تحریر: مریم صدیقی
بچے کی پہلی درس گاہ اس کے گھر کو کہا جاتا ہے جہاں سے اس کی بنیادی تربیت
کا آغاز ہوتا ہے۔ یہ تربیت کرنے والے کوئی اور نہیں اس بچے کے والدین ہوتے
ہیں جو اپنے بچے کی ہر بات کو اس وقت سے جان اور سمجھ لیتے ہیں جب وہ اپنا
مافی الضمیر بیان کرنے کی طاقت نہیں رکھتا لیکن اگر والدین یہ ذمے داری کسی
دوسرے کے کندھے پر ڈال کر سبکدوش ہوجائیں تو یہیں سے بگاڑ کا آغاز ہو جاتا
ہے۔ یہ بالکل ایسا ہے جیسے کسی بنیاد کی عمارت ہی غلط رکھ دی گئی ہو۔ بچے
کو جو توجہ، محبت اور ساتھ والدین سے درکار ہوتا ہے اس کا نعم البدل کوئی
شے یا شخص نہیں ہوسکتا۔ یہی نظام قدرت و کائنات ہے۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ
والدین اپنی تمام تر ذمے داری ملازموں، اساتذہ یا ٹیوٹرز پر ڈال کر بری
الذمہ ہو جاتے ہیں۔والدین کی ذمے صرف بچے کی مادی خواہشات کو پورا کرنا
نہیں بلکہ اس کی ذہنی و اخلاقی تربیت اولین ذمے داری ہے۔
آج کے والدین اور بچوں کا سب سے بڑا مسئلہ کمیونیکیشن گیپ ہے۔ والدین کے
پاس یا تو بچوں کے پاس بیٹھنے اور انہیں سننے کا وقت نہیں اور اگر قسمت سے
میسر آ جائے تو والدین فقط لیکچر دینے ، یا سختی سے باز پرس کرنے پر اکتفا
کرتے ہیں۔ نتیجتاً بچہ یا تو اپنے ہی خول میں بند ہو کر تنہائی کا شکار ہو
جاتا ہے یا پھر غلط صحبت میں اٹھنے بیٹھنے لگتا ہے جہاں اسے لگتا ہے کہ
کوئی ہے جو اسے سننا چاہتا ہے، جو بغیر اس کی غلطیوں پر اسے جج کیے اس کا
ساتھ دیتا ہے۔ دونوں ہی صورتوں میں نقصان سراسر بچے کا ہوتا ہے۔ہمار ے چند
عمومی رویے ہمیں بچوں سے دور کرنے کا سبب بنتے ہیں۔
بچوں کا دوسرے بچوں سے تقابل:
اکثر والدین اپنے بچوں کا آپس میں یا دوسرے بچوں سے پڑھائی و دیگر عادتوں
میں مقابلہ کرتے ہیں اور اکثر و بیشتر، چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے بچوں کو
دوسروں کی مثالیں دیتے ہیں۔ بحیثیت والدین ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ہر بچہ
مختلف صلاحیتوں اور مختلف نفسیات کا مالک ہوتا ہے۔ ہم اس کا دوسرے بچوں سے
مقابلہ کرکے اس کی اپنی صلاحیتیں نظر انداز کردیتے ہیں۔ ہم اس سے جانے ان
جانے میں سیکھنے کا موقع، گر کر اٹھنے اور سنبھلنے کا موقع چھین رہے ہوتے
ہیں۔ الغرض دوسرے بچوں کی اس کے سامنے مستقل تعریف کرکے اور اس کے ساتھ
ڈانٹ ڈپٹ کرکے ہم اس کا اعتماد ختم کردیتے ہیں۔ ہم خود اسے ڈپریشن کی
وادیوں میں دھکیل دیتے ہیں۔
بچے کی صلاحیتیں جانچنے اور اس کی نفسیات سمجھنے کے لیے والدین کو چاہیے کے
وہ زیادہ سے زیادہ بچے کے ساتھ وقت گزاریں ۔ اسے حدود میں رہتے ہوئے اپنی
صلاحیتں کو بروئے کار لانے اور اپنی پسند کا شعبہ اختیار کرنے کی آزادی دیں۔
اس کی غٖلطیوں اور کوتا ہیوں پر بجائے اسے سخت سست کہنے کے غلطیوں کی
نشاندہی کرکے انہیں نہ دہرانے کی صلاح دیں۔
موبائل و سوشل میڈیا کا استعمال:
سوشل میڈیا اور موبائل کا استعمال اس قدر عام ہو چکا ہے کے بڑوں کے ساتھ
ساتھ بچے بھی اس کے عادی ہوچکے ہیں۔ اکثر مائیں بچوں کو بہلانے کے لیے یا
کسی چیز سے دھیان بٹانے کے لیے ان کے ہاتھ میں موبائل تھما دیتی ہیں۔جونہی
بچہ بڑا ہونے لگتا ہے اس کی یہ عادت پختہ ہونے لگتی ہے اور اب وہ منع کرنے
پر بھی نہیں رکتا۔ سوشل میڈیا ایک مختلف دنیا ہے جہاں لوگ اپنا چہرہ چھپائے
، مختلف پہچان لیے موجود ہیں۔ کوئی کسی کو نہیں جانتا، کون صحیح، کون غلط
اس کے بارے میں کسی کو علم نہیں۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں اچھے بھلے لوگ بھٹک
جاتے ہیں کجا بچوں کا اسے شتر بے مہار کی طرح استعمال کرنا۔
بچوں کو بتادیجیے کے انہیں عمر کے اس حصے میں اتنی دیر موبائل استعمال کرنے
کی اجازت دی جائے گی۔ موبائل اور کمپیوٹر میں اب ایسے سسٹم موجود ہیں جس سے
آپ بچوں کی ایکٹویٹیز مونیٹر کرسکتے ہیں۔ ٹائم ریمائینڈر، یا الارم الرٹ
لگا کر بچوں کو موبائل دیجیے اور مقررہ وقت پر لازمی واپس لے لیجیے۔
عموما والدین بچوں سے یہ کہہ دیتے ہیں کے مجھے اس کا استعمال نہیں آتا، آپ
خود دیکھ لیں یوں بچوں کو ایک قسم کی آزادی مل جاتی ہے کیوں کے مائیں اکثر
چیزیں استعمال کرنا نہیں جانتیں۔ جب کے اگر ہمیں صحیح اور غلط کا تعیین
کرتے ہوئے بچوں کو موبائل کا استعمال سکھانا ہے تو تمام والدین کو اس کا
استعمال آنا چاہیے۔ یاد رکھیے تربیت کرنے کے لیے ہمیشہ آپ کو بچوں سے ایک
قدم آگے رہنا ہوگا تاکے جنریشن اور کمیونیکشن گیپ درمیان میں نہ آسکے۔
بے جا زور زبردستی و روک ٹوک:
جیسے بچے مکمل چھوٹ دینے سے بگڑ جاتے ہیں بالکل اسی طرح بے جا سختی، بات
بات پر روک ٹوک اور پابندی بھی انہیں باغی بنا دیتی ہے۔ جس حد تک ممکن ہو
گھر میں رہتے ہوئے انہیں اپنی پسند نا پسند اختیار کرنے کی اجازت دی جائے۔
اگر کسی بات سے روکنا ہو تو اسے وضاحت سے سمجھا کر، اس کے متوقع نقصانات سے
آگاہ کرکے انہیں روکا جائے تاکے آئندہ بھی کبھی تنہائی میں یا موقع میسر
آنے پر وہ اس کام کی جانب راغب نہ ہونے پائے۔
بے جا آزادی:
ہر معاملے میں بچے کو کھلی چھوٹ دے دینا، اس سے کسی بھی حوالے سے پرسش نہ
کرنا اسے نڈر اور بے باک بنا دیتا ہے۔ بچوں کو معلوم ہونا چاہیے کے انہیں
والدین کی جانب سے کس کام کی اجازت ہے اور کس کام کے کرنے سے انہیں منع کیا
گیا ہے۔ والدین کو بچوں کے دوستوں اور ان کے گھروالوں کے بارے میں مکمل
معلو مات ہونی چاہیے۔ گھر سے باہر جانے اور واپس آنے کے اوقات مقرر ہونے
چاہیے۔ الغرض کسی بھی معاملے میں بھی مکمل طور پر آزاد ی دے دینا بچوں کے
لیے نقصان کا باعث ہے۔
بچے کی نہ سننا:
اکثر والدین بچوں کی باتیں انہیں چھوٹا یا نادان سمجھ کر نظر انداز کردیتے
ہیں، اکثر ان کے سوالوں کے جواب نہیں دیتے اور اگر دیتے ہیں تو انہیں مطمئن
نہیں کرتے۔ ایسے میں بچے اپنے سوالات کے جوابات کے لیے متبادل راستہ تلاش
کرتے ہیں جو ممکن ہے غلط بھی ہوسکتا ہے۔ اگر بچہ آپ سے کوئی سوال کرے تواسے
جواب ضرور دیں، شکایت کرے تو اس شکایت کو سنیں اور اسے دور کرنے کی کوشش
کریں۔ اپنے اور بچے کے درمیان اتنا فاصلہ کبھی نہ آنے دیں کے وہ آپ سے کچھ
کہتے ہوئے جھجھک محسوس کرے، اگرآپ نہیں سنیں گے تو وہ کسی اور جانب دیکھے
گا، صحیح یا غلط طریقے سے بہر حال وہ جواب حاصل کر ہی لے گا۔
بچوں کی اخلاقی و ذہنی تربیت والدین کی ذمے داری ہے ۔ اکثر والدین بچوں کی
نافرمانی سے پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ کہیں بچے نو عمری میں ہی ڈپریشن
اورذہنی تناو کا شکار ہیں کیوں کے ہم نے اس اہم اور بنیادی رشتے کو مادی
خواہشات کی نظر کردیا ہے۔ کہیں بچوں کا بچپن اس لیے چھن جاتا ہے کے والدین
دنیا کمانے میں مصروف ہوتے ہیں تو کہیں والدین اولڈ ہوم میں اس لیے نظر آتے
ہیں کے اولاد پیشہ کمانے میں مصروف ہوتی ہے۔ والدین کو چاہیے کے ایسا شجر
لگائیں جو آنے والی نسلوں تک کو سایہ مہیا کرے۔
|