امت مسلمہ کے روحانی مرکز سعودی عرب کا قومی دن

سعودی عرب کے قومی دن پر خصوصی تحریر

سعودی عرب کی عظیم ریاست کا یوم الوطنی 23 ستمبر کو منایا جاتا ہے،اس موقع پر بانی مملکت شاہ عبدالعزیز بن عبدالرحمن آل سعود رحمتہ اﷲ علیہ کے تاریخی کارنامے کی یادیں تازہ کی جاتی ہیں جنہوں نے اﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم سے وطن عزیز کا پراگندہ شیرازہ جمع کیا او رپھر ان کے بعد ان کے پاکباز فرزندوں نے ریاست کے ستون استوار کرکے اس عظیم الشان ریاست کی تعمیر کے کاررواں کو قدم بقدم آگے بڑھایا۔ یوم وطنی کا جشن مناتے ہوئے ہر سعودی شہری اس بات پر فخر محسوس کرتا ہے کہ وطن عزیز سعودی عرب نے بین الاقوامی، اسلامی او رعرب سطح پر قابل قدر مقام بنایا۔ علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کے عمل میں موثر کردارادا کیا۔ اقتصادی اور ترقیاتی کارنامے انجام دیئے۔ اقتصادی خوشحالی اور سماجی سلامتی کے اہداف حاصل کئے۔ انکا سہرا فرزندان اور بنات وطن کی کوششوں کے سر جاتا ہے۔ تمام سرکاری اداروں نے ایک ٹیم کے طور پربدعنوانی کے انسداد اورشفاف ماحول کے فروغ کیلئے عدل و انصاف کے اصول راسخ کئے۔ سعودی وڑن 2030کے مقاصد کیلئے ٹھوس جدوجہد کی۔ سعودی وڑن 2030 مستقبل کا روڈ میپ ہے۔ یہ وطن عزیز سعودی عرب کو دنیا کی ترقی یافتہ اقوام کا صدر نشین بنانے کیلئے ترتیب دیا گیا ہے۔ اس پر عمل درآمد کا پابندی سے جائزہ لیا جارہا ہے۔ شاہی ہدایات کے مطابق کام انجام دیئے جارہے ہیں۔ خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز مسلسل سرپرستی کررہے ہیں۔ سعودی حکومت اور اسکے عوام مشاعر مقدسہ کی مسلسل ترقی کیلئے کوشاں ہیں۔ مناسک حج کی ادائیگی کو آسان سے آسا ن تر بنانے کیلئے مطلوبہ خدمات کی فراہمی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے ہوئے ہیں۔ وطن عزیز سعودی عرب کو یہ اعزاز بھی نصیب ہے کہ یہاں سے اسلام کا سورج طلو ع ہوا او ریہیں سے پیغمبر اسلام کی سنت مبارکہ کی روشنیاں پوری دنیا میں پہنچیں۔ سعودی عرب دین حنیف کے غیر متزلزل اصولوں ، اسلام کی روا داری، میانہ روی اور اعتدال پسندی کا ترجمان بنا رہیگا۔ انتہا پسندی اور دہشتگردی کے خلاف انتھک جدوجہد جاری رکھے گا۔ سعودی عرب اس حوالے سے وہی کچھ کریگا جس کی تاکید میر کاررواں خادم حرمین شریفین نے یہ کہہ کر کی ہے ’’ہمارے درمیان کسی انتہا پسند اور اعتدال کو انحراف قرار دینے والوں کیلئے کوئی جگہ نہیں۔ ہمارے درمیان ایسے شخص کیلئے کوئی گنجائش نہیں جو روا داری کے علمبردار ہمارے عقائد ناجائز مقاصد کے حصول کیلئے استعمال کرے۔ ہمارے درمیان ایسے اخلاق باختہ انسان کیلئے بھی کوئی جگہ نہیں جو انتہا پسندی کے خلاف ہماری جنگ کو انحطاط کے پرچار اور دین حق کی آسانی کو اپنے اہداف کے حصول کا وسیلہ بنا رہا ہو‘‘۔ سعودی عرب کی قومی خودمختاری کو چوٹ پہنچانے یا اس کے امن و امان سے کھلواڑ کرنے کی اجازت کسی کو نہیں دی جائیگی۔سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا اپنے ایک پیغام میں کہنا تھا کہ سعودی عرب کے یوم وطنی کا جشن ہم سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ ہم اس بات پر اﷲ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کریں اور جی جان سے اس بات کیلئے اسکا شکر ادا کریں کہ اس نے ہمیں حرمین شریفین کی خدمت اور حجاج و معتمرین و زائرین کی نگہداشت کا اعزاز بخشا۔ سعودی عرب نے 1439ھ کے حج موسم میں جس اندازسے ضیوف الرحمن کی خدمت کی اس سے اس اعزاز کا حق ادا کرنے کی جھلک نظر آتی ہے۔ ہم اس بات پر اﷲ تعالیٰ کے ثناء خواں ہیں کہ اس نے سعودی حکومت اور اس کے میزبان عوام کو مناسک حج کی ادائیگی میں سہولتیں پیش کرنے کا اعزاز عطا کیا۔

عصر حاضر میں جب خود مختار ریاستوں کا رواج آیا تب ہی ہر ملک نے اپنا الگ الگ پرچم بھی بنایا۔ہر ملک کا پرچم منفرد ہے۔ قومی پرچم سرکاری تقریبات میں لہرائے جاتے ہیں۔ پرچم کے سلسلے میں دنیا بھر کے ممالک کے درمیان مسابقت اور مقابلہ آرائی بھی چلتی رہتی ہے۔ قدرتی آفات اور سوگ کے مواقع پر قومی پرچم سرنگوں کرنے کی روایت دنیا بھر میں پائی جاتی ہے۔ سعودی عرب کا پرچم اس روایت سے مستثنیٰ ہے کبھی بھی سرنگوں نہیں کیا جاتا۔ اس کا امتیازی وصف کلمہ توحید ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی پرچم کبھی بھی کسی بھی حالت میں سرنگوں نہیں کیا جاتا۔سعودی تاریخ کی پروفیسر ڈاکٹر حنان الجدعانی بتاتی ہیں کہ اس کی تاریخ 18ویں صدی عیسوی میں قائم ہونے والی پہلی سعودی ریاست سے شروع ہوتی ہے۔ یہ الدرعیہ کے نام سے جانی پہچانی جاتی تھی۔ یہ ریاست 1744ء سے لیکر 1818ء تک برقرار رہی۔ اس کا پرچم سبز رنگ کا تھا۔ اس کے بیچوں بیچ چاند بنا ہوا تھا۔بانی مملکت شاہ عبدالعزیز نے پہلی سعودی ریاست کے پرچم میں کئی تبدیلیاں کیں۔ انہوں نے پرچم سے چاند کی شکل ہٹا کر اس کی جگہ کلمہ توحید تحریر کرایا۔ پرچم کا رنگ سبز ہی رکھا۔ تحریر سفید رسم الخط میں رکھی۔ یہ ریاست نجد کے پرچم کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ یہ پرچم 1902ء سے 1921ء تک برقرار رہا۔آگے چل کر ریاست کا نام ’ریاست نجد و حجاز‘ رکھا گیا۔ اس کے پرچم سے تلوار خارج کردی گئی۔ پرچم کی شکل سفید اور رنگ سبز رکھا گیا۔ 1926ء سے 1932ء تک ریاست نجد و حجاز کے نام والا پرچم رائج رہا۔بعض حوالوں میں بتایا گیا ہے کہ شاہ عبدالعزیز کو پرچم کا ڈیزائن ان کے مشیر حافظ وھبہ نے تیار کرکے دیا تھا اور انہوں نے ہی قومی ترانہ بھی کمپوز کیا تھا۔سعودی عرب کا نیا قومی پرچم شاہ فیصل کے دور میں 15مارچ 1973ء کو تیار کیا گیا۔ یہ مستطیل (لمبوتری) شکل کا ہے۔ اس کی چوڑائی اس کی لمبائی کے 2تہائی کے برابر ہے۔ اس کا رنگ سبز ہے۔ پرچم کے بیچ میں کلمہ (لاالہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ) خط ثلث میں تحریر ہے۔کلمہ کے نیچے عربی تلوار بنی ہوئی ہے۔ اس کے دستے کا رخ پرچم کے سٹینڈ کی جانب ہے۔ تلوار اور کلمے کا رنگ سفید ہے۔ زمین سبز ہے۔ رسم الخط عربی ہے جو اسلام سے نسبت کی علامت ہے۔سعودی پرچم میں تلوار کی شکل اس بات کی علامت ہے کہ انصاف کے سلسلے میں ریاست کسی لاگ لپیٹ سے کام نہیں لے گی جبکہ کلمے کا اندراج یہ ظاہر کرتا ہے کہ ریاست نفاذ شریعت کے حوالے سے پرعزم ہے۔سعودی پرچم کسی بھی حالت میں سرنگوں نہیں کیا جاتا۔ سوگ ہو، قدرتی آفت نازل ہو، کوئی بڑا سانحہ رونما ہوجائے کسی بھی حالت میں اسے سرنگوں نہیں کیا جاتا ہے اور نہ ہی اسے نیچے کیا جاتا ہے۔ اسے زمین اور گندے پانی پر رکھنے، ناپاک مقامات پر لے جانے یا پرچم پر بیٹھنے کی ممانعت ہے۔ یہ پابندی اس پر تحریر کلمے کے احترام میں کی جاتی ہے۔ اس پر تلوار کا نقش قومی افتخار کی علامت ہے۔سعودی پرچم کا نقش قمیضوں پر منع ہے۔ سعودی سپورٹس حکام نے کھیلوں کے مقابلوں میں عوام کے لیے متبادل پرچم تیار کررکھا ہے۔فٹبال ورلڈ آرگنائزیشن نے 2002ء میں پروگرام بنایا تھا کہ شائقین ورلڈ فبٹال کپ میں شریک ممالک کے جھنڈوں پر براجمان ہوں گے۔ سعودی عرب نے سرکاری بیان دے کر خبردار کردیا تھا کہ اسے اپنے پرچم کی توہین برادشت نہیں ہوگی۔ایسا ہی ایک واقعہ افغانستان میں ہونے والا تھاجہاں امریکی افواج نے ایک فٹبال تیار کی تھی جسے سعودی عرب سمیت تمام ممالک کے پرچموں سے سجایا گیا تھا۔ جشن فتح کا کھیل اسی فٹبال سے کھیلا جانے والا تھا۔ سعودی عرب نے اس موقع پر بھی اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا تھا۔سعودی عرب کا شاہی پرچم بھی ہے۔ یہ قومی پرچم سے ملتا جلتا ہے۔ اس کے زیریں حصے میں ملک کا لوگو تلواروں کی کڑھائی سونے کے ریشمی دھاگوں سے بنایا گیا ہے۔ تلواروں پر کھجور کا درخت بنا ہوا ہے۔ شاہ فیصل نے 1973ء میں اس کی منظوری دی تھی۔سعودی عرب کا سول پرچم یہ سمندر میں تجارتی جہازوں پر لہرایا جاتا ہے۔ اس کی زمین سبز ہے۔ اس کے اندر قومی پرچم بنا ہوا ہے۔ پرچم کے اطراف سفید دھاری ہے۔سعودی عرب کا فوجی پرچم بری، بحری اور فضائی افواج کے پرچم ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔سعودی سمندر میں داخل ہونے والے ہر غیر ملکی جہاز کو وہ تجارتی ہو یا جنگی سعودی پرچم لہرانا ہوتا ہے۔سعودی عرب میں جمعہ کے دن اور تہواروں کے مواقع پر تمام سرکاری عمارتوں اور پبلک اداروں پر قومی پرچم سورج طلوع ہونے سے لیکر غروب آفتاب تک لہرایا جاتا ہے۔

کوئی شخص بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا کہ سعودی حکومت امدادی عمل میں اپنی ایک پہچان بنا چکا ہے۔ سعودی عرب مشرق و مغرب کے ممالک میں قدرتی آفات سے دوچار ممالک اور نادار معاشروں کی مدد میں ہمیشہ پیش پیش رہتا ہے۔ صحت ، سماجی اور خوراک اداروں کو براہ راست بھی اور بین الاقوامی تنظیموں و اداروں کے توسط سے بھی نقد امدادی سامان فراہم کرتا رہتا ہے۔سعودی عرب 2بنیادوں پر برادر عرب و مسلم ممالک کی مدد کرتا ہے۔ ایک سبب یہ ہے کہ عربوں اور مسلمانوں کا سعودی عرب پر حق اخوت بنتا ہے۔ یہ حق ادا کرنا سعودی عرب کا فرض ہے۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ زندگی کے مختلف شعبوں میں برادر مسلم و عرب ممالک کے تعمیراتی و ترقیاتی منصوبوں کو مستحکم بنانا سعودی عرب اپنے فرائض میں شامل کئے ہوئے ہے۔ ایک بات یہ ہے کہ سعودی عرب نہ صرف یہ کہ مسلم عرب ممالک کی مدد کررہا ہے بلکہ جو ملک بھی قدرتی آفات خانہ، جنگیوں اور مختلف قسم کے بحرانوں سے دوچار ہوتے ہیں سعودی عرب آگے بڑھ کر انکی مدد کرتا ہے

 

Mehr Iqbal Anjum
About the Author: Mehr Iqbal Anjum Read More Articles by Mehr Iqbal Anjum: 101 Articles with 72930 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.