نفسیاتی مسائل کا حل ادویات نہیں ہیں

قارئین !راقم کے علم میں گذشتہ کئی برسوں سے یہ بات آرہی ہے کہ جب بھی کسی کو کوئی نفسیاتی عارضہ لاحق ہوتا ہے تو یہ بات کہی جاتی ہے کہ اب تو بس اس کو مسلسل ادویات ہی استعمال کرانی پڑے گی۔کچھ لوگ تو یہ کہتے ہیں کہ جب تک ادویات کا استعمال نہ ہو تب تک کوئی بھی نفسیاتی مسئلہ حل نہیں ہو سکتا ہے۔چھوٹی چھوٹی معمولی سی باتوں کو حل کرائے جانے کی کوشش معالج کم ہی کرتے ہیں کہ اس طرح کرنے سے اُن کی اپنی دکانداری کے بند ہونے کا خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے وہ اس طرف کسی بھی مریض کی توجہ مبذول کم ہی کرواتے ہیں کہ بنا دوائی بھی علاج ممکن ہو سکتا ہے، تاکہ اُن کی جیب گرم ہوتی رہے اور تاحیات آمدنی کا موقعہ ملتا رہے۔

ایک ماہر نفسیات حفصہ وحید کے بقول ’’psychiatrist اس لئے بھی زیادہ مریضوں کو therapy کی طرف نہیں لے جاتے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اُس کے بنا ہی اُن کو ٹھیک کر سکتے ہیں یا وہ اُس کی اہمیت نہیں جانتے ہیں ، دوسرا محض باتوں سے کیسے کسی کو ٹھیک کیا جا سکتا ہے ــ‘‘۔

جبکہ دوسری طرف ایک ماہر نفسیات کے بقول ’’کچھ antipsychotic medications کچھ بہتری کے لئے تو کام آتی ہیں مگر یہ منفی اثرات بھی شدید رکھتی ہیں،لہذا مثبت اثرات جب مریض استعمال پر محسوس کرنے لگے تو therapy کی جانب بڑھنا چاہیے‘‘۔

آپ میں سے اکثر نے یہ لطیفہ تو سنا ہی ہوگا کہ ایک ڈاکٹر کا بیٹا جب خود ڈاکٹر بنتا ہے تو وہ ایک ایسے مریض کو جو برسوں سے والد صاحب کے پاس علاج کرانے کے لئے آرہا ہوتا ہے۔

وہ اُس کی کچھ ایسے ادویات سے صحت یابی کا باعث بن جاتا ہے کہ اُس کا والد بھی دنگ ہو جاتا ہے ۔ پھر وہ اپنے بیٹے کو بتاتا ہے کہ جس مریض کو اتنی جلدی سے چند دنوں میں ٹھیک کر دیا ہے وہ تو اس کی ڈاکٹری کی پوری فیس ادا کرا چکا تھا۔

ہمارے ہاں بدقسمتی سے سرکاری اداروں میں ایسے قابل حضرات موجود ہیں جو کہ شاید اپنی نوکری بچانے کے لئے یا محض دکانداری چمکانے کی خاطر ایسی ادویات بھی مریضوں کو استعمال کراتے ہیں جس کی وجہ سے مختلف ادویات فروش ادارے اُن کو منافع بھی دیتے ہیں ۔اگرچہ اس میں نفسیات سے جڑے کم ہی معالج ہونگے مگر ایسا بھی ہو رہا ہے جو کہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہمارے ہاں اکثریت مریضوں کی صحت کے ساتھ کھیل رہی ہے۔اس حوالے سے راقم السطور نجی اداروں اور ہسپتالوں کی بات اس لئے نہیں کرے گا کہ وہاں پر جو حال ہے وہ آج سوشل میڈیا کی بدولت سب سامنے آچکا ہے ،جہاں اچھے سرکاری ادارے موجود ہیں وہاں پر نجی ہسپتالوں کا حال کچھ کا آج بھی عمدہ ہے۔

قارئین کرام!ہمارے ہاں psychiatrist اور psychologistآج جو بھی بنناچاہتے ہیں ، اُن کو روکا جاتا ہے کہ اس میں مستقبل نہیں ہے ، مگر اکثریت عوام کی جب نفسیاتی مسائل کا شکارہوتی ہے تو وہ انہی کے پاس اپنے علاج کے لئے رجوع کرتے ہیں۔جب وہ اُن کے پاس آتے ہیں تو خاص طور پر psychiatrist حضرات بالخصوص سرکاری اداروں میں راقم السطور کے حالیہ تجربے سے یہ ثابت ہو رہاہے کہ وہ سائیکولوجسٹ کے پاس کم ہی جانے دیتے ہیں اور اپنی ادویات لکھ کر مریض کو ادویات کا غلام بنارہے ہیں،اور سائیکولوجسٹ مریضوں کے انتظار میں ہی ہیں۔ اب یہ آپ خود سوچ سمجھ لیں کہ اگر سرکاری اداروں میں کہیں کہیں یہ حال ہو رہا ہے تو پھر نجی طور پر کام کرنے والے حضرات کیا کیا گل کھلا رہے ہونگے۔ ماہر نفسیات حفصہ وحید کا ا س حوالے سے یہ کہنا بھی ہے کہ مریضوں کو بتانا چاہیے کہ وہ کس طریقہ ہائے علاج سے تندرست ہونا چاہتے ہیں۔

یہ بات غور طلب ہے کہ مریضوں کو یہ بات علم میں نہیں ہوتی ہے کہ ادویات کے علاوہ بھی کوئی حل ہو سکتا ہے کیونکہ ہمارے ہاں یہ نفسیات کم لوگ ہی پڑھ رہے ہیں جو پڑھتے ہیں اُس میں سے کم ہی اس کو سمجھتے ہیں کہ سب نے محض ڈگری کی خاطر ہی پڑھا ہوتا ہے۔ جہاں تک غریب عوام کی بات کا تعلق ہے تو اگرچہ counsellingپر خرچہ نجی ادارے لیتے ہیں اورجو ایسا کر سکتے ہیں وہ علاج کے لئے کسی بھی حد تک جاتے ہیں مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں اول تو مریض گھر سے علاج گاہ تک جاتے ہی نہیں ہیں مگر جو جاتے ہیں، اُن کے ساتھ یہ زیادتی ہو رہی ہے کہ اُن کوادویات کا غلام بنایا جا رہاہے۔اگرچہ یہاں راقم السطور ادویات کے استعمال کے خلاف نہیں ہے مگر میں اُن نوجوان ڈاکٹری اور نفسیات پڑھنے والوں کو سمجھانا چاہ رہا ہوں جو کہ مریضوں کو محض ادویات پر ہی علاج کر کے ٹھیک کرنا چاہتے ہیں ، ادویات کا استعمال تب ہونا چاہیے جب اُس کے بنا کوئی چارہ نہ ہو، نفسیات پڑھنے والے جانتے ہیں کہ بہت سے طریقہ ہائے علاج ایسے ہیں جن کی بدولت آسانی سے مریض کی قوت ارادی کو کام لا کر شفایابی کی طرف لایا جا سکتا ہے ۔

قارئین کرام!مذکورہ موضوع پر بات اس لئے کی جا رہی ہے کہ راقم کو ایک psychiatrist نے جو کہ سرکاری ہسپتال میں کام کر رہی ہیں اُنہوں نے ادویات کے خلاف بات کر کے جب مریض کے لئے ادویات ہی لکھ دیں تو عوام الناس کی بھلائی اور نوجوان معالج حضرات کی رہنمائی کی خاطر یہ سطور لکھ دی گئی ہیں تاکہ ہمارے ہاں جو باہر سے ادویات پر قیمتی زرمبادلہ خرچ ہوتا ہے اس کو بلا ضرورت استعمال کرا کے ضائع نہ کیا جائے۔جب نفسیاتی مسائل قوت ارادی، مثبت سوچ و سرگرمیوں اور توجہ ومحبت کے رویے و طریقہ کار سے ختم کئے جا سکتے ہیں تو کسی کی زندگی کو محض ادویات کا عادی بنا کر رشتے داروں اور لوگوں کو تاحیات مریض سے یہ کہنے کا موقع نہ دیں کہ یہ تو نفسیاتی مریض ہے اس کو تو ساری عمر دوائی ہی کھانی ہوگی، آپ کسی کو مفید کارآمد شہری بنانے کی کوشش کریں نہ کہ معاشرے پر کسی کو ادویات کا غلام بنا کرمحض معاشرے پر بوجھ بنا کر رکھ دیں۔

Zulfiqar Ali Bukhari
About the Author: Zulfiqar Ali Bukhari Read More Articles by Zulfiqar Ali Bukhari: 394 Articles with 522583 views I'm an original, creative Thinker, Teacher, Writer, Motivator and Human Rights Activist.

I’m only a student of knowledge, NOT a scholar. And I do N
.. View More