس کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہوگا کہ اب ضعیف الاعتقاد لوگ طوطوں کے
فال پر تو اندھا اعتماد کرتے ہیں مگر آلام روزگار کے مہیب بگولوں میں بھی
ان کو اپنے خالق کی یاد نہیں آتی ۔قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں طوطوں کی
پانچوں گھی میں ہیں ۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ آنے والا دور طوطوں کا ہو
گا۔گلشن کی ہر شاخ پر بوم ،شپر ،کرگس اور طوطوں کا بسیرا ہو گا ۔ہر طرف زاغ
و زغن کا راج ہو گا اور عندلیب ،ہما اور اس طرح کے طیور کو گلشن سے نکال
باہر کیا جائے گا۔طوطا راج میں گلشن سے سرو صنوبر ،گل و لالہ اور اثمار و
اشجار کو تلف کر دیا جائے گا اور زقوم،حنظل اور تھوہر کی کاشت پر توجہ دی
جائے گی ۔ قرائن سے یہ اندازہ لگا یا جا سکتا ہے کہ اس عمل کا آغاز ہو چکا
ہے ۔ہمارے چاروں جانب عقابوں کے نشیمن پر زاغوں نے غاصبانہ طور پر قبضہ کر
رکھا ہے ۔طوطوں کی شہ پر زندگی کو شدید خطرات سے دوچار کردیا گیا ہے۔ ان کی
بقا کو ہدف بنا دیا گیا ہے ۔ مظلوموں کے اشک رواں کی لہر میں سب کچھ بہہ
گیا ہے مگر طوطے مسلسل اپنی ٹیں ٹیں میں منہمک ہیں ۔زندگی کی تمام رعنائیاں
گہنا گئی ہیں مگر طوطوں کو ساون کے اندھے کی طرح ہر ا ہی دکھائی دیتا ہے ۔گلشن
کی صباحت ،آفتاب کی کرن کے الطاف و عنایات،گل کی آرزو کی تمنا کرنے والے
طوطوں کے معتوب ٹھہرتے ہیں ۔شاہین کی بلند پروازی طوطوں کی آنکھ میں خار
مغیلاں کی طرح کھٹکتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ طوطوں کو بالعموم ایسا طائر خیال
کیا جاتا ہے جو طفیلی بن کر کوڑے کے ڈھیر سے جاہ ومنصب کے چبائے ہوئے نوالے
اپنی چونچ میں ٹھونس کر دوسروں کو مرعوب کرنے کی فکر میں خجل رہتا ہے۔اپنی
طوطا چشمی کے باوجود یہ سیرچشمی سے محروم ہے ۔
ماہرین حیوانات ان طوطوں پر تحقیق میں مصروف ہیں جو انسانوں کی طرح بولنے
پر قادر ہیں ۔ایسے کثیر اللسانی طوطے ایک عجیب مخلوق ہیں ۔موسم کی طرح روپ
اور لہجہ بدلنا ان کی پہچان ہے ۔اپنی ضرورت کے مطابق ایسے طوطے پلک جھپکنے
میں اپنا موقف بدل لیتے ہیں ۔اپنے آقا اور چوری کھلانے والے کی ہاں میں ہاں
ملانے والے اور ڈنڈے کے مرید ایسے طوطے اب کثرت سے مل جاتے ہیں ۔متفنی ،موذی
اور پر اسرار طوطے جو کہ ذوق گدائی دل میں لے کر حریصانہ نظروں سے دنیا کو
دیکھتے ہیں آخر کار ان کا کچا چٹھا اہل نظر کے سامنے آہی جاتا ہے ۔مسلسل
شکست دل کے باعث معاشرہ عجیب بے حسی کا شکار ہو گیا ہے ۔بے حس سوتوں اور
عیار طوطوں نے تو سارا نظام ہی تلپٹ کر دیاہے ۔دیار مغرب کی فضا میں کچھ دن
گزار کر آنے والے طوطے اپنی بولی بھول کر وہیں کی راگنی الاپتے ہیں ۔ان کی
خست اور خجالت ان کے احساس کم تری کو ظاہر کرتی ہے ۔ان کی یاوہ گوئی ابتذال
کی حدوں کو چھو لیتی ہے ۔ایسے طوطے راجہ گدھ کی قیادت میں اپنے ساتھ فصلی
بٹیروں،کالی بھیڑوں ،سفید کوﺅ ں،بگلا بھگت طیور آوارہ اور گندی مچھلیوں کا
جم غفیر لیے خراماں خراماں ہر طرف منڈلاتے دکھائی دیتے ہیں ۔اپنی ماں پر
تہمت لگا کر عدو سے داد سمیٹنے میں انھیں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی ۔تاریخ
کا ایک مسلسل عمل ہوتا ہے اسے کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے ۔بولنے والے
طوطے بولتے رہیں ،کانوں میں زہر گھولتے رہیں مگر فطرت کی تعزیروں کو کبھی
فراموش نہ کریں ۔خالق کائنات کے ہاں دیر تو ہے مگر اندھیر نہیں ۔اب تو طوطے
اپنے پروں میں سر چھپا کر حالات سے یکسر بے گانہ اپنا الو سیدھا کرنے میں
مصروف ہیں لیکن جلد وہ وقت آنے والا ہے جب کوئی آہن گر اجلاف و ارزال کے
پروردہ ان طوطوں کے کس بل نکا ل کر ان کو سیدھا کر دے گا۔ نظام کہنہ کے
سائے میں عافیت کے آشیاں میں چین سے بیٹھنے کا خواب دیکھنے والے والے طوطے
یہ بات فراموش نہ کریں کہ ایک گرتی ہوئی عمارت میں بنایا جانے والا آشیاں
اور بکرے کی ماں سے خیر کی توقع کیسے رکھیں؟
طوطے ا یک پیر تسمہ پا کے مانند انسانیت کی چلتی پھرتی لاش کے گرد چمٹ چکے
ہیں ۔ ان کی چونچ کو جب سے خون لگا ہے وہ مظلوم و مجبور انسانوں کے درپئے
آزار رہنے لگے ہیں ۔ اپنی ہی جبیں پہ سرکفن کو کج رکھنے کی وصیت کر کے الم
نصیب انسان اس دینا سے سدھار جاتے ہیں تاکہ طوطوں کو یہ گمان نہ ہو کہ مرنے
والوں نے حریت فکر کا بانکپن فراموش کردیا۔ہر اولی الامر کو یہ صدا دے کروہ
رخصت ہوگئے کہ وہ اپنی فرد عمل سنبھال لیں طوطوں کا مسیحا کوئی نہیں ۔ یہ
صبح گئے کہ شام گئے۔سیل زماںکا ایک تھپیڑا آنے کی دیر ہے نہ حلوے مانڈے
رہیں گے اور نہ ہی چوری اور پوری ۔ طوطے اور ان کے ہم نوالہ و ہم پیالہ
فصلی بٹیرے ا س میں خس وخا شاک کی طرح بہہ جائیں گے۔ طوطوں کو نوشتہءدیوار
پڑھ لینا چاہیے۔ بربادی ءگلستاںمیں طوطوں کا کردارتاریخ میں سیاہ حروف میں
لکھا جائے گا۔ |