بچہ ٹیکس

واہ رے پاکستان کی قسمت، دیکھیے ٹوٹی کہاں کمند کے مصداق سرکار اپنی ناتمام اور ناکارہ کوششوں کے باوجود ملک کے مختلف مسائل مثلا: بیروزگاری، مہنگائی، لوڈ شیڈنگ اور دہشت گردی پر تو قابو نہ پا سکی ،انشاپردازان حکومت کو اندھے کی طرح اندھیرے میں دور کی کوڑی سوجھی کہ کہیں لوگ اس مستقل لوڈ شیڈنگ کا ناجائز فائدہ اٹھاکر دھڑا دھڑ بچے پیدا کرنا نہ شروع کر دیں ،کچھ عرصہ پہلے موجودہ حکومت کی طرف سے یہ شوشا چھوڑا گیا تھا کہ جی ملک میں دو سے زائید بچوں پر پٹرول کے کاربن ٹیکس یا دیگر اشیاء پر جی ایس ٹی کی طرح ،،بچہ ٹیکس ،، لگا دیا جائے ، جس سے کہ سرکار کو خاطر خواہ آمدنی ہو سکتی ہے ۔

مذکورہ خبر بچوں کی ٹیم بنانے کے شوقین حضرات کے ارمانوں پر پہلے اوس اور پھر مٹی پا گئی ۔ وہ کسی شاعر کے ایک شعر کا دوسرا مصرعہ ہے نہ کہ ،، جب کوئی کام نہ ہو تو اپنے کپڑے پھاڑ کر خود ہی سیا کر،، کے مصداق لگتا ہے کہ حکومت کے پاس بھی کرنے کو کوئی کا م نہیں ہے کہ جو اسطرح کے شوشے چھوڑے جا رہے ہیں۔ وہ یہ بھی بھول رہی کہ اسکی ایک ٹانگ تو پہلے ہی دہشت گردی ، بیروزگاری، مہنگائی لوڈ شیڈنگ، سرائیکی صوبے، بابر اعوان اور ذوالفقار مرزا کے الٹے سیدھے بیانات کے مسئلہ میں پھنسی ہوئی ہے اوپر سے ایک او ر نیا شوشہ چھوڑ کر وہ اپنی دوسری ٹانگ بھی پھنسانا چاہتی ہے ۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ کہیں یہ بھی اس طرح کا شوشہ ہی نہ ہو جیسا کہ ایک بار شیخ رشید صاحب نے جماعت اسلامی کو چڑھانے کے لیے آنجہانی مائیکل جیکسن کو پاکستان لا کر شو کرانے کے لیے چھوڑا تھا۔ بہرحال! بیشک یہ شوشہ ہی سہی ہے بہت ہی برا شوشہ کہ اس فیصلے سے صرف اور صرف مانع حمل ادویات بنانے والی فیکٹریوں کی ہوگی چاندی باقی سب مند ی۔ سنا ہے کہ وزارت صنعت کے پاس مذکورہ فیکٹریوں کی پرمیشن کے لیے درخواستوں کہ لمبی لائن لگی ہوئی ہے اور لگتا ہے کہ حکومت سوات کی صنعتیں بند ہونے کے ہرجانے کے طور پر اس صنعت کو فروغ دینا چاہتی ہے تاکہ نقصان کا ازالہ ہوسکے۔ ویسے یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ ان ادویات کے استعمال سے خواتین کچھ فربہی کی طرف مائل ہو جاتی ہیں،اگر ایسا ہے تو پھر تو سلمنگ سینٹر والوں کا سر اور تمام انگلیاں کڑاہی میں ہونگی اور انہاں دی تے موجاں ای موجاں تے بلے بلے۔

ہمارے خیال میں مذکورہ فیصلے کے فائدے کم اور نقصانات زیادہ ہیں۔ مثلاً ان ڈاکٹر حضرا ت کا کیا بنے گا جوکہ ہر وقت خواتین کی چیر پھاڑ کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہوتے ہیں، یعنی بچہ بذریعہ بڑے آپریشن اور جگہ جگہ کھلے زچہ بچہ ہیلتھ سینٹر، نرسنگ ہومز وغیرہ وغیرہ جہاں پر ہوم کوالیفائڈ دائیاں اور ھیلتھ ورکرز گھریلو چھری کانٹے اور عام بلیڈ سے آپریشن جیسے مشکل ترین کارہائے نمایاں بخیر و خوبی سر انجام دے رہی ہیں۔ اسکے علاوہ پری آپریشن اور پوسٹ آپریشن ادویات بنانے و الے ، ملٹی وٹامن، فولک ایسڈ، اور خاص طور پر اچار بنانے والی کمپنیوں کا کیا بنے گا کالیا جو کہ پریگننسی کا لازمی جزوہ ہے۔ خاص طور پر شکار پور والے تو بے روزگاری کا شکار ہو سکتے ہیں ۔ اسکے علاوہ یہ کہ بچے کم ہونگے تو لولی پاپ، چیونگم، ٹافی ، بسکٹ، چپس، سلانٹی اور کھلونے کم استعمال ہونگے اور نتیجتاً گند مند مٹیریل سے بنی ان اشیاء کے بنانے والی فیکٹریاں بند ہونے سے بیروزگاری بڑھے گی، جس سے کہ ملک میں انارکی پیدا ہو سکتی ہے۔ اسکے علاوہ جگہ جگہ کھمبیوں کی طرح اگے پرائیوٹ سکولوں کا کیا ہوگا جہاں ہر میٹرک پاس لڑکی ہزار دو ہزار میں بطور ٹیچر کھپ جاتی ہے ۔ اور ہمارے سرحدی بھائی جو کہ پولیو کے قطر ے کو بھی ممنوع جانتے ہیں ، بجلی کا بل بھی مرضی سے ادا کرتے ہیں تو اس ٹیکس کو تو وہ کبھی بھی قبول نہیں کریں گے۔ ویسے بھی انکے ہاں تو بچے گن کر پیدا کرنے کا تصور ہی نہیں ہے۔ جب تلک دس بارہ بچے نہ بنا لیں، بس نہیں کرتے۔ اگر کثیر لاولادی کی وجوہات کی بنا پر ناموں کا قحط پڑ جائے تو کوئی بھی نام جو ذہن میں آجائے رکھ دیا جاتا ہے مثلا شراب خان، انگور خان، پستہ خان وغیرہ وغیرہ ۔ اسکے علاوہ وہ حضرات جو کہ بیٹے کے چکر میں بیویاں اور بیٹیاں بڑھاتے رہتے ہیں، ان بیچاروں کو تو پھر میڈونا اور انجلینا جولی کی طرح دوسروں کے بچے گود لینے پڑیں گے۔اسطرح خاندانی نسل چلنے اور وراثت کے مسائل بھی درپیش ہونگے۔

کہتے ہیں کہ ہمسایہ دوست ملک چین میں دو سے زائد بچے پیدا کرنے پر اتنی سختی ہے کہ لوگ بچے دیکھنے کو ہی ترس جاتے ہیں۔ اگر کہیں اتفاق سے انہیں کوئی بچہ نظر آ بھی جائے تو جیسا کہ کہاوت ہے نہ کہ: ،،ہیجڑوں کے گھر بچہ جما تو انہوں نے چوم چوم کر مار دیا،، والا حال کر دیتے ہیں۔ لہٰذا خبردار! کبھی اپنے چھوٹے بچوں کو ساتھ لیکر کبھی چین نہ جائیے گا ورنہ چَین پانے کے بجائے بچوں کی طرف سے بے چین ہو کر چِین سے چھی چھی کرتے لوٹیں گے!

ہمارے محلے میں ایک صاحب (جو کہ اب مرحوم ہو چکے ہیں) خیر سے انکے 19 بچے ہیں، اور وہ کئی بار اپنے تمام بچوں کے نام صحیح نہ بتانے پر شرط ہار جاتے تھے ۔ ایک اور صاحب جنکے ابا نے انکی شادی خانہ آبادی بوجوہ آوارگی جلد کر دی تھی ، انکے ماشاءللہ اب درجن بھر بچے ہیں اور وہ دیکھنے میں اپنے بچوں کے بھائی لگتے ہیں۔ یعنی جو لوگ اتنے بچے پیدا کر چکے ہیں انپر کیا قانون لاگو ہوگا۔؟ ویسے مذہبی نقطہ نظر سے بھی یہ ایک بحث طلب مسئلہ ہے، اور سرکار اپنے خلاف مذہبی جماعتوں کی طرف سے بہت سے اور بکسوں کی طرح ایک اور پنڈورا بکس کھلوا سکتی ہے۔ بقول ہمارے ایک مولوی دوست کے کہ جی ہر بندہ اپنا رزق ساتھ لیکر آتا ہے ۔ تو سرکار کو اتنی چنتا کیوں۔؟ ہمارے ایک اور واقف کار ہیں جنھیں چھوٹے بچوں سے کھیلنا اور انکے ناز نخرے اٹھانا بہت اچھا لگتا ہے۔ پچھلے دس سال سے وہ آخری پیس کے چکر میں اپنی اولاد میں آدھا درجن پسران و دختران کا اضافہ کر چکے ہیں اور ہر بار یہی کہتے ہیں کہ بس یہ آخری سمپل ہے ، تو ان بیچارے کی تو ساری کمائی ہی اس ٹیکس کی نظر ہو جائے گی۔

ایک اور مسئلہ حل طلب یہ ہے کہ سرکار نے یہ کلیئر نہیں کیا کہ صرف ایک بیوی سے دو بچے یا کچھ اور؟؟ اگر ایک بیوی سے صرف دو بچے الاﺅ ہیں تو پھر بچوں کے شوقین تو روز نئی شادی کے بھی شوقین بن جائیں گے ۔ یوں ملک میں لڑکیوں کا بھی قحط پڑ سکتا ہے ۔ نتیجتاً شادی کے لیے لڑکیا ں بھی امپورٹ کر نی پڑ سکتی ہیں اور یوں زرِ مبادلہ کا نقصان ۔ ہمیں تو پہلے ہی شعیب ملک کی ثانیہ مرزا بہت مہنگی یعنی کروڑوں میں پڑی ہیں اور پھر بھی اپنے آپ کو پاکستانی کہلوانا پسند نہیں کرتیں ۔ مزید یہ کہ ہمارے تو بہت سے اسمبلیوں کے ممبران اور معزز مولوی حضرات بھی زائد بچگان اور زائد بیویان کے اس کام میں گوڈے گوڈے ملوث پائے جاتے ہیں، کیا ان پر کوئی ہاتھ ڈال سکے گا؟ مزید یہ کہ سرکار آجکل اپنے تمام فیصلوں پر ریورس گیئر لگا رہی ہے ، تو کہیں یہ فیصلہ بھی مکمل یا آدھا واپس نہ ہوجائے۔؟

ویسے اگر بنظر غائر اس مسئلہ کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں اس فیصلے کے پیچھے بھی صہیونی سازش اور امریکا یا ہندوستان کا ہاتھ نظر آتا ہے (ہر معاملے میں ایسا ہی جو ہوتا ہے) کیونکہ یہ لوگ نہیں چاہتے کہ امت مسلمہ کے نوجوانوں کی تعداد میں اضافہ ہو اور وہ انکے خلاف کسی ممکنہ جنگ میں حصہ لے سکیں۔ لہٰذا اس سازش کو کھوجنے کے لیے جلد ایک اعلی سطحی کمیشن تشکیل دے دینا چا ہیے، جو کہ اس مسئلہ پر غوروخوض کر کے اپنی سفارشات کم ازکم ایک سال کے اندر ضرور پیش کرے۔ ایک سال اس لیے کہ اگر ایک سال سے پہلے سفارشات مرتب کر دی گئیں تو شاید لوگ جلد بازی کہہ کر رد نہ کر دیں۔ ویسے اگر حکومت چاہے تو اس بچہ ٹیکس کے پنگے میں پڑنے کے بجائے اور دیگر بہت سے طریقوں سے مال جمع کر سکتی ہے مثلاً: موٹے پیٹ والوں اور والیوں پر ٹیکس ، گنجے سر والوں (والیاں نہیں ہوتیں) پر ٹیکس ، کالے مرد اور خواتین پر ٹیکس ، لڑکی کو چھیڑنے پر ٹیکس، ایک سے زائد شادی پر ٹیکس،ہیل والی جوتی پر ٹیکس، بیوی پٹائی ٹیکس ِ ، خواتین کے پسندیدہ سٹار پلس کے ڈراموں پر ٹیکس، خواتین کی زبان درازی اور زیادہ بولنے پر ٹیکس ، خواتین کی تھریڈنگ کرانے پر ٹیکس اور سیاستدانوں کے سچ بولنے پر ٹیکس ، سیاستدانوں کے وعیدے وفا کرنے پر ٹیکس ، اور سیاستدانوں کے روزانہ جھوٹ، عیاری، مکاری، فریب کاری سے بھر پور نیا دھانسو قسم کا بیان دینے پر بھی ٹیکس لگادے۔ وغیرہ وغیرہ کیا خیال ہے آپ لوگوں کا؟

بہرحال! میری حکومت سے گزارش ہے کہ اس ناقابل عمل فیصلہ کو لاگو کرنے سے پہلے اسکے ہر ہر پہلو پر اتنا اتنا غورو خوض کرے بلکہ چاہے تو اس کام کے لیے بھی ایک کمیٹی بنا دے کیونکہ ہمارے ہاں کام کو بگاڑنے اور لمبا کرنے کے لیے ہمیشہ کمیٹیاں بنادی جاتی ہیں کہ غورو خوض کا ہی تراہ نکل جائے۔ کیونکہ اگر یہ قانون ایک بار لاگو ہو گیا تو کہیں ایسا نہ ہو کہ کچھ عرصہ بعد ہمیں آلو پیاز، ٹماٹر اور دیگر تمام اشیاءکی طرح بچے بھی امپورٹ نہ کرنے پڑ جائیں۔
Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660
About the Author: Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660 Read More Articles by Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660: 93 Articles with 247490 views self motivated, self made persons.. View More