بچوں سے زیادتی کے واقعات پھر سے آنا شروع ہو گئے ہیں ،
افسوس ناک بات یہ ہے کہ سفاک انسان نما درندے اُنہیں قتل بھی کر رہے ہیں جو
کہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ نفسیاتی طور پر ان سب میں حیوانیت بھری ہوئی ہے یا
مذہوم مقاصد کے حصول کے لئے سب ایسا کر کے کمائی کا کوئی ذریعہ بنائے ہوئے
ہیں۔قصور ایک بار پھر سے اخبارات کی شہ سرخیوں میں آچکا ہے تین بچے قتل کر
دیئے گئے ہیں۔ مگر ہماری قومی اسمبلی میں اس حوالے سے کڑی سزا دینے کا
’’زینب الرٹ بل‘‘ ابھی تک التوا کا شکار ہے، عوام ایک طرف تو مہنگائی کا
شکار ہے تو دوسری طرف معصوم بچوں کے ساتھ ایک کے بعد ایک گھناونے واقعے سے
شرم سے سرجھک رہے ہیں کہ آخر اس حوالے سے آخر کیوں قانون سازی کا بل تاخیری
حربے سے نافذ نہ کیا جانا کیا ہمارے ارکان اسمبلی کی ناقص کارکردگی ہے یا
پھر یہ بھی کوئی سوچا سمجھا منصوبہ ہے تاکہ موجودہ حکومت کو ناکام بنایا
جائے۔ جہاں اتنے قانون فوری طور سے نافذ کئے گئے ہیں تو پھر اس میں کیا
قباعتیں آرہی ہیں اب اس طرح کے سوالات جنم لے رہے ہیں جو کہ ایک اہم لمحہ
فکریہ ہے۔
قصور کے واقعے کے بعد پھر سے اخبارات میں خبریں آنا شروع ہو گئی ہیں جو کہ
اس بات کی طرف نشاند ہی کرتی ہے کہ ہمارے معاشرے میں بڑی خرابی پیدا ہونا
شروع ہو چکی ہے۔ اس طرف ہم سب کو ذرا سوچنے کی ضرورت ہے کہ اس مسئلے کو
کیسے حل کیا جا سکتا ہے۔ محض قانون سازی سے بھی یہ روکنے والا عمل نہیں ہے
کہ جس طرح سے واقعات سامنے آئے ہیں اس میں بھرپور طور پر سوچ کے دائرے کو
بدلنے کی ضرورت ہے، اس حوالے سے وسیع پیمانے پر حکومت کو محکمہ تعلیم کو
ہدایات جاری کرنی چاہیے کہ طلبا کس طرح سے ایسے واقعات سے محفوظ رہ سکتے
ہیں اور ایسے افراد جو کہ ترغیب اورموثر ابلاغ کی مدد سے طلباء کی رہنمائی
کر سکیں وہ مفت میں اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں آگاہی و شعور
اُجاگر کرنے کی مہم شروع کریں تاکہ جرائم کی شرح کم بھی ہو اور آئندہ ایسے
واقعات نہ ہو سکیں۔اس حوالے سے بالخصوص ماہر نفسیات حضرات متاثرہ بچوں کی
آئندہ زندگی کو بہتر بنانے کے لئے اگر ازخود تمام تر اسکولوں میں آگاہی کا
سلسلہ شروع کرلیں تو بہت بڑی انقلابی تبدیلی رونما ہو سکتی ہے۔دوسری طرف
محکمہ تعلیم کو اس حوالے سے بھی اُن افراد کی خدمات لینی چاہیے جو کہ بچوں
کی سوچ بدل سکیں۔
قارئین کو بالخصوص کہوں گا کہ اپنے بچوں اور بالغ نوجوانوں پر کڑی نظر
رکھیں ،یہ جو بند کمروں کے اندر ،چاردیواری میں موبائل فون کی لعنت
اورانٹرنیٹ بچوں کے ذہنوں کو آلودہ کر رہا ہے، جذبات کو برانگیختہ کر رہا
ہے اس کی وجہ سے بھی یہ سب ہو رہا ہے ، اس پر خصوصی طور پر جان پڑتال کی
جانی چاہیے ۔ بچوں کو مثبت اور کھیلوں کی جانب راغب کریں تاکہ بُرائی کی
جانب مائل نہ ہو سکیں۔ اگر بالغ ہونے کے فوری بعد اگر اپنے اور احباب کے
بالغ نوجوانوں لڑکے اور لڑکیوں کے مناسب جگہ پررشتے کروا دیں، بلکہ جہاں
جہاں بھی ممکن ہو سکے وہ یہ نیکی سرانجام دیتے رہیں ،تو قوی امید کی جا
سکتی ہے کہ اس طرح کے واقعات سے نجات حاصل ہو سکتی ہے کہ بُرائی کی جانب
بڑھنے کا ایک راستہ بن ہو جائے گا۔اس معاملہ پر بھی ذرا سا سوچ لیں تو
اندازہ ہو جا ئے گاکہ بروقت نکاح نہ ہونے سے ہی انسان ذہنی طور پر اس جگہ
پر آجاتا ہے کہ وہ اس طرح کے گھناؤنے فعل میں ملوث ہو جاتا ہے جس سے بدنامی
کا وہ مستحق ہو جاتا ہے اور اُس کا خاندان بھی منہ چھپانے کی جگہ تلاش کرتا
ہے۔اخبارات میں ہی دیکھ لیں بچوں سے لے کر نوجوانوں تک سب ہی کسی نہ کسی
طرح اغوا ء کاروں کے ہاتھوں غائب ہو رہے ہیں مگر کوئی اس کا سدباب کرنے
والا نہیں ہے۔
بچوں کو اظہار رائے کی آزادی دیں تاکہ وہ سب کچھ بیان کر سکیں اگر وہ کچھ
بھی چھپانے کی عادت بنا لیں گے تو پھر وہ حد سے زیادہ سوچنے کے عادی ہو
جائیں گے اور جب ایسا ہوگا تو وہ مختلف وجوہات کی بناء پر والدین کی عزت کی
خاطر خاموشی اختیار کریں گے جو کہ ایک تو اُن کو ذہنی امراض کا شکار کر
سکتا ہے اور دوسرا وہ کسی کے بھی بہکاؤے میں آکر اپنی جان سے بھی ایک دن
ہاتھ دھو بیٹھیں گے ۔ بار بار کے گھناؤنے فعل سے تنگ آکر کئی بچے خود کشی
بھی کر چکے ہیں ۔سب طلبا اور بچوں کو یہ بات سمجھائیں کہ کسی بھی اجنبی پر
سوچ سمجھ کر اعتبار کریں۔دیکھنے میں آیا ہے کہ اس طرح کے فعل میں اپنے ہی
ملوث ہوتے ہیں تو بچوں میں یہ عادت پختہ کروائیں کہ وہ کسی سے بھی حد سے
زیادہ میل جول نہ کریں بلکہ کوشش کریں کہ وہ اُن کے ساتھ یہاں وہاں جانے سے
بھی گریز کریں۔
وزیر اعظم پاکستان اور وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار صاحب کو بچوں کو درندگی
اور سفاکی سے بچانے کے لئے بھرپور طور پر اقدامات اُٹھانے چاہیں تا کہ قوم
کا مستقبل محفوظ زندگی بسر کر سکیں اور اُن کے ساتھ غلط کرنے والوں اور
بالخصوص اُن کو چھوٹ دینے اور اُن کے خلاف کمزور مقدمات پر پولیس اہلکاران
کو بھی نشان عبرت بنانا چاہیے تاکہ معاشرے میں خوف و ہراس کی لہر کا خاتمہ
ہو سکے کہ گذشتہ چند دنوں میں سامنے آنے والے واقعات نے والدین کی نیند
خراب تر کر دی ہیں اور عوام کے تحفظ ذمہ داران اورارکان اسمبلی کو ہر مفاد
بلا طاق رکھتے ہوئے اس حواالے سے قانون سازی کا زینب الرٹ بل فوری پاس کر
دینا چاہیے اورعوام کے ووٹ کے تقدس کو عزت دیں۔
نوک شمشیر
|