گڑیا گھر سے اس وقت چلی گئی تھی جب وہ تقریباً اٹھارہ
انیس سال کی تھی گھنٹوں بعد معلوم ہوا تو ماں باپ سر تھامے بیٹھے تھے اور
بھائی ہاتھوں میں ہتھیار تھامے تلاش میں نکل گئے. ماں بہن گڑیا کی سہیلیوں
کے گھروں کو جا جا کر معلوم کرتی کہ شاید اس چور دروازے کا علم ہوجائے اور
لاڈلی گھر لوٹ آئے گڑیا کے گھر سے کسی لڑکے کے لیے بھاگنے کا سن کر قریبی
سہیلیوں کا ان کے گھر والوں نے جینا حرام کردیا کہ رہتی ہی کیوں تھی ایسی
لڑکی کے ساتھ، اور گڑیا کے گھر والوں کا قریبی رشتے داروں اور محلے والو نے..
گڑیا جو دن کے اجالے میں سہیلی کے گھر جانے کا کہہ کر گئی تھی اندھیری رات
میں بھی لوٹ کر نہیں آئی باپ کی ہمت رات کا اندھیرا ہوتے دیکھ کر ختم ہوتی
چلی گئی اور بھائیوں کا غصہ آسمان کو چھوتے چھوتے سورج بن گیا چار دن میں
جس قدر بدنامی ہوسکتی تھی ہوئی جتنے سوال جواب ہوسکتے ہوئے جواب دیتے دیتے
باپ بھائی منہ چھپا گئے گھر میں چولہا ٹھنڈا پڑگیا اور ماں کی ممتا کبھی اس
ذلت کے سمندر میں دھکیلنے والی بیٹی کے لیے تڑپ اٹھتی کبھی ذلیل ہوتے بیٹوں
کے لیے.
ساتھ ہی اس سب قصے میں ایک کردار اور تھا گڑیا کی اس سے ایک سال چھوٹی بہن
جس کا نکاح رشتے داروں کے یہاں ہی ہوا تھا اور کسی تہوار پر رخصتی و شادی
کا ارادہ تھا مگر افسوس شادی نہ ہوسکی قبول ہے کہ جواب میں طلاق دیتا ہوں ،
مہندی لگے گی ہاتھوں میں یہ سوچ رکھنے والا وہ کردار طلاق کے کاغذات ہاتھ
میں لے کر رو بھی نہیں سکا ماں کو معلوم ہوا تو بجائے تسلی دینے کے دو تھپڑ
اسی کے چہرے پر رکھ کر بد نصیب کہہ کر رونے لگی
باپ کی جھکی ہوئی کمر ٹوٹ گئی اور پانچ بھائیوں کا عتاب اس کردار پر ٹوٹ کر
گرا، بڑے بھائی نے تو حد ہی کردی بیوی کو کہا اگر میرے یہاں بیٹی ہوئی تو
اس گھر میں جگہ نہ رہے گی اور حاملہ بھابھی اپنے مستقبل کی پریشانی میں
بھاگی ہوئی ظالم نند اور گھر میں طلاق ہاتھ میں لے کر بیٹھی مظلوم نند
دونوں کو ہی کوسنوں سے نوازے جاتی اور بیٹے کی ولادت کی دعا کرتی جاتی ....
سالوں پہلے کا یہ واقعہ ہے جب شاید میں چھٹی ساتویں کلاس میں تھی لوگو کی
زبان پر آج بھی آجاتا ہے اتنے ہی افسوس کے ساتھ جتنا آپ کو یہ سب پڑھ کر
محسوس ہوا
گڑیا کہاں ہے آج کوئی نہیں جانتا، بیٹی نہ ہو کا اعلان کرنے والے اس بھائی
کے رب کے فضل سے یا اس کی بیوی کی حالت حمل میں گریہ زاری کی وجہ سے صرف
بیٹے ہیں. ماں باپ خاموش رہتے ہیں کیونکہ ان کے پاس بولنے کا شاید اب کچھ
نہیں اور وہ طلاق یافتہ بہن آج بھی وہیں ہے جہاں تھی....خالی ہاتھ و پیشانی
پر لفظ طلاق یافتہ سجائے. شاید کوئی ایسا نہ تھا جو اسے اپنانے کا ظرف
رکھتا.
ایک عمل نادانی، جذبات یا کسی بھی سبب اٹھایا گیا ہوا سب کی زندگی کیسے
مشکل بنا جاتا ہے اس کا شاید گڑیا کو خود بھی اندازہ نہیں تھا، یا شاید
اندازہ ہوگیا ہوگا تب ہی تو نہ کوئی خبر ملی نہ خیریت....
کبھی کبھی میں سوچتی تھی ایسا کیا ہوتا ہے کہ ایک لڑکی محبت کرنے والے،
پالنے پوسنے والے ماں باپ کو چھوڑ کر کسی چند دن کے رابطے کے ساتھ چلی کیسے
جاتی ہے، کیسے وہ ایک دنیا چھوڑ کر نئی دنیا کی تلاش میں نکل پڑتی ہے؟ تمام
تر سمجھداری کے باوجود وہ اتنی نادان کیسے ہوجاتی ہے.
جواب ڈھونڈا جائے تو سینکڑوں جواب ارد گرد کھڑے نظر آئیں گے، مذہب سے دوری،
شادیوں میں تاخیر میڈیا، معاشرہ، والدین کی بے جا پابندی، توجہ نہ ملنا،
آزادی کا غلط استعمال، منفی سوچ، صرف ایک پر اعتبار، عدم اعتماد فلاں فلاں
فلاں لیکن جب آپ اپنے ساتھ رہنے والے گھر والو پر بھروسہ نہیں کر سکتی تو
ایک باہر والے پر کیسے کرلیتی ہیں؟
وجہ صرف اتنی ہے کہ جس طرح پلاؤ بناتے ہوئے آنچ کا مکمل خیال رکھنا ہوتا ہے
اور ان میں اینٹھ جانے والے چاولوں کو کبھی دودھ کے ٹھنڈے چھینٹوں کی ضرورت
پڑتی ہے اسی طرح اولاد کو محبت کی تپش بھی ایک جیسی تو چاہیے ہوتی ہے مگر
لڑکے و لڑکی دونوں کو الگ الگ وقت میں دودھ کے ٹھنڈے چھینٹوں کی ضرورت بھی
پڑجاتی ہے تاکہ وہ دیگر سے الگ ہوں نہ الگ سوچیں نہ ہی بھٹکیں
آپ سب کو ایک جیسی آنچ ضرور دیں مگر انفرادی طور پر دودھ پانی جیسی فرحت دے
کر خیالات بھی جانتے رہیں کیونکہ ہر لڑکی لڑکا نہ ہی سمجھ دار ہوتا اور نہ
ہی اس کے گھر والے اتنے با شعور تحمل مزاج اور سمجھ دار کے یہ سب سمجھادیں
اور خود بھی سمجھ لیں.
ساتھ ہی لڑکیوں کے لیے یہ نصیحت ہے مان لیتے ہیں کہ آپ کا وہ چاہنے والا آپ
کو حقیقی طور پر چاہتا ہے آپ کے گھر والو سے بھی زیادہ تب بھی خود غرض نہ
بنیں کہ دوسروں کی زندگی آپ کی وجہ سے مثل ِ آگ بن جائے اور وہ تمام زندگی
اس آگ میں سلگتے رہیں.... بھاگنا گھر چھوڑنا مسئلے کا حل نہیں ہوتا.... جو
حل ہے اسے تلاش کرکے اس پر عمل کیجیے، بڑوں سے مشورہ کیجیے گھر میں خود بات
نہیں کرسکتے تو گھر کے بڑے جنھیں بڑا مانتے ہیں ان سے بات کیجیے مگر خدارا
گھروں سے والدین کے سر میں خاک ڈال کر جانے کا ہرگز نہ سوچیے....
|