بہشتی دروازہ

حضرت خواجہ نظام الدین اولیا ء نے فرمایا کہ ایک رات حضور پْر نور، آقا ء نامدار، تاجدار مدینہ، سرور کائنات، رحمت دو عالم، نبی آخر الزماں حضرت محمدﷺ کا دیدار نصیب ہوا۔ آپ ﷺ کے ساتھ حضرت ابو بکر صدیق ؓ، حضرت عمر فاروق ؓ، حضرت عثمان غنی ؓاور حضرت علی ؓ بھی تشریف لائے، والی دو جہاں سید المرسلینﷺ حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر ؒکے مزار مبارک کے ایک دروازہ سے اندر تشریف لائے اور دوسرے دروازے سے باہر تشریف لے گئے، آقائے دو عالم ﷺ جس دروازے سے داخل ہوئے اس کی طرف اشارہ کر کے فرمایا "یا نظام من دخل فی ہذا لباب فقد امن"اے نظام جو اس دروازے سے داخل ہو گا وہ امن پا گیا، تو یوں اس بہشتی دروازہ کی ابتداء 664ہجری میں حضرت خواجہ نظام الدین اولیا ؒنے کی۔ حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر ؒکا وصال 5محرم الحرام کو ہوا، لیکن آپ کا عرس مبارک 25ذوالحج سے شروع ہو کر 10محرم تک جاری رہتا ہے، 6محرم کو بعد نماز عشاء بہشتی دروازہ کھول دیا جاتا ہے، اور 10محرم تک ہر رات عشاء تا فجر تک کھلا رہتا ہے، لاکھوں کی تعداد میں عقیدت مند زائرین حق فرید یا فرید، اﷲ محمد چار یار حاجی خواجہ قطب فرید، کے نعرے لگاتے ہوئے دیوانہ وار بہشتی دروازہ سے گزرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں، بہشتی دروازہ شروع میں ایک دن اور تقریباََ دس سال کے بعد دو دن کر دیا گیا، جو آبادی میں اضافے اور زائرین کی تعداد بڑھنے کی وجہ سے 1969میں محکمہ اوقاف نے 5دن کر دیا، دربار حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکرؒ پاکپتن شہر کے وسطی علاقہ میں ہے، قدیمی شہر ہونے کی وجہ سے اندورون شہر تنگ شاہراہوں اور گلیوں پر مشتمل ہے، جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے عرس پر زائرین کی آمد اور بہشتی دروازہ سے گزرنے کا عمل آبادی میں اضافے کی وجہ سے بڑھتا جا رہا ہے، زائرین کی تعدا د بڑھنے کے پیش نظر متبادل انتظامات نہ کیے جانے کے باعث ہر سال لاٹھی چارج، بد نظمی، بھگدڑ جیسے واقعات رونما ہوتے ہیں، جن کی وجہ سے سیکورٹی ادارے حزیمت کا شکار ہوتے ہیں اور بالآخر ہجوم کنٹرول کر نے کیلئے پولیس کو تشدد کا راستہ اپنانا پڑتا ہے، بعض دفعہ زائرین کے ساتھ اپنی غلطیوں کے باعث پیش آنیوالے حادثات بھی پولیس کے ذمے پڑ جاتے ہیں، اس طرح نہ صرف محکمانہ اقدار کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ ایسے واقعات کو میڈیا کے نمائندگان جب اپنی صحافتی ذِمے داریاں نبھاتے ہوئے رپورٹ کرتے ہیں تو نہ صرف پولیس اور میڈیا کے تعلقات خراب ہوتے ہیں بلکہ دنیا بھر میں پولیس اور انتظامیہ کی جگ ہنسائی ہوتی ہے، ایسے عوامل کو روکنے کیلئے مربوط انتظامات کی ضرورت ہے تاکہ حکومت کی جانب سے عوام الناس کی بھلائی، بہتر سہولیات، اچھے تاثرات اور گڈ گورننس جیسے دعوؤں کو عملی جامہ پہنایا جا سکے، گزشتہ سالوں میں رونما ہونے والے دو واقعات کی وجہ سے سیکورٹی نقطہ نظر سے عرس انتہائی اہمیت کا حامل ہو چکا ہے جن کی تفصیل یہ ہے، یکم اپریل 2001ء کو رات کے وقت شمالی رسمی گیٹ دربار حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکرؒ پر کچہری دیوان صاحب کی طرف سے لوگوں کا ایک ہجوم بہشتی دروازہ گزرنے کے لیے جمع ہو گیا، شمالی گیٹ ڈھکی سے نشیبی ہونے کی وجہ سے زائرین اس مقام پر پھنس گئے، جس کے نتیجے میں دم گھٹنے سے تقریباََ 37ہلاکتیں ہوئے اور 35/40افراد شدید زخمی ہو گئے، دوسرے واقعہ میں 25اکتوبر 2010کو دربار کے رسمی گیٹ کے باہر عام ایام کے دوران بم بلاسٹ کا سانحہ ہوا جس میں 4ہلاکتیں ہوئیں اور 13افراد زخمی ہوئے اور شرقی گیٹ کی بیرونی سائیڈ پر واقع دوکانیں اور دربار کے حصہ کو نقصان پہنچا، اس کے علاوہ اور بھی کئی وجوہات ہیں جن کی بنا پر سیکورٹی ادارے عرس اور محرم الحرام کے ایام میں ہائی الرٹ رہتے ہیں، آبادی میں اضافے کی وجہ سے ہر سال زائرین کا رَش بڑھ رہا ہے، مگر اداروں کے پاس عرس پلان بہت پرانا ہے جِسے تبدیل کر کے نئی حکمت ِ عملی اور منصوبہ بندی کی ضرورت ہے، چند سفارشات پیش خدمت ہیں، وی آئی پی کلچر کو فروغ ملنے کی وجہ سے ہر خاص و عام اس کوشش میں رہتا ہے کہ وہ وی آئی پی طریقہ کار میں شامل ہو کر بہشتی دروازہ آسانی سے گزرے اس کی وجہ سے عام زائرین کی لائن رکوا کر دی آئی پی کانوائے میں شامل مخصوص زائرین کو ترجیح دی جاتی ہے، جس کی وجہ سے عام زائرین کی لائن گھنٹوں رْک جاتی ہے اور ہجوم بڑھ جاتا ہے، لہذا وی آئی پی کلچر کا خاتمہ کیا جائے اور ایسے زائرین کیلئے پرانی پولیس لائن پاکپتن شریف میں انتظامات کیے جائیں اور وہاں سے ان کے لیے علیحدہ لائن چلائی جائے، عام زائرین کی لائن اور وی آئی پی کیلئے مختص کیے گئے نئے راستے کیلئے ٹائم مقرر کیا جائے، دربار کے اطراف ڈھکی پر ملحقہ علاقہ مکینوں کیلئے متبادل انتظامات کیے جائیں اور جگہ خالی کر کے دربار کی توسیع کی جائے، حجرہ بہشتی دروازہ میں بارہ دری اور خواتین کی مختص جگہ کوحجرہ میں شامل کر کے حجرہ اور دروازہ کی توسیع کی جائے، بہشتی دروازہ کا موجودہ سائز 3x6ہے جو عرصہ قیل 50/60سال سے بھی زائد کا بنا ہوا ہے، اس وقت کی آبادی اور موجودہ آبادی میں زمین آسمان کا فرق ہے، موجودہ دور میں روزانہ 8/9گھنٹوں میں ایک لاکھ سے زیادہ زائرین بہشتی دروازہ گزرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں، اگر اس دروازہ کی توسیع کی جائے تو زائرین آسانی سے اور بغیر بد نظمی کے ڈبل، ٹرپل لائن بنا کر گزر سکتے ہیں، وقت کی کمی اور بہشتی دروازہ چھوٹا ہونے کی وجہ سے ہزاروں زائرین اس سعادت سے محروم رہ جاتے ہیں، پہلے دو دن دیوان صاحب بہشتی دروازہ کھولتے ہیں جو رسومات کی ادائیگی کی وجہ سے بعد نماز عشاء تقریباََ 10بجے کھولا جاتا ہے جس کی وجہ سے زائرین کا رَش بڑھ جاتا ہے جسے کنٹرول کرنا مشکل ہو جاتا ہے، ضلعی انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ قبل از وقت دیوان صاحب سے میٹنگ کر کے بہشتی دروازہ بعد نماز مغرب کھولنے کیلئے دیوان صاحب کو آمادہ کریں، بہشتی دروازہ گزرنے کے بعد زائرین کو مچھلی چوک سے گزارنے کی بجائے بذریعہ ڈھکی پرانی سبز منڈی گزارا جائے تاکی مچھلی چوک پر رَش نہ بڑھے، عام زائرین کیلئے ابتدائی جگہ پلے گراؤنڈ میں ایک ہی وقت میں تقریباََ 30/40ہزار کا رش دیکھنے میں آیا ہے اور ان کی ایک ہی لائن میں لگا کر لائن شروع کی جاتی ہے جہاں بے پنا ہ ہجوم کی وجہ سے بد نظمی پیدا ہوتی ہے اور دھکم پیل کی وجہ سے زائرین زخمی ہوتے ہیں، ابتدائی پوائنٹ ایک کی بجائے دو یا تین اطراف سے ہونے چاہیے (پلے گراؤنڈ + لاری اڈا) عمومی لائن بہشتی دروازہ کیلئے کمیر چونگی تا دربار بابا صاحب ؒاوور ہیڈ برج تعمیر کیا جائے تا کہ مکمل ٹریفک چوک ہونے کی بجائے مخصوص راستہ استعمال ہونے کے باعث کے مسائل پیدا نہ ہوں اور شہر کو بھی بند نہ کرنا پڑے، بہشتی دروازہ 5محرم کو کھولا جائے اور 9محرم تک بدستور دن رات کھْلا رہنا چاہیے، تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ آسانی سے بہشتی دروازہ گزرنے کی سعادت حاصل کر سکیں، وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی حضر ت بابا فرید الدین مسعود گنج شکرؒ کی والہانہ محبت اور عقیدت جو زبان زدِ عام ہے جس کی وجہ سے اندرون و بیرون ممالک سے آنیوالے زائرین اور پاکپتن کے باسی پْر اْمید تھے مگر ان کے دور حکومت میں دوسری دفعہ عرس منعقد ہونے کے با وجود حکومت کی طرف سے دربار اور زائرین کی سہولیات کیلئے کوئی بڑا منصوبہ نہیں لایا گیا، اس لیے حکومت ِ وقت سے اپیل ہے کہ اس پر نظر ثانی کر کے کوئی بڑا پراجیکٹ لگا کر اس کا رِ خیر میں حصہ ڈال کر عوام کی دعائیں اور ثواب کمائیں، اس علاقے کی خیر و برکت کیلئے اپنا تاریخی کردار ادا کریں، "مینوں چنتا دیس دے واسیاں دی "
 

A D Shahid
About the Author: A D Shahid Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.